حضور ﷺکی نماز سے محبت از بنت جاوید
اقبال،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز
کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔
(معجم کبیر،20 /
420،حدیث:1012)
جب نماز کا وقت ہوتا تو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ اے بلال!اٹھو
اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)
نبیِّ پاک ﷺ کی نمازکی کیفیت:
حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ
رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی
آواز ہوتی ہے۔
(ابوداود،1/342،حدیث:904)
ان دونوں روایات سے رسولِ کریم ﷺ کی نماز سے محبت اور خشوع
و خضوع کا اندازہ ہوتا ہے،کریم آقا ﷺ کی امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی نماز کو واقعی
اپنی راحت و سکون کا ذریعہ بنانا چاہئے۔
حضور اقدس ﷺ کو اللہ نے جمالِ صورت میں بے مثل و بےمثال اور
کمال سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلی بنایا ۔ مولانا حسن
رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تری صورت تری
سیرت زمانے سے نرالی ہے تری
ہر ہر ادا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے
آپ کی حیات طیبہ کا ایک انتہائی اہم پہلو آپ کی عبادات ہیں۔
حضور ﷺ کی ان عبادات میں سے ایک بہت ہی اہم عبادت نماز بھی
ہے کہ جسے حضور اقدس ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا ۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)
چنانچہ اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ غارحرا میں قیام و مراقبہ
اور ذکر وفکر کے طور پر خدا کی عبادت میں
مصروف رہتے تھے،نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا،پھر شبِ
معراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔حضور ﷺ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اشراق،نمازِ
چاشت،تحیۃ الوضوء تحیۃ المسجد،صلوۃ الاوابین و غیره سنن و نوافل بھی ادا فرماتے
تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند
رہے،راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ
نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر
اٹھ کر نماز پڑھتے ۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے
کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے کبھی نصف رات گزر جانے
کے بعد بستر سے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی
لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع وسجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔
کبھی چھ رکعت کبھی آٹھ رکعت،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ
رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کرادافرماتے ۔ نماز وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے،رمضان
شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار
رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر
والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے
ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر کبھی بیٹھ کر کبھی سر بسجود ہو کر نہایت آہ وزاری اور
گریہ و بکا کے ساتھ گڑ گڑا کر راتوں میں دعا ئیں بھی مانگا کرتے،رمضان شریف میں
حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید
کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری
رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آجایا کرتا تھا۔
(سیرت مصطفیٰ،ص 595۔596)
رات پوے تے
بےدرداں نوں نیند پیاری آوے درد
منداں نوں یاد سجن دی ستیاں آن جگاوے
اللہ اکبر!ہمارے بخشے بخشائے مدنی آقا ﷺ کہ جن کے صدقے
رب نے اگلوں پچھلوں کی مغفرت فرما دی،جو
روز محشر اپنی اس گنہگار امت کی بخشش کروائیں گے،جنہیں رب نے اپنا محبوب فرمایا ان
کی عبادات کا عالم کیسا ہے!جبکہ دوسری طرف ہمیں اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کہ حدیثِ
مبارک میں نماز کو دین کا ستون فرمایا گیا(شعب الايمان،3/39،حدیث:2807)جبکہ ہماری اکثریت اب نماز سے دور ہوگئی ہے اور اگر کسی کو
نماز کی توفیق مل بھی جائے وہ بھی ریا کی نظر کر دی جاتی ہے ، اس کی ایک بڑی وجہ حُب
دنیا ہے ۔ ذرا سوچئیے!حُب دنیا کی فکر باعث رکاوٹ ہے تو خود دنیا کس قدر رکاوٹ کا
باعث ہوگی!یاد رہے کہ اگر ہم نے باوجود قدرت اللہ پاک کی عبادت یا اس کی رضا کا
خیال نہ رکھا بلکہ اپنی شہوت کی پیروی میں لگی رہیں اور اس کی عبادت و بندگی سے
منہ موڑا حالانکہ کوئی عذر بھی مانع نہ تھا تو ضرور اپنے مالک و مولی کی طرف سے
ملامت و عار کی سزاوار ہوں گی۔
یہ ہے زندَگی
کوئی زندَگی،نہ نَماز ہے نہ ہی بندَگی یہی
حُبِّ جاہ کی گندَگی،تِری کیوں نظر
میں بسی رہی
اللہ سے دعا ہے کہ
ہمیں حضور ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی
حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔