نبیِ کریم ﷺ بے شک نماز سے بے حد محبت فرماتے تھے۔نماز
فرائض میں اولین درجہ رکھتی ہے اور کل بروزِ قیامت بھی سب سے پہلے نماز کا ہی سوال
ہوگا۔ پیارے پیارے آقا ﷺ نماز سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ آپ کی نماز سے محبت کو
قرآنِ مجید،احادیثِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے۔اب ہم نبیِ کریم ﷺ کی محبتِ نماز کو قرآن
واحادیث کی روشنی میں پڑھتی ہیں۔چنانچہ
قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(2)(پ29،المزمل:2)ترجمہ:رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔
اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے
چادر اوڑھنے والے میرے پیارے حبیب!رات کے تھوڑے حصے میں آرام فرمائیے اور باقی رات نماز اور عبادت کے ساتھ قیام میں گزارئیے اور وہ باقی آدھی رات ہو یا اس سے کچھ
کم کر لو یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔ یعنی آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ عبادت خواہ
آدھی رات تک کریں یا اس سے کم یعنی تہائی
رات تک کریں یا اس سے زیادہ یعنی دو تہائی
رات تک کرتے رہیں ۔
نبیِ کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان اسی مقدار
کے مطابق رات کو قیام فرماتے اور ان میں سے جو حضرات یہ بات نہ جانتے کہ تہائی رات،آدھی
رات،دو تہائی رات کب ہوتی ہے تو وہ ساری رات قیام فرماتے اور اس اندیشے سے صبح تک
نماز پڑھتے کہ کہیں قیام واجب مقدارسے کم
نہ ہوجائے یہاں تک کہ ان حضرات کے
پاؤں سوج جاتے تھے۔ پھر تخفیف ہوئی اور
بعض مفسرین کے نزدیک ایک سال کے بعد اسی سورت کی آخری آیت کے اس حصے فَاقْرَءُوْا
مَا تَیَسَّرَ مِنْهُۙ-(پ29،المزمل:20)سے یہ حکم
منسوخ ہوگیا اور بعض مفسرین کے نزدیک پانچ نمازوں کی فرضِیّت سے یہ حکم منسوخ ہو
گیا۔یاد رہے کہ اس آیت میں قیام سے مراد
تہجد کی نماز ہے۔(تفسیر خازن، 4 /320-321)(تفسیرنسفی،
ص1292)(تفسیر کبیر، 10 /681-682 ملتقطاً)
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ(پ15،بنی اسرائیل:79)اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو۔
مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے کی تحقیق
کرنے کے بعد فرماتے ہیں:صحیح یہ ہے نمازِ تہجد حضورِ اقدس ﷺ پر نمازِ پنجگانہ کی
فرضیت کے بعد بھی فرض رہی۔(نزہۃ القاری، 2 /683)
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ کریم ﷺ فتحِ
مکہ کے دن ان کے گھر میں تشریف لائے،آپ نے غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے ان
سے زیادہ ہلکی نماز کوئی نہ دیکھی بجز اس کے کہ آپ رکوع اور سجدہ پورا کرتے تھے۔(مراة
المناجيح، 2 / 273)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ کو جب
کوئی معاملہ پیش آتا تو نماز پڑھتے۔
(مراة المناجيح،
2 / 281)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ نے رات
کے ہر حصے میں وتر پڑھی ہے،اول شب میں،درمیانی میں،آخری اور آپ کے وتر سحر پر منتہی
ہوئے۔(مسلم،ص292،حدیث:1737)
سحر سے مراد رات کا آخری چھٹا حصہ ہے یعنی حضور ﷺ نے کبھی
عشاء کے وقت وتر پڑھ لیے اور کبھی عشاء پڑھ کر سوئے اور درمیان رات جاگ کر تہجد و
وتر پڑھے مگر آخری عمل یہ رہا کہ صبح صادق کے قریب تہجد کے بعد وتر پڑھے،مسلمان جس
پر عمل کرے سنت کا ثواب پائے گا اگرچہ آخر رات میں پڑھنا افضل ہے۔
(مراة المناجيح،
2 / 251)