حضرت حذیفہ رضی اللہ  عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اللہ پاک کے نبی ﷺ مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر ابتدا میں نماز شروع کر دی۔اللہ پاک کے رسول، رسولِ مقبول ﷺ نے دورانِ نماز سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع فرمائی ،میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ حضور کائنات ﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے سو آیات پڑھ کر رکوع نہیں فرمایا بلکہ آگے پڑھتے گئے، اب میں نے پھر خیال کیا 200 آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے 200 آیات پر بھی رکوع نہیں فرمایا،اب مجھے خیال آیا کہ حضور اکرم ﷺ پوری سورۃ البقرہ تقریباً اڑھائی پارے ایک ہی رکعت میں پڑھ کر رکوع فرمائیں گے چنانچہ سورۃ البقرہ پوری ہو گئی لیکن اب بھی آپ نے رکوع نہ فرمایا، اب سورۂ ال عمران شروع ہو گئی میں سوچ رہا تھا کہ سورۂ ال عمران پڑھ کر رکوع فرما دیں گے، حضور اکرم ﷺ نے سورۂ ال عمران مکمل کرنے کے بعد سورۃ النسآء شروع کر دی، میں نے سوچا کہ حضور کریم ﷺ سورۃ النسآء پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن اب بھی میرا خیال درست نہ تھا،جان ِکائنات ﷺ نے سورۃ النسآء مکمل کی تقریباً سوا پانچ پارے کی تلاوت فرمائی اور سورۃ المائدہ کی تلاوت شروع فرما دی، سورۃ المائدہ کی تلاوت مکمل کرنے کے بعد تقریباً سوا چھ پارے پڑھنے کے بعد رکوع فرمایا۔میں نے سُنا کہ آپ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ رہے تھے ، پھر(دوسری رکعت میں آپ نے سورۂ اَنْعَام شروع فرما دی۔

(مصنف عبدالرزّاق ، 2 / 95و96 ، حدیث:2845)

غور کیجئے کہ نبیِ کریم ﷺ کی کیسی نماز تھی اور نماز سے کیسی محبت تھی!

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں:میں نے حضور اقدس ﷺ سے اپنی بیماری کی شکایت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا:تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے طواف کر لو چنانچہ میں نے طواف کیا اور حضور پر نور ﷺ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ نے نماز میں سورۂ طور کی تلاوت فرمائی۔

(بخاری، 3/335،حدیث:4853)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سجدہ والی سورتوں میں سب سے پہلے سورۂ نجم نازل ہوئی،اس کی تلاوت کر کے رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور جتنے لوگ بھی آپ کے پیچھے تھے مسلمان یا کافر ان میں ایک کے علاوہ سب نے سجدہ کیا، میں نے اس سجدہ نہ کرنے والے کو دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا اور اس دن کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا پڑا تھا اور وہ امیہ بن خلف تھا۔(بخاری ،3/338،حدیث:4863)

علامہ محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ علامہ احمد بن موسی المعروف ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سورۂ نجم یہ وہ پہلی سورت ہے جس کا رسول کریم ﷺ نے اعلان فرمایا اور حرم شریف میں مشرکین کے سامنے پڑھی۔(تفسیر روح المعانی،14/63)

حضورِ اقدس ﷺ باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیا و مرسلین علیہم و السلام کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے۔

آقا ﷺ نے تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں:

شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی حیاتِ ظاہری(یعنی دُنیوی زندگی)کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں،تقریباً 500 جُمعے ادا کئے اور عید کی 9 نمازیں پڑھیں۔(درّمختار،2/6وغیرہ،مراٰۃ المناجیح،2/346،سیرتِ مصطفٰے،ص249ملخصاً)قرآنِ کریم میں نماز کا ذکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔

آقا ﷺ کا نماز سے محبت کا انداز:

اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ غارِ حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے،نزولِ وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا،پھر شبِ معراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور ﷺ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اشراق،نمازِ چاشت،تحیت الوضوء،تحیۃ المسجد،صلوة الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے،راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روآیات ہیں۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ نماز ِعشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نماز میں مشغول رہتے۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بستر سے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے۔ کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت،کبھی اس سے کم،کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے،رمضان شریف خصوصاً آخری عشرے میں آپ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کےلئے جگا یا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر،کبھی بیٹھ کر،کبھی سر بسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے،رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور کبھی ساری رات نمازوں اور دعاوٴں کا ورد بھی فرماتے اور کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آجایا کرتا تھا۔(صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث)

نماز کے متعلق احادیث:

1)سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا:نماز دین کا سُتُون ہے،جس نے اسے قائم رکھا،دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اُس نے دین کو ڈھا دیا(یعنی گرا)۔(منیۃ المصلی، ص13)

2)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِمدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے کوئی ایسی چیز فرض نہ کی جو توحید و نماز سے بہتر ہو۔اگر اس سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو وہ ضرور فرشتوں پر فرض کرتا۔اِن(یعنی فرشتوں)میں کوئی رُکُوع میں ہے کوئی سجدے میں۔

(مسند الفردوس،1/165،حدیث:610)