دینِ اسلام کا تیسرا بنیادی رکن نماز ہے۔نماز کو دینِ اسلام میں ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ نماز ایسی
عبادت ہے کہ اس سے متعلق فرمایا گیا کہ نماز ہی کفرو اسلام میں فارق(یعنی فرق کرنے
والی)ہے۔(مراۃ المناجیح،5 /344)اللہ پاک نے اپنے کلام قرآنِ مجید میں سینکڑوں جگہ
نماز کا ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ 16 سورۂ طہ کی آیت 14 میں ارشاد فرمایا:وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(14)ترجمہ:اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔
اسی طرح سورۂ نور کی آیت نمبر 56 میں بھی نماز قائم رکھنے
کا حکم ارشاد فرمایا ۔حضور ﷺ کا عمل مبارک
تھا کہ 5 نمازوں کی فرضیت سے قبل بھی آقا ﷺ نماز ادا فرمایا کرتے
تھے۔ اللہ پاک کی عبادت کے لیے غارِ حرا
میں تشریف لے جایا کرتے اور اپنے ربِّ کریم کی عبادت فرماتے۔حضور اکرم ﷺ کی
امت کو اللہ کریم نے یہ خصوصیت بھی عطا فرمائی ہے کہ دیگر انبیائے کرام علیہم
السلام کی امتوں کی نسبت اس امت نے اپنے نبی پاک ﷺ کی جملہ عبادات،ان کے
اوقات اور کیفیات کو(جیسے دیکھا)محفوظ کرلیا۔بعض صحابہ کرام نے سفرمیں دیکھا عمل
اپنے ذہن مین محفوظ کرلیا اور بعض گھر میں کیے جانے والے اعمال و عبادات ازواجِ مطہرات
کے ذریعے امت تک پہنچے اور ایسا چرچہ ہوا کہ آج تک کے مسلمانوں بلکہ ان کے بچوں کو بھی آقا ﷺ کی عبادات کا علم ہے۔ آپﷺ کا یوں فرمانِ عالیشان ملتا ہے کہ آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک
فرمایا۔(معجم کبیر،20/ 420،حدیث:1012)
نماز کی فرضیت:آپ کو اللہ پاک نے معراج سے مشرف
فرمایا،اس رات مصطفےٰ جانِ رحمتﷺ اللہ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنی سر
کی آنکھوں سے رب کریم کی زیارت سے مشرف ہوئے، اس رات آپ کو بہت سے تحائف عطا فرمائے گئے ان میں سے 1 تحفہ
5 نمازیں ہیں،آپ نے اپنی ظاہری حیات طیبہ
میں نماز کی فرضیت کے بعد تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں،500 جمعے اور 9 عید
کی نمازیں ادا فرمائیں۔(فیضانِ نماز،ص 7)
سرکارِ دو عالم ﷺ کی راحت نماز:حضُور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:رسولِ اکرم،نورِ مُجَسَّم ﷺ کو جب
مِعْراج میں لے جایا گیا اور مَقامِ قُرب سے سَرفراز کیا گیا تو آپنے اللہ پاک کی
بارگاہ میں عَرض کی:اے اللہ پاک!اب مجھے بلاؤں کے گھر(یعنی دُنیا میں)واپس مَت بھیج۔ اللہ پاک نے فرمایا:اے محبوب!ہمارا
حکم ایسا ہی ہے،آپ دُنیا میں واپس جائیے تاکہ آپ کے ذریعے شریعت قائِم ہو اور جو
کچھ ہم نے یہاں عطا فرمایا ہے،دُنیا میں بھی عنایت فرمائیں گے۔چُنانچہ جب آپ دُنیا
میں تشریف لائے تو جب بھی آپ کا دِل مَقامِ بلند کا مُشتاق ہوتا تو فرماتے:اَرِحْنَا یَا بِلَالُ بِالصَّلَاۃِ اے بلال!نماز کی
اَذان دے کر ہمیں راحت پہنچاؤ!(کشف المحجوب،ص445)جبکہ نماز کو مومن کی معراج بھی
فرمایا گیا ہے۔ نماز میں خشوع: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ سرکار مدینہ ﷺ ہم سے اور ہم آپ سے
گفتگو کررہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو(ہم ایسے ہوجاتے)گویا آپ ہمیں نہیں
پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے۔(احیاء العلوم،1/205) آقا کریم ﷺ کی نماز سے
محبت ایسی تھی کہ جب کوئی آزمائش آتی تو نماز میں مشغول ہوجایا کرتے کیونکہ رب
کریم نے ارشاد فرمایا:اسْتَعِیْنُوْا
بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-(پ 1،البقرۃ:45) ترجمہ کَنْزُ الایمان:اور صبر اور نَماز سے مدد چاہو۔
معلوم ہوا!ہمیں بھی اگر کوئی مشکل آئے،کسی قسم کی کوئی
پریشانی ہو،ہم نَماز پڑھیں،اس سے مدد حاصل کریں،جب بارگاہِ رسالت
میں بھوک کی حاضِری ہوتی تو مشہور مفسرِ
قرآن،حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:نَماز انسان کو دنیا سے بے
خبر کر کے اللہ پاک کی طرف متوجِّہ کر
دیتی ہے اس لئے اس کی برکت سے دنیا کی مشکلیں دل سے فراموش ہو جاتی ہیں(یعنی بھلا دی جاتی ہیں )۔(صاحِبِ)تفسیر
عزیزی نے اس جگہ بیان فرمایا کہ نبیِ کریم ﷺ کے گھر میں فاقہ ہوتا تھا اور رات میں
کچھ ملاحظہ نہ فرماتے(یعنی کچھ نہ کھاتے )تھے،اس دوران جب بھوک غلبہ کرتی تو
نبیِّ کریم ﷺ مسجد میں تشریف لا کر نَماز
میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔(تفسیرِ نعیمی، 1/ 349)
آپ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ سنن و نوافل بھی ادا فرمایا کرتے،ان کے فضائل سے آگاہ
فرماتے اور عمل کی ترغیب بھی دلاتے
تھے،چنانچہ حضرت عبد الله ابن شقیق رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں دریافت کیا،انہوں نے
فرمایا کہ رات میں نو رکعتیں پڑھتے تھے جن
میں وتر بھی ہیں اور رات میں بہت دیر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور بہت دیر تک بیٹھ
کر اور جب کھڑے ہوتے قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہوئے ہی کرتے اور جب فجر
طلوع ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔(مراۃ المناجیح،2 /386)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ اول رات سوتے
تھے اور آخر رات جاگتے تھے پھر اگر آپ کو اپنے اہل سے حاجت ہوتی تو حاجت پوری
فرماتے پھر سو جاتے پھر اگر پہلی اذان کے
وقت جنابت میں ہوتے جلدی کھڑے ہو کر اپنے پر پانی بہاتے اور اگر جنبی نہ ہوتے تو
نماز کے لیئے وضو کرتے پھر دو رکعتیں پڑھتے۔ (مراۃ المناجیح،2 /455)
آقا ﷺ کی نماز سے محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے
کہ آپ نماز کسوف،چاند گرہن، سورج گرہن اور
تیز آندھی وغیرہ کے وقت میں بھی نماز میں مشغول ہوجایا کرتےنیزاشراق و چاشت وغیرہ
کی نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو عبادت کیا کرتے۔ بعض روآیات میں یوں بھی آیا ہے کہ آپ عشاء کے بعد رات کا کچھ حصہ آرام فرماتے،پھر عبادت فرماتے،پھر آرام فرماتے اور پھر اٹھ کر نماز کی ادائیگی
فرماتے ،اسی طرح آپ سے نماز تہجد کی 8رکعتیں بھی ثابت ہیں(تہجد کی کم ازکم 2 رکعتیں ہیں)آقا کریم ﷺ تہجد کے ساتھ ہی وتر کی
ادائیگی فرمایا کرتے ۔(سیرت النبی،ص 595)