ہر مسلمان عاقل و بالغ عورت و مرد پر پانچ وقت کی نماز فرض ہے اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی ظاہری حیات کے 11 سال چھ ماہ میں تقریبا 20 ہزار نماز ادا فرمائی تقریبا 500 جمعہ ادا فرمائے اور عید کی 9 نمازیں ادا فرمائیں۔(درّمختار، 2/6وغیرہ،مراٰۃ المناجیح،2/346،سیرتِ مصطفٰے،ص249ملخصاً)

مسلمان نبیِ کریم ﷺ سے عشق و محبت کا دعوی کرتے ہیں مگر ہماری اکثریت آپ کے اسوۂ حسنہ پر نہ چل کر نماز جیسا عظیم اور رب کو محبوب کام چھوڑ دیتی ہے۔وہ نماز جو نبیِ کریم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012) کئی علما کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے۔(جہنم میں لے جانے والا کام،1/447)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے فرزند کی وفات کی خبر سن کر نماز میں مشغول ہو گئےاور اس کو اتنا دراز کیا کہ لوگ دفن کر کر لوٹے تب آپ فارغ ہوئے۔ لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا:مجھے اس فرزند سے بہت محبت تھی،اس کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کر سکتا تھا لہٰذا نماز میں مشغول ہو کر اس صدمے سے بے خبر ہو گیا۔(تفسیر نعیمی،1/299تا300)

اللہ کے آخری نبی ﷺ کو نماز سے بہت محبت تھی،چنانچہ آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ (مسلم،ص1160،حدیث:7126)جب نماز کا وقت ہوتا تو نبیِ کریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:اے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4/345،حدیث: 4986)

آقا ﷺ کی نماز کی کیفیت: حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ مبارک سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے ہنڈیا کی ہوتی ہے۔(ابو داود، 1/324،حدیث:964)

نبی ﷺ کا نماز تہجد کا معمول :اللہ کے آخری نبی ﷺ اپنی تمام عمر تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نماز عشاء کے بعد تھوڑی دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز ادا کرتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز ادا کرتے صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اللہ پاک کے نبی ﷺ مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر ابتدا میں نماز شروع کر دی۔اللہ پاک کے رسول، رسولِ مقبول ﷺ نے دورانِ نماز سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع فرمائی ،میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ حضور کائنات ﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے سو آیات پڑھ کر رکوع نہیں فرمایا بلکہ آگے پڑھتے گئے، اب میں نے پھر خیال کیا 200 آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے 200 آیات پر بھی رکوع نہیں فرمایا،اب مجھے خیال آیا کہ حضور اکرم ﷺ پوری سورۃ البقرہ تقریباً اڑھائی پارے ایک ہی رکعت میں پڑھ کر رکوع فرمائیں گے چنانچہ سورۃ البقرہ پوری ہو گئی لیکن اب بھی آپ نے رکوع نہ فرمایا، اب سورۂ ال عمران شروع ہو گئی میں سوچ رہا تھا کہ سورۂ ال عمران پڑھ کر رکوع فرما دیں گے، حضور اکرم ﷺ نے سورۂ ال عمران مکمل کرنے کے بعد سورۃ النسآء شروع کر دی، میں نے سوچا کہ حضور کریم ﷺ سورۃ النسآء پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن اب بھی میرا خیال درست نہ تھا،جان ِکائنات ﷺ نے سورۃ النسآء مکمل کی تقریباً سوا پانچ پارے کی تلاوت فرمائی اور سورۃ المائدہ کی تلاوت شروع فرما دی، سورۃ المائدہ کی تلاوت مکمل کرنے کے بعد تقریباً سوا چھ پارے پڑھنے کے بعد رکوع فرمایا۔میں نے سُنا کہ آپ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ رہے تھے ، پھر(دوسری رکعت میں آپ نے سورۂ اَنْعَام شروع فرما دی۔

(مصنف عبدالرزّاق ، 2 / 95و96 ، حدیث:2845)

حقیقی نماز وہی ہے جس میں توجہ الی اللہ، راحت، لذت، سرور ،ذوق اور حضور قلب میسر آئے اس کے بغیر ادا کی ہوئی نمازوں کے متعلق قرآن پاک میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(4) الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ(5) (پ30،الماعون:5،4)ترجمہ:تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں خشوع وخضوع والی نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین