جھوٹی گواہی نہایت برا فعل ہے اس کی بیماری ہمارے
معاشرے میں بہت عام ہے گویا جھوٹ بولنا گناہ ہی نہ ہو، حالانکہ قرآن مجید و احادیث
مبارکہ میں اس کی بے شمار وعیدیں موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)
2۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو
جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)
3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کر لی۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
4۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کریم کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
اللہ کریم ہمیں جھوٹ جیسی بری بیماری سے محفوظ فرمائے
اور سچ بولنے والا بنائے۔ آمین
جھوٹی گواہی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس سے ہر کسی کو
بچنا چاہیے کہ قرآن و احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ دو شخصوں
نے میراث کے متعلق حضور ﷺ کی خدمت میں دعویٰ کیا اور گواہ کسی کے پاس نہ تھے ارشاد
فرمایا: اگر کسی کے موافق اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کردیا جائے تو وہ آگ کا
ٹکڑا ہے، یہ سن کر دونوں نے عرض کی: یا رسول الله! میں اپنا حق اپنے فریق کو دیتا
ہوں۔ فرمایا: یوں نہیں بلکہ تم دونوں جاکر اسے تقسیم کرو پھر قرعہ اندازی کرکے
اپنا اپنا حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے سے معافی کرالے۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)
2۔ مروی ہے کہ دو شخصوں نے ایک جانور کے متعلق دعویٰ
کیا ہر ایک نے اس بات پر گواہ کئے کہ میرے گھر کا بچہ ہے، رسول الله ﷺ نے اس کے موافق
فیصلہ کیا جس کے قبضہ میں تھا۔ (شرح السنۃ، 5/343، حدیث: 2498)
3۔ حضور ﷺ کے زمانہ اقدس میں دو شخصوں نے ایک اونٹ
کے متعلق دعویٰ کیااور ہر ایک نے گواہ پیش کیے حضور نے دونوں کے مابین نصف نصف
تقسیم فرمادیا۔ (ابو داود، 3/434، حدیث: 3615)
4۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر ان کے بعد،
پھر وہ جو ان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی
اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہونگے۔ (بخاری، 2/193،
حدیث: 2652)
5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے، یہ حرام اور بہت برا کام
ہے، جھوٹ بولنا اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور اس سے
کسی کی دل آزاری بھی ہوسکتی ہے، کسی کا مال ضائع ہوسکتا ہے، کسی کی حق تلفی ہوسکتی
ہے۔ اللہ پاک نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی سے منع فرمایا ہے، چنانچہ قرآن پاک
میں ارشاد ہوتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ
الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ
غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز
الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس
کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ جھوٹی گواہی کے متعلق احادیث مبارکہ میں مذمت آئی
ہے۔ چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ پھر جو ان کے بعد
ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ انکی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی
گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193، حديث:2652)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلمان کا
مال ہلاک ہوجائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ پاک کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہوجائے۔ (سنن کبری، 6/136،
حدیث: 11444)
4۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ سے بچائے۔ آمین۔
جھوٹ بولنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے، اللہ پاک نے زندگی گزارنے کے طریقے قرآن کریم میں واضح کر دیئے ہیں۔ جھوٹ
بولنا گناہ ہے تو جھوٹی گواہی دینا کس قدر سخت جرم ہوگا جس کے ساتھ مزید گناہ بھی
جنم لیتے ہیں، جیسا کہ جھوٹی گواہی دینے سے جھوٹ، حسد، کینہ،بہتان، تہمت، دل آزاری،
عزتِ نفس کا مجروح کرنا وغیرہ گناہوں کا دروازہ کھلتا ہے، اس ایک گناہ کو نہ کرنے
سے انسان دوسرے کئی گناہوں سے بھی بچ سکتا ہے۔ آئیے اس کبیرہ گناہ سے بچنے کے
متعلق ہمارا رب کیا فرماتا ہے جانتی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ
اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ- (پ 3، البقرۃ: 283) ترجمہ کنز الایمان: اور گواہی
نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔ احادیث مبارکہ
میں بھی اس کی وعید آئی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ ظاہر کرتے ہوئے چلا کر یہ
بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔ (سنن كبرىٰ، 6/ 136، حديث: 14441)
2۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)
3۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123، حديث: 2373 )
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
5۔ سن لو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا بڑے
گناہ ہیں۔ (بخاری، 4/ 358،
حدیث: 6871) احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹی گواہی کی
مذمت آپ نے ملاحظہ کی تو نیت کر لیجئے کی نہ ہی جھوٹ بولنا ہے اور نہ ہی جھوٹی
گواہی دیں گے۔ ہمیشہ سچ بولیں گے اور سچ کا ساتھ دیں گے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کبیرہ و صغیرہ
گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جھوٹی گواہی یعنی کوئی شخص جان بوجھ کر ایسی چیز کی
گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا ہے یا جس چیز کی گواہی دیتا ہے وہ حقیقت کے برخلاف ہو۔
جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں
کاوصف ہے۔ جھوٹی گواہی گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ ہے جس کے معنی حقیقت کے
برخلاف گواہی دینا ہے۔ فقہا نے آیات اورروایات سے استدلال کرتے ہوئے جھوٹی گواہی
دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل
ان سب سے سوال ہونا ہے۔ جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ
جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات
کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے
مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت عبد الله بن عباس ضی اللہ عنہما نے فرمایا:
اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے
کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے
اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، 5 / 187) آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی
میں جھوٹی گواہی کی مذمت سنتےہیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123،
حدیث: 2373)
2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ ( بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن كبرىٰ، 6/136، حدیث: 11444)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کامال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر ) جہنم کا عذاب واجب کر
لیا۔ (معجم كبير، 11/172، حدیث: 11541)
5۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی
چھپائی یعنی گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم اوسط،
3/156، حديث:4167)اس فرمانِ عالی کے کئی مطالب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ کسی کے پاس
مدعی کے حق کی گواہی ہو اور مدعی کو اس کا علم نہ ہو اور یہ گواہی نہ دے اور مدعی ناحق
مارا جائے تب اس پر لازم ہےکہ خود مدعی کو خبر دے کہ میں خود تیرے حق کا عینی گواہ
ہوں تاکہ اس کا حق نہ مارا جائے۔ دوسرا یہ کہ حقوق شرعیہ کی گواہی دینا واجب ہے اگرچہ
اس کا دعویٰ نہ ہو جیسے طلاق۔ ( مراۃ المناجیح، 5/397)
اللہ کریم ہمیں ہمیشہ ہر حال میں سچ کا دامن تھامے
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جھوٹ کے سہارا لینے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اور
اپنے سچے محبوب ﷺ کی رضا و خوشنودی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر کئی گناہ بے باکی کے
ساتھ ہور ہے ہیں جھوٹی گواہی بھی اسی طرح عام ہے لوگ بے دھڑک اس کبیرہ گناہ کا
ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا
یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲) (پ
19، الفرقان: 72) ترجمہ کنز الایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ
پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔ جھوٹی گواہی دینے والا کئی کبیرہ
گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ پہلا گناہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ دوسرا گناہ یہ کہ جھوٹی
گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے حتیٰ کہ اس کی جھوٹی
گواہی کی وجہ سے اُس کا مال، عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے۔ تیسرا گناہ کہ جس کے
حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے اس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اس کے ذریعے اس تک مال حرام
پہنچتا ہے اور وہ اس گواہی کے ذریعے اسے لیتا ہے تو اس کے لیے جہنم واجب ہو جاتا
ہے۔ چوتھا گناہ یہ کہ جھوٹے گواہ نے اس مال، خون اور عزت کو جائز ٹھہرایا جسے اللہ
نے حرام قرار دیا تھا۔ احادیث میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے
بڑے گناہوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی
نافرمانی کرنا۔ سنو! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی دینا بھی بڑا گناہ ہے۔ آپ اس کلمہ
کی تکرار فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے (دل میں کہا) کاش آپ سکوت فرمائیں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
2۔ حضور ﷺ کے پاس دو شخص حاضر ہوئے ایک حضرموت سے
اور ایک قبیلہ کندہ سے، حضر موت والے نے کہا: یارسول الله! اس نے میری زمین
زبردستی لے لی، کندی نے کہا: وہ زمین میری ہے اور میرے قبضہ میں ہے اُس میں اس شخص
کا کوئی حق نہیں۔ حضور نے حضرموت والے سے فرمایا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ عرض کی:
نہیں۔ فرمایا: تو اب اس پر حلف دے سکتے ہو؟ عرض کی: یا رسول الله! یہ شخص فاجر ہے
اس کی پر وا بھی نہ کرے گا کہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے ایسی باتوں سے پر ہیز نہیں
کرتا، ارشاد فرمایا اس کے سوا دوسری بات نہیں، جب وہ شخص قسم کے لئے آمادہ ہوا، ارشاد
فرمایا: اگریہ دوسرے کے مال پر قسم کھائے گا کہ بطور ظلم اس کا مال کھا جائے تو خدا
سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس سے اعراض فرمانے والا ہے (یعنی اس کی طرف نظر رحمت
نہیں فرمائے گا)۔ (مسلم، 84، حدیث: 223)
3۔ جس کے لیے میں اس کے بھائی کے مال میں سے کچھ
فیصلہ کر دوں حالا نکہ وہ حق پر نہ ہو تواس کو چاہیے کہ اس کو نہ لے کیونکہ اس کے
لئے ایک آگ ٹکرا کاٹاگیا ہے۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)
4۔ قیامت کے دن جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی
جگہ سے ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اس کے لئے جہنم واجب ہو جائے گی۔ (ابنِ ماجہ، 3/123،
حدیث: 2373)
5۔ جھوٹی
گواہی دینا شرک کے برابر ہے۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)
الله پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ سے امان عطا فرمائے۔
آمین
جھوٹی گواہی بہت بڑا سماجی اور اخلاقی جرم ہے اور
ایک ایسی معاشرتی بیماری ہے جو سماج اور عدالتی نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔
جھوٹی گواہی کی تعریف: حق کو ثابت
کرنے کے لیے مجلس قاضی میں لفظ شہادت کے ساتھ سچی خبر دینے کو شہادت یا گواہی کہتے
ہیں۔ (تنویر الابصار، 8/194) اس کے برعکس اگر جھوٹی خبر دے تو جھوٹی گواہی ہوگی،
اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ
اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ- (پ 3، البقرۃ: 283) ترجمہ کنز الایمان: اور گواہی
نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)اس فرمانِ عالی کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ کسی کے
پاس مدعی کے حق کی گواہی ہو اور مدعی کو اس کا علم نہ ہو اور یہ گواہی نہ دے اور
مدعی کا حق مارا جائے تب اس پر لازم ہے کہ خود مدعی کو خبر دے دے کہ میں خود تیرے
حق کا عینی گواہ ہوں تاکہ اسکا حق نہ مارا جائے۔ دوسرا یہ کہ حقوق شرعیہ کی گواہی
دینا واجب ہے اگرچہ اس کا دعویٰ نہ ہو، جیسے طلاق۔ (مراۃ المناجیح، 5/397)
2۔ جو کوئی اس چیز کا دعویٰ کرے جو اس کی نہیں تو
وہ ہم میں سے نہیں وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں ڈھونڈے۔ یعنی جھوٹا مدعی دو گناہ کرتا ہے
ایک جھوٹ بولنا دوسرا دوسرے کا حق مارنے کی کوشش کرنا، لہذا وہ ہمارے طریقے سے نکل
جاتا ہے۔(مراۃ المناجیح، 5/397)
اللہ کریم ہمیں ہمیشہ سچ کا دامن نصیب فرمائے۔ آمین
جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے جھوٹ بولنے والے پر اللہ
پاک نے لعنت فرمائی اور یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اس پر درد ناک
عذاب ہے اورجھوٹ بولنا اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی ناراضگی سبب بنتا ہے، جھوٹ
بولنے سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔اللہ پاک نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے، اس
پر قرآن پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا
الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-
(پ 3، البقرۃ: 283) ترجمہ کنز الایمان: اور گواہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا
تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔ جھوٹی گواہی کے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ
فرمائیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ
فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کردی گئی۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)
3۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر جو ان کے
بعد ہیں پھر جو ان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے
گی یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بےباک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193، حديث:2652)
ہماری شریعت مطہرہ نے جس طرح دیگر برے افعال سے
بچنے کی ترغیب دلائی ہے اسی طرح کسی کے خلاف جھوٹی گواہی سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے
جو کہ نہایت ہی قبیح فعل اور حرام کام ہے، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس پر
سخت وعید آئی ہے، چنانچہ اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں جھوٹی گواہی کی مذمّت:
1۔ دو شخصوں نے میراث کے متعلق حضور ﷺ کی خدمت میں
دعویٰ کیا اور گواہ کسی کے بھی پاس نہ تھے ارشاد فرمایا: اگر کسی کے موافق اس کے
بھائی کی میراث کا فیصلہ کر دیا جائے تو وہ آگ کا ٹکڑا ہے یہ سن کر دونوں نے عرض
کی: یا رسول اللہ! میں اپنا حق اپنے فریق کو دیتا ہوں۔ فرمایا: یوں نہیں تم دونوں
جاکر اسے تقسیم کرو اور ٹھیک ٹھیک تقسیم کرو۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)
2۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر جو ان کے
بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر
یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193، حدیث: 2452)
3۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
4۔ نہ خیانت کرنے والی مرد اور خیانت کرنے والی
عورت کی گواہی جائز ہے اور نہ اس مرد کی جس پر حد لگائی گئی اور نہ ایسی عورت کی، اور
نہ اس کی جس کو اس سے عداوت ہو جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اور نہ اس کی جس کی گواہی
کا تجربہ ہوچکا ہو اور نہ اس موافق کی جس کا یہ تابع ہو اور نہ اس کی جو ولایا
قرابت میں متہم ہو۔ (ترمذی، 4/84، حدیث: 2305 )
اللہ کریم ہمیں دیگر برے افعال کے ساتھ جھوٹی گواہی
سے بھی بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا سینہ پیارے آقا ﷺ کی محبت میں میٹھا
مدینہ بنائے۔ آمین
جھوٹ ایک مذموم فعل ہے یعنی کسی ایسی بات کو بیان
کرنا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو خود سے گھڑی ہو اور کسی ایسی بات کی گواہی دینا جو کہ
نہ تو سنی ہو اور نہ ہی دیکھی ہو جھوٹی گواہی کہلاتی ہے اور یہ جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔ جھوٹی گواہی دینا ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جھوٹی گواہی دینے سے حقوق
العباد تلف ہونے کا خطرہ بھی ہے کہ جھوٹی گواہی دینے سے نجانے کسی کا مال یا جان
چلی جائے تو یہ بھی گناہ ہے۔ جھوٹی گواہی کی اللہ اور رسول ﷺ نے بھی ممانعت فرمائی
ہے، چنانچہ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل
ان سب سے سوال ہونا ہے۔ جھوٹی گواہی کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں۔
فرامینِ رسول:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حديث: 2373)
2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے
کے مطابق عذاب پا لے۔ (ابو داود، 4/354، حديث: 4883)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: سن لو!
تمہیں تین بڑے گناہوں کے بارے میں بتاتا ہوں (1)شرک (2) والدین کی نافرمانی (3)
جھوٹی گواہی۔ (بخاری، 4/ 95، حدیث: 5976)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر
لیا۔ ( معجم كبير، 11 / 172، حدیث: 11541)
جیساکہ ہم نے جھوٹی گواہی کی مذمت پر احادیث مبارکہ
پڑھیں جس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی گواہی دینا بھی جھوٹ ہے۔ اور جھوٹی گواہی دینے
سے انسان طرح طرح کے نقصانات کو مول لیتا ہے۔ اور اللہ پاک کی نافرمانی میں پڑ
جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور
ہمارا خاتمہ ایمان بالخیر ہو۔ آمین
جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام
لگانا انتہائی مذموم فعل ہے جھوٹی گواہی دینے والے کی دنیا و آخرت برباد ہو جاتی ہے
نیز جھوٹی گواہی دینے والا اپنے مسلمان بھائی کا حق مارتا ہے جبکہ حقوق العباد کا
معاملہ بہت سخت ہے، قرآن و حدیث میں جھوٹی گواہی کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، لہٰذا
ہر مسلمان کو اس سے ڈر جانا چاہیے۔
جھوٹی گواہی کی تعریف: کوئی شخص جان
بوجھ کر ایسی چیز کی گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا ہے یا جس چیز کی گواہی دیتا ہے وہ
حقیقت کے برخلاف ہو۔
جھوٹی گواہی کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ الله
تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ الله تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب
کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)
5۔ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں خبر
نہ دوں؟ الله کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ سنو! جھوٹی بات
اور جھوٹی گواہی دینا (بھی بڑا گناہ) ہے۔ آپ اس کلمہ کی تکرار فرماتے رہے حتیٰ کہ
ہم نے (شفقت کے باعث دل میں) کہا: کاش! آپ سکوت فرمائیں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
الله تعالیٰ نے ہمارے خالصتاً دنیوی معاملات میں
بھی کتنے واضح حکم ارشاد فرمائے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین کامل ہے اس میں
عقائد و عبادات کے ساتھ معاملات تک کا بھی بیان ہے اور حقوق العباد نہایت اہم ہے
کہ الله پاک نے نہایت وضاحت سے ان کا بیان فرمایا نیز شریعت کے احکام میں بے پناہ
حکمتیں ہیں اور ان میں ہماری بہت زیادہ بھلائی ہے۔
الله کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی
توفیق عطا فرمائے دوسروں کے معاملے میں سچا فیصلہ کرنے اور حق بات کی گواہی دینے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
جن امور سے شریعت مطہرہ اور قرآن و احادیث مبارکہ
میں منع فرمایا گیا ہے ان میں سے ایک جھوٹی گواہی بھی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے نیز
لوگوں میں بھی اس کو برا کام سمجھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ
اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ- (پ 3، البقرۃ: 283) ترجمہ کنز الایمان: اور گواہی
نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جھو ٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ
اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123، حديث: 2373)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ، 6/ 136، حدیث: 14441)
4۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)
5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث:
6871)
اللہ پاک
سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے امور سے بچائے جن امور کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث
مبارکہ میں وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور ہمارے رشتے دار اہل و عیال سب کو ان امور
سے بچائے۔ آمین