کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
2 years ago

طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے، جب تک کہ وہ علم اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو، کسی نے کہا ہے کہ"ما وَصَل مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَۃِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الحُرْمَۃِ۔ یعنی"جس نے جو کچھ پایا، ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"

کہا جاتا ہے: اَلْحُرْمَۃُ خَیْرُ مِنَ الطَّاعَۃِ۔ کہ ادب و احترام کرنا، اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ دیکھ لیجئے، انسان گناہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔

تعظیمِ علم، اہل علم و اساتذہ کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ادب و احترام کرنا بھی بہت ضروری ہے، تعظیمِ علم میں کتابوں کا ادب کرنا بھی شامل ہے، لہذا طالب علم کو چاہئے کہ کبھی بھی بغیر طہارت کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے۔

حضرت سیّدنا شمس الائمہ حلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔"

طالب علم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے، کتبِ تفاسیر کو تعظیماً تمام کتب کے اوپر رکھے اور کتاب کے اوپر کوئی دوسری چیز ہرگز نہ رکھی جائے۔

ہمارے استادِ محترم شیخ الاسلام حضرت سیّدنا امام برہان الدّین علیہ رحمۃ الرحمن اپنے مشائخ میں سے کسی بزرگ رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت بیان کرتے تھے کہ ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے تو شیخ نے ان سے فارسی میں فرمایا"ہرنیابی" یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

ہمارے استادِ محترم امامِ اجل فخر الاسلام حضرت سیّدنا قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن فرمایاکرتے تھے:"کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیرِ علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، مگر اولٰی یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔