کتابوں کا ادب

Sat, 22 May , 2021
2 years ago

کہا جاتا ہے کہ"علم کی پہلی سیڑھی ادب ہے" کہ جب بندہ اس سیڑھی  کو پا لیتا ہے تو اس کے لئے منزل کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔

یعنی جس طرح اگر کوئی شخص کسی عمارت کی بلندیوں تک پہنچنے کا قصد کرتا ہے، تو اس کے لئے عمارت کی سیڑھیوں کو پانا بہت ضروری ہے، اسی طرح جب ایک طالب علم کسی بلندی کا حصول اور علم کی تجلیات سے اپنے ظاہر و باطن کو منوّر کرنا چاہتا ہے، اسے علم کی پہلی سیڑھی پر مضبوطی کے ساتھ اپنا قدم جمانا ضروری ہے۔

علم کی اس سیڑھی ادب کے ذریعے ہی ایک طالب علم کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، یعنی جس نے ادب کو تھام لیا، اس نے منزل کی راہ کو پا لیا، لہذا یہ کہ ادب کیا ہے؟ اس کا حصول کس طرح ہو؟ کن کن چیزوں کا ادب ضروری ہے؟ تو ایک طالب علم کے لئے ان تمام کا جاننا نہایت ضروری ہے، "ادب وہ اخلاقی ملکہ ہے، جو انسان کو ناشائستہ باتوں سے روکتا ہے، انسان کو مہذب بناتا ہے" ہمارے معاشرے میں ادب کا فقدان پایا جاتا ہے، استاد ہو یا والدین، ہم مجلس ہویاہم درجہ، عموماً ہر موقع میں ادب و احترام میں کمی ہی دیکھی جاتی ہے، حالانکہ ایک طالب علم کےلئے حصول علم میں ادب وہی کردار ادا کرتا ہے، جو کردار کھانےمیں نمک ادا کرتا ہے کہ نمک کے بغیر کھانا تیار ہوجاتا ہے مگر نہ ہی اس کھانے میں لذّت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت، اسی طرح ادب کے بغیر کوئی علم تو حاصل کر سکتا ہے، لیکن اس علم کی چاشنی سے مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا۔

" طالب علم کو چاہئے کہ وہ علم، اہلِ علم اور جن اشیاء کے ذریعے علم کا حصول ممکن ہے، ان تمام کا ادب و احترام دل سے بجالائے۔

کسی نے کہا ہے کہ"ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ"یعنی جس نے جو کچھ پایا، ادب و احترام کر نے کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"

تعظیمِ علم میں جس طرح اساتذہ کرام کا ادب شامل، بالکل اسی طرح ان کتابوں کا ادب بھی ضروری ہے، جن کے ذریعے ہم نے علم کے انمول خزانوں سے کچھ ذخیرہ کیا ہے، " طالب علم کے لئے کتابوں کا ادب ضروری ہے" کیونکہ کتاب ہر دور میں تعلیم و تربیت کا اہم ذریعہ رہی ہے، اس کی ہئیت خواہ کچھ بھی رہی ہو، مگر ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک، ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک، علم منتقل کرنے کے لئے انسان نے تحریر کا سہارا لیا، کبھی پتھروں پر تو کبھی درختوں کی چھال پر، لوگوں نے اپنے علموں کو تحریر کے ذریعے ہی محفوظ رکھا۔

انسانی ذہن کی ترقی کے ساتھ ساتھ طریقے بدلتے رہے، حتٰی کہ کاغذ ایجاد ہوا اور تحریر نے علامتوں، نشانوں کی منازل طے کر کے الفاظ کی شکل اختیار کر لی اور حصولِ علم کا موجودہ وسیلہ "کتاب" ہے، کتاب کی موجودہ شکل جزو جدید ہے، لیکن اس کا تصوّر قدیم ہی ہے۔

کتاب حصولِ علم میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، کتاب کی اہمیت و ضرورت بیان نہیں کی جاسکتی، پوری دنیا اس بات کی قائل ہے کہ کتاب کی اہمیت و ضرورت کے ضمن میں کچھ کہنا، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

کتابوں کی بدولت ہی طالب علم، علم کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے، اس کی بوندوں سے استفادہ حاصل کرتا، لہذا ہر طالب علم پر ضروری ہے کہ جس طرح طالب علم اپنے استاد کا ادب و احترام بجا لاتا ہے، اسی طرح اپنی کتابوں کا بھی احترام کرے، کیونکہ"باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"

آدابِ کتاب:

کتاب کی تعظیم و توقیر، اس کے ادب و احترام کی مختلف صورتیں ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: ٭کتاب کے ادب کی نیت سے کتابوں کو بغیر وُضو ہاتھ نہ لگائے۔

٭اپنی کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے۔

٭ بیٹھتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھے کہ کتابوں کو کسی اونچی جگہ پر رکھے۔

٭تفسیرو احادیث کی کتابوں پر دوسری کتابیں نہ رکھی جائیں۔

٭ بلاضرورت کتابوں پر لکھنے سے گریز کیا جائے۔

٭اپنی کتابوں کو گرنے سے، پھٹنے سے اور خراب ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔

٭کتابوں پر ادوات، قلم وغیرہ نہ رکھے۔

٭ کتابوں پر اپناسر، ہاتھ، رومال وغیرہ رکھنے سے بچے۔

٭ کتابوں کو اچھی طرح مزیّن اور آراستہ رکھے۔

٭کتابوں کو ان تمام چیزوں سے محفوظ رکھے، جس سے کتاب کو نقصان ہو۔

یہ تمام باتیں کتابوں کے ادب و احترام میں شامل ہیں،

کتابوں کےآداب میں بزرگانِ دین کے احوال:

ہمارے سلف صالحین رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کتابوں کے ادب کا بہت اہتمام فرماتے، چنانچہ

حضرت شیخ شمس الدّین حُلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی " بغیر وضو" کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔

حضرت سیّدنا امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا پیٹ خراب ہو گیا، آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے، پس اس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو سترہ بار وضو کرنا پڑا، کیونکہ آپ علیہ الرحمۃ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے ۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم)

الغرض:

"علم ایک ایسی عزت ہے کہ جس میں کوئی ذلت نہیں" اور اس لازوال نعمت کی اہم کنجی"ادب "ہے، اس لئے ہر طالب علم پر لازم ہے کہ وہ کتابوں کا ادب واحترام کرے اور اس عظیم نعمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے۔

اللہ عزوجل ہمیں بھی باادب بنائے، کیونکہ کہا جاتا ہے: المرمۃُ خیر من الطاعۃ۔یعنی ادب و احترام کرنا اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔