اللہ پاک نے انسان کو دو باطنی قوتوں کا مجموعہ بنایا ہے، ایک عقل اور دوسری شہوت، پھر ان دونوں قوتوں کے کچھ مددگار مقرر فرمائے ہیں، پہلی قوت کے مددگار حضراتِ انبیاء، فرشتے اور نیک لوگ ہیں، دوسری قوت کے مددگار شیطان، نفس اور بُرے لوگ ہیں، انسان اگر عقل کی بات مانتا ہے تو وہ اسے تقویٰ و پرہیزگاری کی طرف لے جاتی ہے اور اگر شہوت و خواہش کے پیچھے چلتا ہے تو وہ اسے فسق و فجور کی جانب لے جاتی ہے۔

پہلی چیز کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری بات کو اس کی نافرمانی و گناہ کہا جاتا ہے، جس طرح اطاعت بالاتفاق عمدہ وپسندیدہ ہے، اسی طرح گناہ بھی بُرا و ناپسندیدہ ہے، اطاعت انسان کو دنیا و آخرت میں عزت و عظمت سے سرفراز کرتی ہے، جبکہ گناہ اسے ذلت و رسوائی کے گہرے گڑھے میں پہنچا دیتی ہے، یہ واضح ہے کہ جب تک گناہوں کی پہچان نہ ہوگی، ان سے بچنا مشکل ہے، لہذا ان کی پہچان بہت زیادہ ضروری ہے، خاص طور پر آج کے زمانے میں کہ جہاں ہر سُو گناہوں کی بھرمار ہے، جھوٹ، غیبت، حسد، تکبر وغیرہ گناہوں کو گویا گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا، ان ہی میں سے ایک بدشگونی ہے، بدشگونی سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز، شخص، عمل یا آواز یا وقت کو اپنے حق میں برا سمجھنا۔"اس کے متعلق دو فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ ہوں:جس نے بد شگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 285تا286)اور فرمایا بدشگونی لینا شرک ہے۔(76 کبیرہ گناہ، ص192)

حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 286)

بعض عورتوں میں درج ذیل بدشگونیاں پائی جاتی ہیں :

1۔کنواری لڑکی کے میت کو غسل دینے سے اس کو آسیب کا مسئلہ ہو جائے گا۔

2۔کنواری لڑکی اعتکاف کرے تو اس پر جنات کے اثرات ہو جائیں گے۔معاذاللہ

3۔تجہیزوتکفین سے بچے ہوئے سامان کو استعمال کرنے سے نحوست آتی ہے۔

4۔شیشہ ٹوٹے، تو کچھ بُرا ہونے والا ہے۔

5۔اگر کتا روئے یا بلی چھت پر آ کر بولے تو اس گھر میں یا آس پاس میں کہیں کوئی فوت ہونے والا ہے۔

بدشگونی انسان کی دنیاوی زندگی کے لئے بھی خطرناک ہے کہ اس سے حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور وہ ہرچھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ اپنے سائے سے بھی، اس کا سکون برباد ہو جاتا ہے، اسے لگتا ہے کہ ساری بدنصیبی میرے اردگرد جمع ہو چکی ہے اور باقی سکون سے زندگی گزار رہے ہیں، اس کی وجہ سے انسان ذہنی و قلبی طور پر ناکارہ ہو جاتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کے دل میں بعض اوقات بُرے شگون کا خیال آ ہی جاتا ہے، اس لئے کسی شخص کے دل میں بدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گنہگار نہیں قرار دیا جائے گا، اگر کسی نے بدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ الزام نہیں، لیکن اگر اس نے بد شگونی کی تاثیر کا اعتقاد رکھا اور اس اعتقاد کی وجہ سے اس کام سے رک گیا تو گناہ گار ہوگا۔اللہ ہمیں بدشگونی اور دیگر باطنی بیماریوں سے شفا دے کر ہماری مغفرت فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم