عورتوں میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں

اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ انسانوں کو صرف اللہ پاک کے خیر و شر اور نفع و نقصان کے مالک ہونے کی بھی آگاہی دی۔ دور جہالت میں لوگ شرک و کفر کے ساتھ توہمات میں بھی پھنسے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایسے وقت میں انسانوں کو اسلام کی پیاری تعلیمات سے نوازا، عقیدہ توحید کی عظمت دل و دماغ میں راسخ کی اور تمام بدعقیدگیوں سے ہٹا کر صرف اللہ پاک کی مبارک ذات کے ساتھ جوڑا۔ اسلام سے پہلے لوگ طرح طرح کی خرافات میں مبتلا تھے جن میں بدشگونی لینا اور فال نکالنا بھی شامل تھا۔ اسلام نے ان تمام بدعقیدگیوں کا خاتمہ کیا اور اپنی خوبصورت تعلیمات سے نوازا جن میں کسی بھی قسم کی بدشگونی اور وہم کی گنجائش نہیں ہے۔

شگون کے لغوی معنی فال لینا ہے یعنی کسی بھی جاندار اور بے جان چیز کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا۔ اس کی دو اقسام ہیں ایک بد شگون لینا اور دوسری اچھا شگون لینا۔ علامہ محمد بن احمد انصاری قُرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیر قُرطبی میں فرماتے ہیں کہ اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ ہو اُس کے بارے میں کوئی بات سُن کر دلیل پکڑنا جبکہ بات اچھی ہو۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام مکمل کرے اور اگر کوئی بُری بات سُنے تو اس طرف توجہ نہ دے۔

بدشگونی لینا شرعاً منع ہے جبکہ اچھا شگون لینا مستحب ہے۔ بدشگونی اور نیک فال میں یہی بنیادی فرق ہے۔ نیک فال لینا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت ہے اور اس سے دل کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مراۃُ المناجیح میں ہے کہ نیک فال لینے میں اللہ پاک سے امید ہے اور بدشگونی لینا منع ہے کیونکہ اس میں اللہ پاک سے نااُمیدی ہے۔ اُمید اچھی ہے اور نااُمیدی بری، ہمیشہ اپنے رَب سے اُمید رکھو۔ (مراۃُ المناجیح، 6/255)

زمانۂ جاہلیت کی بدعقیدگیاں آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جس کی وجہ قرآن و سنت کی صحیح تعلیمات سے دوری اور ناواقفیت ہے۔ خصوصاً عورتوں میں آج بھی عجیب قسم کی توہُّم پرستیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بے دینی کا شکار ہیں۔ بعض عورتیں بہت سی اچھی چیزوں کو بھی برا سمجھتی ہیں۔ عورتوں میں پائی جانے والی چند بد شگونیاں حسبِ ذیل ہیں:

1. اکثر عورتیں بدھ کے دن کو برا سمجھتی ہیں۔

2. بعض عورتیں کہتی ہیں کہ جس دن گھر میں کوا بولے اُس دن مہمان لازمی آتے ہیں۔

3. بعض عورتیں مانتی ہیں کہ کسی کو سیدھا جھاڑو مارا تو اُس کا جسم سوکھ جائے گا۔

4. صبح سویرے جھگڑا ہوا یا کوئی زخم پہنچا تو شام تک ایسے ہی نقصان پہنچتا رہے گا۔

5. سیدھی آنکھ پھڑکنا کسی مصیبت کے آنے کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔

یہ اور اس طرح کی دیگر بد عقیدگیوں کا خاتمہ بہت ضروری ہے ورنہ ایمان کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی۔