دوڑاتے ہيں دنيا ميں جا بجا نظريں ارے اے نادان
ایک نظر اپنے دین پر بھی ڈال
ہر
بات کو جاننے سے پہلے اس کی تعریف اہمیت فائدے کو مدنظر رکھتے ہیں آج موضوع بڑا
دلچسپ ہے کہ علم حدیث کی اہمیت ۔
حدیث کی تعریف :
لغوی معنی :کلام ہے ۔
اصطلاحی معنی: سرکار دوعالم رحمتِ مختار
بے چين دلوں کے چین سرور کونین صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول، فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
حجت حدیث : اس کا مطلب ہے کہ’’احکامِ شرع کو حدیث سے ثابت کیا جائے“ حجت
حدیث پر بھی لوگ حجت مانگتے ہیں تو ان کے لئے ہے کہ حدیث کا حجت ہونا قرآن پاک کی
متعدد آیات مبارکہ سے ثابت ہے ، خود خدا عزوجل نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کا حکم دیا ہے اس سے حدیث کی
قانونی اورشرعی حیثیت کو واضح فرمایا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ ۔ اللہ
کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
حضور حق ہیں ان کی باتیں
حق ہیں آیتِ قرآن ہے: وَ
یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور انہیں تیری
کتاب اور پختہ علم سکھائے۔
نماز کو لیتے ہیں قرآن میں
نماز کا جا بجا حکم آیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ک نماز کی کتنی رکعت ہیں، اسی طرح زکوة کا حکم بھی ،
تو اس بات کا ہمیں حضور سے
معلوم ہوتا ہے ان کے فرمان و اقوال سے۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (القرآن و سورة النسا ، ۸۰)
تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔
مجموعۂ کلام: یہ ہے کہ آپ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قرآن کی تشریح میں ہم اس علم کو کیسے اپنے آپ سے
دور کرسکتے ہیں جس کا منبع حضور کی ذات ہو جیسا کہ پیر سید غلام معین الحق گیلانی
قدس سرہ النورانی گولڑوی اپنی کتاب یادوں کے دریچے میں فرماتے ہیں۔
تیری بخشش کا ہے انداز زمانے سے جدا