ملازِمہ نے کسی باحِجاب خاتون کی آمد کی اطلاع دی تو فریحہ نے اسے ڈرائنگ رُوم میں بٹھانے کا کہا،
کچھ وقفے کے بعد ڈرائنگ روم میں داخل ہونے پرسامنے بیٹھی عورت کو دیکھ کر اس کے منہ
سے خوشی اور خیرت میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی
: فَرْوَہ تم!!!
جی ہاں! میں، آپ نے تو ہمیں بُھلا
ہی دیا تھا تو سوچا خود ہی ملنے چلی آؤں۔ فَرْوَہ نے مَحبّت سے فریحہ کو گلے لگاتے
ہوئے جواب دیا۔
کہاں غائب
تھی شادی کے بعد سے؟ اور یہ کیا نیک پروین بی بی جیسا حُلیہ بنا لیا ہے؟ میلاد
والی باجی بن بیٹھی ہو کیا؟ فَرْوَہ اور فریحہ نے اسکول اور کالج کے تعلیمی مَراحِل
ایک ساتھ طے کئے تھے، پورے کالج میں دونوں فیشن سمبل (Symbol) کے طور پر مشہور تھیں، کون سا
فیشن آج کل چل رہاہے اور کون سا پُرانا ہو چکا، اس کی اِطِّلاع بھی دوسری لڑکیوں
کو انہی کے ذریعے ملتی تھی، اور یہی یکساں شوق (Common Hobby) دونوں کی گہری دوستی کا سبب
بھی تھا، لیکن ماضی کے بَرعَکس فَرْوَہ کو باپردہ دیکھ کر فریحہ کی حیرانی طنزیہ سُوال
میں ڈھل گئی تھی۔
باتیں ہی سناؤگی یا چائے پانی بھی
پوچھوگی؟ فروہ نے اس کے طنز کو نظر انداز
کرتے ہوئے شائستہ لہجے میں جواب دیا۔
اوہ! تمہیں دیکھ کر تو سب کچھ
بھول گئی تھی، اتنا کہہ کر فریحہ باہَر چلی گئی۔ ملازمہ کو مہمان نوازی کی ہدایت
دے کر واپس آئی تو فروہ کے پاس ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگی: اب بتاؤ، کہاں غائب
ہو گئی تھی؟
میرے بچّوں کے ابّو کا پروفیشن تو
آپ جانتی ہی تھیں تو اسی سلسلے میں شادی کے بعد ہم کراچی شفٹ ہوگئے تھے، فروہ نے
جواب دیا۔
اتنے میں ملازمہ مہمان نوازی کے لَوازِمات
سے بھرپور ٹرالی لے آئی، فریحہ نے چائے کا کپ اسے دیتے ہوئے کہا: اور یہ تبدیلی کیسے
آ گئی؟ اس کا اشارہ فروہ کے حجاب کی طرف تھا۔
دیکھو! حجاب نہ صرف عورت کی ضَرورت
ہے بلکہ اسی میں عورت کی عظمت بھی ہے۔ فروہ اتنا کہنے کے بعد چائے کا گھونٹ بھرنے
کے لئے رُکی۔
واہ!یعنی اگر
میں حِجاب نہیں کرتی تو میں باعظمت بھی نہیں؟
کل تک تَو تم بھی بے پردہ گھومتی تھی۔ فریحہ نے
فروہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی غصّے سے بیچ میں کاٹ دی تھی۔
فروہ نے مَحبّت سے اس کا ہاتھ
تھامتےہوئے کہا: فریحہ آپ نے میری تبدیلی کا سبب پوچھا تھا جس سے آپ کو اختلاف ہوسکتا
ہے لیکن یوں غصّہ کرنا تو بِالکل مناسب نہیں ہے،آپ اجازت دیں تو میں اپنی بات مکمل
کر سکتی ہوں؟
ماضی میں جیسے کو تیسا جواب دینے
والی فروہ کے مِزاج کی مُثْبَت تبدیلی(Positive Change)فریحہ پہلے ہی محسوس کر چکی تھی، اور اپنے طنز اور
غصّے کے جواب میں ملنے والی مُسکراہٹ اور نرم رویّے نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا
تھا کہ فروہ کا صرف لباس اور سوچ ہی نہیں بدلی
بلکہ ساری کی ساری شخصیت (Personality) بدل چکی ہے۔اپنے ردِّ عمل (Reaction) پر شرمندگی محسوس ہوئی
تو اُس نے مَعْذِرَت خواہانہ لہجے میں کہا: سوری! نہ جانے اچانک مجھے کیا
ہوگیا؟خیر بتاؤ کہ تمہیں حِجاب (یعنی پردے)کی ضرورت اور عَظمت کا احساس کیسے ہوا؟
دیکھیں فریحہ! اس بات سے کوئی بھی
انکار نہیں کر سکتا کہ آج کی عورت کو مَردوں کی طرف سے مختلف مَسائل کاسامنا رہتا
ہے،جن پہ مختلف فورمز پر آئے روز بَحْث و مُباحَثَہ اور قانون سازی بھی کی جاتی ہے
لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں، آخر کیوں؟
بھئی مجھے کیا پتا؟ فریحہ نے
ہنستے ہوئے فروہ کی ”کیوں“ کا جواب دیا۔
کیونکہ انہیں
اس شے کا علم ہی نہیں ہے کہ جس میں عورت کی عظمت ہے،اس کی حفاظت ہے،تمہاری طرح پہلے میں بھی
اس ”کیوں (Why)“ کے جواب سے لَاعِلْم تھی، دیگر
لوگوں کی طرح صِرف مَردوں کو قُصوروار گَردانتی اور اس مَرَض کا علاج صرف اور صرف
عورت کی آزادی میں دکھائی دیتا تھا۔
تواورکیا؟ عورت کی آزادی کے علاوہ
اس کا کوئی سنجیدہ حل (Solution) نہیں ہے،عورت جب تک چادر اور چار دیواری میں قید رہے گی، ظُلم و سِتم کا شِکار
رہے گی۔ فریحہ نے جذباتی انداز میں فروہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
فروہ کے
چہرے پر مُسکراہٹ بکھر گئی اور پھر نرم لہجے میں بولی: اسلام
اور فطرتِ انسانی (Human
Nature) سے لَاعِلْم لوگوں کو
یہ جذباتیت بھرا نعرہ بہت اپیل کرتا ہے لیکن زمینی حقائق (Ground Realities)
جذباتیت کے تابع نہیں ہوتے، ان کی اپنی سچّائی ہوتی ہےاور معذرت کے ساتھ زمینی
حقیقت یہی ہے کہ جن مُعاشروں میں عورت کو آزادی مِلی وہاں عورت کی حفاظت کے مَسائل
تو کیا حَل ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ سنگین مسائل نے جَنم لیا، کہیں ایسا تو نہیں
کہ عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے عورت
تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں،جس روز ہماری بہنوں کو اس حقیقت کا علم ہوگیا
اس دن انہیں پتا چل جائے گا کہ چودہ صدیاں پہلے اسلام نے عورت کی حفاظت
اور عظمت کیلئے جو پردے کا نُسخہ
تجویز کیا تھا وہی واحد اور بہترین حَل ہے جس کی آج کے ترقّی یافتہ لیکن خوفِ خُدا
سے عاری مُعاشرے میں اہمیت (Importance) پہلے سے کئی گُنا بڑھ چکی ہے۔
فروہ کی
باتوں سے چَھلکنے والا یقین بتا رہا تھا کہ بہت جُسْتْجو کے بعد اس نے جینے کا
سلیقہ سیکھاہے، جس میں خالی جذباتیت نہیں بلکہ اپنے دِین پَر اعتماد بھی ہے اور
آفاقی سچّائی بھی ہے۔
فریحہ ایک
بے جان تصویر کی طرح حیرت سے فروہ کا منہ
تک رہی تھی۔ سالوں سے میڈیا کی جذباتی یَلغار سے
اس کے ذہن میں تعمیر ہونے والی خَیالات کی عمارت ایک عِلمی سچّائی کا بوجھ بھی
برداشت نہ کرسکی، فریحہ اس کی بنیادوں کی واضح لَرزِش محسوس کر رہی تھی، پوچھنے لگی:
تمہاری بات میری سمجھ میں آگئی ہے،لیکن یہ بتاؤ کہ تم میں یہ تبدیلی آئی
کہاں سے؟