4۔ مؤلف: توصیف احمد عطاری ( جامعۃ المدینہ فیضانِ
بغداد )
حضرت
صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف آئے آپ علیہ السلام بھی ثمود قوم سے ہی
ہیں ثمود ایک شخص کا نام تھا۔ آل ثمود اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان
رکھتے اور اسی کے عبادت گزار بندے
تھے، لیکن گزرتے وقت اور نعمتوں کے کے بہتات کے ساتھ جہاں ان میں غفلت و جہالت
بڑھی وہیں یہ لوگ شرک و کفر کی نحوست کا بھی شکار ہونے ، چنانچہ ایک عرصے بعد کچھ
لوگوں نے پتھروں کی تراش خراش کرکے عجیب و غریب شکلوں کے بت بنائے پھر مختلف نام ر
کھ کر انہیں خدا کا شریک ٹھہرایا۔ اور عبادتِ الہی چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا میں
مشغول ہوگئے، رفتہ رفتہ انہی کی
پیروی میں چند افراد کے علاوہ پوری قوم نے اس دلدل میں چھلانگ لگادی۔
قوم
کے سرداروں نے آپ علیہ السّلام سے مطالبہ کردیا کہ آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے
رسول ہیں تو اس پہاڑ کی چٹان سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے جو دس ماہ کی حاملہ ہو
اور نکلتے ہی بچہ جنے، آپ علیہ السلام نے دو رکعت نماز پڑھ کے بارگاہِ الہی میں
دعا کی اور اس چٹان کی طرف اشار ہ فرمایا تو اسی وقت چٹان پھٹی اور اس میں سے ایک اونچی قد والی حاملہ اونٹنی
نکلی اور نکل کر اس نے بچہ بھی جنا ، آپ علیہ السلام نے قوم کو اس اونٹنی کے بارے میں چند ہدایات دیں، قومِ ثمود
حضرت صالح علیہ السلام کے دیئے احکام پرایک عرصہ تک عمل پیرا رہی پھر پانی کی تنگی کی وجہ سے
اونٹنی کو قتل کرنے پرمتفق ہوگئے ، اور قداد بن سالف نے اونٹنی کو پکڑ کر تیز
تلوار سے اس کی کونچیں کاٹ کر قتل کرڈالا۔
5۔ مؤلف: ثاقب ر ضا
عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان بخاری کراچی )
قرآن
مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ
اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور
ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا : اے میری قوم اللہ کو پوجوا س کے
سو اتمہارا کوئی معبود نہیں۔
(سورة
اعراف ، آیت : 73)
ثمود
عرب کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں
سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے حضرت صالح علیہ السلام
کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسخ بن عبید بن جاذر ابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم
عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد کے ہیں۔
(روح
البیان، الاعراف ، تحت الآیۃ : ۳،۷۳/۱۸۹،۱۹۰)
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کی
طرف بھیجا (قوم ثمود کی طرف) بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم تم
اللہ عزوجل کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ، اور صرف اسی کی
عبادت کر وکیونکہ اللہ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو،
اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو (قوم ثمود کو) اللہ
تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کربھی سمجھایا کہ اے قوم ثمود تم اس وقت کو یاد کرو جب
اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا قوم عاد کو ان کے گناہوں
کے سبب ہلاک کرکے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو
جگہ عطا کی تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم ( موسم) میں آرام کرنے کے لیے
ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو
تراش کرمکانات بناتے ہو۔
تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ
کرنے سے بچو کہ گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، اور رب
عزوجل کے عذاب آتے ہیں۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے : ترجَمۂ کنزُالایمان: پس
ناقہ کی کوچیں کا ٹ دیں اورا پنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے
آؤ جس کا تم وعدہ دے رہو ہو اگر تم رسول ہو۔ (اعراف : 77)
قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذاب خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا
کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آوازآئی، پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری
آبادی چکنا چور ہوگئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہوگئیں اور قوم ثمود کا
ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مرگیا قرآن مجید نے فرمایا:
فَاَخَذَتْهُمُ
الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہیں زلزلہ لے آلیا تو صبح کو اپنے گھر وں میں اوندھے رہ
گئے۔( سورہ الاعراف 78)
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی کو چھوڑ کر
دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ لاشوں سے یہ فرما کر وانہ ہوگئے کہ ۔
یٰقَوْمِ
لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا
تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اسے میری قومی بے شک میں نے تمہیں اپنے ربکی رسالت پہنچادی اور
تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہی کے غرضی (پسند کرنے والے)ہی نہیں۔
(الاعراف: 79 )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قوم ثمود کی پوری بستی برباد
ویران ہو کر کھنڈر بن کر رہ گئی اور پوری
قوم فنا کے گھاٹ اتر گئی کہ آج ان کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ
گیا۔
(تفسیر الصاوی ،ج ۲، ص ۶۸۸ ،پ ۸، الاعراف ملخصاً)
قوم ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام
سے عرض کی اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی
ظاہر کریں اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ
ا لسلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی۔
سب کے سامنے وہ پتھر پٹھا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان
اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے بر ابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر صندع
تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور
کفر پر قائم رہے، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے
کہنے لگے۔ کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہا لسلام اپنے رب کے رسول
ہیں؟ اپنوں نے کہا، بیشک ہمارا یہی
عقیدہ ہے ہم انہیں اوران کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا جس پر ہم
ایمان رکھتے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔
اس بستی میں ایک تالاب تھا جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر
جمع ہوتا تھا آپ نے فرمایا کہ اے لوگو، دیکھو یہ معجزے کی اونٹنی ہے ایک روز
تمہارے تالاب کا ساراپانی یہ پی ڈالے گی، اورایک روز تم لوگ پینا قوم نے اس کو مان
لیا چند دنوں تک قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں
ملتی تھا، کیوں کہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی، اس لیے ان لوگوں
نے طے کرلیا، کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔
چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالق جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں
والا اور پستہ قد آدم تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا ساری قوم کے حکم سے اس
اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیا ر ہوگیا، حضرت صالح علیہ ا لسلام منع کرتے رہے،
لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا پھر اس کو ذبح
کردیا ، اور انتہائی سر کشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو
کرنے لگا۔
6۔ مؤلف: طلحٰہ خان
عطاری (درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے راشدین بحریہ
ٹاؤن راولپنڈی)
ثمود
عرب کا ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں
سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سر زمین ِ حجر میں رہتے تھے۔
(روح البیان ، الاعراف ، تحت الآیۃ : ٧٤ ، ٣/ ١٨٩- ١٩٠)
قومِ ثمود بھی نافرمان قوموں میں سے ایک نافرمان
قوم تھی ۔ جب اللہ تعالٰی
نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو اس قوم نے انہیں جھٹلایا
اور ان کے پہچائے ہوئے پیغام باری تعالٰی کو قبول نہ کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام
نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا کہ، اے میری قوم ! تم اللہ کے سوا کسی کی
عبادت نہ کرو ۔ وہی تمہارا خالق ہے اور عبادت صرف اسی کے لائق ہے۔اور اپنی قوم کو
نعمتِ خداوندی بھی یاد دلائی کہ ۔
یاد کرو کہ اللہ پاک نے تمھیں
قومِ عاد کے بعد زمین میں جانشین بنایا اور تم نرم زمین میں محلّات اور پہاڑوں کو
تراش کر گھر بناتے ہو اور اللہ تعالٰی نے تمھیں بے انتہا نعمتوں سے
نوازہ ، لہذا گناہوں ، سرکشی اور ظلم سے بچو اور کفر کو چھوڑ کر اللہ تعالٰی
کو ایک خدا مانو اور اسی کی عبادت کرو ۔ لیکن اتنا سمجھانے کے بعد بھی قوم نہ مانی
۔
آخرکار ایک سردار جندع بن عمرو کی اس شرط پر کہ
حضرت صالح علیہ السلام پتھر میں سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی نکالیں گے تو ہم آپ
پر ایمان لے آئیں گے ۔چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے
دعا کی تو پتھر سے ایک اونٹنی نکلی اور اپنے جتنا ایک بچہ بھی جنا۔ جندع اپنے خاص
لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا لیکن باقی قوم نے وعدہ خلافی کی اور ایمان نہ لائی ، پھر
اس قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے پوچھتے کہ تم حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان
لاتے ہو؟ تو وہ کہتے کہ ہاں ہم ایمان لاتے ہیں ۔ وہ سردار کہتے کہ جس پر تم ایمان
لاتے ہو ہم اسکا انکار کرتے ہیں ۔ اور سب سے بڑی نافرمانی اس قوم کی جس کے سبب ان
پر عذاب الٰہی نازل ہوا یہ تھی کہ حضرت صالح علیہ السلام نے اس اونٹنی کے قریب
برےارادے سے جانے سے منع کا تھا لیکن یہ قوم باز نہ آئی اور ان میں سے دو مرد
نکلے اور انہوں نے مل کر اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ۔
حضرت
صالح علیہ السلام اس واقعہ کے بعد فوری طور پر اپنی قوم کے مسلمانوں کو لے کر جنگل
کی طرف چلے گئے اور اس قوم پر ایسا عذاب الٰہی اترا کی آج تک قومِ ثمود کی بستی
عبرت کا مقام بنی ہوئی ہے ۔
7۔ مؤلف: عبد اللہ فراز عطاری ( درجہ ثالثہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور)
حضرت
آدم علیہ السلام سے لے کر ابھی تک بہت سے لوگ اس زمین پر آباد ہوئے جن کا تعلق
مختلف قوموں سے تھا۔ اللہ تعالی نے ان کی ہدایت کے لئے کئی پیغمبر
بھی بھیجے۔ ان قوموں میں سے کچھ کا ذکر قران مجید میں بھی ہے۔ قرآن مجید میں مذکور
ان قوموں میں قوم نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی، قوم عاد جو ہوا سے ہلاک کی گئی،
قوم ابراہیم جو سلب نعمت سے ہلاک کی گئی، قوم شعیب جو بادل والے دن کے عذاب سے
ہلاک کی گئی اور قوم ثمود جو زلزلے سے ہلاک کی گئی بھی ہیں۔
ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود
بن ارم بن سام بن نوح علیہ السّلامکی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام
کے درمیان سرزمین حِجْرمیں رہتے تھے۔ حضرت صالح علیہ السّلام کے والد کا
نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابن ثمود ہے۔ قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد
ہوئی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السّلام کے بعد
ہیں۔ اللہتعالیٰ نے
حضرت صالح علیہ السّلام کو
ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ
تعالیٰ کوایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی
عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں
ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔
حضرت
صالح علیہ السّلام نے
قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ
کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود! تم اس وقت کویاد کرو،
جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا،
قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ
نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہا را حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں
آرام کرنے کیلئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے
کیلئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم اللہ تعالیٰ
کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی
اور کفرکی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کے
عذاب آتے ہیں۔ تو قوم نے ان نصیحتوں پر عمل نہ کیا جو بڑی نافرمانیوں میں سے
ایک تھی۔
قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت
صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں
تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ
معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ۔
سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور
پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے
ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت
صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں
سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے
رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی
تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں۔ سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم تواُس کا
انکار کرتے ہیں۔
حضرت
صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے
میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ
دو تا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کی نیت سے
ہاتھ نہ لگانا ، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ
یہ ہوگا کہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔ قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت
تھی، جو بڑی حسین و جمیل اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔
چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی سے اس
کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا
کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ
دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کر دیا مگر قیدار
نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی۔ قوم عاد نے جو نافرمانیاں کیں ان میں سے ایک
بڑی نافرمانی یہ بھی تھی۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے
سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی
تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں کاٹیں تھیں ،
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے
بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو
جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک
آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔
قران مجید میں گزشتہ قوموں کے واقعات ذکر کرنے
کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور ان کاموں سے باز رہیں جن کی
وجہ سے گزشتہ قوموں کو عذاب دیا گیا۔ ان برے کاموں سے بچنا تبھی ممکن ہے جب ان کا
علم ہو اور یہ علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ، ابو صالح مفتی محمد قاسم عطاری کی
تصانیف "صراط جنان" اور "سیرت الانبیاء" کا مطالعہ کرنا ہے۔ (صراط الجنان ماخوذاً)
8۔ مؤلف: مزمل علی عطاری
( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ گلزار مدینہ قبولہ روڈ عارف
والا )
قومِ
ثمود ایک تباہ و برباد ہونے والی قوم تھی، اس قوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر
بھیجا، جب حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالی کا فرمان سنایا اور ایمان کی دعوت دی، تو اس سرکش قوم نے
اللہ تعالیٰ کے فرمان کو جھٹلایا اور یہ
کہا کہ اگر آپ علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں تو اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن
اونٹنی کا ہے، جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، چنانچہ آپ علیہ السلام نے چٹان کی طرف
اشارہ کیا تو وہ فوراً پھٹ گئی او ر اس
میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اونٹنی نکلی
اور اس نے نکل کرایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں پھرتی رہتی۔
حضرت
صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ اے لوگو! یہ معجزہ کی اونٹنی ہے، اسے برائی کے ساتھ
ہاتھ مت لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب
ملے گا۔
چند
دن کے بعد اس قوم میں قدار نامی
آدمی ساری قوم کے حکم سے قتل کرنے کے لیے
تیار ہوگیا اس نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا اور پھر اس کو ذبح
کردیا، اور پھر حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا اور کہا کہ اے
صالح ، ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے
ہو اگر تم رسول ہو تو
پھر
اللہ تعالیٰ نے ان پرعذاب نازل کیا اس
طرح کہ ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی پھر شدید زلزلہ آیا اور پوری قوم
چکنا چور ہوگئی اور قوم ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔
9۔ مؤلف: محمد میزاب رضا عطاری (فیصل آباد)
اللہ
پاک نے قومِ ثمود کی ہدایت کے لیے اپنے نبی حضرت سیدنا صالح علیہ الصلوة والسلام کو بھیجا، قومِ ثمود کو اللہ کریم نے اتنی
طاقت عطا فرمائی تھی کہ وہ پہاڑوں (Mount
ains) كو تراش کر گھر بنالیا کرتے تھے، حضرت سیدنا
صالح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو کفرو شرک سے بچنے کا فرمایا اور ایمان لانے کی
دعوت دی تو انہوں نے آپ سے کہا، ایک معجزہ دکھائیں وہ یہ تھا کہ آپ ہمارے سامنے
پہاڑ کی اس چٹان سے ایک ایسی اونٹنی (Camel) نكالىئے جس میں فلاں فلاں صفات ہوں چنانچہ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی
اور چٹان سے ویسی ہی اونٹنی نکل آئی جیسی وہ چاہتے تھے، اونٹنی نے باہر آکر ایک
بچہ بھی پیدا کیا، یہ معجزہ دیکھ کر کچھ
لوگ ایمان لے آئے مگر باقی نہ لائے، اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا آپ علیہ ا لسلام
نے قوم سے فرمایا کہ ایک دن تالاب سے اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن قوم پیا کرے گی، اس کے علاوہ تم لوگ
اونٹنی کو نہ مارنا اور نہ ہی قتل کرنا، ورنہ عذاب آجائے گا، چند دن تو یہ معاملہ
چلتا رہا مگر اس کے بعد قیدار نام کے ایک
آدمی نے بستی والوں کے کہنے پر بدھ کے دن
اونٹنی کو قتل کردیا
آپ
علیہ السلام نے قوم سے فرمایا : تم سب تین دن بعد ہلاک ہوجاؤ گے، پہلے دن تمہارے چہرے پیلے دوسرے دن لال اور تیسرے دن
کالے ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اتوار کے دن دوپہر کے قریب ایک خوفناک
آواز آئی جس سے بستی والوں کے دل پھٹ گئے، اس کے بعد شدید زلزلہ (Earth
Quake)آیا
اور پوری آبادی تباہ ہوگئی اور سب ہلاک ہوگئے، حضرت صالح علیہ الصلوة والسلام
ایمان لانے والے چند افراد کے ساتھ پہلے ہی بستی سے روانہ ہو کر جنگل کی طرف جاچکے
تھے، اس لیے یہ حضرات محفوظ رہے، اس بستی
کے آثار آج بھی مدائن صالح ( عرب شریف) میں موجود ہیں۔
10 ۔ مؤلف: محمد نجم الدین ثاقب ( جامعۃ
المدینہ فیضانِ کنزلایمان کراچی )
قومِ ثمود کا تعارف :
ثمود
عرب کا ایک قبیلہ تھا اور یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد
میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے۔
(رو
ح البیان ، الاعراف، تحت الایۃ : ۷۳)
اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی ہدایت و ر ہنمائی کے لیے اپنے
برگزیدہ نبی حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا ( مبعوث فرمایا) قوم ثمود بہت طاقت ور
تھے ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ یہ پہاڑوں (Mountains) كو
تراش کر گھر بنالیا کرتے تھے۔(صراط الجنان ج ۳،ص ۳۶۰)
قوم ثمود کی نافرمانیاں :
۱۔شرک
جب اللہ نے قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو
بھیجاتو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تم اللہ کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو بھی
شریک نہ کرو کیونکہ اللہ ہی ا س بات کا
مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے لیکن وہ نہ مانے اور بتوں کی پوجا کرتے کرتے رہے۔
۲۔ ناشکری :
حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ کی نعمتیں یاد
دلا کر بھی سمجھایا کہ اے قوم ثمود تم اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد
کے بعد ان کا جانشین بنایا، اللہ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی تمہارا حال
یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور
سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لیے پہاڑوں میں گھر بناتے ہو لیکن انہوں نے
انکار کیا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کی۔
۳۔ اونٹنی کا قتل :
جب حضرت صالح علیہ السلام نے قومِ ثمود کو اللہ قہار کے
عذابات سے ڈرایا تو قومِ ثمود کے جندع بن عمر نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض
کی اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے درمیان
سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر ہو اور پیدا ہوتے ہی بچہ جنے چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔
یہ معجزہ دیکھ کر جندع سردار تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ
ایمان لے آیا جب کہ باقی لوگ منکر ہوگئے اور ایمان نہ لائے۔ اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا آپ نے فرمایا ایک دن تالاب سے
اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن قوم پیے گی چند دن یہ معاملہ چلتا مگر اس کے بعد
قیدار نامی ا یک آدمی نے بستی والوں کے کہنے پراونٹنی کو قتل کردیا۔
قوم ثمود پر اللہ کا عذاب :
جب قوم ثمود نے نافرمانیوں کی حدیں پار کردیں اور اونٹنی کو
قتل کیا تو اتوار کے دن دوپہر کے قریب ایک خوفناک آواز آئی جس سے بستی والوں کے دل پھٹ گئے اس کے بعد شدید زلزلہ آیا اور پوری آبادی تباہ ہوگئی اور سب ہلاک ہوگئے۔
عرض :
ہم بھی اپنے اعمال
پر غور و فکر کریں، کہیں ہم بھی اللہ کی
نافرمانی تو نہیں کررہے اگر ایسا ہے تو فورا ً اللہ کے حضور توبہ کرلے کہ کہیں
ایسا نہ ہو کہ ہم بھی اللہ کے عذاب کا
شکار ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا اطاعت گزار بنائے اور نافرمانیوں سے محفوظ
رکھے۔ امین بجاہ طہ یسین
11
۔ محمد دانش عطاری ( درجہ ثانیہ جامعۃ
المدینہ فیضان بخاری کراچی )
ہدایتِ انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار
(124000) پیغمبر معبوث فرمائے ۔ انہیں میں سے ایک حضرت صالح علیہ السّلام ہیں جو
قوم ثمود کی طرف نبی بنا کے بھیجے گئے ۔ یہ لوگ سرزمینِ حجر میں رہتے تھے۔ (صراط الجنان ، 3/360 )
جب حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنی قوم کو نیکی کی دعوت دیتے
ہوئے فرمایا:اے میری قوم! اللہ کی عبادت
کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔(پ 8 ، الاعراف: 73)
تو قومِ ثمود کے
سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السّلام سے عرض کی: اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی
اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح علیہ السّلام نے ایمان کا وعدہ لے کر
اللہ پاک سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر
پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے
برابر بچہ جنا۔یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا
جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ (صراط الجنان ، 3/360 )
چنانچہ اسی آیت میں ہے:تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی یہ اونٹنی ہے توتم اسے چھوڑے رکھو تاکہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ
نہ لگاؤ ورنہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔(پ 8 ، الاعراف : 73)
پھر قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور مؤمنین سے کہا:کیا تم
جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کا رسول ہے؟ انہوں نے کہا: بیشک ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں
جس کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہےتو متکبر (سردار) بولے: بیشک ہم اس کا انکار کرنے
والے ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو۔
(پ 8 ، الاعراف : 75 ،76 )
مزید ستم یہ کہ اس قوم کے دو افراد مصدع ابن دہر اور قیدار
نے اس مبارک اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ کر اسے ذبح کر ڈالا(صراط الجنان ، 3/361 ) اور صالح علیہ السّلام کو چیلنج
کرتے ہوئے بولے:اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں
سناتے رہتے ہو۔ (پ 8 ، الاعراف : 77 )
الغرض حضرت صالح علیہ السّلام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہو
جاؤ گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر
پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا۔(صراط الجنان ، 3/361
ملتقطاً)
بالآخر یوں یہ قوم اپنے انجام کو پہنچی ۔
اللہ پاک ہمیں اپنے
غضب سے محفوظ فرمائے۔اٰمین
دعوتِ اسلامی
دینِ متین کی خدمت انجام دینے کے
ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی اپنامثالی
کردار اداکررہی ہے۔ شجر کاری مہم، بلڈ ڈونیشن مہم اور تھیلیسیمیا فری پاکستان مہم کے بعد اب دعوتِ اسلامی نے ایک اور
احسن قدم اٹھایاہے اور وہ یہ کہ دعوتِ اسلامی نے کراچی میں پہلا یتیم خانہ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ یتیم خانے
کا نام امیرِاہلِ سنت علامہ الیاس عطار
قادری دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ”مدنی
ہوم“ رکھا ہے۔
اس حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دعوتِ اسلامی مولاناحاجی عبدالحبیب عطاری کا کہنا
تھا کہ پچھلے دنوں ہونے والے مرکزی مجلس
شوریٰ کے مدنی مشورے میں یہ فیصلہ
کیا گیا ہے کہ اب دعوتِ اسلامی یتیم خانے بھی بنائے گی۔یتیم
خانے کی پہلی برانچ کراچی میں قائم کی
جائے گی۔ کراچی کے بعد ملک بھر میں اور پھر بیرونِ ممالک میں بھی یتیم خانے بنائے جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا
کہ ”مدنی ہوم“ میں یتیم بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دی جائے گی اور دیگر کورسز بھی کروائے جائیں گے،
جو بچے قرآنِ پاک حفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے انہیں حفظ بھی کروایا جائے گا جبکہ باصلاحیت بچوں کو عالم اور مفتی کورس بھی
کروائے جائیں گے۔ بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جائے جبکہ
کھانے کے علاوہ کپڑے، ادویات اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اشیاء بھی فراہم کی جائیں گی۔
ترجمان دعوتِ اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ یتیم
خانے میں وہ بچے جن کے والدین یا دونوں
میں سے کسی ایک کا انتقال ہوچکا ہو یا وہ بچے جن کے ماں باپ میں طلاق ہوچکی ہو
اوردونوں میں سے کوئی بھی بچے اپنے پاس نہ
رکھ رہےہوں تو ایسے بچوں کو یتیم خانے میں
رجسٹرڈکیا جائے گا اور ان کی کفالت کا مکمل اہتمام کیا جائے گا جبکہ مستقبل میں
لاوارث بچوں کی مکمل دیکھ بھال کے لئے بھی
ایک مربوط نظام وضع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دعوتِ اسلامی کا یہ سب کچھ کرنے کا مقصد یتیم بچوں کا سہارا بن کر انہیں تعلیم
و تربیت اور دیگر بنیادی ضروریات کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ با اعتماد
اور صحت مند شہری کے طور پرملک و ملت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
مدنی مذاکرے میں یتیم خانے قائم کرنے کے اعلان پر امیرِ اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے عاشقانِ رسول سے یہ گزارش کی
ہے کہ وہ دعوتِ اسلامی کے فلاحی شعبے FGRF کا اس موقع پر بھرپور ساتھ دیں اور یتیم خانے کے
قیام میں اپنی رقم کے ذریعے دعوتِ اسلامی
کی معاونت کریں۔ امیرِ اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے یتیم خانے
کے قیام میں معاونت کرنے والوں کے لئے
دعائیں بھی فرمائی ہیں۔
اس وقت دعوتِ اسلامی کو یتیم خانے کے قیام
کےسلسلے میں فی الفور بنی بنائی جگہ کی
ضرورت ہے تاکہ یہ سلسلہ جلد شروع کیا جاسکے۔جنہیں رب تعالیٰ نے نوازا ہے ان
عاشقانِ رسول سے گزارش ہے کہ دعوتِ اسلامی
کا ساتھ دیں اور ثوابِ دارین کے حقدار
قرار پائیں۔
آن لائن ڈونیشن
کے لئے نیچے Donate Now پر
ابھی کلک کیجئے
دعوت
اسلامی کے شعبہ اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ محمد سمیر عطاری کی دیگر ذمہ داران
کے ہمراہ کلر سیداں راولپنڈی میں قائم پنڈی پوسٹ
آفس وزٹ کیا جہاں انہوں نے ایڈیٹر محمد شہزاد سے ملاقات کی۔
محمد
سمیر عطاری نے انہیں دعوت اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ شعبہ اسپیشل
پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے متعلق بریفنگ دی ہفتہ وار
اجتماع اور مدنی مذاکرے میں شرکت کرنے کی دعوت دی۔(رپورٹ: محمد
سمیر عطاری، اسلام آباد شعبہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ اسپیشل پرسنز)
کراچی میں اسپیشل افراد کے لئے
ہفتہ وار اجتماع میں ہونے والے بیان کی ترجمانی
دعوت
اسلامی کے شعبہ اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت یکم جولائی 2021ء کو عالمی مدنی
مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں مدنی حلقہ لگایاگیا جس
میں اسپیشل پرسنز کے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔
شعبہ
اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ دار محمد فیضان عطاری نے اجتماع میں ہونے والے بیان
کی اشاروں کی زبان میں ترجمانی کی۔
اس
موقع پر رکن ریجن محمد عمران عطاری ،رکن زون محمد بلال عطاری اور دیگر ذمہ داران موجود تھے۔(رپورٹ:
محمد سمیر عطاری، اسلام آباد شعبہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ اسپیشل پرسنز)
اوکاڑہ
میں قائم دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی رفیع عطاری کے آفس میں
اسپیشل افراد کی آمد ہوئی جہاں انہوں نے رکن شوریٰ سے ملاقات کی اور مدنی حلقے کا
سلسلہ ہوا۔
رکن
شوریٰ حاجی محمد رفیع عطاری نے مدنی پھولوں سے نوازا جس کی اشاروں کی زبان میں ترجمانی
رکن زون پاکپتن محمد عابد عطاری کی۔ (رپورٹ: محمد سمیر عطاری، اسلام آباد
شعبہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ اسپیشل پرسنز)