آج فی زمانہ دیکھا جائے تو معاشرے میں باطنی بیماریوں کو بیماری نہیں سمجھا جاتا ہے ان ہی میں سے ایک خیانت بھی ہے یہ ایک ایسا بدترین گناہ ہے کہ اس کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے منافق کی تین علامت بتائی ان میں سے ایک خیانت بھی ہے اور اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)

خیانت کی تعریف : خیانت یہ امانت کی ضد ہے خفیہ طور پر کسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے۔ خواہ وہ اللہ پاک کا یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یا اپنا یا دوسرے کا ہو۔

زیادہ تر ہم خیانت مال کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس مال رکھتے ہیں وہ دوسرے کو دیے دیں تو ہم اس کو خیانت کرنے والا کہتے ہیں يقينًا یہ بھی خیانت ہے اور اس کے علاوہ راز کی باتوں ، عزت ، مشورہ وغیرہ میں بھی خیانت ہوتی ہے ۔خیانت کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ حدیث پاک میں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں :

(1)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ جس نے مال (غنیمت ) میں خیانت کی ہو تو اس کا سامان جلا دو ۔ (ابو داؤد، حدیث: 2713)

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت جو ہوگی وہ یہ ہے کہ مرد اپنی عورت کے پاس جائے اور اس سے جماع کرے اور پھر اس کے راز کو ظاہر کر دے۔(مسلم شریف، حدیث: 3528 ، ص 762، مكتبہ دار ابن كثير)

(3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپایا تو وہ گناہگار ہونے کے اعتبار سے وہ بھی خیانت کرنے والے کی طرح ہے۔ (مشکاة المصابیح ، حدیث: 3917 )

(4) رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس آدمی کو ہم کوئی ذمہ داری سونپیں اور اس کا وظیفہ مقرر کردیں تو اس ( وظیفہ ) کے علاوہ جو مال لے گا وہ خیانت ہوگی ۔ ( ابوداؤد )

(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: منافق کی علامتیں تین ہیں ۔ جب بات کرے جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری شریف، کتاب الایمان، مجلس برکات، ص 10)

معاشرے پر اثرات: پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس پُر فتن دور میں کوئی باطنی گناہ کو گناہ نہیں سمجھ رہا ہے انہی میں سے تکبّر ، جھوٹ ، چغلی، حسد ، کسی کا دل دکھانا اور بعض صورتوں میں امانت میں خیانت کرنا وغیرہ اس سے لوگوں میں نفرت اور دوری پیدا ہوتی ہیں ان سب بیماریوں کا ہمیں علاج کرنا چاہئے اور خیانت ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا خیال رکھنا انسان کے لیے ضروری اور اس سے غفلت برتنے میں دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے تو چاہئے کہ لوگوں کے اخلاق و معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرے اور ان کے اندر سے باطنی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے اس کے لئے ہمیں اچھے ماحول اور اچھی صحبت اختیار کرنی چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے۔(اٰمین)


فِی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیتِ مجموعی عمل کمزور ہونے کی وجہ سے اَخلاقی و معاشرتی بُرائیاں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ لوگوں کی اکثریت ان کو بُرا سمجھنے کو بھی تیار نہیں، انہی میں سے ایک خیانت بھی ہے۔یہ ایسا بَدترین گناہ ہے کہ اسے منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔عام طور پر خیانت کا مفہوم مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے کہ کسی کے پاس مال امانت رکھوایا پھر اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا تو کہا جاتا ہے کہ اس نے خیانت کی، یقینا ً یہ بھی خیانت ہی ہے لیکن خیانت کا شرعی مفہوم بڑا وسیع ہے۔چنانچہ حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/212) خیانت امانت کی ضِد ہے،پوشیدہ طور پرکسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے خواہ اپنا حق مارے یا اللہ رسول کا یا اسلام کا یا کسی بندے کا!رب تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجَمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔(پ9،الانفال:27)

خیانت کی تعریف: اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص175)

خیانت کا حکم: ہر مسلمان پر امانت داری واجب اور خیانت کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 176)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قراٰنِ مجید میں خیانت کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی خیانت کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ ایک قبیح اور بُرا فعل ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہئے۔ خیانت کی مذمت کے متعلق 7فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھئے:

(1)منافقت کی علامت: جس میں چارعیوب ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک عیب ہو تو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ نہ دے (ان میں سے ایک یہ بیان فرمایا:) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔(بخاری،1/25،حدیث:34)

(2)کوئی دین نہیں:جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔(مسند امام احمد،4/271،حدیث:12386)

(3)مؤمن خیانت کرنے والا نہیں ہوسکتا: مؤمن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ ( مسند امام احمد،8/276،حدیث:22232)

(4)اخلاقی خیانت: اس بارے میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کردیا جائے گا،‌ ان میں سے ایک)وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر)نے اس کی دنیاوی ضروریات (نان نفقہ وغیرہ)پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت کی۔(الترغیب والترھیب، 3/18، حدیث:4ملتقطاً)

(5)خائن کی پردہ پوشی سے بچئے: ذہن نشین رہے کہ خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرنے سے بچنا بھی ضروری ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔(ابو داؤد،3/93،حدیث:2716)

(6)مشورہ دینے میں خیانت: جو اپنے بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دُرستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اپنے بھائی سے خیانت کی۔ (ابوداؤد،3/449، حدیث: 3657)

(7)ادنیٰ چیز چھپانا بھی خیانت:ہم تم میں سے جسے کسی کام پر عامل بنائیں پھر وہ ہم سے سوئی یا اس سے زیادہ چھپا لے تو یہ بھی خیانت ہے جسے وہ قیامت کے دن لائے گا۔ (مسلم،ص 787، حدیث: 4743)

خیانت کے اسباب:اس بُرے فعل میں پڑنے کے بہت سارے اسباب ہو سکتے ہیں جن میں سے چند اسباب یہاں ذکر کئے جا رہے ہیں: (1)بدنیتی (2)دھوکا دینے کی عادت (3)بُری صحبت (4)توکل علی الله کی کمی (5)مسلمانوں کو نقصان دینے کی عادت (6)نفسانی خواہشات کی تکمیل۔

الله پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہم سب کو خیانت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

خیانت کے بارے میں مزید معلومات کیلئے اور درج بالا اسباب کے علاج جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”باطنی بیماریوں کی معلومات“ کا مطالعہ کیجئے۔ علم ِ دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔ اِن شآءَ اللہ 


حضرت نوح علیہ السّلام کا مختصر تعارف: حضرت نوح علیہ السّلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے آپ دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول تھے۔ آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ طوفان نوح کے بعد آپ ہی سے نسل انسانی چلی۔ آپ علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔

اللہ پاک نے قراٰن میں کئی مقامات پر حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السّلام کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:۔

(1)شکر گزار بندہ۔ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل: 3) اللہ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ اللہ پاک کے بہت شکرگزار بندے تھے۔

تفسیر خازن میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: 3، 3 / 161)

(2)امانتدار رسول: اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔(پ19، الشعراء: 107)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مدارک میں ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: 107، ص 825)

(3)سب سے پہلے رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا ۔(پ29،نوح:1)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر سمر قندی میں ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔(سمر قندی، نوح، تحت الآیۃ: 1، 3 / 406)

(4) آپ کے بعد تمام انبیا آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے ابراہیم اور نوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی ۔(پ27،الحدید: 26)

اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ حضرت نوح علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ:26، 8 / 226)

(5)حضرت نوح علیہ السّلام کی عمر کا تذکرہ: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا۔(پ20،العنکبوت : 14)

بیشک ہم نے آپ سے پہلے حضرت نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار (یعنی 950) سال رہے، اس پوری مدت میں انہوں نے قوم کو توحید اور ایمان کی دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور ایذاؤں پر صبر کیا۔(البحر المحیط، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 7 / 140، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 3 / 447، ملتقطاً)


اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسانِ اعلٰی کہ جس نے بنی نوع  انسان کی ہدایت کے لیے نزولِ انبیائے کرام علیہم السّلام کا اہتمام فرمایا، اور ہر نبی پر اپنی رحمت و نوازشات کا سایہ فرماتے ہوئے انہیں اوصافِ حمیدہ سے مزین فرمایا کہ تمام بنی نوع انسان کے لیے سر چشمۂ ہدایت ہوئے اور زندگی کو تاریکی سے نور کی طرف لے جانے کے لیے صراطِ مستقیم ٹھہرے۔ انہیں اعلٰی حضرات میں سے ایک حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ذاتِ بابرکات ہے جنہیں اللہ پاک نے عظیم صفات سے نوازا اور بنی نوع انسان کے لیے ان صفات کو سبق کا سامان فرمایا۔ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے جن صفاتِ نوح علیہ السّلام کو ذکر فرمایا۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1)اعلٰی درجے کا کامل ایمان: حضرتِ نوح علیہ السّلام بہت ہی اعلٰی ، پختہ و کامل ایمان کے حامل تھے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے اعلٰی درجہ کے کاملُ الایمان بندوں میں ہے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:81)

(2)شکر گزار : آپ علیہ السّلام انتہائی شاکر تھے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کے شکر کی مثال دے کر لوگوں کو شکرِ خداوندی کا درس دیا ، جیسا کہ ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا (۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنی اسرآءیل: 3) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ : حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( صراط الجنان،5/419)

اس عظیم ہستی کی سیرت کے صرف دو پہلو پر ہی نظر کی جائے تو اچھی زندگی گزارنے کا ایک اچھا نمونہ ملتا ہے کہ انسان کامل اور مضبوط ایمان والا بنے کہ صرف زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا نہ پھرے بلکہ اپنے عمل کے ذریعے کامل ایمان ہونے کا ثبوت دے تاکہ اللہ پاک اسے بلند درجہ ایمان والوں میں رکھے۔ دوسرا کامل مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خدا کا شکرگزار بندہ بنے۔ شکر گزاری کی فضیلت خود ربِ ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے کہ: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ ۔ ترجمۂ کنزالعرفان: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔(پ13،ابراھیم:7) اور شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک جب کسی قوم سے بھلائی کا اِرادہ فرماتا ہے توان کی عُمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف، 1/148، حدیث: 954) گویا کہ بندے کا شکر گزار ہونا بھی اللہ پاک کا خاص کرم ہے اور بندہ جب کسی نعمت پر شکر گزاری کرتا ہے تو رب کریم اسے وہ نعمت اور زیادہ عطا فرماتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


حضرت آدم علیہ السّلام کے دنیا سے وصالِ ظاہری فرمانے کے بعد اللہ پاک نے اپنے اُولُو الْعَزم رسولوں میں سے ایک رسول حضرت نوح علیہ السّلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ لوگوں تک دعوت اِلَی اللہ کا فریضہ انجام دیں۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السّلام کو بہت سے اوصافِ حمیدہ اور عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائیں۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے سب سے پہلے رسول ہیں۔(مسلم، ص103، حدیث:475) اور آپ آدمِ ثانی کے لقب سے بھی مشہور ہیں کیونکہ طوفانِ نوح میں فقط آپ علیہ السّلام کی قوم کے کچھ لوگ باقی رہ گئے تھے جو کشتی میں سوار تھے اور انہی سے نوعِ انسان کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آپ صائمُ الدھر (یعنی عید الفطر و عید الاضحیٰ کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے) تھے، (سیرت الانبیاء، ص161 ملخصاً) آپ علیہ السّلام کا نام یشکریا عبدالغفّار (صراط الجنان، 3/347) اور آپ کا مبارک لقب ”نوح“ ہے۔ یہ لقب آپ کا اس لئے رکھا گیا کیونکہ آپ اللہ پاک کے خوف کے سبب اس کی بارگاہ میں کثرت کے ساتھ گریہ وزاری کیا کرتے تھے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السّلام کا قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔آیئے حضرت نوح علیہ السّلام کے 5 قراٰنی اوصاف پڑھتے ہیں :

(1)دعوتِ دین پر استقامت:آپ علیہ السّلام 950 سال سے زائد اپنی قوم میں تشریف فرما رہے۔اور آپ اتنے طویل عرصے تک اپنی قوم کو استقامت کے ساتھ دین کی دعوت دیتے رہے، اس دوران آپ نے سخت آزمائشوں اور تکالیف کا سامنا بھی کیا۔ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۴) ترجَمۂ کنز العرفان: اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر اس قوم کو طوفان نے پکڑ لیا اور وہ ظالم تھے۔ (پ20، العنکبوت: 14)آپ علیہ السّلام کا یہ وصف قراٰنِ پاک کی اس آیت سے روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

(2)شکر گزار بندہ:اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳)ترجَمۂ کنز الایمان: اے ان کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا ہے بے شک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔ (پ15،بنیٓ اسرآءِیل: 3)

(3)نبوت و کتاب:اللہ پاک نے نبوت وکتاب آپ کی اولاد میں رکھی یعنی آپ علیہ السّلام کے بعد دنیا میں جتنے نبی مبعوث ہوئے وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے اور تمام آسمانی کتابیں بھی آپ علیہ السّلام کی اولاد میں مشہور ہستیوں کو عطا ہوئیں۔ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ ترجَمۂ کنز الایمان : اور بے شک ہم نے ابراہیم اورنوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ (پ27،الحدید: 26)

(4)ذکرِ جمیل:آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ کے بعد والوں (انبیا و رُسل و اُمم) میں آپ علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ٘ۖ(۷۸)ترجَمۂ کنز الایمان : اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23،الصّٰفّٰت:78)

(5)کامل الایمان بندے:قراٰنِ کریم میں ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔(پ23،الصّٰفّٰت:81)

محترم قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کی مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔


پچھلے دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے تحت ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے ڈسٹرکٹ نصیر آباد میں صوبائی وزیر ریونیو میر سکندر خان عمرانی کے بیٹے میر صفدر  عمرانی کو ڈیرہ مراد جمالی کا چیئرمین میونسپل کمیٹی اور شاہ محمد ہاڑا کو وائس چیئرمین بننے پر مبارکباد دی۔

اس دوران ذمہ داران میں موجود گلزار احمد عطاری، قاری امیر بخش عطاری اور محمد ابراہیم عطاری نے شخصیات سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف کروایا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت ڈھاڈر ضلع کچھی بولان میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے سابق چیئرمین میونسپل کمیٹی ڈھاڈر اور سادات قبیلے کے قبائلی رہنما سیّد محمد علی شاہ دوپاسی سے ملاقات کی۔

اس موقع پر ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے سیّد محمد علی شاہ دوپاسی سے دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پر ہونے والی دینی و فلاحی خدمات کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا اور چند اہم نکات پر مشاورت کی۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

صوبہ پنجاب پاکستان کے ضلع لودھراں میں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے تحت پچھلے دنوں ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی معروف سیاسی و سماجی  شخصیت، چیئرمین ابنِ زینت فاؤنڈیشن و بزنس ٹائیکون ملک حبیب کھوکھر سے ملاقات ہوئی۔

دورانِ ملاقات ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شخصیت کو عمرہ کی ادائگی پر مبارکباد دیتے ہوئے انہیں مکتبۃ المدینہ کی کتاب تحفے میں پیش کی نیز اس موقع پر سینئر صحافی رانا عامر محمود سے بھی ملاقات ہوئی۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


گزشتہ روز دعوتِ اسلامی کے تحت شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے دینی کاموں کے سلسلے میں SP لیگل خضدار عبد الجبار مگسی سے ملاقات کی۔

اس دوران صوبائی ذمہ دار محمد وقار عطاری نے SP سے دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پرہونے والی دینی و فلاحی کاموں کے متعلق گفتگو کی اور انہیں حیدر آباد میں قائم مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کا وزٹ کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے ضلع مٹیاری کے  ڈپٹی کمشنر سیّد جواد حسین شاہ سے ملاقات کی۔

معلومات کے مطابق ذمہ داران نے ڈپٹی کمشنر کو دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف کرواتے ہوئے مدنی قافلے میں سفر کرنے کی دعوت دی نیز سیمینار میں ماہانہشارٹ کورسز کروانے پر مشاورت ہوئی۔

بعدازاں ذمہ داران نے ڈپٹی کمشنر کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کا وزٹ کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا ۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پاکستان کے ضلع مٹیاری میں گزشتہ روز دعوتِ اسلامی کے تحت شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے دینی کاموں کے سلسلے میں  SP ملک کلیم سے ملاقات کی۔

اس دوران ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے SP کو دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کا وزٹ کرنے اور شارٹ ٹائم کورسز میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔آخر میں ذمہ داران کی جانب سے SP کو قراٰنِ پاک تحفے میں پیش کیا گیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں ضلع بولان صوبہ بلوچستان کی تحصیل ڈھاڈر میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے چیئر مین میونسپل کمیٹی ڈھاڈر اور قبائلی و سیاسی رہنما سیّد فرید شاہ دوپاسی سے ملاقات کی۔

دورانِ ملاقات صوبائی ذمہ دار محمد وقار عطاری نے سیّد فرید شاہ دوپاسی کو میونسپل کمیٹی کے چیئرمین بننے پر مبارکباد دی نیز دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا ۔

بعدازاں صوبائی ذمہ دار محمد وقار عطاری نے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کا وزٹ کرنے کی دعوت پیش کی جس پر انہوں نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)