اللہ پاک نے علمائے کرام کو بڑا مقام و منصب عطا فرمایا ہے حتیٰ کہ انبیائے کرام کے وارث بننے کا منصب بھی علما ہی کو ملا ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے اہل علم کو دیگر فضائل کے ساتھ ساتھ اپنی وحدانیت پر گواہ بھی بنایا ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے: شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا۔(پ3 ، آل عمران :18)

نیز احادیث مبارکہ میں بھی علمائے کرام کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا: إِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ (سنن ابو داؤد کتاب العلم ،حدیث : 3641 )

نیز علما ہی تو ہیں جو لوگوں کو راہِ راست پر لاتے ہیں شریعت کے احکام سکھاتے ہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر شخص کو زندگی کے ہر شعبہ میں علما کی رہنمائی کی سخت حاجت ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن بھی لوگوں کو علما کی حاجت ہوگی ۔

علمائے کرام کی اتنی اہمیت و فضائل کے باوجود آج لوگ علما سے دور ہیں بلکہ علما کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں اسی مناسبت سے علمائے کرام کے چند حقوق بیان کیے جا رہے ہیں تاکہ ان پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے عمل میں بہتری لا سکیں ۔

(1)علما سے حصولِ علم اور وابستگی: ہر شخص کو چاہیے کہ وہ علما سے علم دین حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے اور علما سے وابستہ رہے اور علما کی مجلس میں حاضر ہوتا رہے اور کم از کم ایک صحیح العقیدہ سنی عاشق رسول عالم دین سے اچھا رابطہ ہونا چاہیے اس کے کئی فوائد ہیں ۔

مجلس علما کے سات فائدے: (حضرت سیدنا) فقیہ ابواللیث سمرقندی (رحمۃُ اللہِ علیہ) فرماتے ہیں کہ جو شخص عالم کی مجلس میں جاوے اُس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں اگر چہ اس سے استفادہ (کوئی فائدہ حاصل) نہ کرے۔(1) جب تک اس مجلس میں رہتا ہے گناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔ (2) طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔( 3) طلب علم کا ثواب پاتا ہے۔(4) اس رحمت میں کہ جلسہ علم (علم کی مجلس) پر نازل ہوتی ہے شریک ہوتا ہے۔(5) جب تک علمی باتیں سنتا ہے عبادت میں ہے۔(6) جب کوئی دقیق (مشکل) بات اُن (علما) کی اس کی سمجھ میں نہیں آتی (تو) دل اس کا ٹوٹ جاتا ہے اور شکستہ دلوں (ٹوٹے دل والوں) میں لکھا جاتا ہے۔ (7) علم و علما کی عزت اور جہل وفسق (بے علمی وبرائی) کی ذلت سے واقف ہو جاتا ہے۔ (فیضانِ علم علما، ص 29)

خلاصہ: جب صرف عالم کی مجلس میں بیٹھنے کے اتنے فوائد ہیں تو جو علم دین حاصل کرنے اور خدمت کی نیت سے حاضر ہوگا اس کو کتنے فوائد حاصل ہونگے۔

خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہ علیہ نے 6 چیزوں کے متعلق فرمایا انکی زیارت کرنا عبادت ہے ان میں سے ایک چیز علما کی زیارت کرنا بھی ہے ۔(دلیل العارفین مترجم ،ص 51ضیاءالقراٰن پبلشر)

(2):علما کی اطاعت و فرمانبرداری: اہل علم کا ایک اہم حق یہ ہے کہ یہ جو دین کی باتیں بتائیں اس پر انکی اطاعت کی جائے ارشاد باری ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔(پ5، النساء : 59 )

اس آیت میں اولو الامر سے مراد دینی حکماء بھی مراد ہیں۔ جیسے عالم، فقیہ، مرشد ،لیکن دینی حکام ہوں یا دنیاوی انکی اس وقت اطاعت کی جائے گی جب وہ قراٰن و حدیث کے مخالف نہ ہو۔ (نور العرفان، ص 137 ،ملخّصًا )

ایک اور آیت میں ہے : فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔(پ 17 ، الانبيآ : 7)

بکثرت احادیث میں بھی علما کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 2 اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1) عن أبي رقية تميم بن أوس الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الدين النصيحة» قلنا: لمن؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم» حضرت تمیم داری رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی: یا رسولُ اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا : اللہ پاک کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مؤمنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص47، حدیث: 55)

(2)حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ مؤمن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ پاک کے لیے خالص عمل کرنا۔ (2 ) علما کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔ (مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ، 5 / 615، حدیث: 16738)

(3)علما کا احترام کرنا : عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ پاک عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے ،اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کو نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں۔ (الترغیب، حدیث: 169، رواه أحمد والترمذي)

ایک اور حدیث مبارکہ ہے إن من إجلال الله عز وجل: إكرام ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِل القراٰن غَيْر الغالي فيه والجافي عنه، وإكْرَامِ ذِي السُّلطان المقسط یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ : سفید ریش ، بزرگ مسلمان کے ، حامل قراٰن (حافظ ، قاری و عالم ) کی جو نہ قراٰن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والا ہو اور نہ اس سے اعراض و بے وفائی کرنے والا ہو اور منصف بادشاہ کی عزت کرنا اللہ تعالی کی عزت کرنے کے ہم معنی ہے۔ ( سنن ابو داود بتاب الادب، حدیث : 4843، سنن ابو داود بروایت ، ابو موسی )

عن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقول : اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا ، وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَةَ فَتَهْلِكَ ترجمہ : حضرت سیدنا ابوبکر ہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :عالم بنویا طالبِ علم بنو یا علمی گفتگو کو کان لگا کر سننے والے بنو، یا علم اور اہلِ علم سے محبت رکھنے والے بنو، مذکورہ چار کے علاوہ پانچویں قسم کے مت بنو، کہ ہلاک ہو جاؤ گے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تم علم اور اہل علم حضرات سے بغض رکھو ۔ (شرح مشكل الآثار ، 10/ 406 ،باب بيان مشكل ماروي عن رسول اللہ)

(4): علما کی برائی اور عیب جوئی سے بچنا : تاریخ شاہد ہے کہ دشمنانِ اسلام نے اسلام کو مٹانے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کا تعلق علمائے حق اور علمائے ربانیین سے بنا رہے گا وہ اسلام پر باقی رہیں گے۔ لہذا انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر عام مسلمانوں کو وارثینِ انبیا یعنی علماءئے حق سے دور کرنے کی سازشیں شروع کیں اور علما کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں اس قدر نفرت اور دوری پیدا کی کہ وہ صحیح اسلام سے دور ہوگئے۔ اور لوگ علما کی برائیاں کرنے لگے اور بغض رکھنے لگے حتی کہ کچھ لوگوں نے مولوی اور ملا کو گالی بنا لیا ۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زِیاں جاتا رہا

اگر اہل علم کے عیوب کو برملا بیان کیا گیا تو اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ اعتماد نہ صرف اہل علم سے اٹھے گا بلکہ علم دین سے بھی اٹھ جائے گا لہذا ہر وقت ہمیں احتیاط کرنی ہے کبھی بھی علمائے حق کے بارے میں زبان درازی نہیں کرنی ۔

عالم کی توہین کے حوالے سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : عالم کی توہین کی تین صورتیں ہیں : (1) اگر عالم (دین) کو اس لئے بُرا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے (2) اور بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنیوی خُصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے (گالی دیتا ہے اور) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے (3) اور اگر بے سبب (بلا وجہ ) رنج (بغض) رکھتا ہے تو مَرِيضُ القَلْبِ وَخبيتُ الباطن (دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس (خواہ مخواہ بغض رکھنے والے ) کے کفر کا اندیشہ ہے۔ خلاصہ (کتاب) میں ہے: من اَبغَضَ عَالَمَا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيْفَ عَلَيْهِ الكُفر یعنی جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، ج21/ 129، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )

نوٹ: مزید علم دین و علما کی توہین کے متعلق احکامات معلومات حاصل کرنے کے لیے امیر اہلسنت کی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب صفحہ نمبر242تا 359 مطالعہ فرمائیں ۔

(5) علما کی خدمت کرنا : فی زمانہ علما کی خدمت کرنے کی سخت حاجت بھی ہے اور اس کے فوائد دنیا میں ملنے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی بڑے فوائد حاصل ہونگے یہاں تک کہ لوگ علمائے کرام کے پاس بھی سفارش طلب کرنے آئیں گے کہ ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھردیا تھا، کوئی کہے گا ہم نے فلاں خدمت کی تھی آپ کی،علما ان تک کی شفاعت کریں گے۔(بہار شریعت،1/141ملخصاً)

خلاصہ: مسجد و مدرسہ اذان و نماز و اسلام آج بھی صرف اور صرف علما کے دم سے قائم ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک مدارس مساجد اور علما کے دم سے قائم و دائم رہیں گے صبح محشر تک یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کے کلمات سے منوّر رہے گی علما کی کمزوریوں، خامیوں کے باوجود وہی اس دین کے اصل نگہبان ہیں۔ تمام توقعات انہی سے ہیں، ان کے وجود کے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ علما ہی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مسند اور ان کے علم کے اصل وارث ہیں۔ ان کی عزت، ان سے محبت، ان کی تقلید ،ان کی اتباع ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔ جو معاشرہ اور تہذیب علما کی عزت نہیں کرتی یا عزت تو کرتی ہے مگر ان کے حکم کی تعمیل نہیں کرتی۔ وہ تہذیب جلد صفحہ ہستی سے مٹادی جاتی ہے یا عبرت کی ایک شرمناک داستان بن جاتی ہے ۔

اللہ پاک ہمیں علما کے حقوق کی رعایت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


دینِ اسلام حقوق کا دین ہے اس میں ہر ایک کے دوسرے پر کیا کیا حقوق ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، حکمرانوں کے حقوق ، رعایا کے حقوق وغیرھم ۔

ہم علمائے کرام کثرھم اللہ کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ علما کو اللہ پاک نے بہت بڑا مرتبہ و مقام عطا فرمایا اور قراٰن و حدیث میں ان کی شان بیان ہوئی اسی طرح قراٰن و حدیث میں ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے کہ علما کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ۔

(1) علما کا احترام کرنا : علما کا ایک بنیادی اور بہت اہم حق یہ ہے کہ ان کا دل و جان سے احترام کیا جائے چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہوا کہ بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا ، حامل قراٰن ( عالم ) کی تعظیم کرنا جو کہ قراٰن میں غلو کرنے والا اور قراٰن سے کنارہ کشی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی تعظیم کرنا اللہ کی تعظیم کا ہی ایک حصہ ہے ۔(ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی تنزیل الناس منازلہم ، حدیث: 4873)

اسلافِ امت رحمہم اللہ بھی علما کا احترام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس خود ایک جید عالم ہونے کے باوجود زین بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سواری کی مہار تھامے اور فرمایا : ہمیں اپنے علما اور بڑے بزرگوں کا اسی طرح ادب بجا لانے کا حکم دیا گیا ۔

(2) علما سے علم کا حصول: حقوقِ علما میں سے یہ بھی ہے کہ ان سے علم حاصل کیا جائے چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو علم کی تلاش میں چلے گا اللہ اس کے ذریعے اس شخص کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دے گا ۔(سنن ابی داؤد ، کتاب العلم ، حدیث: 3640)

(3) علما کی برائی سے بچنا: علما کی گستاخیاں ، ان پہ طعنہ زنی کرنا اور ان کی برائی کرنا عموماً گمراہ لوگوں کا کام ہوتا ہے علما کی برائی سے بچنا لازم ہے۔ چنانچہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ اگر عالم کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت ( جھگڑے ) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ، تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ( ڈر ) ہے۔(فتاوی رضویہ، 21 / 130)

(4) ہم عصر علما کے آپسی اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا: جرح و تعدیل میں علما کے اقوال اور ان کی آپس میں ایک دوسرے کے متعلق باتیں یہ ایک علمی معاملہ ہے اس میں اختلاف ہوتا رہتا ہے جس میں ہم پہ لازم و ضروری ہے کہ صحیح العقیدہ علما کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات کرنے سے اجتناب برتیں جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہے اسی لیے علما نے فرمایا کہ ہم عصروں ( ایک دور کے لوگ ) کی آپسی چپقلش کو سمیٹا جائے گا عام نہیں کیا جائے گا۔

علما پر اعتماد قائم رکھنا: بعض اوقات عوام علما سے کسی ایسے امر کا مطالبہ کرتے ہیں جس کو علما نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کام کے انجام اور نتائج پہ نظر رکھتے ہیں کیونکہ بعض مصلحتوں کے لیے اس کام کو نہیں کیا جاتا کہ یہ آگے جا کے کسی فساد و برائی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا فلہذا کبھی کوئی ایسا معاملہ ہو تو علما پہ یقین رکھیں علما پہ اعتماد بحال رکھیں اور بدظن ہونے سے بچتے رہیں ۔

اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کے حقوق بجا لانے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


خیانت کی تعریف: اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے ۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص175)

اللہ پاک قراٰن پاک میں فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)

خیانت کا حکم : ہر مسلمان پر امانت داری واجب ہے اور خیانت کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص175)

احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائے :

حدیث نمبر (1) نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاارشادِ حقیقت بنیاد ہے: ’’تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز،رو زہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو: (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔( مسلم،کتاب الایمان ،باب بیان خصال المنافق، ص 50، حدیث: 107)

حدیث نمبر (2) رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وان علم نے کہ نہ بغیر پاکی کے نماز قبول اور نہ خیانت کے مال سے صدقہ و خیرات قبول ہے۔( مراٰة المنا صحیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 1، حدیث: 301)

حدیث نمبر (3) حضور نبی اکرم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کرتے تھے الٰہی میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بری بستر کی ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین مشیر کار ہے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4 ،حدیث: 2469)

حدیث نمبر (4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شخص کو پاؤ کہ وہ اللہ پاک کی راہ میں خیانت کرے تو اس کا سامان جلا دو اور اسے مارو۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث : 3633)

حدیث نمبر (5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مؤمن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جا سکتا ہے سواء خیانت اور جھوٹ کے ۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد، 6 حدیث : 4860)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خیانت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین 


خیانت کی تعریف : اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔( باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص175)

(1) حدیث مبارک: نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاارشادِ حقیقت بنیاد ہے: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز،رو زہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو: (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔( مسلم،کتاب الایمان ،باب بیان خصال المنافق، ص 50، حدیث: 107)

(2) حدیث مبارک : روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ نہ بغیر پاکی کے نماز قبول اور نہ خیانت کے مال سے صدقہ و خیرات قبول ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 1 حدیث : 301)

(3) روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کرتے تھے الٰہی میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بری بستر کی ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین مشیر کار ہے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4 ،حدیث: 2469)

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شخص کو پاؤ کہ وہ اللہ پاک کی راہ میں خیانت کرے تو اس کا سامان جلا دو اور اسے مارو۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث : 3633)

(5) فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ مؤمن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جا سکتا ہے سواء خیانت اور جھوٹ کے ۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد، 6 حدیث : 4860)

ترغیب : ان تمام روایات سے سبق ملا کہ خیانت سے بچنا ہی چاہئے کیونکہ ہر مسلمان پر امانتداری واجب اور خیانت کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ خیانت کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ ان شاء الله

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خیانت اور تمام کبیرہ و صغیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں خیانت کرنا کبیرہ گنا ہوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے کلام پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)اور احادیثِ کریمہ میں بھی متعدد مقامات پر اس کی مذمت وارد ہوئی ہے اُن میں سے چند احادیث پیش نظر کرتا ہوں:۔

(1)شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ہم تم میں سے جسے کسی کام پر عامل بنائیں پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی شے چھپائے تو یہ وہ خیانت ہو گی جسے وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ ایک انصاری نے کھڑے ہو کر عرض کی، يا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میری ذمہ داری مجھ سے لے لیجئے۔ سرکارِ مدينہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دریافت فرمایا : تمہیں کيا ہوا؟'' اس نے عرض کی: میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسا ايسا فرماتے سنا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں اب بھی يہی کہتا ہوں کہ ہم تم میں سے جسے کسی کام پر عامل بنائیں اور وہ قلیل و کثیر لے آئے پھر اسے جو کچھ ديا جائے لے لے اور جس سے منع کيا جائے اس سے باز آجائے۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ ، باب تحریم ھدایا العمال،ص 1007،حدیث:4743)

(2) رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سيدناسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمايا:اے ابووليد! اللہ سے ڈرو، قيامت کے دن اس طرح مت آنا کہ تم نے ايک بلبلاتا ہوا اونٹ،ڈکراتی ہوئی گائے يامنمناتی ہوئی بکری اٹھا رکھی ہو۔ انہوں نے عرض کی،يا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کيا ايسا بھی ہو گا؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہاں! اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت ميں ميری جان ہے! انہوں نے عرض کی،(مجھے بھی) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھيجا! ميں کبھی بھی کسی چيز پر عامل نہيں بنوں گا۔(السنن الکبری للبیہقی،کتاب الزکاۃ،باب غلول الصدقۃ،4/267،حدیث: 7663)

(3) حضورِ اکرم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے : عنقريب تم پر مشرق و مغرب کی زمينوں کے دروازے کھل جائيں گے لیکن ان کے عمال (یعنی حکمران) جہنمی ہوں گے سوائے اس کے جو اللہ پاک سے ڈرے اور امانت ادا کرے ۔ (المسندللامام احمد بن حنبل، أحادیث رجال من اصحاب النبی، 9/44،حدیث: 23170)

(4) نبی کريم، ر ء ُ وف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:صدقہ کے مال ميں ظلم کرنے والا صدقہ روک لينے وا لے کی طرح ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب الزکاۃ ، باب ماجاء فی المتعدی فی الصدقۃ ،حدیث: 646،ص1710)


خیانت ایک مذموم صفت ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّؕ-وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۱۶۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔(پ4 ، آل عمران : 161)

اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

احادیث میں بھی خیانت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ

(1) سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہنمیوں میں ایسے شخص کو بھی شمار فرمایا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خیانت کا مرتکب کر دے۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص1532، حدیث: 2865)

(2)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ (مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک بن النضر، 4 / 271، حدیث: 12386)

(3) حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، 8 / 276، حدیث: 22232)

(4) حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ، 3/ 93، حدیث: 2716)

(5) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے ۔(تاریخ بغداد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ، 1/ 360)

اللہ پاک ہمیں خیانت جیسی مذموم صفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


خیانت کی تعریف: اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص 175)

(1) حدیث مبارک: نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد حقیقت بنیاد ہے: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3) جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے (مسلم، کتاب الایمان، ص 50 ،حدیث : 107)

(2) حدیث مبارک : روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ نہ بغیر پاکی کے نماز قبول اور نہ خیانت کے مال سے صدقہ و خیرات قبول ہے۔(مراۃ المناجیح)

(3) روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کرتے تھے الٰہی میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بری بستر کی ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین مشیر کار ہے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد : 4)

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شخص کو پاؤ کہ وہ اللہ پاک کی راہ میں خیانت کرے تو اس کا سامان جلا دو اور اسے مارو۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث : 3633)

(5) فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ مؤمن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جا سکتا ہے سواء خیانت اور جھوٹ کے ۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد، 6 حدیث : 4860)

ان تمام روایات سے سبق ملا کہ خیانت سے بچنا چاہیے کیونکہ ہر مسلمان پر امانت داری واجب اور خیانت کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ خیانت کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ ان شاء الله

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خیانت اور تمام گنا ہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


وعدہ خلافی ،جھوٹ بولنا ،گالی دینا ،کسی کی بے عزتی کرنا، ناپ تول میں کمی اس طرح کی دیگر کئی ایسی برائیاں جس کی وجہ سے حقوقُ اللہ یا حق العبد پامال ہوتے ہوں قراٰن و حدیث میں ان سب کے متعلق تعلیمات دی گئی ہیں ان سے بچنے کا حکم اور انکی مذمت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان ان سے بچیں۔ انہی برائیوں میں سے ایک برائی خیانت بھی ہے خیانت امانت کی ضد ہے۔

خیانت کی تعریف : اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص175)

عموماً خیانت صرف مال میں سمجھی جاتی ہے حالانکہ خیانت کا مفہوم وسیع ہے۔ خیانت شریعت میں ،دین میں، وعدہ کی خلاف ورزی کرنا اسی طرح اپنے عہدہ و منصب کے اصول و ضوابط کے مطابق کام نہ کرنا بھی خیانت میں آتا ہے ۔

یہ سب قراٰن پاک میں مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی و انتظامی، دینی اور دنیاوی امور میں بھی ہے، ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے ،لہذا ہر شخص کا اپنے عہدہ و منصب کے مطابق امانت داری کا خیال کرنا ضروری ہے ۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی ۔(پ 4 ، آل عمران :161)

اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲) وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: کم تولنے والوں کے لئے خرابی ہے۔ وہ لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں۔ اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ۔ (پ30 ، المطففین ، 1تا3)

شان نزول: جب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو اس وقت یہاں کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ ناپ تول میں خیانت کرتے تھے اور خاص طور پر ابوجُہَینہ ایک ایسا شخص تھا جس نے چیزیں لینے اور دینے کے لئے دو جدا جدا پیمانے رکھے ہوئے تھے ۔ان لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔(صراط الجنان، جلد 10)احادیث میں بھی خیانت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ

خیانت کرنے والے کا کوئی ایمان نہیں: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ یعنی جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔(مسند امام احمد، مسند انس بن مالک ،حدیث : 13373)

مؤمن خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا: حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا، إِلَّا الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ“ مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی حدیث : 22170)

خیانت کرنا منافق کی نشانی ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آيةُ المُنافِقِ ثلاثٌ: إذا حدَّثَ كذَبَ، وإذا وعَدَ أخلَفَ، وإذا ائْتُمِنَ خَانَ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری ،ص 294)

خلاصہ: جس طرح خیانت کرنے کی مذمت بیان ہوئی ہے اسی طرح خیانت سے بچنے والے کے لیے اجرو ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ۔

حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ : الْكِبْرِ، وَالدَّيْنِ، وَالْغُلُولِ یعنی جو شخص اس حال میں مَرا کہ وہ تین چیزوں سے بَری تھا: تکبر، خیانت اور دَین (قرض)،تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔(مسند احمد، مسندالانصار، حدیث :22434)

اللہ پاک ہمیں خیانت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


خیانت امانت کی ضد ہے۔ خفیۃً کسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے خواہ اپنا حق مارے یا اللہ ورسول کا یا اسلام کا یا کسی بندہ کا۔(مرأة المناجیح، 4/76، حسن پبلشرز)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی بلکہ راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مرأة المناجیح، 1/197، حسن پبلشرز) ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں : خیانت کی بہت صورتیں ہیں، خیانت سے مراد مال مار لینا یا مراد ہر فسق و بدکاری ہے، کیونکہ گناہِ کبیرہ کرنا یا گناہِ صغیرہ پر اَڑ جانا اور اسے کرتے رہنا فسق ہے اور ہر فسق خیانت ہے کہ اس میں حقُ اللہ اور حقِ شرع کا مارنا ہے، اس لیے ہر فاسق خائن ہے۔(مرأة المناجیح، 5/427، حسن پبلشرز)

احادیثِ کریمہ کی روشنی میں خیانت کی مختلف صورتیں بیان ہوئیں ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو شخص اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ دے اور جانتا ہو کہ بہتری اس کے علاوہ ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔(مرأةالمناجیح،ج 1، حدیث:224،حسن پبلشرز)

دعائے مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اے اللہ ! میری آنکھ کو بددیانتی سے پاک رکھ کیونکہ تو خیانت والی آنکھ کو جانتا ہے ۔ (مرأةالمناجیح،ج4،حدیث:2387،حسن پبلشرز)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ: خیانت والی آنکھ سے مراد چور نظری کرنے والی آنکھیں ہیں، کَن انکھیوں سے ناجائز چیزوں کو دیکھنا چور نظری ہے۔ (مرأة المناجیح، 4/98، حسن پبلشرز)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کو کام سپرد کر دیا اور اُس کی رعایا میں اس سے بہتر موجود تھا تو اُس نے اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور جماعت مسلمین کی خیانت کی۔( بہارِ شریعت، حصہ12 ،2/894)

رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہو۔(مرأةالمناجیح،ج6،حدیث: 4627،حسن پبلشرز)

قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے واضح لفظوں میں ارشاد فرما دیا کہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور بندوں کی امانتوں میں خیانت نہ کرو جیسا کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)

احادیثِ کریمہ میں بھی خیانت کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے ، ان احادیث میں سے چند ایک مندرجہ ہیں:

دعائے مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اے اللہ ! میں خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین مشیر کار(یعنی پیٹ میں خفیہ بات چھپانا) ہے۔ (مرأةالمناجیح،ج4،حدیث:2355، حسن پبلشرز)

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : کوئی والی جو مسلمان رعیت کا والی بنے پھر ان پر خیانت کرتا ہوا مر جائے تو اللہ پاک اس پر جنت حرام فرما دے گا۔(مرأةالمناجیح،ج5،حدیث :3516،حسن پبلشرز)

نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ: دھاگہ اور سوئی تک ادا کرو اور خیانت سے بچو کہ یہ خیانت قیامت کے دن خائن پر عار (رکاوٹ) ہوگی۔ (مرأةالمناجیح،ج5،حدیث: 3846، حسن پبلشرز)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ: مؤمن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جاسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔(مرأةالمناجیح،ج6،حدیث:4642،حسن پبلشرز)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب کسی قوم میں خیانت ظاہر ہوجائے تو اللہ پاک ان کے دلوں میں رعب (یعنی کم ہمتی اور دشمن کا خوف) ڈال دیتا ہے۔ (مرأةالمناجیح،ج7، حدیث:5132،حسن پبلشرز)

اللہ پاک ہمیں ہر طرح کی خیانت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین


اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے ، پرورد گار عالم نے جو قوانین و اصول اپنے بندوں کے لئے وضع فرمائے ہیں ان کو لفظِ امانت سے یاد کیا ہے اور متعدد مقامات پر خیانت سے بہت سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)خیانت کا پہلا سبب بدنیتی ہے۔ جس طرح اچھی نیت اخلاق و کردار کے لئے شفا اور اکسیر کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح بد نیتی کا زہر بندے کے اعمال کو بے ثمر بلکہ تباہ برباد کر دیتا ہے ، چنانچہ ایک شخص نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت کب آئے گی ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب امانت میں خیانت ہو تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس شخص نے پوچھا امانت میں خیانت کیا ہے ؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: امانت میں خیانت یہ ہے کہ معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں۔ (بخاری،کتاب العلم،حدیث:59)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے ۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے ، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔( مسند احمد،مسند عبداللہ بن مسعود،2/33،حدیث:3672)

تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد اپنی غذا پاک کر لو مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئےآ گ زیادہ بہتر ہے ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے پھر اپنی وصیت میں اتفاق سے کام لیتا ہے تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔

ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ پاک ہمیں برے کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین ۔ 


اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرُّف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔(عمدةالقارى، کتاب الایمان، باب علامات المنافق، تحت الباب:24،328/1) انسان اگر انصاف سے کام لے گا تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوگا اور وہ جنت میں داخل ہوگا اور اگر خیانت کرے گا تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوگا اور وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ یہ ایک ایسی بری عادت ہے کہ قراٰن و حدیث میں اس سے بچنے کا حکم اور کرنے والے کی مذمّت کی گئی ہے۔ چنانچہ قراٰن کریم پارہ 9، سورۂ انفال کی اٰیت نمبر 27 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)

اسی طرح احادیث میں بھی خیانت کی مذمّتیں وارد ہوئی ہیں انہیں میں سے پانچ احادیثِ کریمہ پڑھیں اور اپنے آپ کو اس بری عادت سے بچائیں۔

)1)بغیر حساب کتاب کے جہنم میں داخل کیا جائے گا: حضرت فُضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کردیا جائے گا،‌ ان میں سے ایک) وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر) نے اس کی دنیاوی ضروریات (نان نفقہ وغیرہ) پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت کی۔(الترغیب والترہیب، کتاب البیوع وغیرہ، ترہیب العبد من الاباق من سیّدہ،3/18، حدیث:4)

(2) صدقہ قبول نہیں ہوگا: رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے‌ ارشاد فرمایا: اللہ پاک بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں‌ فرماتا اور‌ خیانت کے مال سے صدقہ قبول نہیں‌ کرتا۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب وجوب الطہارة للصلاة، ص140، حديث:224)

(3) منافق کی تین باتیں: نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز، روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو:(1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3) جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، ص50، حدیث:107)

(4) مال جلا دیا اور پٹائی بھی لگائی: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‌ کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے کے مال کو جلا دیا اور خائن کی پٹائی بھی لگائی۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی عقوبة‌ الغال،3/93،‌‌ حدیث:2715)

لہذا ایک کامل مؤمن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ خیانت پیدا کرنے والے اسباب پر غور کرے اور اس کی درستگی کے لئے کوششیں کرتا رہے۔ جیسے بد نیّتی دھوکہ دہی بری صحبت نفسانی خواہشات کی تکمیل وغیرہ اور ان سب سے بچنے کے لئے ان کُتُبِ اَحادیث کا مطالعہ کرے جن میں ان تمام چیزوں سے متعلق مذمّتیں بیان ہوئی ہیں جیسے باطنی بیماریوں کے بارے میں معلومات، 76 کبیرہ گناہ وغیرہ۔

اللہ پاک ہمیں خیانت سے بچنے اور امانت داری اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النّبیِّ الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


خوف ِ خدا اور فکر ِآخرت رکھنے والے مسلمان کے لئے چاہئے کہ وہ خیانت نہ کرے لیکن نہایت افسوس ہے کہ مسلمانوں میں اکثر مالی معاملات کے حکمِ قراٰنی میں بھی بڑی کوتاہیاں واقع ہو رہی ہیں ،خیانت کرنا آج مختلف صورتوں میں مسلمانوں کے اندر بھی پایا جارہا ہے بسبب لا علمی کہ اور ایسا بد ترین گناہ ہے کہ اس کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔

اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔ )عمدةالقاری ، کتاب الایمان ،باب علامات المنافق (

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت۔(پ9، الانفال : 27)

عام طور پر خیانت کا مفہوم مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے کہ کسی کے پاس مال امانت رکھوایا پھر اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا تو کہا جاتا ہے کہ اس نے خیانت کی ، یقینا ً یہ بھی خیانت ہی ہے لیکن خیانت کا شرعی مفہوم بڑا وسیع ہے چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان لکھتے ہیں: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح،1/212)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ بُرے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور کوئی شخص ستّر برس تک جہنمیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں انصاف سے کام لیتا ہے تو اس کاخاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ،کتاب الوصایا،باب الحیف فی الوصیّۃ،3 / 305،حدیث: 2704)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے ۔ (تاریخ بغداد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ، 1 / 360)

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ، 3 / 93، حدیث: 2716)