4مئی2023ءبروز جمعرات عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ  کراچی میں موجود فیضان آن لائن اکیڈمی کی برانچ میں مدنی مشورہ ہوا جس میں اجتماعی قربانی اور آن لائن اجتماعی قربانی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔

نگرانِ مجلس فیضان آن لائن اکیڈمی گرلز سید غلام الیاس عطاری،نگران مجلس اجارہ سید اسد عطاری، اورسیز فنانس ڈیپارٹمنٹ ذمہ دار محمد شکیل عطاری نے مدنی مشورہ لیا جس میں فیضان آن لائن کے ذمہ داران کے ساتھ اجتماعی قربانی کی پلاننگ کی اور اسکا لائحہ عمل تیار کیا۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی ،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


مسلمانوں کے عقائد و نظریات کی  حفاظت کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی جانب سے4 مئی 2023ء بروز جمعرات فیضانِ مدینہ شیخوپورہ موڑ بس اسٹاپ گوجرانوالہ میں مدنی مشورہ منعقد ہواجس میں صوبائی ذمہ دار حاجی رضا عطاری اور ڈویژن ذمہ دار عثمان عطاری نے رمضان ڈونیشن کارکردگی کا جائزہ لیا۔

بعدازاں صوبائی ذمہ دار نے شعبے کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے نیز سابقہ 3 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا پھر اچھی کارکردگی پر تحائف بھی پیش کئے۔ علاوہ ازیں اسلامی بھائیوں کو مدنی قافلے میں سفر کرنے اور دیگر کو ترغیب دلاکرسفر کروانے کے بارے میں حاجی رضا عطاری نے تربیت کی جبکہ عشر کے حوالے سے ملاقاتوں کا ذہن بھی دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔حاضرین میں ڈویژن ذمہ دار، ڈسٹرکٹ ذمہ داران اور سٹی ذمہ داران نے شرکت کی۔(رپورٹ: محمد آفتاب عطاری شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ گوجرانوالہ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)

دعوتِ اسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت جامع مسجد اکبر مغلپورہ لاہور میں عظیم الشان یوم ِقفل مدینہ اجتماع  کا انعقادہواجس میں مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے عاشقانِ رسول کو زبان کی حفاظت کرنے پر مدنی پھول دیئے اور امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا لکھا ہوا بہت ہی پیارا رسالہ’’ خاموش شہزادہ‘‘ پڑھنے کی ترغیب دلائی۔(رپورٹ: غلام شبیر عطاری شعبہ اصلاح اعمال لاہور ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پچھلے دنوں پریس کلب کوٹ مٹھن میں ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی نے  وزٹ کیااور وہاں موجود صحافیوں، صدر پریس کلب ملک عاشق فریدی، جنرل سیکرٹری اے ڈی عامر تھہیم ،نائب صدر رانا ریاض سمیت دیگر صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔

دورانِ ملاقات ذمہ دار اسلامی بھائی نے شخصیات کو نیکی دعوت دی اور مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کا وزٹ کرنے کی دعوت پیش کی۔ اس موقع پر تحصیل نگران ناظم محمود عطاری ، ساجد رسول عطاری اور نوید الرحمن عطاری بھی تھے۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


انسان کے وجود اور کمال میں 2 شخصیات کا کردار ہوتا ہے:(1)والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ (2)استاد:جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔

حضرت امام زین العابدین نے استاد کے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق درج ذیل ہیں:

(1)اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔

(2)وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔

(3)وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔

(4)وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔

(5)اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

(6)وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کے حقوق کو یاد رکھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے لیکن اس رشتے میں ترقی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کئے جائیں۔استاد کا دل علم کا سمندر ہوتا ہے اور وہ اپنا علم اپنے شاگرد کو دینے میں ذرہ بھر خیانت نہیں کرتا۔

حق:کسی انسان کو وہ چیز دینا جس کا وہ مستحق ہے حق کہلاتا ہے۔

شاگرد جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کرے وہ علم تو شاید حاصل کرلے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے۔استاد کے حقوق پورے کرنے کے لئے پہلے حقوق جاننا ضروری ہیں۔لہٰذا استاد کے حقوق پیشِ خدمت ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اگر وہ اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اگرچہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کے سامنے عاجزی کرے کا اظہار کرے۔اس کے حق کو اپنے ماں باپ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق پر مقدم رکھے۔ جس سے اس کے استاد کو اذیت پہنچی وہ برکاتِ علم سے محروم رہے گا۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے۔اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت سمجھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

استاد کا ادب:استاد کا ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے بغیر ادب کے وہ اپنے استاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔استاد کے ادب کی وجہ سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں،ادب ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے شاگرد اپنے معلم کے نزدیک محترم بن جاتا ہے۔ادب کا وہ مقام ہے جس سے علم بھی لا علم ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس بات کا نچوڑ ہیں کہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کو اپنا روحانی باپ سمجھنا:استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔

بیمار ہونے پر عیادت:اگر استاد بیمار ہوجائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔(ترمذی، 2/290، حدیث: 971)

استاد کی غمخواری:اگر استاد کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے والدین یا کسی عزیز کی وفات ہوجائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غمخواری کرے اور حدیث ِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو کسی غمزدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گااور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جس کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔(معجم اوسط، 6/429، حدیث: 9292)

سچ بولے:طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ بولے۔استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے والے طالبِ علم کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ملاحظہ فرمائیے:سخن پروری یعنی دانستہ باطل پر اصرار ومکابرہ ايک کبيرہ،کلمات علماء ميں کچھ الفاظ اپنی طرف سے الحاق کر کے ان پر افترا دوسرا کبيرہ،علماء کرام اور خود اپنے اساتذہ کو دھوکہ دینا خصوصاً امر دين ميں تیسرا کبيرہ،يہ سب خصلتيں یہود لَعَنَھُمُ اللہُ تَعَالٰی کی ہيں۔ وقال اللہ تعالی: ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵) (پ1، البقرۃ:75) پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ہیں۔ پس اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے بچائے اور استاد کے حقوق پورے کرنے کی توفیق دے کیونکہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو شاگرد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتا ہے۔ آج اگر آپ یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہیں تو اس میں بھی آپ کے استاد کا ہاتھ ہے۔


استاد روحانی باپ ہوتا ہے جیساکہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جوشخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(والدین،زوجین اور اساتذہ کے حقوق،ص91)اسی حوالے سے ایک مقام پرنبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں۔(ابو داود، 1/37، حدیث: 8) استاد کے حقوق والدین کے حقوق کی مثل ہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ میں تو یہ ہے کہ استاد کے حق کو اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(فتاویٰ رضویہ، 23/638) استاد کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1)اطاعت و فرمانبرداری: یہ حق تو حقوقِ واجبہ میں سے ہے کہ اپنے استاد کا ہر حکم مانے، مگر جو خلافِ شریعت حکم ہو تو ہرگز نہ مانے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:لا طاعۃَ لاحد فی معصیۃ اللہ تعالی یعنی اللہ پاک کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔(مسند امام احمد،5/65)

(2)آدابِ مجلس:عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک جیسا حق ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھےاور اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی کوئی بات رد نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ، 19/452) نیز استاد کی بارگاہ میں ظاہری و باطنی مکمل توجہ کے ساتھ حاضر ہو۔

(3)حسنِ اعتقاد:شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھے۔استاد کے کسی بھی عمل کے بارے میں کوئی بدگمانی نہ کرے۔علم کا فیضان ہی تب نصیب ہوتا ہے جب ظاہری کے ساتھ باطنی طور پربھی استادکا ادب کیا جائے۔

(4) خدمت گزاری: شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے حقوقِ واجبہ کا خیال رکھے،اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے۔ (فتاویٰ ہندیہ،5/378) مزید یہ کہ جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی پیش کرے اور اگر وہ قبول کر لے تو اسے اس کا احسان اور اپنی سعادت مندی تصور کرے۔

(5)دعائے خیر:شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے۔امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں جب بھی اپنے والدین کے لیے دعا کرتا ہوں تو اپنے استاد کے لیےضرور دعا کرتا ہوں۔امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں اپنے والدین سے بھی پہلے استاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔ (حالات، کمالات، ملفوظات امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،ص113)ان کے علاوہ بھی استاد کے کثیر حقوق ہیں کہ روزانہ اس کا دیا ہوا سبق یاد کرے۔ استاد کی موجودگی میں آواز بلند نہ کرے اور کسی سے استاد کی برائی نہ سنے وغیرہ۔ اللہ کریم ہمیں استاد کے حقوق کما حقہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور میرے اساتذہ کو درازیِ عمر بالخیر نصیب فرمائے۔اٰمین


انسان کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات پر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی ہے،اس لئے سب سے پہلی وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی ہے۔ارشادِ ربانی ہوا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔

استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو اپنے شاگرد کی طرف ٹرانسفر کرتا ہے۔

ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ ترجمہ:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کے حقوق:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے!فرمایا:جب تک میرےاستاد حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے،اس لئے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔ لوگوں کو س جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔(تذکرۃ الاولیا، 1/349)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔(2)اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔(5)اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

آدابِ مجلس:استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں با ادب بیٹھنا ہے اور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔اللہ پاک ہمیں اساتذہ کرام کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ


انسانوں کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات ہر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی، اس لئے سب سے پہلے وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ تحصیلِ علم کے بارے میں تاکید فرماتے ہیں:علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) اللہ پاک نے اپنے آخری نبیﷺ کی معلم ہونے کی حیثیت سے تعریف فرمائی جن سے غافل انسانوں نے علم حاصل کیا۔اس لئے معلمی منصب نبوت قرار پایا۔ظاہر ہے کہ کسی علم کو حاصل کرنے کے لئے کسی استاد سے استفادہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر حصول علم ممکن نہیں۔اس وجہ سے استاد اور معلم ہی ہمیں اس فضیلت سے سرفراز کرنے والا ہے اور علم حاصل کرنے کے لئے استاد کے حقوق کو پورا کرنا ضروری ہے۔

استاد کے 5 حقوق:

1)ادب و احترام:شاگرد کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب و احترام کرے۔نبیِ کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں استاد روحانی باپ ہے چانکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے اس لئے استاد کا مادی باپ سے بھی زیادہ عزت و احترام کا مستحق ہے۔امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:میرے استاد حماد رحمۃ اللہ علیہ جب تک زندہ رہے میں نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہ پھیلائے۔

با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب

2)اطاعت و فرمانبرداری:شاگرد کا فرض ہے کہ وہ اپنےا ستاد کی پوری طرح اطاعت و فرمانبرداری کرے۔طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد جن باتوں کا حکم دے ان پر عمل کرے اور جن باتوں سے منع کرے ان سے رک جائے۔

3)عجز و انکساری:طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ عجز و انکساری کو اپنا شیوہ بنائے۔اپنے استاد سے کبھی تکبر و غرور سے پیش نہ آئے۔طالبِ علم کو استاد کے سامنے اس طرح ہونا چاہئے جس طرح مردہ زمین پر بارش ہوتی ہے تو وہ زندہ ہوجاتی ہے۔

4)استاد سے حسنِ ظن:طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد سے حسنِ ظن رکھے۔اگر استاد کسی وقت سختی کرے تو شاگرد اس سختی کو برداشت کرےکیونکہ استاد کی سختی بھی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتی ہے۔

5)معاشی تحفظ:چونکہ معاشرہ کی ترقی میں استاد کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے،اس لئے استاد کا حق ہے کہ اسے معاشی تحفظ اور بلند معاشرتی مقام دیا جائے۔قدیم دور میں سلاطین و رؤسا اپنے بچوں کے اثالیق کی مکمل طور پر مالی سرپرستی کرتے تھے۔اب بھی ترقی یافتہ ممالک میں استاد کی قدر کی جاتی ہے اور اسے بھرپور معاشی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

6)معذرت:اگر استاد کسی وجہ سے ناراض ہوجائے تو شاگرد کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد سے معذرت کرےا ور استاد کی ناراضی دور کرنے کی کوشش کرے۔استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ کسی طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں باادب بیٹھنا ہےا ور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:ہم مسجدِ نبوی میں اس طرح بیٹھے تھے کہ گویا ہمارے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں اور ذرا سی حرکت سے اڑجائیں گی۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


طالبِ علم کے لئے استاد کا ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔طالبِ علم اور استاد کے درمیان رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔طالبِ علم کے لئے استاد کا کردار ایک باغبان کی مثل ہے۔ جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش و حفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی اسی طرح طالبِ علم کی تربیت کے لئے استاد کی توجہ اور کوشش بے حد ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔شاگرد کو چاہئے کہ وہ استاد کا دل و جان سے ادب و احترام کرے کیونکہ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو شاگرد کی طرف ٹرانسفر کرتا ہے اس کو استاد کہتے ہیں۔

استاد کے حقوق:اعلیٰ حضرت امام احمد ضاخان استاد کے حقوق بیان فرماتےہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ

(1)شاگرد استاد سے پہلے گفتگو نہ کرے۔

(2)شاگرد استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔

(3)شاگرد کو چاہئے کہ چلتے وقت استاد کےآگے نہ بڑھے۔

(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔

(5)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔

(6)اگر استاد گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

(7)استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

(8)شاگرد کو چاہئے کہ جب استاد بیمار ہو تو اپنے استاد کی سنت کے مطابق عیادت کرے۔

(9)شاگرد کو چاہئے کہ کوئی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاد سے مشورہ کرے۔

استاد کا ادب:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلو تہی فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟فرمایا:جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرانگی ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی،جب بعد میں معلومات لی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا ہے۔(تذکرۃ الاولیا،1/229)

اللہ کریم ہمیں حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا صدقہ اپنے استادوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کریم ہمیں دل و جان سے ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناراضی سے اللہ کریم ہمیں بچائے۔اٰمین اللھم اٰمین


استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے کہ وہ طالبِ علم کو دنیاوی اور دینوی دونوں کا علم سیکھاتا ہے۔ استادہی وہ شخص ہے جو ہمیں زندگی کے رنگ ڈھنگ سیکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ زندگی میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔وہ ہمیں دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا طریقہ سیکھاتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ایک لفظ کی تعلیم بھی دی ہو وہ بھی استاد ہوتا ہے اور اسے استاد کا درجہ ہی دینا چاہیے۔استاد کی ہر بات کو توجہ سے سننا چاہیے اور استاد کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے۔ استاد کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ، 1/150، حدیث: 229) تو اس کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔ استاد کے بارےمیں ارشادِ باری ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ 1، البقرۃ: 31) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

استاد کے بارے میں احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں کہ استاد کا کیا رتبہ ہے:

1)نبی ِکریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔

(التيسير، 2/454،تحت الحدیث:2580)

2)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے کسی کوقرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم كبیر، 8/112، حدیث:7528)

3)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اس کی بات کو رد نہ کرنے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)

4)علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو جس استاد نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،4/342،حدیث: 6184)

5)استاد کا شاگرد پر یہ بھی حق ہے کہ شاگرد کو بات کرنے اور چلنے میں استاذ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 98)

احادیثِ پاک سے معلوم ہوا !استاد کتنے بڑے رتبے کا مالک ہے! شاگرد کو بھی چاہیے کہ استاد کا ادب و احترام کرے، استاد کی ہر بات پر عمل کرے اور استاد کے سامنے ہمیشہ نظریں جھکا کر رکھے کیونکہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی استاد کا ادب و احترام اور ہر بات پر عمل کرنے والا شاگرد بنائے۔ ہمیں عالمِ دین بنائے اور ایمان پر خاتمہ ہو۔آمین


استاذ( یعنی معلِّم ) ہونا بہت بڑی سعادت ہے کہ ہمارے پیارے مدنی آقاﷺنے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت وکرامت کا تاج عطا فر مایا ہے، چنا نچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:انما بعثت معلما یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔(ابن ماجہ، 1/150)ایک اور مقام پر پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰےﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے کتابُ اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک”باب“ سکھایا تو اللہ پاک اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرمادیتا ہے۔(کنز الایمان، 10/61) استاذ کی اہمیت جاننے کے بعد آئیے! استاذ کےحقوق کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہیں:

1۔طالبِ علم کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ادب کرے:کسی عربی شاعر نے کہا ہے:مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَةِ

وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقَطٍ اِلَّا بِتَرْكِ الْحُرْمَةِیعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔امام شعبی نے روایت کیا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی۔ پھر سواری کا خچر لایا گیا، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی۔ یہ دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے رسول الله ﷺ کے چچا کے بیٹے ! آپ ہٹ جائیے۔ اس پر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علما و اکابر کی اسی طرح عزت کرنی چاہیے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، ص116)

2۔استاذ کو اپنا روحانی باپ سمجھے:استاذ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا طالب العلم کو چاہیے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیر کبیر میں ہے:استاذ اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر، 1/401)

3۔بیمار ہونے پر عیادت کرے:اگر کوئی استاذ بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيم سےروایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا:” جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا۔

(ترمذی،2/290، حدیث 971)

4۔استاد کی غم خواری کرے:اگر کسی استاذ کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی عزیز کی وفات ہو جائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غم خواری کرے اور حدیثِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوکسی غمزدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ پاک سے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔ (معجم اوسط،6/429، حدیث:9292)

5۔اہم معاملات میں استاذ سے راہ نمائی لے: طالبُ العلم کو چاہیے کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاذ سے ضرور مشورہ کرلے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور فقہ میں کتابُ الصلوۃ سیکھنے لگے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جب ان کی طبیعت میں فقہ میں عدم دلچسپی اور علمِ حدیث کی طرف رغبت دیکھی تو ان سے ارشاد فرمایا:تم جاؤ اور علمِ حدیث حاصل کرو کیونکہ آپ نے اندازہ لگالیا تھا کہ ان کی طبیعت علمِ حدیث کی طرف زیادہ مائل ہے۔ پس جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا اور علمِ حدیث حاصل کرنا شروع کیا تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ تمام ائمہ حدیث سے سبقت لے گئے۔ (تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص55)

باادب با نصیب بےادب بدنصیب

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرتے ہوئے ان کے حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں حقیقی کامیابیوں سے نوازے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ