1۔ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ کے سامنے دو  آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی (فضیلت)عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔ (ترمذی کتاب العلم۔ باب ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4/313 ،حدیث: 2694)

2۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اکرموا العلماء فانھم ورثۃ الانبیاء فمن اکرمھم فقد اکرم اللہ ورسولہ ترجمہ عالموں کی عزت کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں ۔ تو جس نے انکی عزت کی تحقیق اس نے اللہ و رسول کی عزت کی۔ (کنز العمال ،10/78)

3۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اول من یشفع یوم القیامۃ الانبیاء ثم العلماء ثم الشھداء ترجمہ:قیامت والے دن سب سے پہلے انبیاء شفاعت فرمائیں گے پھر علماء پھر شہداء ۔( تفسیر کبیر ،1/86)

4۔امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔( فیضان علم و علما،ص14)

5۔اورمَعالِمُ التَّنزىل مىں لکھا ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں سفر کرتا ہے فرشتے اپنے بازؤوں سے اُس پر ساىہ کرتے ہىں اور مچھلىاں درىا مىں اور آسمان وزمىن اس کے حق مىں دعا کرتے ہىں۔(ابوداود، کتاب العلم، باب فی کتاب العلم، 3/ 445، حدیث : 3641، بتغیر)


دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ علمائے دین وارثِ علم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں یہ اپنے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے مخلوق میں سے بہترین  ٹھہرے اور وحی الہی کے چشمے سے سیراب ہوکر صحرائے عرب سے نکلےاور اس کائناتِ ارضی کے گوشہ گوشہ میں دولت علم سے انسانوں کی جھولیوں میں دین اسلام کی خیرات ڈال دی وہ جہالت کے پردوں کو ہٹاتے گئے اور ظلمات کو نور سے اڑاتے گئے اسی تہذیب کے مشعل برادر علمائے ربانی کی انتھک کوشش اور محنت تھی کہ یہ آفاق کے ہر ہر گوشہ میں کلام الہی اور سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سناکر بنی آدم کو کفر اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی چاشنی سے متعارف کروا کے علم دین کی روشنی عطا کی اور سرور دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتیں سکھا کر انسان کو زندگی گزارنے کی راہ دکھائی۔یہی علمائے اسلام ہیں جنکے فضائل پر مبنی فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتب احادیث میں علیحدہ ایک عنوان کی شکل اختیار کرگئے۔

(1) روزقیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی ۔(اخرجہ الدیلمی فی مسند الفردوس 486/5 حدیث 488)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد اور دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم.ترجمہ:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے. جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4/313،حدیث: 2694)

(3) علماء نبیوں کے وارث ہیں ۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں ۔اور جب علماء انتقال کر جاتے ہیں تو مچھلیاں پانی میں قیامت تک ان کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔ (کنز العمال،10/77)

(4) خدائے تعالی قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بہشت (جنت) میں جاؤ۔ علماء عرض کریں گے:الہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔ حکم ہو گا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو ، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس (علماء پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت (جنت میں جاویں گے)۔(احياء علوم الدين، كتاب العلم ، الباب الاول في فضل العلم... الخ، 1/ 22)

(5) علمائے حق زمین میں ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جب ستارے غروب ہو جائیں گے تو یقیناً ان (ستاروں) سے راہنمائی حاصل کرنے والے بھٹک جائیں گے۔ (یعنی علماء حق نہیں ہوں گے تو عوام گمراہ ہو جائیں گے)۔(اخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 157، حدیث: 12621)


علم وہ نور ہے جس سے جہالت کے اندھیرے مٹتے اور مردہ فکر کو جِلا ملتی ہے۔علم ہی نے علما کو جہلا پر بلندی عطا کی، اور انہیں انبیاء کرام علیہم السلام کا وارث و جانشین بنایا۔ علمائے حق کی رفعت شان کا عالم یہ ہے کہ لوگ جنت میں بھی ان کے محتاج ہوں ہے۔ سرکار دو جہاں، عالمِ ما کان و ما یکون صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علماء کرام کے متعدد فضائل بیان فرمائے۔چند فرامین ملاحظہ ہوں:

(1) ابو امامہ باهِلی رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں دوشخصوں کا ذکر ہوا جن میں سے ایک عابد دوسرا عالم ہے۔ تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر۔ پھر فرمایا: اﷲ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے حتی کے چیونٹیاں اپنے سوارخوں میں اور مچھلیاں(پانی میں)صلوٰۃ بھیجتے ہیں لوگوں کو علم دین سکھانے والے پر۔(سنن الترمذی،کتاب العلم،باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ 5/ 50 ،حدیث: 2685 )مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : یہ تشبیہ بیان نوعیت کے لئے ہے نہ کہ بیان مقدار کے لئے، یعنی جس قسم کی بزرگی مجھ کو تمام مسلمانوں پر حاصل ہے اس قسم کی بزرگی عالم کو عابد پر، اگرچہ ان دونوں بزرگیوں میں کروڑ ہا فرق ہیں۔(مراٰۃ المناجیح ، 1 / 195 ملتقطاً)

(2)ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(سنن ابن ماجہ،المقدمۃ،باب:فضل العلماء و الحث علی طلب العلم، 1/ 81، حدیث: 222 )

(3) ابو موسیٰ اشعری رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک قیامت کے روز اپنے بندوں کو اٹھائے گا پھر علما کو ان سے الگ کرکے فرمائے گا: اے علما کے گروہ! میں نے تمہیں اپنا علم اس لیے نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب دوں۔ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔)المعجم الاوسط ،4 / 302 ،حدیث :4264 (

(4)جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم اور عابد کو (روز قیامت) اٹھایا جائے گا۔ عابد سے کہا جائے گا: تُو جنت میں داخل ہو جا اور عالم سے کہا جائے گا: تُو ٹھہر جا یہاں تک کہ لوگوں کی اچھی تربیت کے بدلے اُن کی شفاعت کرلے۔ (شعب الایمان ، 2 / 268 ،حدیث: 1717 )

(5)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ کا پتا چلتا ہے اور اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔(مسند للامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک، 4/314،حدیث:12600 )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم حاصل کرنے کا ذوق و شوق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن و حدیث میں علماءکرام کی بہت شان بیان کی گئی ہے۔ان کی فضیلت کے لیے  تو ایک فرمان باری تعالی ہی کافی ہے جس میں اللہ پاک نے فرمایا:اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28) مگر تحصیل برکت کے لیے 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھیے اور جھومیے کہ علما کی کیسی شان ہے:۔

(1) مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِيیعنی جس سے اللہ تعالی نے بھلائی کا ارادہ کیا اسے دین کی سمجھ عطا کردی، اور میں تقسیم کرنے والا ہوں(علم کو)اور اللہ پاک عطا کرنے والا ہے (علم کی سمجھ کو)۔(مشکاة المصابیح،کتاب العلم،حدیث:189، مطبوعہ مکتبہ اسلامی کتب خانہ) (2) علما انبیاء کے وارث ہیں۔(احیاء العلوم،1/45) (3)زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔(احیاء العلوم،1/45) (4) دو خصلتیں کسی منافق میں جمع نہیں ہوتی:حسن اخلاق،فہمِ دین یعنی دین کی سمجھ بوجھ(احیاء العلوم،1/46) (5) علم اسلام کی زندگی ہے(فضائل علم و علما،ص26)

اللہ پاک ہمیں علما کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم ایک انتہائی بیش بہا دولت اور عظیم نعمت ہے۔ دین اسلام نے علم کو انتہائی عظیم مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو کامیاب اور اس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیتی ہے ۔علم سے مراد وہ علم ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ علم ہے جس سے دنیا و آخرت سنور جاتی ہے اور یہی علم نجات دلانے والی ہے ۔

اللہ پاک نے قرآن مجید میں علم دین حاصل کرنے والوں کی بزرگی اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)

علمائےکرام کی افضلیت : علمائے کرام کے مقام ومرتبہ کو حدیث شریف میں بھی بیان گیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد) یعنی عبادت گزار ( تھا دوسرا عالم ) یعنی علم رکھنے والا (تھا، تو سرکار اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

عالم دین عبادت گزار سے بھی زیادہ بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کے سامنے راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے عبادت گزار کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ عبادت گزار صرف اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے اور عالمِ دین نہ صرف اپنے آپ کو جہنم سے بچاتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی جہنم سے بچا کر جنت کے راستے پر چلاتا ہے۔

حضرت سیدنا مولا علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ عالم روزہ دار شب بیدار ( یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے ) مجاہد سے افضل ہے ۔(فیضان علم و علما، ص 21 )

شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہوجائے گی ۔( فیضان علم و علما، ص 14 )

علماء کرام کی مثال جیسے آسمان میں ستارے: حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ : علما کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر میں راستہ کا پتہ چلتا ہے اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔ ( جنتی زیور، ص 457 )

علماء کرام وارثین انبیاء علیہم السلام ہیں:علماء کرام کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علماء کرام انبیاء عظام علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں۔

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو علم کی راہ میں چلتا ہے تو اللہ پاک اس کی وجہ سے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ طالب علم سے خوش ہو کر فرشتے اس کے لیے اپنا پر بچھا دیتے ہیں۔ علم حاصل کرنے والے کے لیے زمین و آسمان کی سبھی چیزیں دعاء خیر کرتی ہیں حتی کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔

عبادت گزار پر عالم کی فضیلت ویسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سبھی ستاروں پر ہے۔ علماء کرام انبیاء عظام کے وارثین ہیں۔ انبیاء کرام نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم دین کو چھوڑا ہے، جس نے اس ورثہ کو پالیا ، اس نے پورا حصہ پایا ۔ (سنن ابوداود کتاب العلم باب الحث علی طلب العلم ،3/444،حدیث: 3641)

عالم کے لیے ساری کائنات دعا گو رہتی ہے: اس حدیث پاک کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے: علمائے دین کے لئے چاند سورج تارے اور آسمانی فرشتے ایسے ہی زمین کے ذرے ،سبزیوں کے پتے اور بعض جن و انس اور تمام دریائی جانور مچھلیاں وغیرہ دعائے مغفرت کرتے ہیں۔کیونکہ علمائے دین کی وجہ سے دین باقی ہے اور دین کی بقا سے عالَم قائم ہے۔ علما کی کی برکتوں سے بارشیں ہوتی ہیں اور مخلوق کو رزق ملتا ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 1 / 194 )

علماء کرام سے محبت کرنے کا حکم:علمائے کرام کی محبت ان کی صحبت ، ان سے تعلق رکھنا ہماری دینی و دنیاوی زندگی کے لیے مفید ہے ، ان کی معیت سے علم اور آداب و اخلاق سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم دین بنو، یا طالب علم بنو، یا عالم دین کی بات سننے والا بنو، یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچواں مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔( فضائل علم و علما ، ص 82 )

علمائے کرام کی عظمت و رفعت کا خیال رکھیں اور ان کی برائی کرکے اپنے انجام کو خراب نہ کریں۔ علمائے کرام اللہ پاک کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک انہیں اپنے دین کے لیے چنتا ہے لہذا، ان کی برائی انتہائی سنگین جرم اور گناہ کا باعث ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم علمائے کرام کا احترام کریں۔

اللہ پاک ہمیں علماء کرام کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


طلوعِ اسلام سے قبل جہالت کے سبب لوگ مختلف امراض کا شکار تھے۔ مثلاً بت پرستی ،شراب نوشی،قتل و غارت وغیرہ وغیرہ۔ طلوع اسلام سے نہ صرف جہالت کا خاتمہ ہوا بلکہ ان امراض کا بھی تدارک ہوا۔ اسلام نے پہلا پیغام ہی علم کے حوالے سے دیا جس کے الفاظ یہ ہیں:اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا(پ 30،العلق:01)اگر اللہ پاک کے نزدیک علم سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے مقابل میں دی جاتی۔اللہ پاک نے علم والوں کی قرآن پاک میں یہ شان بیان فرمائی :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

دوسرے مقام پر علما کی یہ شان فرمائی :قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔(پ 23 ،الزمر : 09)

1۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :عالم اور عابد کے درمیان 100درَجے ہیں اور ہر دو درَجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنی مسافت سدھایا ہوا عمدہ گھوڑا 70سال تک دوڑ کر طے کرتا ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب تفضیل العلم علی العبادۃ، ص 43،حدیث:118)

2۔حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مبارَک رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ انسان کون ہیں ؟ فرمایا: علما۔ پھر پوچھاگیا: بادشاہ کون ہیں ؟فرمایا: پرہیزگار۔ پھر پوچھا گیا: گھٹیا لوگ کون ہیں ؟ فرمایا: جو دین کے بدلے دنیا حاصل کرتے ہیں ۔

3۔حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ نے غیر عالم کو انسانوں میں شمار نہ کیا کیونکہ علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے انسان تمام جانوروں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ پس انسان اس وصف کے ذریعے انسان ہے۔ جس کے باعث اسے عزت حاصل ہوتی ہے۔امام غزالی لکھتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ عالم باعمل کو ملکوت آسمان (آسمان کی سلطنت)میں عظیم شخص کہا جاتا ہے۔(فضل العلم والعلماء)

4۔حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک عالم دین کے لیے زمین و آسمان کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔(مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث :210 )ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ عالموں کے لیے مچھلیوں کی دعائے مغفرت کو اس لیے خاص کیا کہ پانی جو مچھلیوں کی زندگی کا باعث ہے وہ علما کی برکت سے نازل ہوتا ہے۔(مرقاۃ شرح مشکاۃ ،1/230)

5۔حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علما زمین کا چراغ ہیں اور انبیاء کے جانشین ہیں اور میرے اور دیگر انبیاء کے وارث ہیں۔(کنزالعمال، 10/77)

اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :علما نبیوں کے وارث ہیں اور آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں۔ جب علما انتقال فرماتے ہیں تو قیامت تک مچھلیاں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں (ایضاً)

اللہ پاک ہمیں علمائے حق کا فیض عطا فرمائے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


(1)حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور سلطان بحروبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، "اللہ تعالٰی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اللہ پاک ہے  اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اور اللہ پاک کا حکم آجائے۔(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیر االخ،1/42، حدیث:71 (

(2) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ پاک کی عبادت کرنا ہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کیلئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے ۔(طبرانی اوسط، باب المیم ، 6/ 257،حدیث: 8698 )

(3) حضرت سیدنا خذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہتر عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے ۔ ( طبرانی اوسط، 3/92،حدیث: 3960)

(4) حضرت سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور دو جہاں کے تاجور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن علما کے سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا اور ایک اور روایت میں ہے کہ اور علما کے سیائی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی۔( تاریخ بغداد،2/190)

(5) حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن عالم اور عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ او جبکہ عالم سے کہاں جائے گا کہ جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کر لو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترہیب،کتاب العلم ،4/313،حدیث: 2694)


اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَالْمَلٰٓىٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤاِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا۔(پ3،اٰلِ عمرٰن:18)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے والدِ ماجد مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس آىت سے تىن فضىلتىں علم کى ثابت ہوئىں: (1)خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کىا اور ىہ اىسا مرتبہ ہے کہ انتہانہىں رکھتا(2)علما کو فرشتوں کى طرح اپنی وَحْدانِیت (یعنی ایک ہونے) کا گواہ اور اُن کى گواہى کواپنے معبود ہونے کی دلیل قراردىا(3)اُن کى گواہى فرشتوں کی گواہی کی طرح معتبر ٹھہرائى۔(فیضان علم وعلما،ص8ملخصاً)

احادیثِ مبارَکہ میں بھی علمائے کرام کے بکثرت فضائل موجود ہیں،ان میں سے پانچ ملاحظہ کیجئے!

(1)عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت ابو اُمامہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے۔(ترمذی،4/313،حدیث:2694)

(2)علما کو مرتبۂ شفاعت ملے گا:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہےکہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن عالم اور عابد (یعنی عبادت گزار) کو لایا جائے گا تو عابد سے کہا جائےگا:تم جنّت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، 2/268، حدیث:1717)

(3)انبیائے کرام کے وارث:حضرت ابودرداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص علم کی طلب میں کوئی راستہ چلے گا تو اللہ پاک اسے جنّت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلائے گا اور بے شک فرشتے طالبِ علم کی خوشی کیلئے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور بے شک عالم کے لئے آسمانوں و زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور یقیناً عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بےشک علما انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے وارث ہیں اور انبیا نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہ بنایا انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا۔(ابوداؤد،3/444،حدیث:3641)

(4)لوگوں میں افضل: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم کتنا اچھا شخص ہے کہ جب اس کی ضرورت پڑے تونفع دے اور اگر اس سے بے پرواہی کی جائے تو وہ اپنے آپ کو بے نیاز رکھے۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303)

(5)ایک عالم اور ہزار عابد:حضرت سیدنا اِبنِ عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخرنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ایک فقیہ (یعنی عالم) ایک ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔(ابن ماجہ،1/145،حدیث:222)

اللہ پاک عاشقانِ رسول علمائے کرام کے فیوض و برکات کو امت کے لئے عام فرمائے اور ان کا سایہ ہم پر دراز فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز کی اہمیت: باقی تمام فرائض زمین پر فرض ہوئے نماز عرش پر بلا کر فرض کی گئی ۔جس سے معلوم ہوا کہ نماز تمام عبادتوں سے افضل ہے۔اگر اُمّتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے نماز سے افضل کوئی تحفہ ہوتا تو اللہ پاک وہی دیتا۔ باقی تمام احکام حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے فرض ہوئے، لیکن نماز معراج کی رات بلاواسطہ عطا ہوئی اور پھر باقی ارکان ایسے ہیں جو اُمرا پر فرض ہیں غرباء پر فرض نہیں۔ جیسے زکوۃ، حج اور روزہ، مسافر اور بیمار پر فرض نہیں۔ لیکن نماز ہر ایک پر ہر حال میں فرض ہے۔ چاہے آدمی غریب ہو یا امیر، مسافر ہو یا مقیم ،بیمار ہو یا تندرست، نماز کسی حالت میں معاف نہیں۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز

بندہ وصاحب ومحتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

روزے سال میں ایک مرتبہ، زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ، حج زندگی میں ایک مرتبہ، لیکن نماز، روزہ اور وہ بھی پانچ مرتبہ معلوم ہوا کہ نماز اللہ پاک کو بہت پیاری ہے۔ پھر ہر نماز کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی آیت ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پ 5،نساء:103)وقت مغرب: غروب آفتاب سے غروب شفق تک ہے۔ آیت: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕترجَمۂ کنزُالایمان: اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں (ف۲۳۲) اور کچھ رات کے حصوں میں۔(پ12،ہود:114)

(1)نماز مغرب کی فضیلت: (1) خادمِ نبی، حضرتِ سیِّدُنااَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اُس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے )اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔ (جمع الجوامع، 7/195،حدیث: 22311)

(2) مغرب کی سنتوں کی فضیلت: حضرت مکحول سے مُرسلاً روایت کی کہ فرماتے ہیں: جو شخص بعد مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے، اُس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے۔(مشکاۃ المصابيح، کتاب الصلاۃ، باب السنن و فضائلھا، 1/345،حديث: 1184)

(3)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مغرب کے بعد کی دونوں رکعتیں جلد پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش ہوتی ہیں۔

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے، تو بارہ برس کی عبادت کی برابر کی جائیں گی۔( جامع الترمذي، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التطوع... إلخ، 1/439،حديث: 435)

(5) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے، اس کے گناہ بخش ديے جائیں گے، اگرچہ سمندر کے جھاگ برابر ہوں۔(معجم اوسط ،5/255،حدیث :7245 )


(1)خادمِ نبی، حضرتِ سیِّدُنااَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اُس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے )اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔ (فیضان نماز ،ص110)

(2)امام فقیہ ابواللَّیث سمر قندی رحمۃُ اللہِ علیہ نے (تابعی بزرگ) حضرت کعبُ الاحبار رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ اُنہوں نے فرمایا: میں نے ’’تورَیت‘‘ کے کسی مقام میں پڑھا (اللہ اک فرماتا ہے): اے موسیٰ! مغرب کی تین رَکعت ہیں ، انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی(تو) آسمان کے سارے دروازے ان کے لیے کھول دوں گا، جس حاجت کاسُوال کریں گے اُسے پورا ہی کر دوں گا۔ (فیضان نماز ،ص86)

(3)جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے، تو بارہ برس کی عبادت کے(ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔ (فیضان نماز،ص110)

(4)جو مغرِب کے بعد چھ رَکعتیں پڑھے، اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگرچِہ سَمُندر کے جھاگ برابر ہوں ۔(فیضان نماز،ص110)

(5)حضرت سیِّدُنا عمر بن ابو خلیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں :ہم نے حضرتِ سیِّدُنا عطاء خراسانی رَحْمۃُ اللہِ علیہ کے ساتھ نماز مغرب اداکی،نمازکے بعد جب ہم واپس ہونے لگے توآپ نے میراہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’مغرب وعشا کے اس درمیانی وقت سے لوگ غافل ہیں ، یہ نمازِاَوَّابین(یعنی توبہ کرنیوالوں کی نماز) کا وقت ہے۔ جس نے اس دوران نماز کی حالت میں قراٰنِ کریم کی تلاوت کی گویا وہ جنت کی کیاری میں ہے۔(فیضان نماز،ص 111)


نماز ہم مسلمانوں پر فرض عین ہے (یعنی ہر مسلمان مرد و عورت دونوں پر فرض ہے) نماز ادا کرنے کی فضیلت بھی ہے اور نماز ترک کرنے کی وعید بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے سات سو سے زیادہ مرتبہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے قرآن مجید میں جتنی بار نماز کا حکم آیا ہے کسی اور کا نہیں آیا اور آج کل کچھ لوگ کہتے ہے کہ نماز تو دل کی ہوتی ہے ان سے سوال کیا جائے کہ اگر نماز دل کی ہوتی ہے تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ قرآن مجید کو کون سمجھ سکتا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تو خود نماز ادا کی ہے اور نماز ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے اگر نماز دل کی ہوتی تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا نہ کرتے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا کر کے یہ بتایا کہ نماز دل کی نہیں  جسم کی ہے۔

نماز کو ادا کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے۔ جو مسلمان نماز ادا نہیں کرتا وہ سخت گناہ گار ہے عذابِ قبر کا حق دار ہے اور کوئی نماز کسی وجہ سے ادا نہ کر سکا تو بھی بعد میں پڑنی ہوگئی آج کل تو لوگ مال کمانے کے لیے تو وقت نکال لیتے ہیں میچ کھیلنا ہو یا دیکھنا ہو وقت مل جاتا ہے بازاروں میں آنے جانے کے لئے تو وقت ہی وقت ہیں اگر ہمارے پاس وقت نہیں تو وہ نماز کے لیے نہیں ہے وقت نہیں ہے تو فرض و واجب ادا کرنے کےلئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے نماز ہر حال میں ادا کرنا ضروری ہے اور ہر نماز کی الگ الگ فضیلت ہے ۔

نماز مغرب کی فضیلت کے بارے اتا ہے کہ خادم نبی حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے کہ جس نے نماز مغرب جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لئے ایک مقبول حج اور ایک مقبول عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا گویا (جیسے کہ) اس نے شب قدر میں قیام کیا یعنی شب قدر میں عبادت کی۔(جمع الجوامع ، 8 / 195،حدیث: 22311(

اور مغرب کی نماز کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص معرب کی نماز کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات نہ کہے ، تو بارہ برس کی عبادت کے (اجرو ثواب) برابر کی جائیں گی ۔(ترمذی ، 1/ 439 حدیث: 435(

نمازِ مغرب کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ جو ہر روز نمازِ مغرب با جماعت ادا کرے گا اس کے رزق میں برکت عطا فرمائی جائے گئی۔ اور نماز مغرب کے بارے میں مزید نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو نماز مغرب ادا کرنے کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دیے جائے گے اگر چہ سمندر کی جھاگ برابر ہوں ۔(معجم اوسط ، 5 / 255 ،حدیث :7245 (

وَعَنْ مَکْحُوْلٍ یَبْلُغُ بِہٖ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قَالَ مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ قَبْلَ اَنْ یَتَکَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ وَفِی رِوَایَۃٍ اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ رُفِعَتْ صَلَا تُہ، فِی عَلِیِّیْنَ مُرْسَلًا۔ ترجمہ:حضرت مکحول (تابعی) اس روایت کو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچاتے ہیں (یعنی) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو آدمی مغرب کی (فرض یا سنت مؤ کدہ) نماز پڑھ کر (دنیاوی) گفتگو کرنے سے پہلے دو رکعت اور ایک روایت میں ہے کہ چار رکعت نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز علیین میں پہنچائی جاتی ہے۔

علیین کیا ہے ؟ ساتویں آسمان پر ایک مقام کا نام علیین ہے جہاں مؤمنین کی روحیں پہنچائی جاتی ہیں اور جہاں ان کے عمل لکھے جاتے ہیں ۔ کاش ایسا کرم ہو ہم پر بھی کہ ہم با جماعت پانچوں نمازیں ادا کرنے والے بن جائیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز اللہ پاک کی ایک اعلیٰ نعمت ہے جو اس نے ہمیں عطا کی ہے یقیناً ہم سے ہر ایک کو اس کی قدر کرنی چاہیے اور قدر اسی ہی طرح ہوگی کہ ہم اس کو بالکل صحیح انداز میں ادا کریں کیونکہ اگر صحیح ادا نہیں کریں گیں تو یہی نماز ہمیں روز قیامت ہمارے ہی  منہ پے ماری جائی گی لہٰذا اس کو بالکل صحیح طریقے سے جس طرح اس کو ادا کرنے کا حق ہے اسی طرح پڑھنی ہے۔ نماز مغرب کی اہمیت اور فضیلت:نماز مغرب کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس کو ادا کرنے کی بڑی برکتیں اور فضیلتیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) خادم نبی حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار عالی وقار مدینہ کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے) اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (فیضانِ نماز ص: 110) مغرب کے فرضوں کے بعد 6 نوافل کا ثواب:دو فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : (1) جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان کوئی بُری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برار کی جائیں گی

(2)جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دی جائیں گی اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برار ہوں۔ (فیضانِ نماز، ص 110)حضرت سید نا ثوبان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جو مغرب وعشا کے درمیان مسجد میں ٹھرا رہے، نماز اور قرآن کے علاوہ کوئی بات نہ کرے تو اللہ پاک کے ذمہ کرم پرحق ہے کہ اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے جن میں سے ہر ایک کی مسافت 100 سال ہو گی ، دونوں کے درمیان اس کے لئے درخت لگائے گا کہ اگر اہل دنیا اس کا چکر لگائیں تو وہ سب کا احاطہ کر لے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے مغرب و عشا کے درمیان 10 رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا ۔ امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تب تو ہمارے محل بہت زیادہ ہو جائیں گے ۔ ارشاد فرمایا: اللہ پاک سب سے زیادہ کثرت و فضل فرمانے والا ہے ۔ یا فرمایا: سب سے زیادہ پاک ہے۔ (احیاء العلوم ، 1 /1046)

(3) ام المؤمنین حضرت سید نا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ میرے سرتاج ،صا حب معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک افضل نماز مغرب کی نماز ہے، اسے نہ تو مسافر سے کم کیا اور نہ ہی مقیم سے ، اس کے ذریعے رات کی نماز کو شروع فرمایا اور دن کی نماز کو ختم فرمایا تو جس شخص نے نماز مغرب پڑھی اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ دو محل سونے کے ہوں گے یا چاندی کے ۔ جس نے چار رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اس کے 20 سال کے گناہ معاف فرمائے گا۔ یا فر مایا :40 سال کے گناہ معاف فرمائے گا۔ ( احیاء العلوم ،1/1045)

(4) اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا اُمّ سلمہ اور حضرت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جس نے نمازمغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں تو یہ اس کے حق میں پورا سال عبادت کرنے کے برابر ہے یا فرمایا : گویا کہ اس نے شب قدر میں نماز پڑھی۔ ( احیاء العلوم ،1/1045)

(5) حضرت سیِّدُنا کُرْز بن وَبَرہ رحمۃُ اللہِ علیہ جو ابدال میں سے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا خضر علیہ السّلام سے عرض کی:’’ مجھے ایسی چیز سکھائیے جس پر میں ہر رات عمل کیا کروں ۔‘‘ انہوں نے فرمایا: جب تم نماز مغرب پڑھ لو تو عشا کے وقت تک کسی سے کلام کئے بغیر نماز پڑھتے رہو، جو نماز پڑھ رہے ہو اس کی طرف متوجہ رہو اور ہر دو رکعتوں پر سلام پھیر دو۔ ہر رکعت میں ایک بار سورۂ فاتحہ، تین بار سورۂ اخلاص پڑھو۔ جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور کسی سے کلام نہ کرو پھر دو رکعتیں پڑھو، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ فاتحہ اور سات مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھو۔ پھر سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کرو اور اس میں سات مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے استغفار کرو، پھر سات بار یہ کہو: سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پھر سجدے سے سرا ٹھا کر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ اور ہاتھوں کو اٹھا کر یوں دعا کرو:یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ یَا اِلٰہَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیْمَہُمَا یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہ پھر اسی حالت میں کھڑے ہو جاؤ کہ ہاتھ اٹھے ہوئے ہوں اور اسی طرح دعا کرو، پھر جہاں چاہو قبلہ رخ ہو کر اپنی سیدھی کروٹ پر لیٹ جاؤ اور حضور نبی ٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردرود پاک پڑھتے پڑھتے سو جاؤ۔

حضرت سیِّدُنا کرز بن وبرہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مجھے بتائیے کہ آپ نے یہ دعا کن سے سنی ہے؟ فرمایا: جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ دعا سکھائی اس وقت میں وہاں حاضر تھا اور جب آپ پر یہ دعا وحی کی گئی تب بھی میں خدمت میں حاضر تھا، یہ سب میری موجودگی میں ہوا۔لہٰذا میں نے یہ دعا اسی وقت سیکھ لی تھی۔( احیاء العلوم ،1/1048)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نمازِ مغرب کے ساتھ ساتھ باقی نمازوں کو بھی صحیح معنیٰ میں سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم