محمد
عبدالقدیر عطاری (درجہ سادسہ،جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ اوکاڑہ ،پاکستان)

نماز ہم مسلمانوں پر فرض
عین ہے (یعنی ہر مسلمان مرد و عورت دونوں پر فرض ہے) نماز ادا کرنے کی فضیلت بھی
ہے اور نماز ترک کرنے کی وعید بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے سات سو سے زیادہ
مرتبہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے قرآن مجید میں جتنی بار نماز کا حکم آیا ہے کسی
اور کا نہیں آیا اور آج کل کچھ لوگ کہتے ہے کہ نماز تو دل کی ہوتی ہے ان سے سوال
کیا جائے کہ اگر نماز دل کی ہوتی ہے تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
زیادہ قرآن مجید کو کون سمجھ سکتا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
تو خود نماز ادا کی ہے اور نماز ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے اگر نماز دل کی ہوتی
تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا نہ کرتے۔ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا کر کے یہ بتایا کہ نماز دل کی نہیں جسم کی ہے۔
نماز کو ادا کرنا ہر مسلمان
مرد و عورت پر فرض عین ہے۔ جو مسلمان نماز ادا نہیں کرتا وہ سخت گناہ گار ہے عذابِ
قبر کا حق دار ہے اور کوئی نماز کسی وجہ سے ادا نہ کر سکا تو بھی بعد میں پڑنی ہوگئی آج کل تو لوگ مال کمانے کے لیے تو وقت نکال لیتے ہیں میچ کھیلنا ہو یا
دیکھنا ہو وقت مل جاتا ہے بازاروں میں آنے جانے کے لئے تو وقت ہی وقت ہیں اگر
ہمارے پاس وقت نہیں تو وہ نماز کے لیے نہیں ہے وقت نہیں ہے تو فرض و واجب ادا کرنے کےلئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے نماز ہر
حال میں ادا کرنا ضروری ہے اور ہر نماز کی الگ الگ فضیلت ہے ۔
نماز مغرب کی فضیلت کے بارے اتا ہے کہ خادم نبی
حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے کہ جس نے نماز
مغرب جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لئے ایک مقبول حج اور ایک مقبول عمرہ کا ثواب
لکھا جائے گا گویا (جیسے کہ) اس نے شب قدر میں قیام کیا یعنی شب قدر میں عبادت کی۔(جمع
الجوامع ، 8 / 195،حدیث: 22311(
اور مغرب کی نماز کی فضیلت
کے بارے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص
معرب کی نماز کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات نہ کہے ،
تو بارہ برس کی عبادت کے (اجرو ثواب) برابر کی جائیں گی ۔(ترمذی
، 1/ 439 حدیث: 435(
نمازِ مغرب کے بارے میں یہ
بھی آیا ہے کہ جو ہر روز نمازِ مغرب با جماعت ادا کرے گا اس کے رزق میں برکت عطا
فرمائی جائے گئی۔ اور نماز مغرب کے بارے میں مزید نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو نماز مغرب ادا کرنے کے بعد چھ رکعتیں پڑھے
اس کے گناہ بخش دیے جائے گے اگر چہ سمندر کی جھاگ برابر ہوں ۔(معجم
اوسط ، 5 / 255 ،حدیث :7245 (
وَعَنْ مَکْحُوْلٍ یَبْلُغُ بِہٖ اَنَّ رَسُوْلُ
اﷲِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قَالَ مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ قَبْلَ
اَنْ یَتَکَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ وَفِی رِوَایَۃٍ اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ رُفِعَتْ صَلَا
تُہ، فِی عَلِیِّیْنَ مُرْسَلًا۔ ترجمہ:حضرت مکحول (تابعی) اس
روایت کو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچاتے ہیں (یعنی) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بطریق ارسال روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو آدمی مغرب کی (فرض یا سنت مؤ کدہ)
نماز پڑھ کر (دنیاوی) گفتگو کرنے سے پہلے دو رکعت اور ایک روایت میں ہے کہ چار
رکعت نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز علیین میں پہنچائی جاتی ہے۔
علیین کیا ہے ؟ ساتویں
آسمان پر ایک مقام کا نام علیین ہے جہاں مؤمنین کی روحیں پہنچائی جاتی ہیں اور
جہاں ان کے عمل لکھے جاتے ہیں ۔ کاش ایسا کرم ہو ہم پر بھی کہ ہم با جماعت پانچوں
نمازیں ادا کرنے والے بن جائیں۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نماز اللہ پاک کی ایک
اعلیٰ نعمت ہے جو اس نے ہمیں عطا کی ہے یقیناً ہم سے ہر ایک کو اس کی قدر کرنی
چاہیے اور قدر اسی ہی طرح ہوگی کہ ہم اس کو بالکل صحیح انداز میں ادا کریں کیونکہ
اگر صحیح ادا نہیں کریں گیں تو یہی نماز ہمیں روز قیامت ہمارے ہی منہ پے ماری جائی گی لہٰذا اس کو بالکل صحیح
طریقے سے جس طرح اس کو ادا کرنے کا حق ہے اسی طرح پڑھنی ہے۔ نماز مغرب کی اہمیت اور فضیلت:نماز مغرب کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس کو ادا کرنے کی
بڑی برکتیں اور فضیلتیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) خادم نبی حضرت سیدنا انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ سرکار عالی وقار مدینہ کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ ثواب لکھا جائے گا
اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے) اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (فیضانِ نماز ص: 110)
مغرب کے فرضوں کے بعد 6 نوافل
کا ثواب:دو فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : (1) جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان
کے درمیان کوئی بُری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برار کی جائیں
گی
(2)جو مغرب کے بعد چھ
رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دی جائیں گی
اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برار ہوں۔ (فیضانِ نماز، ص 110)حضرت سید نا ثوبان رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جو مغرب وعشا کے درمیان مسجد میں ٹھرا رہے،
نماز اور قرآن کے علاوہ کوئی بات نہ کرے تو اللہ پاک کے ذمہ کرم پرحق ہے کہ اس کے
لئے جنت میں دو محل بنائے جن میں سے ہر ایک کی مسافت
100 سال ہو گی ، دونوں کے درمیان اس کے لئے درخت لگائے گا کہ اگر اہل دنیا اس کا
چکر لگائیں تو وہ سب کا احاطہ کر لے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے مغرب و عشا کے
درمیان 10 رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا ۔
امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تب تو ہمارے محل
بہت زیادہ ہو جائیں گے ۔ ارشاد فرمایا: اللہ پاک سب سے زیادہ کثرت و فضل فرمانے
والا ہے ۔ یا فرمایا: سب سے زیادہ پاک ہے۔ (احیاء العلوم ، 1 /1046)
(3) ام المؤمنین حضرت سید
نا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ میرے سرتاج ،صا حب معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک افضل نماز مغرب کی نماز ہے، اسے نہ تو
مسافر سے کم کیا اور نہ ہی مقیم سے ، اس کے ذریعے رات کی نماز کو شروع فرمایا اور
دن کی نماز کو ختم فرمایا تو جس شخص نے نماز مغرب پڑھی اور اس کے بعد دو رکعتیں
پڑھیں اللہ پاک اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ مجھے معلوم
نہیں کہ وہ دو محل سونے کے ہوں گے یا چاندی کے ۔ جس نے چار رکعتیں پڑھیں اللہ پاک
اس کے 20 سال کے گناہ معاف فرمائے گا۔ یا فر مایا :40 سال کے گناہ معاف فرمائے گا۔
( احیاء العلوم ،1/1045)
(4) اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا
اُمّ سلمہ اور حضرت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشادفرمایا: جس نے نمازمغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں تو یہ اس کے حق میں پورا سال
عبادت کرنے کے برابر ہے یا فرمایا : گویا کہ اس نے شب قدر میں نماز پڑھی۔ ( احیاء
العلوم ،1/1045)
(5) حضرت سیِّدُنا کُرْز
بن وَبَرہ رحمۃُ اللہِ علیہ جو ابدال میں سے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت
سیِّدُنا خضر علیہ السّلام سے عرض کی:’’ مجھے ایسی چیز سکھائیے جس
پر میں ہر رات عمل کیا کروں ۔‘‘ انہوں نے فرمایا: جب تم نماز مغرب پڑھ لو تو عشا کے وقت تک کسی سے کلام کئے
بغیر نماز پڑھتے رہو، جو نماز پڑھ رہے ہو اس کی طرف متوجہ رہو اور ہر دو رکعتوں پر
سلام پھیر دو۔ ہر رکعت میں ایک بار سورۂ فاتحہ، تین بار سورۂ اخلاص پڑھو۔ جب
نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور کسی سے کلام نہ کرو پھر دو
رکعتیں پڑھو، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ فاتحہ اور سات مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھو۔
پھر سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کرو اور اس میں سات مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے استغفار کرو، پھر سات بار یہ
کہو: سُبْحٰنَ اللّٰہِ
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پھر سجدے
سے سرا ٹھا کر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ اور ہاتھوں کو اٹھا کر یوں دعا کرو:یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ
وَالْاِکْرَامِ یَا اِلٰہَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَا رَحْمٰنَ
الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیْمَہُمَا یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا
اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہ پھر اسی حالت میں کھڑے ہو جاؤ کہ ہاتھ اٹھے ہوئے ہوں اور
اسی طرح دعا کرو، پھر جہاں چاہو قبلہ رخ ہو کر اپنی سیدھی کروٹ پر لیٹ جاؤ اور
حضور نبی ٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردرود پاک پڑھتے پڑھتے سو جاؤ۔
حضرت سیِّدُنا کرز بن وبرہ
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں نے
عرض کی: مجھے بتائیے کہ آپ نے یہ دعا کن سے سنی ہے؟ فرمایا: جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ دعا
سکھائی اس وقت میں وہاں حاضر تھا اور جب آپ پر یہ دعا وحی کی گئی تب بھی میں خدمت
میں حاضر تھا، یہ سب میری موجودگی میں ہوا۔لہٰذا میں نے یہ دعا اسی وقت سیکھ لی
تھی۔( احیاء العلوم ،1/1048)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں نمازِ مغرب کے ساتھ ساتھ باقی نمازوں کو بھی صحیح معنیٰ میں سمجھ کر پڑھنے کی
توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
محمد
طلحٰہ خان عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے راشدین ، راولپنڈی،پاکستان)

مغرب کا معنی ”سورج غروب
ہونے کا وقت“ ہے۔ کیونکہ مغرب کی نماز سورج کے غروب ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے ،
اسی لیے اس نماز کو مغرب کی نماز کہا جاتا ہے ۔ (شرح مشکل الآثار للطحاوی ، 3/34
ملخّصاً)نماز مغرب کو بقیہ فرض نمازوں سے ایک انفرادیت یہ حاصل ہے کہ ہر فرض نماز
کی رکعتیں جفت(یعنی دو یا چار) ہیں ۔ لیکن اس نماز کو یہ خاصہ حاصل ہے کہ اس کی
رکعات تاک ہیں۔ تاک کا ایک معنی ”انوکھا“
بھی ہے تو مغرب کی فرض نماز کی رکعات کی تعداد تاک ہونے کی وجہ سے انوکھی ہی ہے
کہ، حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام بوقتِ
مغرب چار رکعات پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے مگر درمیان میں تین رکعات پر ہی سلام پھیر
دیا تو نماز مغرب کی تین رکعات ہی مختص ہو گئیں۔ (شرح معانی الآثار، 1/226 ، حدیث :1014
ملخّصاً)مغرب کی نماز کے مختصر تعارف کے بعد اب نمازِ مغرب کی اہمیت و فضیلت پر
مشتمل پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں :
(1) حضرت سیدنا انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے : جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج اور
عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (جمع
الجوامع ، 7/195، حدیث :22311)
(2) حضرت ابو ایوب رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
: میری امت بھلائی پر یا فرمایا فطرت پر رہے گی جب تک مغرب کو تاروں کے گتھ جانے
تک پیچھے نہ کریں(یعنی تاخیر نہ کریں)۔ (مشکوٰة المصابیح ، ج 1 ، حدیث :560)
(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے تو
بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔ (ترمذی، 1/439، حدیث: 435)
(4)حضور نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ :جو
مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے
برابر ہوں۔ (معجم الاوسط، 5/255،حدیث: 7254)
(5) حضرت حذیفہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ : مغرب
کے بعد کی دونوں رکعتیں جلدی پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش ہوتی ہیں۔(طبرانی)
مغرب کی نماز کے ساتھ
اوّابین کے 6 رکعات نوافل پڑھنے کے بھی بہت فضائل موجود ہیں ۔ مغرب کی نماز کے ساتھ ہی اوابین ادا کرنے کا آسان
طریقہ یہ ہے کہ مغرب کی تین رکعات فرض ادا کرنے کے بعد اور دو رکعت سنت اور مزید
چار رکعات نوافل پڑھ لیے جائیں تو یہ کل چھ رکعات ہوجائیں گی اور اس طرح اوّابین
کی نماز کا ثواب بھی حاصل ہو جاۓ گا اور اگر مغرب کی سات
رکعات نماز ادا کرنے کے بعد علیحدہ سے چھ رکعات نوافل اوّابین کے ادا کرے تو یہ
بدرجہ اولیٰ اچھا عمل ہے۔ اور مؤمن تو نیکیوں کا حریص ہوتا ہے۔ لہٰذا جتنی زیادہ
نیکیاں اتنا زیادہ ثواب ۔
اللہ پاک ہمیں پانچوں
نمازیں، تہجد، اشراق، چاشت، اور اوّابین پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
شاکر عطاری(درجہ اولی،جامعۃ المدینہ خلفائے راشدین ، راولپنڈی، پاکستان)

(1)خادم نبی، حضرت سیدنا انس رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے: جس نے
مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے
گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے) اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (جمع الجوامع ، 7 /
190 حدیث: 22311 (
( 2)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان
میں کوئی بری بات نہ کہے ، تو بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔(ترمذی
، 1 / 439 ،حدیث: 430)
جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں
پڑھے، اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگر چہ سمندر کے جاگ برابر ہوں ۔( کتاب فیضانِ نماز، ص 110)
(3)امّ المؤمنین حضرت
سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے
مددگار، شفیع روز شمار، دو عالم کے مالک و مختار حبیب پروردگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں ادا کرے گا، اللہ پاک اس کیلئے
جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ (سنن ابن ماجہ
کتاب اقامتہ الصلواۃ، باب ماجاء فی الصلاۃ
بین المغرب والعشا ء ، 2/150،حدیث: 1373)
(4)حضرت سیدنا حذیفہ رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آقائے مظلوم، سرور معصوم، حسن اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور ، محبوب رب
اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر میں نے آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اقتداء میں نماز مغرب ادا کی اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم عشا تک نماز ادا فرماتے رہے۔ ( الترغیب والترہیب، الترغیب فی الصلاۃ بین المغرب والعشاء ،1/228، حدیث 7)
(5) حضر ت اَنَس رضی اللہ عنہ ، اللہ پاک کے فرمان: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ترجمہ کنزالایمان :ان کی
کروٹیں جداہوتی ہیں خواب گاہوں سے(پ21 ،سجدہ: 16)۔کی تفسیر میں فرماتے ہیں ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو مغرب
اور عشاء کے درمیان نوافل ادا کیا کرتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد ،کتا ب التطو ع ، باب
وقت قیام النبی من اللیل ، 2/53،حدیث: 1321)
محمد طلحہ خان عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃُ المدینہ فیضانِ خلفائے راشدین،راولپنڈی،پاکستان)

مغرب کی نماز سورج کے غروب
ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے،اسی لئےاس نماز کو مغرب کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل
الآثار، 3/34، حدیث:998)نمازِ مغرب کو بقیہ فرض نمازوں سے ایک انفرادیت یہ حاصل ہے
کہ ہر فرض نماز کی رکعتیں جُفت (یعنی دو یا چار) ہیں لیکن اس نماز کو یہ خاصہ حاصل
ہے کہ اس کی رکعات طاق ہیں۔طاق کا ایک معنی ”انوکھا“ بھی ہے تو نمازِ مغرب کی فرض
رکعتوں کی تعداد طاق ہونے کی وجہ سے انوکھی ہی ہے کہ حضرت سیّدُنا داؤد علیہ
السّلام بوقتِ مغرب چار رکعات پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے مگر درمیان میں تین رکعات پر
ہی سلام پھیر دیا تو نمازِ مغرب کی تین رکعات ہی مختص ہو گئیں۔(شرح معانی
الآثار،1/ 226، حدیث: 1014)
مغرب کی نماز کے مختصر
تعارف کے بعد اب نمازِ مغرب کی اہمیت و فضیلت پر مشتمل پانچ فرامینِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:
(1)سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ
ادا کی اس کے لئے مقبول حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس
نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع،7/195،حدیث:22311)
(2)حضرت ابوایوب انصاری
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:میری امت بھلائی پر یا فرمایا فطرت پر رہے گی جب تک مغرب کو تاروں کے گتھ
جانے تک پیچھے نہ کریں(یعنی تاخیر نہ کریں)۔(ابوداؤد،1/184،حدیث:418)
(3)رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اور ان کے درمیان
میں کوئی بُری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں
گی۔(ترمذی،1/439،حدیث:435)
(4)حضرت سیّدُنا حذیفہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حُضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:مغرب
کے بعد کی دو رکعتیں جلدی پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ اٹھائی جاتی ہیں۔(مشكاة
المصابیح،1/234حدیث:1185)
(5)حضور نبیِّ کریمصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:جو مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اس کے گناہ بخش
دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(معجم اوسط، 5/255،حدیث:7245)
مغرب کی نماز کے ساتھ
اوّابین کی 6 رکعات پڑھنے کے بھی بہت فضائل موجود ہیں، اوّابین کا طریقہ بھی پڑھ
لیجئے۔ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ کی کتاب ”فیضانِ نماز“ کے صفحہ 110پر ہے:مغرب کی تین رکعت فرض پڑھنے کے
بعد چھ رکعت ایک ہی سلام سے پڑھئے، ہر دو رکعت پرقعدہ کیجئے اور اس میں
اَلتَّحِیّات، دُرُودِ ابراہیم اور دعا پڑھئے، پہلی، تیسری اور پانچویں رکعت کی
ابتدا میں ثَنا، تَعَوُّذ و تَسمِیَہ (یعنی اَعُوْذ اور بِسْمِ اللہ) بھی
پڑھئے۔چھٹی رکعت کے قعدے کے بعد سلام پھیر دیجئے۔ پہلی دو رکعتیں سنّتِ مؤکَّدہ
ہوئیں اور باقی چار نوافِل۔ یہ ہے اوّابین (یعنی توبہ کرنے والوں) کی
نماز۔(الوظیفۃ الکریمہ، ص26ملخصاً) چاہیں تو دو دو رَکعت کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں۔
محمد
اشفاق عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃُ المدینہ،فیضانِ
عطّار، نیپال گنج ، نیپال)

اللہ پاک اسے کامیابی عطا
فرماتا ہے جسے ایمان کی دولت مل جاتا ہے اور سب سے بڑی کامیابی ایمان بچا لینا ہی
ہے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔(پ 18، المؤمنون:1)قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔ اس
آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے
کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد
میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت
میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات
پاجائیں گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت
الآیۃ: 1، 8 / 258، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 6 / 66، ملتقطاً)حقیقی
کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے: یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا
کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال
کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل
نعمتوں کی جگہ جنت میں داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے،
جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: كُلُّ
نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا
تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ
زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ
الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے
اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے
پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا
گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ
کامیاب ہوگیا۔(پ 4، اٰلِ عمران :185)
اور جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے
پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں کے ساتھ
کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، 2 / 625، حدیث: 6821) اور چونکہ موت کا وقت کسی
کو معلوم نہیں اس لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا
ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں داخلہ نصیب ہو۔( صراط الجنان ،پ 18، المؤمنون:1)
اور وہ شخص جو اللہ اور اس کی اطاعت کرتا ہے اور وہ کامیاب
ہے۔ اسی طرح اپنے نفس کو برائی سے روکنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ٰ ہے:
قَدْ
اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) ترجمۂ کنزالایمان:بیشک
مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا۔(پ 30،شمس:9)
بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اللہ پاک نے
اس سے پہلی آیات میں چند چیزوں کی
قَسمیں ذکر کر کے ا س آیت اور اس کے بعد
والی آیت میں فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے
نفس کو برائیوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب
ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔( جلالین مع
صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: 9-10، 6 / 2370)
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرنا
کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب
اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی جائے
اوراطاعت کرنے والوں کے بارے اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ
یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے
تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)اور ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ
یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی
فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(پ
22،احزاب:71)
لہٰذا جو شخص حقیقی
کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں سے
پاک کرے۔( صراط الجنان پ30،سورہ شمس : 9)
نیکی کا حکم دینا اور
برائی سے منع کرنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ لْتَكُنْ
مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ
وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ
عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا
ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں
اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)
یاد رہے جس آیت میں
کامیابی مراد لیا گیا ہے اس سے ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی ہے اور وہ
متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار
کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت
کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔

انسان فطری طور پر جلد باز ہےجس کا ایک اثر یہ بھی
ہے کہ نفعِ عاجل کے پیشِ نظر دنیوی کاموں میں ترقی و کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھ
رکھاہے۔جبکہ حقیقی کامیاب وہ ہے جو اس زندگی میں نیک اعمال بجا لاکر اللہ پاک و
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا ہو۔ آئیے حقیقی
فلاح و کامیابی والے 10 اعمال قراٰنِ مجید کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)نماز میں گڑگڑانا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان:
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔
(پ 18، مؤمنون:1، 2) (2)فضول
باتوں سے بچنا: اللہ پاک کا ارشاد ہے:﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) ﴾ترجمۂ کنز
الایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔ (پ 18، مؤمنون: 3 )
اس آیت کے تحت علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لغو سے مراد ہر وہ
قول و فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے،جس کا مسلمان کو دینی یا دنیوی کوئی فائدہ
نہ ہو۔(تفسیر صاوی، جز4، ص 1356)(3)
زکوٰۃ ادا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18،مؤمنون:4)
(4) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا: اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی
حفاظت کرتے ہیں۔(پ18،مؤمنون: 5)
(5) وعدوں کو پورا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور
اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔(پ18،مؤمنون:8) (6) وقت پر نماز ادا کرنا:اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی
نگہبانی کرتے ہیں۔ (پ 18، مؤمنون:9)(7) طہارت حاصل کرکے نماز ادا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچا جو
ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ (پ30،الاعلیٰ:14، 15)
(8)نفس کو برائیوں سے پاک کرنا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰) ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا اور نامراد
ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔(پ30، الشمس: 10،9) (9)اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا: فرمانِ باری
تعالیٰ ہے: ﴿ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید
پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18، النور: 31) (10)اللہ پاک کی طرف وسیلہ تلاش کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۵) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، مائدہ:35)
وقار یونس
(درجہ رابعہ، جامعۃ المدینہ فیضان
عبد اللہ شاہ غازی کراچی، پاکستان)

کامیاب ہونا، فلاح پانا، مقصد کو حاصل کر لینا وغیرہ الفاظ
تقریباً ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان ہو، کسی بھی فیلڈ سے تعلق
رکھتا ہو وہ کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ لیکن کامیاب ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سے عام
طور پر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ جس کے پاس روپیہ، پیسہ، اچھی نوکری وغیرہ ہو وہی
کامیاب ہے ۔بلکہ حقیقت اس سے جدا ہے۔
اسلام ایک کامل واکمل دین ہے۔ اس نے ہمیں اس معاملے میں بھی تنہا نہیں چھوڑا بلکہ
ہمیں کامیاب بننے والے اعمال عطا فرما دئیے ہیں۔ کہ کن کن اعمال کو ہم کریں گے، تو
ہم کامیاب کہلائیں گے یا ہم کامیابی حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ آئیے اس بارے میں
ہم قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن سے بڑھ کر رہنمائی کرنے والا
اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد فرماتا ہے:
الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ
بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴)
اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان
لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا
اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو
پہنچنے والے۔(پ 1،بقرہ:3تا 5)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان: اے
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، المآئدہ: 35)
مسلمان عورتوں کو
پردے کا حکم دینا فلاح پانے کا ذریعہ ہے۔اللہ پاک کا فضل تلاش کرنا( یعنی حلال
معاش میں مشغول ہونا، مریض کی عیادت کرنا ،جنازہ میں شرکت کرنا ،علماء کی زیارت
کرنا وغیرہ) اعمال صالحہ بجا لانا فلاح
پانے کا ذریعہ ہے۔صبر کرنا ،سرحد پر اسلامی ملک کی نگرانی کرنے والا کامیاب ہے۔ان
اعمال کے علاوہ بھی قرآن و حدیث و دیگر کتب میں کامیاب بننے اور فلاح حاصل کرنے
والے اعمال مذکور ہے۔ جن کو مطالعہ کرنے اور درس و بیان میں شرکت کرنے سے معلوم کیا
جا سکتا ہے۔
ہم اللہ پاک سے دعا
کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچائے اور صرف اپنی بارگاہ
کا محتاج رکھے اور مذکورہ و غیر مذکورہ
اعمال پر عمل کر کے کامیاب زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
منیر عطاری(درجہ سابعہ، جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم ، جہلم، پاکستان)

قرآن کریم
میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ
فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ
الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو
اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور
وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(پ 18، المؤمنون:1 تا
5)ان آیات کی تفسیر میں صاحب خزائن العرفان صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃُ اللہ
الہادی فرماتے ہیں: ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے
ہیں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا
سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف
نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس
کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس
قسم کے حرکات سے باز رہے ۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے ۔ اگر پہلی آیت مبارکہ کی طرف دیکھا
جائے تو پتہ چلتا ہے ۔ مراد کو پہنچے سے مراد فلاحی وہ کامیابی ہے۔ لہذا ایمان
والا ہونا فلاح وہ کامیابی ہونے کی علامت ہے ۔
ان مذکورہ پانچ آیات مبارکہ میں فلاح و کامیابی والے پانچ
اعمال درجہ ذیل ہیں:
(1) اللہ پاک اور
اس کے محبوب آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کامل ایمان و یقین رکھنا اور اللہ پاک کی تمام باتوں و چیزوں
پر ایمان لانا یعنی تمام ضرویات دین پر ایمان لانا فلاح و کامیابی والا عمل ہے۔(2)
نمازوں میں گڑگڑانا رونا اور یہ سمجھنا کہ
شاید یہ میری زندگی کی آخری نماز ہو۔ (3) فضول اور بیہودہ باتوں سے بچنا۔ اس سے
مراد اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ بولنا۔(4) زکوٰۃ دینا یعنی زکوٰۃ ادا کرنا۔(5) اپنی
شرمگاہ کی حفاظت کرنا۔(6) کلمہ پڑھنا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ(7) روزہ رکھنا۔ اس
میں بالخصوص ماہ رمضان المبارک کے روزے اور بالعموم بقیہ تمام مہینوں کے نفلی روزے
آجاتے ہیں۔(8) صاحب استطاعت ہونے پر بیت
اللہ کا حج کرنا فرض ۔ (9) دوسروں کی اور مظلوم کی مدد کرنا اس سے مراد یہ ہے کہ ایک
حدیث پاک میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مظلوم کے بد دعا سے
بچو کیونکہ وہ رب کریم سے اپنے حق کا سوال کرتا ہے ۔(شعب الایمان) (10) سلام کو عام کرو۔ تم فلاح و کامیابی پا جاؤ گے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی ان مذکورہ فلاح و
کامیابی والے اعمال اخلاص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد
طلحہ خان عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃ المدینہ
فیضان خلفائے راشدین ، راولپنڈی،پاکستان)

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا
ہے جو سب سے سیدھی ہے ۔(پ 15 ، بنی اسرائیل:9) اللہ پاک کا کڑوڑ ہا کڑوڑ احسان ہے
کہ جس نے ہمیں نا صرف ایمان کی دولت سے نوازہ بلکہ ایک بہترین زندگی گزارنے کے لیے
حضرتِ محمدِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی صورت میں ایک نمونہ اور
پھر قرآنِ مجید فرقانِ رشید کی صورت میں اصول و ضوابط جیسی نعمتوں سے نوازہ۔قرآنِ
کریم ایسے قوانین کا سر چشمہ ہے جو فلاح و کامیابی کی راہ دکھاتا ہے ۔ گویا کہ یہ
قرآنِ پاک کی خوبی خاصہ ہے کہ یہ بجانبِ حق رہنمائی کرنے والی کتاب ہے۔ اسی وجہ سے
رشدوحدایت سے مزین یہ کتاب جگہ بہ جگہ فلاح و کامیابی کے اصولوں سے آراستہ ہے۔ ان
میں سے دس مقامات جہاں قرآنِ رشید فلاح و کامیابی کے انمول اصول بیان کرہا ہے ذکر
کیے جاتے ہیں :
(1)وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ
اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ
یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ترجمۂ کنز العرفان: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا
چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں
اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)
(2)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا
مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ کنزالعرفان :اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے
ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔(پ 4، اٰلِ عمران :130)
(3) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ
جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵ترجمہ کنزالعرفان : اے
ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ6، مآئدہ: 35)
(4) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا
الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ، ترجمہ کنزالعرفان : اے
ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرواور اچھے کام کرو اس امید
پر کہ تم فلاح پاجاؤ۔ (پ17،الحج:77) نوٹ:یہ
آیتِ سجدہ ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔
(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ
فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ، ترجمئہ کنزالعرفان : اے
ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے
یادکرو تاکہ فلاح پاؤ۔(پ10، الانفال: 45)
(6) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک
ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو
فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ ۔(پ 18، المؤمنون:1 تا 3)
(7) وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ترجمہ ٔکنزالعرفان : اور اے مسلمانوں! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر
کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18،النور:31)
(8)وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ
وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمہ
کنزالعرفان : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی
نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)
(9) فَاٰتِ
ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ
لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: تو
رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے
جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ 21،روم:38)
(10)
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)ترجمہ کنزالعرفان : بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب
ہوگا۔ (پ 30 ، اعلیٰ :(14
یہ ایسے اعمال ہیں کہ جن
پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کی جاسکتی ہے اور آخرت میں بھی
فلاح و بہبود سے ہمکنار ہونا نصیب ہوگا ۔اور حقیقی کامیابی تو اس میں ہے کہ بندہ
دنیا میں رہتے ہوئے اپنے رب کریم کی فرمانبرداری میں زندگی گزارے ۔ اسکے بعد جو
نتیجہ نکلتا ہے ، اس کے بارے میں اللہ پاک خود فرماتا
ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا
الْاَنْهٰرُ ﲜ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیْرُؕ(۱۱) ترجمہ کنزالعرفان : بے شک جو ایما ن لائے اور انہوں نے
اچھے کام کئے ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ،یہی بڑی کامیابی
ہے۔ (پ 30، البروج : 11)
اللہ پاک ہمیں حقیقی فلاح
و کامیابی کی راہ پر چلنے کی توفیق رحمت فرمائے ۔ اٰمین
بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم

مسلمانوں پر اللہ پاک کے کئی انعامات ہیں۔ ان میں سے قرآن
مجید بھی مسلمانوں پر کسی انعام سے کم نہیں۔ قرآن مجید تمام کتابوں سے افضل ہے جو
کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کی گئی۔ اس میں ایسے اعمال بیان کیے
ہیں کہ جن کو بجالانے سے دنیا و آخرت کی کامیابی حصہ بنے گی۔ ان میں سے 10 آیات
پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں جن پر عمل کرنے سے کامیابی کی بشارت ہے۔خالق کائنات
ارشاد فرماتا ہے:
(1) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ
اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰)ترجمۂ کنزالعرفان: وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی
اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان
کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ 10،توبہ:20)
(2) وَ مَنْ
یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْفَآىٕزُوْنَ (۵۲) ترجمۂ کنزالعرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت
کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)تفسیر صراط
الجنان میں ہے اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو فرائض میں اللہ پاک کی اور
سُنّتوں میں اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اطاعت کرے اور
ماضی میں اللہ پاک کی ہونے والی
نافرمانیوں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرے اور آئندہ کے لئے پرہیز گاری
اختیار کرے تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہیں۔
(3)فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ
ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ
اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۳۸)ترجمۂ کنزالعرفان: تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین
اور مسافر کو بھی۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی
لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ 21،روم:38)
(4) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔۔(پ 30 ، اعلیٰ :(14تفسیر صراط الجنان: میں اس آیت میں لفظ ’’ تَزَكّٰى‘‘ کے بارے میں ایک
قول یہ ہے کہ اس سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد
نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کر کے مال کو
پاک کرنا مراد ہے۔
(5) اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ(۳۱)ترجمۂ
کنزالعرفان: بیشک ڈر والوں کے لئے کامیابی کی جگہ ہے ۔( پ 30 ، النبا:31)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ وہ لوگ جو کفر اور برے اعمال
سے بچتے ، اور اللہ پاک سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنت میں کامیابی کی جگہ ہے۔
(6)وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ
اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ
یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ترجمۂ کنز العرفان: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا
چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں
اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)
(7) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)ترجمۂ کنزالعرفان: بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ (پ
18، المؤمنون:1) تفسیر صراط الجنان میں اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔
(8) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ
افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷)ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان
والو!رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور اچھے کام کرو اس امید پر کہ
تم فلاح پاجاؤ۔ (پ17،الحج:77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ
واجب ہوجاتاہے ۔
(9) وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا
لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۰)ترجمۂ کنزالعرفان: اور اللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ
تم کامیاب ہو جاؤ۔ (پ 28،جمعہ:10)
(10)یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ
الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۹۰)ترجمۂ کنز
العرفان: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی
کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پ 7،مائدہ:90)
محمد الیاس عطاری مدنی (شعبہ آئی ٹی، مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی، پاکستان)

فلاح و کامیابی ایسی منزل ہے جس کی خواہش ہر ایک کے دل میں
ہوتی ہے، دنیاوی معاملات ہوں یا اُخروی، الغرض! ہر شخص زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب
ہونا چاہتا ہے، کامیابی اس کے قدم چومے اور کبھی بھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا
پڑے۔ اصل فلاح و کامیابی کیا ہے؟ کیا دنیا
ہی میں کامیاب ہو جانا ایک مسلمان کی اصل کامیابی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں اور نہ ہی
یہی ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہئے ۔ جب ہم مقصدِ تخلیق پر تفکر کریں تو اصل کامیابی
سمجھ آ جائے گی۔ مقصدِ تخلیق سے متعلق اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید پارہ 27 سورۃ الذّٰرِیٰت آیت
56 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا
لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنز الایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی
لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ۔
اصل فلاح
و کامیابی اس دن کی کامیابی ہے کہ جس دن
بندہ اپنے رب کائنات سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو، اس کا
نامۂ اعمال اسے دائیں ہاتھ ملے، بلا حساب جہنم سے نجات پا کر ابدی نعمتوں والی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہو جائے۔
دنیا کی
رنگینوں میں کھو کر، طرح طرح کی آسائش و آرائش کو دیکھ کر، دنیاوی معاملات میں
انہماک کی بدولت ہمارے ذہنوں سے حقیقی کامیابی کے خیالات و تصورات بالکل مفقود ہو
چکے ہیں۔ حالانکہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب فنا ہونے والا ہے۔ وَ مَا هٰذِهِ
الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ
لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۶۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ دنیا کی زندگی تو
نہیں مگر کھیل کود اور بےشک آخرت کا گھر
ضرور وہی سچّی زندگی ہے کیا اچھا تھا اگر جانتے۔ (پ21، عنکبوت: 64)
لہٰذا
عاشقِ رسول کو چاہئے کہ وہ حقیقی فلاح و کامیابی کے حصول میں کوشاں رہے اور اس کے
لئے اچھے طریقے سے تیاری کرے۔ اور اس بات کا خیال کرے کہ رب ذوالجلال نے حقیقی
کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ
الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ
وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا
الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۱۸۵) ترجمۂ کنز الایمان: ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو
پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی
زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔(پ4، آلِ عمران: 185) حکیمُ الاُمَّت، مُفْتی احمد
یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ
مُبارَکہ کے تَحت فرماتے ہیں : اِنسان
ہوں یا جنّ یا فِرِشْتہ ، اللہ پاک کے سِوا
ہر ایک کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے۔( نور ُالعرفان ،ص117)
اللہ پاک کے پاک
کلام، قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں کئی ایسی آیات ہیں جن کی ابتداء و انتہاء
فلاح و کامیابی اور کامیاب لوگوں کی صفات کا تذکرہ کرتی ہے۔ ان میں سے چند آیات
درج ذیل ہیں کہ جن میں فلاح و کامیابی والے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے:
(1) قرآن
کی روشنی میں کامیابی والا ایک عمل یہ بیان کیا گیا ہے کی ایمان کی حالت میں سلامتیِ عقیدہ کے ساتھ
نیک اعمال سر انجام دئیے جائیں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى
لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲) الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ
مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴)
اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵) ترجمۂ کنز
الایمان: اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم
رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں
اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین
رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر
ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔ (پ1، البقرہ: 2 تا 5)
(2)
کامیابی کاراز ایک یہ بھی ہے کہ ظاہر وباطن میں اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ
مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایسی پختہ یقین کے ساتھ محبت ہو کہ آپ کی تعظیم و توقیر کی جائے اور
زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملات ومعمولات میں آپ کی اطاعت و اتباع کی جائے اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ
نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنز الایمان: ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور
اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُتراوہی بامراد ہوئے۔(پ9،
الاعراف: 157)
(3) تقویٰ
و پرہیزگاری اختیار کرنا اور اللہ پاک کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اللہ پاک کی راہ
میں جہاد کرنا فلاح و کامیابی والا عمل ہے ۔اللہ رب العزت قرآنِ مجید فرقانِ حمید
میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز
الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں
جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، المآئدۃ: 35)
(4)
کامیاب اور فلاح یافتہ لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ باوضو رہنے اور
باجماعت نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، ہر طرح کی لغو
اور فضول گفتگو اور فحش و بیہودہ بیٹھکوں
سے کوسوں دور رہتے ہیں، اللہ پاک کے دئیے ہوئے پاکیزہ و طاہر مالوں میں سے فرض
کردہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، خوش دلی اور ایمان داری کو
اپنا وطیرہ بناتے ہیں اور عہد ومیثاق کو پورا کرتے ہیں ۔ اللہ پاک ان صفات سے متصف
لوگوں کو دائمی انعام و جزا بیان کرتے
ہوئے ارشاد فرماتا ہے: قَدْ
اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا
عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ
مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ
عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ
یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی
نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ
زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی
شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی
مِلک ہیں کہ اُن پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے
بڑھنے والے ہیں اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں اور وہ جو
اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ
اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (پ18، المؤمنون: 1 تا 11)
(5) کامل
ترین وکامیاب اورفلاح یافتہ لوگوں کی صفات
میں سے یہ ہے کہ وہ صبح و شام اللہ پاکی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اللہ پاک کی بے
شمار و ان گنت نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شکر بجا لاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ پاک
میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ترجمۂ کنز
الایمان: اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔(پ10، الانفال: 45)مزید فرمایا: فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹)ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔(پ8،الاعراف:69)
(6) فلاح و کامیابی والے اعمال میں سے ایک عمل یہ ہے کہ حلال و حرام میں تمیز
رکھیں، خبیث و طیب میں فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے، ہر کامیاب شخص ہر قسم کے
حرام و خبیث مال کے حصول سے بچتا ہے اور طیب و حلال مال کو اختیار کرتا ہے۔جیسا کہ
اللہ رب العزت ان صفاتِ حمیدہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا
اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ (۱۳۰) ترجمۂ کنز
الایمان: اے ایمان والو !سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس
سودی خصلت کو نہ چھوڑا گیا توکبھی بھی فلاح وکامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔(پ4،
آلِ عمران: 130)
(7) کامیاب
افراد ہر قسم کے شیطانی اعمال اور گناہ سے پرہیز کرتے ہیں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی،
دل آزاری، شراب، جوا اور دیگر منشیات و مہلکات وغیرہ جیسا اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ
الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ
فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان
والو! شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا
کہ تم فلاح پاؤ۔(پ7، المآئدۃ:90)
(8) قارئینِ کرام !
کامیابی اور فلاح کا دروازہ اللہ رب العزت کے حضور تمام گناہوں کی سچی توبہ سے کھلتا ہے ،واقعی سچی توبہ نہ صرف انسان کے
گناہوں کی کالک کو دھو دیتی ہے بلکہ بندے
کو فلاح و کامیابی سے ہمکَنَار کرتی ہے اللہ پاک قرآنِ مجید میں پارہ18،سُورَۃُ
النُّور،آیت نمبر31 میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنز
الایمان:اور اللہ کی طرف توبہ کرو! اے مسلمانو سب کے سب، اس امید پر کہ تم فلاح
پاؤ۔(پ18،النور:31)ان آیتوں پر غور
تو کیجئے! قراٰن مجید ہمیں توبہ کرنے پر ابھار رہا ہے، اتنا ہی نہیں توبہ کرنے پر
فلاح و کامیابی کی نوید بھی سنا رہا ہے، قربان ہوجائیے! گناہ کر کر کےجس رب کی خوب
نافرمانی کی وہی رب ہمیں اپنی بارگاہ میں رجوع لانے کا حکم دے رہا ہے، گویا ’’ہم تو
مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔
(9) قارئینِ کرام ! توبہ
پر استقامت پانے ، گناہوں سے باز رہنے ، آخرت کی حقیقی زندگی کو سنوارنے، قربِ
خدا وندی پانے، دیدارِ الہٰی سے مشرف ہونے، فلاح و کامیابی اور سعادت مندی کے
لئے پنجگانہ نماز کا پابند ہونا لازمی ہے۔
نماز کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ
افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے
کام کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔(پ17،الحج:77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ
ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔
اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو 3اَحکام دئیے ہیں :
(1)…نمازپڑھو ۔ کیونکہ نماز کے سب سے افضل
ارکان رکوع اور سجدہ ہیں اور یہ دونوں نماز کے ساتھ خاص ہیں تو ان کا ذکر گویا کہ
نماز کا ذکر ہے ۔ (2)… اللہ پاک کی عبادت کرو ۔ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ تم اپنے رب
کی عبادت کرو اور ا س کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک
نے جو کام کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان سب (پر عمل کرنے کی
صورت) میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ رکوع، سجدہ اور دیگر نیک
اعمال کو اپنے رب کی عبادت کے طور پر کرو کیونکہ عبادت کی نیت کے بغیر فقط ان
افعال کو کرنا کافی نہیں ۔ (3)…نیک کام کرو ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما فرماتے ہیں : ان سے مراد صلہ رحمی کرنا اور دیگر اچھے اَخلاق
ہیں ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ تم یہ سب کام اس امید پر کرو کہ تم جنت میں داخل ہو کر فلاح و
کامیابی پاجاؤ اور تمہیں جہنم سے چھٹکارا نصیب ہو جائے ۔(صراط الجنان، 8/ 480)
(10) فلاح و کامیابی سے مشرف مسلمان عورتوں کے لئے قرآنِ
مجید فرقانِ حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ
وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ
مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ
زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ
بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ
اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ
نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی
الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى
عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ
مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)ترجمۂ کنزالایمان: اور
مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے
گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے
بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ18،النور:31)
اللہ پاک ہم سب کو فلاح اور کامیابی والے اعمال کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم