علم ایک انتہائی بیش بہا دولت اور عظیم نعمت ہے۔ دین اسلام نے علم کو انتہائی عظیم مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو کامیاب اور اس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیتی ہے ۔علم سے مراد وہ علم ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ علم ہے جس سے دنیا و آخرت سنور جاتی ہے اور یہی علم نجات دلانے والی ہے ۔

اللہ پاک نے قرآن مجید میں علم دین حاصل کرنے والوں کی بزرگی اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)

علمائےکرام کی افضلیت : علمائے کرام کے مقام ومرتبہ کو حدیث شریف میں بھی بیان گیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد) یعنی عبادت گزار ( تھا دوسرا عالم ) یعنی علم رکھنے والا (تھا، تو سرکار اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

عالم دین عبادت گزار سے بھی زیادہ بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کے سامنے راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے عبادت گزار کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ عبادت گزار صرف اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے اور عالمِ دین نہ صرف اپنے آپ کو جہنم سے بچاتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی جہنم سے بچا کر جنت کے راستے پر چلاتا ہے۔

حضرت سیدنا مولا علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ عالم روزہ دار شب بیدار ( یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے ) مجاہد سے افضل ہے ۔(فیضان علم و علما، ص 21 )

شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہوجائے گی ۔( فیضان علم و علما، ص 14 )

علماء کرام کی مثال جیسے آسمان میں ستارے: حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ : علما کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر میں راستہ کا پتہ چلتا ہے اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔ ( جنتی زیور، ص 457 )

علماء کرام وارثین انبیاء علیہم السلام ہیں:علماء کرام کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علماء کرام انبیاء عظام علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں۔

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو علم کی راہ میں چلتا ہے تو اللہ پاک اس کی وجہ سے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ طالب علم سے خوش ہو کر فرشتے اس کے لیے اپنا پر بچھا دیتے ہیں۔ علم حاصل کرنے والے کے لیے زمین و آسمان کی سبھی چیزیں دعاء خیر کرتی ہیں حتی کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔

عبادت گزار پر عالم کی فضیلت ویسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سبھی ستاروں پر ہے۔ علماء کرام انبیاء عظام کے وارثین ہیں۔ انبیاء کرام نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم دین کو چھوڑا ہے، جس نے اس ورثہ کو پالیا ، اس نے پورا حصہ پایا ۔ (سنن ابوداود کتاب العلم باب الحث علی طلب العلم ،3/444،حدیث: 3641)

عالم کے لیے ساری کائنات دعا گو رہتی ہے: اس حدیث پاک کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے: علمائے دین کے لئے چاند سورج تارے اور آسمانی فرشتے ایسے ہی زمین کے ذرے ،سبزیوں کے پتے اور بعض جن و انس اور تمام دریائی جانور مچھلیاں وغیرہ دعائے مغفرت کرتے ہیں۔کیونکہ علمائے دین کی وجہ سے دین باقی ہے اور دین کی بقا سے عالَم قائم ہے۔ علما کی کی برکتوں سے بارشیں ہوتی ہیں اور مخلوق کو رزق ملتا ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 1 / 194 )

علماء کرام سے محبت کرنے کا حکم:علمائے کرام کی محبت ان کی صحبت ، ان سے تعلق رکھنا ہماری دینی و دنیاوی زندگی کے لیے مفید ہے ، ان کی معیت سے علم اور آداب و اخلاق سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم دین بنو، یا طالب علم بنو، یا عالم دین کی بات سننے والا بنو، یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچواں مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔( فضائل علم و علما ، ص 82 )

علمائے کرام کی عظمت و رفعت کا خیال رکھیں اور ان کی برائی کرکے اپنے انجام کو خراب نہ کریں۔ علمائے کرام اللہ پاک کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک انہیں اپنے دین کے لیے چنتا ہے لہذا، ان کی برائی انتہائی سنگین جرم اور گناہ کا باعث ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم علمائے کرام کا احترام کریں۔

اللہ پاک ہمیں علماء کرام کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم