طلوعِ اسلام سے قبل جہالت کے سبب لوگ مختلف امراض کا شکار تھے۔ مثلاً بت پرستی ،شراب نوشی،قتل و غارت وغیرہ وغیرہ۔ طلوع اسلام سے نہ صرف جہالت کا خاتمہ ہوا بلکہ ان امراض کا بھی تدارک ہوا۔ اسلام نے پہلا پیغام ہی علم کے حوالے سے دیا جس کے الفاظ یہ ہیں:اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا(پ 30،العلق:01)اگر اللہ پاک کے نزدیک علم سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے مقابل میں دی جاتی۔اللہ پاک نے علم والوں کی قرآن پاک میں یہ شان بیان فرمائی :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

دوسرے مقام پر علما کی یہ شان فرمائی :قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔(پ 23 ،الزمر : 09)

1۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :عالم اور عابد کے درمیان 100درَجے ہیں اور ہر دو درَجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنی مسافت سدھایا ہوا عمدہ گھوڑا 70سال تک دوڑ کر طے کرتا ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب تفضیل العلم علی العبادۃ، ص 43،حدیث:118)

2۔حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مبارَک رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ انسان کون ہیں ؟ فرمایا: علما۔ پھر پوچھاگیا: بادشاہ کون ہیں ؟فرمایا: پرہیزگار۔ پھر پوچھا گیا: گھٹیا لوگ کون ہیں ؟ فرمایا: جو دین کے بدلے دنیا حاصل کرتے ہیں ۔

3۔حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ نے غیر عالم کو انسانوں میں شمار نہ کیا کیونکہ علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے انسان تمام جانوروں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ پس انسان اس وصف کے ذریعے انسان ہے۔ جس کے باعث اسے عزت حاصل ہوتی ہے۔امام غزالی لکھتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ عالم باعمل کو ملکوت آسمان (آسمان کی سلطنت)میں عظیم شخص کہا جاتا ہے۔(فضل العلم والعلماء)

4۔حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک عالم دین کے لیے زمین و آسمان کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔(مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث :210 )ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ عالموں کے لیے مچھلیوں کی دعائے مغفرت کو اس لیے خاص کیا کہ پانی جو مچھلیوں کی زندگی کا باعث ہے وہ علما کی برکت سے نازل ہوتا ہے۔(مرقاۃ شرح مشکاۃ ،1/230)

5۔حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علما زمین کا چراغ ہیں اور انبیاء کے جانشین ہیں اور میرے اور دیگر انبیاء کے وارث ہیں۔(کنزالعمال، 10/77)

اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :علما نبیوں کے وارث ہیں اور آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں۔ جب علما انتقال فرماتے ہیں تو قیامت تک مچھلیاں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں (ایضاً)

اللہ پاک ہمیں علمائے حق کا فیض عطا فرمائے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم