مبشر عبدالرزاق عطّاری
(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور پاکستان)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں
اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کر جہانِ آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے اس سفر کے
دوران ہمیں قبر و حشر اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے بعد جنت یا
دوزخ ٹھکا نہ ہوگا۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دارِ آخرت کی آبادی جبکہ گناہ
بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز اور کچھ باطنی
جیسے اخلاص اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور بعض باطنی مثلاً تکبر۔
چنانچہ ہر اسلامی بھائی پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گنا ہوں کے علاج پر
توجہ دینا لازم ہے۔ باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے یہ ایک نہایت مذموم، قبیح،
ہلاکت میں ڈالنے والا اور بربادی ایمان کا سبب بننے والا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام
اہلسنت فرماتے ہیں : حسد ایسا مرض ہے جس کو لاحق ہو جائے ہلاک (برباد) کر دیتا ہے۔(فتاوی
رضویہ ،19/420)
قراٰن پاک میں متعدد مقامات پر حسد کی مذمت بیان کی گئی ہے ۔
جیسا کہ الله پاک قراٰن پاک میں یہودیوں کے مرض کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ
النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ
اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جواللہ نے انہیں اپنے فضل
سے دیا تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک
دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا
یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق الخامس عشر۔۔۔الخ ،1/600)حسد کا حکم : اگر انسان کے اختیار و ارادے سے دل میں
حسد کا خیال آئے اور وہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کتا ہے
تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقہ الندیہ، 1/ 601)
اسی طرح بہت سی احادیث کریمہ میں حسد کی شدید مذمت بیان کی
گئی ہے کیونکہ یہ ایک برا اور مذموم فعل ہے۔ چنا نچہ ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم
ہے لہذا حسد کی مذمت پر آپ بھی پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھیے :
(1) آپس میں حسد نہ کرو: حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی
برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ کے بندو!ا بھائی بھائی ہو کر رہو۔(صحیح البخاری ،
کتاب الادب ، 4/117 ، حديث: 4044)
(2) نیکیاں ضائع ہو جانا : نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے
آگ خشک لکڑی کو ۔ (ابوداؤد ، کتاب الادب، 4 / 360 ،حدیث :4903)
(3) حاسد کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں: رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : حسد کرنے والے، چُغلی کھانے والے
اور کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں ۔(مجمع الزوائد، کتاب الادب،
باب ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، 8/172،حدیث : 13126)
(4) ایمان کی دولت چھن جانے کا خطرہ: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ الله
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے
والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی،
کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)
(5) بغیر حساب جہنم میں داخلہ : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے:چھ اَفراد ایسے ہیں جو بروزِ قِیامت بِغیر
حساب کے جہنَّم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ عَرْض کی گئی : یارسولَ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون لوگ ہیں ؟
فرمایا : (1) حاکِم اپنے ظُلم کے باعِث (2) اہلِ عَرَب تعَصُّب (یعنی قوم پرستی کہ
ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرتے رہنے ) کے سبب (3) گاؤں کا سردار تکبُّرکی بدولت (4)
تاجِر خِیانت کرنے کی وجہ سے (5)دیہاتی اپنی جَہالت کے سبب (6) اور ذی عِلم اپنے
حَسَد کے باعِث ۔(کنزالعمال، 16/37، حدیث : 44023،ملخصًا)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور سے سوچئے ! اس حسد کا کیا
فائدہ محض لذتِ نفس جبکہ اس کے مقابلے میں
اللہ و رسول کی ناراضگی، ایمان کی دولت چھن جانے کا خطرہ، نیکیاں ضائع ہو جانا ہے۔
مختلف گناہوں میں مبتلا ہو جانا، نیکیوں کے ثواب سے محروم رہنا ، دعا قبول نہ ہونا
، نصرتِ الہی سے محرومی ، ذلت و رسوائی کا سامنا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو
جانا، خود پر ظلم کرنا اور بغیر حساب جہنم میں داخلہ۔
حسد سے بچنے کے طریقے: محترم قارئین! آپ نے ملاحظہ فرمایا
کہ حسد ایک مہلک اور مذموم بیماری ہے۔ ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے لہذا آپ بھی
حسد سے بچنے کے طریقے ملاحظہ فرمائیے ! (1) توبہ کر لیجئے (2) دعا کیجئے (3)رضائے الٰہی
پر راضی رہیے (4)حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیے(5) اپنی موت کو یاد کیجئے (6)
لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ کیجئے(7) حسد سے بچنے کے فضائل پر نظر ر کھئے (8)
دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنا لیجئے اور حسد کی عادت کو رشک میں تبدیل
کر لیجئے انشاء اللہ درج ذیل تدابیر اختیار کر کے حسد سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں حسد
سے بچنے اور رشک کی عادت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
فیصل یونس(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان رائیونڈ
لاہور پاکستان)

حسد یہ ہے کہ کسی کی نعمتوں کے زوال و بربادی کی تمنا کرنا۔یہ
بڑی ہی مہلک اور بہت ہی موذی دل کی بیماری ہے
اور حرص ہی کی طرح یہ بھی بڑے بڑے گناہوں کا سر چشمہ ہے۔ اس لئے خداوند
قدوس نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو حسد سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اور قراٰن مجید میں
نازل فرمایا: ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)اس
بارے احادیث مبارکہ پڑھیں:
(1) حسد نیکیاں کھا جاتا ہے: نبی اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے
آگ خشک لکڑی کو ۔ (ابوداؤد ، کتاب الادب، 4 / 360 ،حدیث :4903)علامہ ملاعلی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی تم مال
اور دنیوی عزت و شہرت میں کسی سے حسد کرنے سے بچو کیونکہ حاسد ، حسد کی وجہ سے ایسے
ایسے گناہ کر بیٹھتا ہے جو اس کی نیکیوں کو اسی طرح مٹا دیتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو،
مثلاً حاسد محسود کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں محسود کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔ یوں محسود کی
نعمتوں اور حاسد کی حسرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ، 8/772،تحت الحدیث :5039
)
(2) حاسد اور چغل خور ہم میں سے نہیں : رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمان ہے ۔ حسد کرنے والے، چُغلی کھانے والے اور
کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں ۔(مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب
ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، 8/172،حدیث : 13126)
(3)حسد ایمان کو بگاڑتا ہے: رسولِ اکرم نور مجسم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا
ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع
صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819)
(4)بغض و حسد دین کو مونڈ دیتے ہیں : رسولُ الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں پچھلی اُمّتوں کی بیماری حَسَد
اور بُغْض سرایت کر گئی ، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی
ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(سنن الترمذی،کتاب صفۃ القیٰمۃ،4/228،الحدیث:2518) حکیمُ الْاُمَّت
حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :
اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے خَتم کر دیتی ہے کبھی انسان بُغْض و حَسَد میں
اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/615)
(5) بھائی بھائی بن کر رہو: رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد مت کرو اور ایک دوسرے سے
بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور اے اللہ کے بندو! تم آپس میں ایک
دوسرے کے بھائی بھائی بن کر رہو۔(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب یایھا الذین اٰمنوآ
اجتنبوا...الخ، 4/117،حدیث:6066)
پیارے بھائیو : اپنے رب کی نافرمانی کر کے شیطان خود تو
تباہ و برباد ہو چکا، اب وہ دوسروں کی تباہی و بربادی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اور حسد اس کا
اہم ہتھیار ہے لہذا شیطان کے ہتھیار سے جان چھڑائیں اور اپنے رب العلمین کے فرمان
پر عمل کریں اور خور علیہ الصلوۃ والسلام کی سنتوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ اللہ
پاک ہمارا حامی و ناصر ہو۔
محمد عدنان سیالوی عطّاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدينہ فیضان
امام غزالی گلستان کالونی فیصل آباد پاکستان)

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہماری مکمل
راہ نمائی کرتے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ اگر ہم جناب رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر عمل کرتے ہیں تو ہم آخرت میں
کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اب موجودہ زمانے کے اعتبار حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا
اپنانا بہت ضروری ہے تاکہ ہم کل قیامت کے دن کامیاب ہو سکے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے
میں بھی بہت سے گناہ عمام ہوتے جا رہے ہیں جن میں سے ایک "حسد" بھی ہیں۔
آئیے حسد کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں۔
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا
یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق الخامس عشر۔۔۔الخ ،1/600)آیت
مبارکہ : الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى
مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جواللہ نے انہیں اپنے فضل
سے دیا تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک
دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
حسد کا حکم : اگر انسان کے اختیار و ارادے سے دل میں حسد کا خیال آئے اور وہ اس پر عمل بھی
کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا
کام ہے۔ (الحدیقہ الندیہ، 1/ 601)
(1) فرمانِ
مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: حسد ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے
جیسے ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
(2)روایت ہے حضرت زبیر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی
ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی)
(3) روایت ہے
حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فقیری
قریب ہے کہ کفر ہو جاوے اور حسد قریب ہے
کہ تقدیر پر غالب آجاوے۔
(4)روایت ہے
حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا گیا
کہ لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا ہر سلامت دل والا سچی زبان والا، لوگوں نے
عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں تو سلامت دل والا کیا ہے ؟ فرمایا وہ ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ
بغاوت نہ کینہ اور نہ حسد ۔ (ابن ماجہ، بیہقی شعب الایمان)
(5)روایت ہے
حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرما یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد
سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو (ابوداؤد )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو !ہمیں بھی پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس پیاری سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے دل کو بغض و حسد سے پاک
کرتے ہوئے ہر چھوٹے بڑے کو سلام کرتے وقت پہل کرنی چاہیے اور کبھی ہمارے دل میں کسی مسلمان کے لیے حسد پیدا ہو بھی جائے تو
خود کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فوراً توبہ کر لینی چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس شیطانی
کام کے سبب اللہ ہم سے ناراض ہو جائے اور ہماری دنیا و آخرت برباد ہو جائے ۔ یاد
رکھئے ! حسد سب سے پہلا آسمانی گناہ ہے جو شیطان نے کیا تھا۔ حضرت علامہ جلال الدین
سیوطی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ نقل کرتے
ہیں۔ رب تعالٰی کی پہلی نافرمانی جس گناہ کے ذریعے کی گئی وہ حسد ہے۔ ابلیس ملعون
نے حضرت سیدنا آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کے معاملے میں ان سے حسد کیا۔ لہذا
اسی حسد نے ابلیس کو اللہ رب العلمین کی نافرمانی پر ابھارا ۔ اللہ پاک ہمیں حسد
سے بچائے اور اللہ کا شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عبد المبین عطّاری (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدينہ فیضان
امام غزالی گلستان کالونی فیصل آباد پاکستان)

پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے
نماز اور کچھ باطنی جیسے اخلاص ۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل
اور بعض باطنی جیسے تکبر ۔ ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کے علاج پر بھی
بھر پور توجہ دینا لازم ہے ۔ حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری
اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، تکبر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری
اعمال بھی درست ہو نگے ۔ (منہاج العابدین ، ص 13) باطنی گناہوں کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔ انہی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے۔ حسد شیطانی کام
ہے کیونکہ سب سے پہلا آسمانی گناہ حسد ہی تھا اور یہ شیطان نے کیا تھا۔
حضرت وہب بن منبہ رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں :حسد سے بچو، کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے
آسمان میں اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین
میں اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی ۔(تنبیہ المغترین، الباب الثالث فی جملۃ اخری من
الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ عنہم عدم الحسد لاحد من المسلمین۔۔۔ الخ، ص188)
حسد کی تعریف : کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ
خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات، ص43)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و
ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض
اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات ، ص 44) اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ
النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو
اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔ (پ5، النسآء : 54)
حسد باطنی بیماریوں کی ماں ہے ۔ غصے کی کوکھ سے کینہ اور کینے
کے بطن سے حسد جنم لیتا ہے اور حسد سے بدگمانی و شماتت جیسی بہت سی ظاہری و باطنی
بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، اسی لیے حسد کو ام الامراض یعنی بیماریوں کی ماں کہا گیا
ہے۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حسد ایک مذموم صفت ہے ۔ حسد کی مذمت کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ آپ بھی پڑھئے :
(1) نیکیوں کو کھا جاتا ہے: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے
جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘ یا فرمایا: گھاس کو کھا جاتی ہے۔(ابو داؤد، کتاب
الادب، باب فی الحسد، 4 / 361، حدیث: 4903)
(2)ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے: آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے ۔(سنن نسائی،
کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ ۔۔۔ الخ، ص505 ،حديث : 3610)
(3)حسد ایمان کو تباہ کر دیتا ہے: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر
دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا
ہے۔(جامع صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819)
(4) کوئی تعلق نہیں: اللہ پاک کے مَحبوب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے حاسِد سے اپنی بیزاری کا اِظہار ان اَلفاظ میں فرمایا ہے : حَسَد
کرنے والے، چُغلی کھانے والے اور کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں
۔(مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، 8/172،حدیث : 13126)
(5) بغیر حساب جہنم میں داخلہ: خوفِ خدا رکھنے والے مسلمان جنت میں بے حساب داخلے کی رو
رو کردعا کرتے ہیں مگر حاسِد کی بدنصیبی دیکھئے کہ اس کو حساب لئے بغیر ہی جہنم میں
داخل کیا جائے گا، چنانچہ اللہ پاک کے
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے:چھ اَفراد ایسے ہیں جو بروزِ قِیامت بِغیر
حساب کے جہنَّم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ عَرْض کی گئی : یارسولَ اﷲ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : (1) حاکِم اپنے ظُلم کے باعِث (2)
اہلِ عَرَب تعَصُّب (یعنی قوم پرستی کہ ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرتے رہنے ) کے سبب
(3) گاؤں کا سردار تکبُّرکی بدولت (4) تاجِر خِیانت کرنے کی وجہ سے (5)دیہاتی اپنی
جَہالت کے سبب (6) اور ذی عِلم اپنے حَسَد کے باعِث ۔(کنزالعمال، 16/37، حدیث : 44023،ملخصًا)
(6) ہر خطا کی جڑ :فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم: حسد سے بچتے رہو کیونکہ
حضرت آدم علیہ السّلام کے دوبیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو حسد ہی کی بنا پر قتل کیا
تھا ، لہٰذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔ (جامع الاحادیث للسیوطی ، 3/395،حدیث: 9314)یادر
ہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثرو وجاہت سے گمراہی
اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنے سے
محفوظ رہنے کیلئے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا کرنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی
نہیں۔
حسد
کے اسباب : سات چیزیں حسد کی بنیاد بن سکتی ہیں: (1) بغض و عداوت (2)
خود ساختہ عزت (3) تکبر (4)احساس کمتری (5) من پسند مقاصد کے فوت ہو جانے کا خوف (6)
حب جاہ (7) قلبی خباثت۔
محترم قارئین! ہم بھی اپنی ذات پر غور کریں کہ کہیں ہم بھی
حسد کی بیماری میں مبتلا تو نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے سے حسد جیسی مذموم صفت
کو ختم کریں اور آپس میں محبت و بھائی چارہ قائم کریں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ
اللہ پاک ہم سب کو حسد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دینِ اسلام کے احکامات کے
مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ:حسد کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃُ المدینہ کا
مطبوعہ رسالہ "حسد" کا مطالعہ کیجئے ۔ علم دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔ ان شاء الله
محمد زوہیب عطاری
(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ ڈگری ضلع میر پور خاص، سندھ پاکستان)

حسد انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے۔ حسد بدترین صفت ہے اور
یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سر زد ہوا اور زمین میں قابیل سے۔
حسد ایک ایسی بری عادت ہے جس سے انسان کا جسم تو متاثر ہوتا ہی ہے، لیکن اس سے کہیں
زیادہ اس کا دین و ایمان بھی متاثر ہوتا ہے۔ دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی
کتاب احیاء العلوم ، جلد 3 صفحہ 658 پر ہے: حضرت سیدنا زکریا علیہ السّلام نے فرمایا
کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: حاسد میری نعمت کا دشمن ہے، میرے فیصلے پر ناخوش اور
میری اُس تقسیم پرناراض ہوتا ہے جومیں نے اپنے بندوں کے درمیان کی۔
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا
یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق الخامس عشر۔۔۔الخ ،1/600)حسد کا حکم : اگر انسان کے اختیار و ارادے سے دل میں
حسد کا خیال آئے اور وہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کتا ہے
تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقہ الندیہ، 1/ 601) حسد کرنا بالاتفاق حرام ہے۔ (المرجع السابق)
حسد کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم:(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حسد نیکیوں کو اس طرح کھا تا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی
ہے اور صدقہ خطا کو بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب
الزھد، باب الحسد،4/473،حدیث: 4210) (2)حضرت معاویہ
بن حیدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور
انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت
کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819)
(3)حضرت زبیر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے
والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی،
کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)حسد اور بغض یہ
(دونوں) دین کو مونڈ دیتی ہے ۔ " کہ تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں: حسد اور بغض اس طرح کہ دین ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی
انسان بغض و حسد میں اسلام ہی کو چھوڑ دیتا ہے شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا
مارا ہوا ہے (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 6، حدیث: 5039 K)
(4)فرمانِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
ابلیس (اپنے چيلوں سے) کہتا ہے: انسانوں
سے ظلم اور حسد کے اعمال کراؤ کیونکہ یہ دونوں عمل اللہ پاک کے
نزدیک شرک کے برابر ہیں۔(جامع الاحادیث،3/60، حدیث:7269)
(5)الله پاک
کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی
نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں ۔ عرض کی گئی: وہ کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا: وہ جو
لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے اُن کو نعمتیں عطا فرمائی
ہیں ۔(شعب الایمان ، باب فی الحث علی ترک الغل والحسد، الحدیث تحت الباب، 5 / 263)
میں حسد کیوں کروں؟ حضرت سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرِین
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے دنیا کی کسی چیز پر کسی سے حسد نہیں کیا کیونکہ
اگر وہ شخص جنتی ہے تو میں دنیا کی وجہ سے کیسے اس سے حسد کر سکتا ہوں جبکہ دنیا
تو جنت کے مقابلہ میں بہت حقیر ہے اور اگر وہ جہنمی ہے تو میں دنیا کے کسی معاملے پر
کیوں اس سے حسد کروں جبکہ اس کا انجام ہی جہنم ہے۔ (احیاء العلوم (مترجم)، 3/662)
یاد رہے کہ حسد حرام ہے۔ حسد سے محبت، شفقت، صلہ رحمی اور ایثار
و قربانی کے بنیادی اسلامی جذبات بھی فنا ہو جاتے ہیں اور حسد انسانیت کے لئے زہر
قاتل ہے ۔ حسد ایمان کیلئے تباہ کن ہے۔ معلوم ہو ا جس سے حسد کیا جا رہا ہے وہ مطمئن
ہے۔ اور جو انسان اپنے دل میں حسد کر رہا ہے وہ پریشان ہے۔ گویا حاسد اپنے آپ کو
خوامخواہ ایک موذی مرض میں مبتلا کر رہا ہے۔ اور اس موذی مرض کا علاج نہ کرنے کی
صورت میں انسان دنیا میں اللہ پاک کی ناشکری کی طرف جا نکلتا ہے اور پھر آخرت کا
وبال اپنی جگہ۔
حسد کا علاج: حسد بلکہ تمام گناہوں سے توبہ کیجئے۔ حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیے ، حسد
سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھیے، رضائے الہی پر راضی رہیے ، لوگوں کی نعمتوں پر
نگاہ نہ رکھیے، اپنی خامیوں کی اصلاح میں لگ جائیے، نفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیریں
کیجئے، دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیے، روحانی علاج بھی کیجئے۔ ہر
وقت بارگاہِ رب العزت میں حسد سے بچنے کیلئے استغفار کرتے رہے، شیطان کے مکر و فریب
سے پناہ مانگئے، جب بھی دل میں حسد کا خیال آئے تو اعوذ بالله پڑھ کر اپنے بائیں
طرف تین بار تھو تھو کر دیجئے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 50 تا 52، مع ترمیم)
الله پاک ہم سب کو حسد جیسی موذی مرض سے بچائے اور ہمارا
خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد حدیر فرجاد(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی کراچی پاکستان)

ہمارے معاشرے میں کثیر برائیاں عام ہیں اور لوگ ان برائیوں
کو برائی بھی نہیں سمجھتے اور کچھ برائیاں جو ہمارے معاشرے میں عام ہے وہ گناہ بھی
ہیں۔ جیسے جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، کسی کی دل آزاری کرنا ، امانت میں خیانت کرنا،
وعدہ کے خلاف کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا وغیرہ وغیرہ برائیاں ہمارے اس معاشر ے میں
عام ہیں۔ جن میں سے ایک مہلک بیماری جس کے اندر تقریباً ہر کوئی مبتلا دیکھا جا
رہا ہے اور یہ برائی ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے پھر اس سے دیگر
برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ بھائی کا بھائی سے حسد ، رشتہ داروں کا ایک دوسرے سے
حسد ( العیاذ بالله )
حسد کی مذمت قراٰن و حدیث دونوں میں بیان ہوئی ہے اللہ پاک
قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ
بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ ﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے
تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ۔( پ5، النسآء : 32)
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال یعنی چھن جانے کی تمنا
کرنا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے حسد کہلاتا ہے حسد کرنے والے کو
حاسد اور جس سے حسد کیا جائے اس محسود کہتے ہیں۔( آئیے فرض علوم سیکھئے ،ص675)
حسد کا حکم: حسد حرام ہے اگر غیر اختیاری طور کسی کے بارے میں حسد آیا اور یہ اس کو برا
جانتا ہے تو اس پر گناہ نہیں (جب تک کہ اعضاء سے اس کا اثر ظاہر نہ ہو)۔ (فتاوی
رضویہ ،13/648)
حسد کی مثالیں: کسی کو مالی طور پر خوشحال دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ یہ نعمت چھن کر مجھے مل
جائے، کسی کا منصب دیکھ کر تمنا کرنا اس سے چھن کر مجھے مل جائے۔اسباب: بغض وکینہ، تکبر، احساس کمتری ، حب جاه
حسد سے بچنے کے طریقے: زیادہ طلبی کی حرص ختم کریں جو ملا ،جتنا ملا اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور
قناعت اختیار کریں، موت کو کثرت سے یاد کریں۔
آیت کی تفسیر : جب ایک انسان
دوسرے کے پاس کوئی ایسی نعمت دیکھتا ہے جو اس کے پا س نہیں تو ا س کا دل تَشویش میں
مبتلا ہو جاتا ہے ایسی صورت میں اس کی حالت دو طرح کی ہوتی ہے(1) وہ انسان یہ تمنا
کرتا ہے کہ یہ نعمت دوسرے سے چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے۔ یہ حسد ہے اور حسد
مذموم اور حرام ہے۔ (2) دوسرے سے نعمت چھن جانے کی تمنا نہ ہو بلکہ یہ آرزو ہو کہ
ا س جیسی مجھے بھی مل جائے، اسے غبطہ کہتے ہیں یہ مذموم نہیں۔ (تفسیر صراط
الجنان پ 5، النسآء آیت 32 )حسد کی احادیث میں بھی مذمت بیان کی گئی ہیں چند ایک
آپ بھی پڑھئے:
حدیث اول: حضرت زبیر رضی الله عنہ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ
والسلام نے فرمایا کہ اگلی امتوں کی بیماری تمہاری طرف بھی آگئی وہ بیماری حسد و
بغض ہے جو مونڈنے والی ہے ۔ میرا یہ مطلب
نہیں کہ وہ بال مونڈتی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈتی ہے ۔ (ترمذی، انوار الحديث)
حدیث ثانی: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
حسد سے اپنے آپ کو بچاؤ اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ
لکڑی کو ۔ (ابوداؤد)
اللہ پاک ہم سب کو اس مہلک بیماری سے دور رکھے اور اس سے
ہماری اور ہمارے گھر والے و اولاد وغیرہ کی حفاظت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد جمیل الرحمٰن(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق
اعظم سادھوکی لاہور پاکستان)

دور حاضر میں اسلامی معلومات کی کمی ہونے کی وجہ سے
مسلمانوں کی اکثریت باطنی بیماریوں کا شکار ہوتی جاری ہے کوئی بغض و عداوت میں
مبتلا نظر آتا ہے تو کوئی تکبر کی آفت میں پڑا ہے۔ انہی باطنی بیماریوں میں ایک
بہت ہی مذموم و قبیح باطنی بیماری حسد بھی ہے۔ جی ہاں اس میں بھی ایک بھاری تعداد
مبتلا ہے۔ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا
کہ یہ نعمت فلاں کو نہ ملے اس کو حسد کہتے ہیں۔کہا جاتا ہے حسد تمام باطنی بیماریوں
کی ماں ہے یعنی انسان کو کسی پر غصہ آنا ،
غصے سے کینہ اور کینے کی بطن سے حسد جنم لیتا۔
احادیث مبارکہ میں حسد کی مذمت بیان ہوئی جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
حدیث(1) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک
دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ کے بندو!ا بھائی بھائی ہو کر رہو۔(صحیح
البخاری ، کتاب الادب ، 4/117، حديث: 4044) وضاحت: مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ
کے تحت فرماتے ہیں: یعنی بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی
ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے لہذا ہر عیوب چھوڑ دو تا کہ بھائی بھائی
بن جاؤ۔ (مراۃ المناجیح)
حدیث(2) آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسد سے اپنی بیزاری کا اظہار ان الفاظ
میں فرمایا : لَیْسَ مِنِّیْ ذُوْحَسَدٍ وَلاَ نَمِیْمَۃٍ وَلاَ
کَہَانَۃٍ وَلاَ اَنَا مِنْہُ یعنی حَسَد کرنے
والے، چُغلی کھانے والے اور کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں
۔(مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، 8/172،حدیث : 13126)
ایمان انمول دولت ہے اور مسلمان کے لیے ایمان کی سلامت سے
اہم کوئی چیز نہیں مگر حسد میں مبتلا ہو جانے والے کے ایمان کو خطرات لاحق ہو جاتے
ہیں۔ چنانچہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: تم میں
پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں
کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518) مفتی احمد یار
خان رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ اس طرح کہ دین ایمان کو جڑ
سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی کو چھوڑ دیتا ہے شیطان بھی
انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔ (مراة المناصحیح ، 6/615)
حدیث : پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: لَا
یَجتَمِعُ فِی جَوفِ عَبدٍ مُّؤمِنٍ اَلاِیمانُ وَالحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں
ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔(شعب الایمان،5/266،حدیث:6609)
حدیث : حسد کا مرض کبھی کبھی تو اتنا بگڑ جاتا ہے کہ حسد کرنے والا محسود یعنی جس سے
حسد کیا جاتا ہے اس کو قتل ہی کر ڈالتا۔ ہے چنانچہ دافع رنج و ملال ، صاحب جو دو
نوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: حسد سے بچتے رہو کیونکہ
حضرت آدم (علیہ السّلام) کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو حسد ہی کی بنا پر قتل
کیا تھا، لہذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔ (جامع الاحاديث للسيوطى ، 3/390،حديث : 9314، ملخصاً)
حدیث : حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں : میں ہر شخص کو راضی کر سکتا
ہوں سوائے اس شخص کے جو میری کسی نعمت سے حسد کرتا ہے کیونکہ وہ اسی وقت راضی ہوگا
جب وہ نعمت مجھ سے چھن جائے گی۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 1/116)
حسد کی مذمت پر اور
بھی کئی احادیثِ مبارکہ موجود ہے اور یہ بہت ہی مذموم ہے۔ اور ہلاکت میں ڈالنے والی
باطنی بیماری ہے الله پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حسد جیسی باطنی بیماری سے
محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کریں نہ تنگ خیالاتِ بد کبھی
، کردے
شعور و فکر کو پاکیزگی عطا یا رب
محمد ثقلین عطاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدينہ فیضان امام
غزالی گلستان کالونی فیصل آباد پاکستان )

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہماری مکمل
راہ نمائی کرتے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ اگر ہم جناب رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر عمل کرتے ہیں تو ہم آخرت میں
کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اب موجودہ زمانے کے اعتبار حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا
اپنانا بہت ضروری ہے تاکہ ہم کل قیامت کے دن کامیاب ہو سکے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے
میں بھی بہت سے گناہ عمام ہوتے جا رہے ہیں جن میں سے ایک "حسد" بھی ہیں۔
آئیے حسد کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں۔
حسد کی تعریف : دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل رسالے ’’حسد‘‘ صفحہ 7 پر ہے: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے
چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا
نام حسد ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص43)آیت مبارکہ: الله پاک قراٰنِ پاک میں
ارشاد فرماتا ہے : ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ
مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے ابراہیم
کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
حسد
کا حکم : اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال
آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 44)
(1)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے ۔(سنن نسائی، کتاب
الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ ۔۔۔ الخ، ص505 ،حديث : 3610)
(2)حضرت معاویہ
بن حیدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور
انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت
کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819)
(3)حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے: حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح
کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص44)
(4) قطع تعلق نہ کرنا: حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایک دوسرے سے بعض نہ رکھو
اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی
مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے ۔ (صبح مسلم ،
حدیث : 2029)
(5) حسد دو باتوں میں: شہاب بن عباد، ابراہیم بن حمید، اسماعیل ، قیس، عبد الله سے روایت کرتے ہیں
انہوں نے بیان کیا کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کہ
حسد دو ہی باتوں میں ہے ایک تو وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور راہ حق میں خرچ
کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت دی وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا
ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔(صحیح بخاری، حدیث : 2011 )
حسد کے اسباب : دین سے دوری اور مذہب کی مکمل تعلیمات نہ ہونا، حسد کے اسباب میں سے ایک سبب
ہے۔ کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہر اچھی تقدیر الله کی طرف سے ہے جو تمام جہانوں کا
مالک ہے۔ اگر پختہ ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں
اللہ کی تقسیم سے خوش رہنا چاہیے کیونکہ رب کائنات نے ہر انسان کو اپنی مرضی کے
مطابق مخصوص انداز میں نوازا ہے۔ مصلحت کے تحت کسی کے پاس نعمتیں زیادہ اور کسی کے
پاس کم ہیں۔ اپنی نعمتوں کا کسی اور کی نعمتوں کے ساتھ موازنہ کرنا ایمان کی کمزوری
کو ظاہر کرنا ہے۔
(1) بغض و
عناد اور عداوت ہے۔ کیونکہ یہ غیر ممکن ہے کہ ایک شخص کے نزدیک دشمن کی بھلائی و
برائی دونوں برابر ہیں اس لیے دشمن اور مخالفت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دشمن
پر بلا اور مصیبت آئے۔ اور جب یہ مصیبت آتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے، اس کے بجائے جب خدا اس پر کوئی احسان کرتا ہے تو وہ اس کو
پسند نہیں کرتا ، اس کا نام حسد ہے ۔
(2)حسد کا
دوسرا سب ایک شخص دوسرے شخص کو اپنا مطیع و منقاد بنانا چاہتا ہے۔ جب کوئی کسی شرف
و امتیاز کی وجہ سے اس کے حلقۂ اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا یہ
شرف جاتا ر ہے تاکہ وہ اس کا مطیع و منقاد نہ ہو سکے۔ کفارِ قریش اسی بنا پر
مسلمانوں کی جماعت کو دیکھ کر کہتے تھے: اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَاؕ (پ7،الانعام : 53)
مدنی مشورہ : حسد کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ 96 صفحات پر
مشتمل رسالہ "حسد" کا مطالعہ کیجئے۔
تنویر احمد (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم
سادھوکی لاہور پاکستان)

آیتِ مبارک: ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ
مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے ابراہیم
کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
حسد
کا حکم : اگر انسان کے اختیار و ارادے سے دل میں حسد کا خیال آئے اور
وہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کتا ہے تو یہ حرام اور جہنم
میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقہ الندیہ، 1/ 601) حسد
ایمان کے لیے تباہ کن ہے۔حسد کی تعریف : کہ کسی
مسلمان بھائی کو ملنے والی نعمت چھن جانے کی آرزو کی جائے، اور ایسی آرزو کی
برائی محتاج بیان نہیں۔
حسد
کی مذمت پر حدیث پاک ملاحظہ ہو :(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی کے دل میں ایمان
اور حسد جمع نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ،
ص505، حدیث: 3610)
(2) حضرت
معاویہ بن حیدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے، حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت
کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819) یاد رہے کہ حسد
حرام ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔اس سے متعلق مزید تفصیل
جاننے کے لئے امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ
کی مشہور کتاب ’’احیاء علوم الدین ‘‘ کی تیسری جلد میں موجود حسد سے متعلق بیان
مطالعہ فرمائیں۔
(3) حضرت وہب بن منبہ رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں :حسد سے بچو، کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے
آسمان میں اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین
میں اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی ۔(تنبیہ المغترین، الباب الثالث فی جملۃ اخری من
الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ عنہم عدم الحسد لاحد من المسلمین۔۔۔ الخ، ص188)
یاد رہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت
یا اثر و وجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے
لیے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔(خازن،1/80، البقرۃ،
تحت الآیۃ: 109)(حَسَدًا: حسد کی وجہ سے۔)
اسلام کی حقانیت جاننے کے بعد یہودیوں کا مسلمانوں کے کفر و ارتداد کی تمنا کرنا اور
یہ چاہنا کہ وہ ایمان سے محروم ہو جائیں حسد کی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ
حسد بہت بڑا عیب ہے اور اس کی وجہ سے انسان نہ صرف خود بھلائی سے رک جاتا ہے بلکہ
دوسروں کو بھی بھلائی سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو
چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔
(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ حسد سے دور رہو کیونکہ
حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘ یا فرمایا: گھاس کو کھا
جاتی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، 4 / 361، حدیث: 4903)
(5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حسد، اس کے اسباب اور نتائج سے روکتے ہوئے ارشاد
فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، قطع تعلقی نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض و عداوت نہ رکھو،
پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو اوراے اللہ پاک کے بندو! بھائی بھائی ہو کر
رہو۔(احیاء العلوم)
(6) حضرت زبیر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرور عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری
سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے
لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)
(7) طبرانی
نے عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
حسد اور چغلی اور کہانت نہ مجھ سے ہیں اور
نہ میں ان سے ہوں۔ یعنی مسلمان کو ان چیزوں سے بالکل تعلق نہ ہونا چاہیے۔
احمد رضا انصاری(درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی کراچی پاکستان)

ایک انسان کا ظاہری امراض (نزلہ، بخار، کھانسی، دل کے امراض
وغیرہ کے ساتھ ساتھ ، باطنی امراض (جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان وغیرہ) سے بھی محفوظ و
سالم رہنا ضروری ہے، تاکہ امراض ظاہریہ سے سلامتی کی بدولت ، زندگی تندرستی کے ساتھ
گزاری جا سکے، اور امراض باطنیہ سے سلامتی کی بدولت، دنیا اور آخرت دونوں میں امن
و سکون کے ساتھ رہا جا سکے، انہی امراض باطنیہ میں سے ایک مرض، حسد ہے، جو دنیا میں
پہلا گناہ ہوا، جس کے سبب شیطان، بارگاہ الٰہی سے دھتکارا گیا اور آسمان میں سب سے
پہلے ابلیس سے، جبکہ زمین میں قابیل سے سرزد ہوا ۔
حسد کا معنی اور حکم : یہ ہے کہ انسان یہ تمنا کرے کہ جو نعمت فلاں کے پاس ہے، وہ بعینھا (ویسی ہی)
مجھے مل جائے، یہ حسد ہے، اور یہ حرام ہے۔ (بہار شریعت، 3/ 542) احادیث میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی بہت
مذمت بیان فرمائی ہے:
(1) حسد اور ایمان کا اجتماع : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔ (سنن نسائی، حدیث:3610 )
(2) حسد ایمان کے لیے تباہی: حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا
ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع
صغیر، حرف الحائ، ص232، حدیث: 3819)
(3) حضرت زبیر
بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری
سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے
لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)
(4)حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے : حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے
جیسے آگ خشک لکڑی کو۔(سنن ابی داؤد،4/320،حدیث:4903)
(5)حسد نیکیوں کا نور بجھاتا ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: بیشک حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے اور سرکشی اس کی تصدیق یا تکذیب
کرتی ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحمد، حدیث : 4904)ان احادیث سے
معلوم ہوا کہ حسد، ایمان کے لیے اور نیکیوں کے لیے زہر قاتل ہے اور یہ بہت ہی بری
صفت ہے، جبھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے اس کا ذکر ایمان و طاعت کے مقابلے میں کیا۔
حسد کا مقابل:حسد چونکہ ممنوع و حرام ہے، مگر یہ فطری امر ہے، جو انسان کے دل میں پیدا ہو
جاتا ہے، لہذا اس سے بچنے کے لیے شریعت نے اس کی کے عوض ایک صورت بیان کی، جسے رشک
اور غبطہ کہا جاتا ہے۔غبطہ : یہ آرزو کہ اس کی
مثل مجھے بھی ملے یہ غبطہ ہے۔ اور یہ جائز ہے۔(بہار شریعت ، 3/542)
غبطہ
دو چیزوں میں : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: دو کے سوا کسی میں رسک جائز نہیں :(1) ایک وہ شخص جسے اللہ مال دے تو اسے
اچھی جگہ پر لگا دے، (2) دوسرا وہ شخص جسے الله علم دے تو وہ اس سے فیصلے کرے اور
لوگوں کو سکھائے۔ (مشكوة، کتاب العلم ، حدیث :202) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : دوسروں کی سی
(جیسی) نعمت اپنے لیے بھی چاہنا غبطہ (رشک) ہے، حسد مطلقاً حرام ہے، غبطہ دو جگہ
جائز ہے۔ (مراۃ المناجیح، ج 1،تحت الحديث)
فواد رضا عطاری (مفتش مدنی کورسز( دعوت اسلامی) ہارون آباد
پنجاب پاکستان)

حسد ایسا باطنی مرض ہے جسے ہر خطا کی جڑ اور برائیوں کی ماں
کہا جاتا ہے جو شیطان کا مضبوط ترین ہتھیار
ہے ۔ حسد پہلا گناہ ہے جو آسمان
میں ابلیس نے ،اور زمین میں قابیل نے کیا ۔بہت سی باطنی بیماریاں جیسے دشمنی ، بغض
و عداوت ، تکبر ، احساس کمتری ، حب جاہ ، قلبی خباثت وغیرہ حسد کی وجہ سے پیدا
ہوتی ہیں سب سے پہلے حسد کی تعریف پھر قراٰن و حدیث سے اس کی مذمت بیان کرتا ہوں۔
تعریف: کسی شخص کی دینی یا دنیاوی نعمت دیکھ کر تمنا کرنا کہ یہ نعمت اس سے زائل ہو کر میرے پاس آ جائے حسد
کہلاتا ہے ۔ جو کہ حرام ہے ۔حسد کے بارے میں اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے: ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)
آقائے کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ہمیں حسد
سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اللہ پاک کے
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنی امت کے مشرک ہو جانے کا اتنا خوف
نہ تھا جتنا حسد میں مبتلا ہونے کا ہوا ۔چنانچہ(1)
حضرت عُقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دن
گھر سے باہر تشریف لے گئے اور’’شہداء ِاُحُد‘‘کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی
جاتی ہے، پھر پلٹ کر منبر پر رونق اَفروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو اور تمہارا گواہ ہوں ، اور
میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ
رہا ہوں اور بے شک مجھ کو زمین کے
خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور میں بخدا یقین کے ساتھ کہتا
ہوں کہ مجھ کو تم لوگوں کے بارے میں ذرا بھی یہ ڈر نہیں ہے کہ تم لوگ
میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے ۔لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ تم لوگ دنیا میں رغبت اور ایک دوسرے پر حسد کروگے۔(منتخب حدیثیں
،حدیث:31)
(2) حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،فرمایا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: اپنے کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ
ہے ، اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ کسی کی باتیں خفیہ سنو، اور نہ بخش کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض
کرو نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور اے الله کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ ۔ اور ایک
روایت میں ہے اور نہ نفسانیت کرو۔(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث: 5028)حسد اور بغض ایسی
بیماری ہے جو ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی
ہیں۔ چنانچہ
(3) حضرت
زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ
دیتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث: 5039)
(4)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا :حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔(مشکوٰۃ
المصابیح، حدیث: 5040)
(5) حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولِ اکرم الله
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :فقیری قریب ہے کہ کفر ہوجاوے اور حسد قریب ہے کہ تقدیر پر غالب آجاوے۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، حدیث: 5051)
(6) حضرت عبداللہ
ابن عمرو سے روایت ہے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا
گیا کہ لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا ہر سلامت دل والا سچی زبان والا، لوگوں
نے عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں تو سلامت دل والا کیا ہے ؟ فرمایا
وہ ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ کینہ اور نہ حسد۔ (مشکوٰۃ المصابیح،
حدیث: 5221)
( 7) طبرانی
نے عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا کہ ’’حسد اور چغلی اور کہانت نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں یعنی مسلمان کا ان
چیزوں سے بالکل تعلق نہیں ہونا
چاہیے۔(مجمع الزوائد ،حدیث: 13126)
(8) حضرت ابن
عمر رضی اللہ عنہما سے مروی، کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’حسد نہیں ہے مگر دو پر، ایک وہ شخص جسے خدا نے کتاب دی
یعنی قراٰن کا علم عطا فرمایا وہ اس کے ساتھ رات میں قیام کرتا ہے اور دوسرا وہ کہ
خدا نے اسے مال دیا وہ دن اور رات کے اوقات میں صدقہ کرتا ہے۔(صحیح بخاری حدیث 5025)
( 9)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
’’حسد نہیں ہے مگر دو شخصوں پر ایک وہ شخص جسے خدا نے قراٰن سکھایا وہ رات
اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کرتا ہے،
اس کے پڑوسی نے سنا تو کہنے لگا، کاش! مجھے بھی ویسا ہی دیا جاتا جو فلاں شخص کو
دیا گیا تو میں بھی اُس کی طرح عمل کرتا۔ دوسرا وہ شخص کہ خدا نے اسے مال دیا وہ
(راہ) حق میں مال کو خرچ کرتا ہے، کسی نے
کہا، کاش! مجھے بھی ویسا ہی دیا جاتا جیسا فلاں شخص کو دیا گیا تو میں بھی اسی کی
طرح عمل کرتا۔(المرجع السابق، حدیث: 5026)ان دونوں حدیثوں میں حسد سے مراد غبطہ ہے جس کو
لوگ رشک کہتے ہیں ۔
ہمیں بھی چاہیے کہ اگر کسی کو دنیاوی نعمتوں میں خوش دیکھیں
تو حسد کی آگ میں جل کر اپنا سکون برباد کرنے کی بجائے نیک لوگوں کو دیکھ کر ان
جیسی نیک عادتوں اور اچھی خصلتوں کو اپنانے کی کوشش کریں۔ اللہ پاک ہمیں حسد اور دیگر باطنی بیماریوں سے
بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
پیارے اسلامی بھائیو !حسد ایک بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ پاک نے نہ صرف حسد بلکہ اس کی طرف لے جانے والے اسباب سے بھی بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے
فضل سے دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے
چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا
نام حسد ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق
الخامس عشر۔۔۔الخ ،1/600)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں
حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی
کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، الخلق
الخامس عشر۔۔۔الخ، 1/601)
آئیے !اس سلسلے میں احادیث مبارکہ میں بیان کردہ حسد کے متعلق چند وعیدیں پڑھیے اور خوف خدا سے لرزیئے:(1)حسد سے دور رہو :حضرت
سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس
طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو۔(ابو داود، کتاب الادب، باب في الحسد، 4/360،
حدیث: 4903)
(2)ایک دوسرے سے حسد نہ کرو : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کے
ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو، اور نہ ہی آپس میں ایک
دوسرے سے قطع تعلق کرو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔(صحیح مسلم،4/1983)
(3)حسد نیکیوں کو کھا جاتی ہے: حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حسد
نیکیوں کو کھا لیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے اور صدقہ گناہوں کو بجھا
دیتا ہے اور نماز نور ہے مؤمن کا اور روزہ ڈھال ہے دوزخ سے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 4 ،حدیث:1091)
(4)دنیا کے مزوں کے لیے حسد نہ کرو :عقبہ بن عامر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا : مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس
بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر حسد نہ
کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری، جلد 2،حدیث:1218)
(5)ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے : ضمرہ بن ثعلبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے جب تک وہ حسد
سے بچتے رہیں گے۔ (طبرانی فی
الکبیر،حدیث:7157)
حسد کے 3 نقصانات : (1) حسد نیکیوں کو اسی طرح کھا
جاتی ہے جس طرح آگ سکھی لکڑی کو فوری طور پر جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔(2) حسد ہی کی وجہ سے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا قتل کیا تھا۔(3) حسد کا سب سے بڑا
نقصان یہی ہے کہ حاسد انسان اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے اس کی سوچ غلط رخ پر کام
کرنے لگتی ہے اور اس کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے خدا کے بارے میں
بدگمانی اور ناانصافی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
حسد کے 3 علاج:(1) ’’توبہ کرلیجئے۔‘‘ حسد بلکہ تمام گناہوں سے
توبہ کیجئے کہ یا اللہ پاک میں تیرے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے فلاں بھائی
سے حسد کرتا تھا تو میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادے۔ اٰمین (2) ’’دعا کیجئے۔‘‘ کہ یا اللہ پاک ! میں تیری رضا کے لیے حسد سے چھٹکارا حاصل
کرنا چاہتا ہوں ، تو مجھے اس باطنی بیماری سے شفا دے اور مجھے حسد سے بچنے میں
استقامت عطا فرما۔ اٰمین (3) ’’دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت
بنائیے۔‘‘ کیونکہ یہ ربّ کی مشیت اور نظامِ قدرت ہے کہ اس نے تمام لوگوں
کے رہن سہن، ان کی دی جانے والی نعمتوں کو یکساں نہیں رکھا تو یقیناً اس بات کی
کوئی گارنٹی نہیں کہ کسی کی نعمت چھن جانے سے وہ آپ کو ضرور مل جائے گی، لہٰذا
حسد کے بجائے اپنے بھائی کی نعمت پر خوش رہیں۔
محترم قارئین !آپ نے حسد کی تباہ کاریاں ملاحظہ کیں کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے، حسد ہی کی وجہ سے دنیا میں پہلا قتل ہوا اور حاسد انسان اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے اور شب و روز خدا باری تعالی کے بارے میں بدگمانی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ حسد جیسے بڑے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد فرحان علی(درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن وجمال
مصطفیٰ کورنگی کراچی پاکستان)

مہلک کا معنی ہے "ہلاکت میں ڈالنے والا عمل"۔ اس
کے بارے میں ضروری احکامات کا جاننا مسلمان کے لئے لازم ہے کیونکہ جو شخص مہلکات
کے بارے میں ضروری علم حاصل نہیں کرے گا تو وہ ان گناہوں سے خود کو کس طرح بچا
پائے گا؟ مہلکات سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی مہلک کے درپیش ہونے کا
اندیشہ ہو تو اس کے دنیوی نقصانات اور اخروی عذابات پر خوب غور کرے تاکہ اس کے
اندر اس مہلک سے بچنے کا جذبہ پیدا ہو ۔ علمائے کرام نے اپنی کتب میں اس طرح کے
کئی مہلکات کو بیان فرمایا ہے جن میں سے ایک حسد بھی ہے ۔
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا
یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے ۔اس کا نام حسد ہے ۔
حسد کی مذمّت میں 5 احادیث مبارکہ درج ذیل
ہیں:
(1) حضرت عبد
اللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ رسول الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا ہر
سلامت دل والا، سچی زبان والا، لوگوں نے عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے
ہیں تو سلامت دل والا کیا ہے ؟ فرمایا: وہ ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ
بغاوت نہ کینہ اور نہ حسد۔ (ابن ماجہ، حدیث: 4216)
(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ
بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو،
آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ
کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (صحیح البخاری ، حدیث: 6064)
(3)حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: حسد سے بچو کہ حسد
نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (ابوداؤد ، حدیث: 4903)
(4) حضرت
عُقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دن گھر سے باہر تشریف لے گئے اور’’شہداء
ِاُحُد‘‘کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی
جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق اَفروز ہوئے اور ارشاد
فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو اور تمہارا
گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا
ہوں اور بے شک مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں یا یہ فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور میں بخدا یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھ
کو تم لوگوں کے بارے میں ذرا بھی یہ ڈر نہیں ہے کہ تم لوگ میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن
مجھے یہ خوف ہے کہ تم لوگ دنیا میں رغبت
اور ایک دوسرے پر حسد کروگے۔(صحیح بخاری ، حدیث:: 6590)
(5) حضرت
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری
سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے
لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حسد ایک ایسا مرض ہے کہ جس کے
خاتمے کے لیے باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا حسد کے چند علاج پیش خدمت ہیں
۔(1)اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کیجئے اور دعا کیجئے کہ دل ہمیشہ حسد سے پاک رہے
(2)اللہ پاک نے جتنا عطا کیا اسی پر راضی رہئے اور اس کا شکر ادا کیجئے (3)حسد کے
نقصانات کو ہر دم پیش نظر رکھئے، کیونکہ کوئی بھی عقلمند شخص اس کام میں ہاتھ نہیں
ڈالتا جس میں نقصان ہو ۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حسد کا ایک علاج اچھی صحبت بھی
ہے ۔ الحمدللہ عاشقان رسول کی
مدنی تحریک دعوت اسلامی کا مدنی ماحول اچھی صحبت پانے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا آپ
حسد سے خود کو بچانے کے لیے عملی طور پر دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جایئے
ان شاء اللہ آپ حسد اور معاشرے میں پائے جانے والے دیگر گناہوں سے بچنے میں کامیاب
ہو جائیں گے ۔ اللہ پاک ہمیں حسد اور دیگر باطنی گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم