محمد ارسلان عطاری ( درجہ رابعہ جامعۃُ
المدينہ فیضان غریب نواز لاہور پاکستان )

پیر و مرشد سے محبت کرنے سے خدا و عشقِ مصطفےٰ اُجاگر ہوتا
ہے ۔ دنیا و آخرت سنور جاتی ہے، الغرض پیر و مُرشد کے اپنے مُریدین پر بے شمار
اِحْسانات ہوتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی خوش
نصیب مرشِدِ کامل کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو کر مُرید ہونے کی سعادت پالے، تو اُسے
چاہیے کہ اپنے مرشِد سے فیض پانے کیلئے پیکرِ اَدَب بنا رہے ۔ جو مُریدین دل و جان
سے اپنے پیر و مرشد کا ادب كرتے ہیں ، ان کے آداب و حُقُوق میں کوتاہی نہیں کرتے تو ایسے سعادت مند
مُریدین ہی ترقی کی منازل طے کرتے اور پیر و مرشد کے پیارے، محبوب اور منظورِ نظر
بن کر اُبھرتے ہیں، پیر و مرشد کے احسانات و حقوق کس قدر زیادہ ہیں اور ان کا ادب
و احترام کتنا ضروری ہے، اس کا اندازہ بزرگانِ دین کے ان ارشادات سے لگائیے ،چنانچہ حضرت ذُوالنُّون مِصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ ،جب کوئی
مُرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا ، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے چَلا
تھا۔(رسالہ قشیریہ،باب الادب،ص319)
حضرت خواجہ قُطبُ الدِّین بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ سے
جب یہ عرض کی گئی کہ پیر کا مرید پر کس قدر حق ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اگر
کوئی مُرید عمر بھر حج کی راہ میں پِیر کو سر پر اُٹھائے رکھے تو بھی پیر کا حق
اَدا نہیں ہو سکتا۔(ہشت بہشت،ص397)
حضرت سَیِّدُنا امام عبدُ الوہاب شعرانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: مُریدکی شان یہ ہے کہ کبھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس نے اپنے
مُرشِد کے احسانات کا بدلہ چُکا دیا ہے ۔اگرچہ اپنے مرشِدکی ہزار برس خدمت کرے اور
اس پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرے کیونکہ جس مُرید کے دل میں اتنی خدمت اور اتنے خرچ
کے بعد یہ خیال آیا کہ اس نے مُرشِد کا کچھ حق اَدا کردیا ہے تو وہ راہِ طریقت سے
نکل جائے گا یعنی پیر کے فیض سے اس کا کوئی تعلق باقی نہ رہے
گا۔(الانوارالقدسیۃ،الجزءالثانی،ص27)
مُرشِد کے حقوق: مرشِدکے حقوق بے شمار ہیں چند پیش خدمت ہیں:۔
(1) اُس کی رِضا کو اللہ پاک کی رِضا جانے
(2) اُس
کی ناخوشی کو اللہ پاک کی نا خوشی جانے،
(3)اُسے اپنے
حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے ۔
(4) اگر کوئی نِعمت دوسرے سے ملے تو بھی اُسے مُرشد
ہی کی عطا اور اُنہیں کی نظر کی توجہ کا صَدْقہ جانے۔
(5) مال ، اولاد ، جان سب اُن پر تَصَدُّق کرنے کو
تیار رہے۔
(6) اُنکی جو بات اپنی نظر میں خلافِ شرعی، اُس
پر اعتراض کرے نہ دل میں بدگمانی کو جگہ
دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔
(7) دوسرے کو
اگر آسمان پر اُڑتا دیکھے جب بھی مُرشِد کے سوا دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو آگ
جانے۔
(8)ان کے حضور بات نہ کرے۔
(9) ہنسنا تو بڑی چیز ہے اِن کے سامنے آنکھ ، کان،
دِل ، ہمہ تَن اِنہیں کی طرف مصروف رکھے۔
(10) جو وہ
پوچھے نہایت نرم آواز سے بکمال ادب بتا کر جلد خاموش ہو جائے۔
ابو ثوبان عبدالرحمن عطاری(درجہ سابعہ
(ساتواں سال) فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور پاکستان)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! کسی پیرِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ
دے کر بیعت ہونے سے پیرِکامل سے نسبت حاصل
ہو جاتی ہے جس کی بدولت باطِن کی اِصلاح کے ساتھ ساتھ نیکیوں سے محبت اور گناہوں
سے نفرت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
پیرِکامل کی صحبت اور اس کے فَوائد بیان
کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا فقیہ عبدُالواحد بن عا شر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: عارفِ کامل کی صحبت اِختیار کرو۔ وہ تمہیں ہلاکت کے راستے سے بچائے گا۔ اس کا
دیکھنا تمہیں اللہ پاک کی یاد دِلائے گا اور وہ بڑے نفیس طریقے سے نَفْس کا
مُحاسَبہ کراتے ہوئے اور”خَطَراتِ قلْب“(یعنی دل میں پیدا ہونے والے شیطانی
وَساوس)سے مَحفوظ فرماتے ہوئے تمہیں اللہ پاک سے ملا دےگا۔ اس کی صحبت کے سبب
تمہارے فرائض و نوافل محفوظ ہو جائیں گے۔”تصفیۂ قلب“(یعنی دل کی صفائی) کے ساتھ
”ذکرِ کثیر“کی دولت میسر آئے گی اور وہ اللہ پاک سے متعلقہ سارے اُمور میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ (حقائق عن التصوف الباب الثانی ، ص57)
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں سُوال ہوا
کہ”مُرید ہونا واجب ہے یاسنَّت؟ نیز مُرید کیوں ہوا کرتے ہیں؟ مُرشِد کی کیوں
ضرورت ہے اور اس سے کیا کیا فَوائد حاصل ہوتے ہیں؟“ تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے
جواباً اِرشاد فرمایا: مُرید ہونا سنَّت ہے اور اس سے فائدہ حضورسیِّدِعالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اِتصالِ مسلسل۔ (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ
عَلَیْهِمْ ﴰ) ترجمۂ کنزالایمان: راستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا ۔(پ1،الفاتحہ
:6) میں اس کی طرف ہدایت ہے، یہاں تک فرمایا گیا: مَن لَّا
شَیْخَ لَہٗ فَشَیْخُہُ الشَّیْطٰن جس کا کوئی پیر
نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔ صحتِ عقیدت کے ساتھ سلسلہ صحیحہ متصلہ میں اگر اِنتساب
باقی رہا تو نظر والے تو اس کے بَرکات ابھی دیکھتے ہیں جنہیں نظر نہیں وہ نزع میں،
قبر میں، حشر میں اس کے فوائد دیکھیں گے۔ (فتاویٰ رضویہ ،26/570، ملتقطا )
شیخ (مرشد) کی تعریف: حضرت سید نا عبد الغنی نابلس حنفی علیہ رحمۃُ اللہ القوی حدیقہ ندیہ میں شیخ
یعنی پیر و مرشد کی تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس
سے اس کے بیان کردہ احکام شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال
کے ذریعے مریدوں کے حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل
ہمیشہ مراتب کمال کی طرف متوجہ رہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الباب الأول، فمرجع الاحكام
ومثبتها الكتاب والسنۃ الخ، 1/159)
پیر و مرشد کے حقوق: اعلی حضرت امام اہل سنت مجدد دین وملت مولینا شاہ احمد رضا خان رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: پیر واجبی پیر ہو، چاروں شرائط کا جامع ہو۔ وہ حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نائب ہے۔
اس کے حقوق حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کے پر تو (یعنی عکس )
ہیں ۔ جس سے پورے طور پر عہدہ برآ ہونا محال ہے۔ مگر اتنا فرض و لازم ہے کہ اپنی
حد قدرت تک ان کے ادا کرنے میں عمر بھر ساعی (کوش کرتا) رہے ۔ پیر کی جو تقصیر (
یعنی باوجود کوشش کے حقوق پورے کرنے میں جو کمی) رہے گی اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم معاف فرماتے ہیں۔ پیر صادق کہ اُن کا نائب ہے، یہ بھی معاف کر دیگا
یہ تو ان کی رحمت کے ساتھ ہے۔ ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ
(1)مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔
(2) اور
فرمایا کہ کا باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے ۔
(3)اور
فرمایا کہ کوئی کام اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔
(4) اس کے
سامنے ہنسنا منع ہے۔
(5) اس کی
غیر اجازت بات کرنا منع ہے۔
(6) اس کی
مجلس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہونا منع ہے۔
(7) اس کی غیبت (یعنی عدم موجودگی) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ
بیٹھنا منع ہے ۔
(8) اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر ہوں۔
(9) اس کے
کپڑوں کی تعظیم فرض ہے ۔
(10) اس کے
بچھونے کی تعظیم فرض ہے۔
(11) اس کی
چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے۔
(12) اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں، اپنے جان و مال
کو اس کا سمجھے۔ (فتاوی رضویہ ، 12/152 ، مطبوعہ شبير برادرز لاهور)
اللہ پاک ہمیں اپنے پیر و مرشد کا ادب و احترام کرنے اور ان
کے حقوق کو پورا کرنے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد وقار یونس عطّاری ( درجۂ سادسہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ غوثِ اعظم
، کراچی)

مرشد کا لفظی معنیٰ ہے راہنما، سیدھے
راستے پر چلانے والا، حضرت مجدّدِ الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پیر وہ
ہوتا ہے جو مرید کے مردہ قلب اور روح کو زندہ کرتا ہے اور اسے مکاشفہ اور مشاہدہ تک پہنچاتا ہے۔ (تصوف کا مکمل انسائیکلو پیڈیا،ص
95 ) مرشد کی ذات وہ ذات ہوتی ہے جو ہمیں
اللہ اور رسول کے راستے پر چلاتی ہے، سنتوں پر عمل کرنے کا طریقہ بتاتی اور جذبہ دیتی
ہے، ہمارے ظاہر وباطن کو پاک کرتی ہے اور شریعت کی روشنیوں سے سجاتی ہے۔
ضرورتِ مرشد: اللہ پاک کا قرب حاصل کرنا تو ہر بندہ ٔ مؤمن کے لئے عین سعادت ہے کیونکہ اللہ پاک کی طرف سے مؤمنوں
کو قربِ الٰہی حاصل کرنے کا حکم ہے۔ قرب ِ الٰہی اور روحانی منازل طے کرنے کے لئے
کسی ماہر استاد یا قربِ ِالٰہی کے حامل شخص کی راہنمائی
ضروری ہے ولی اور شیخ کی حیثیت تو صرف روحانی راہنما اور نگران کی ہے جب
اولیا کے دامن سے طالبینِ حق وابستہ ہوتے ہیں تو وہ ان کو محفوظ راستوں سے قربِ الٰہی
کی منازل طے کرواتے ہیں۔
یہاں پیر و مرشد کے متعلق کچھ حقوق لکھے گئے ہیں، ملاحظہ کیجئے!
ادبِ مرشد : مرید پرلازم ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اپنے
پیر کا ادب کرے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں:ان (یعنی مرشدِ کریم) کے کپڑوں ، ان کے بیٹھنے کی جگہ ، ان کی اولاد، ان کے
مکان ، ان کے محلے اور ان کے شہر کی تعظیم کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ،24/369 ملخصاً)
مرشِد کے حکم کی بجاآوری
کرنا : مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے
حکم میں اپنے پیر کے سامنے عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے بلکہ اپنے پیر کے حکم پر سر
تسلیمِ خم کر دے ۔ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو وہ ( یعنی پیر صاحب ) حکم دیں
کیوں نہ کہے (اور بجالانے میں) دیر نہ کرے (بلکہ) سب کاموں پر اسے تقدیم (یعنی
اولیت، ترجیح) دے۔(فتاویٰ رضویہ،24/369 )
پیر کی بارگاہ کا لحاظ
رکھنا: مرید جب بھی پیر کی بارگاہ میں حاضر
ہو تو اسے چاہئے کہ خوب توجہ سے، زبان و دل کو اپنے قابو میں رکھے ۔ بعض بزرگ
فرماتے ہیں: جب کسی دنیا دار کے پاس بیٹھو تو زبان سنبھال کر بیٹھو اور جب وَلیُّ
اللہ کی بارگاہ میں بیٹھو تو دل سنبھال کر بیٹھو۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے: ( پیر کی
بارگاہ میں) ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل ہمہ تن (ایک ساتھ مکمل
طور پر) انہی کی طرف مصروف رکھے۔ (فتاویٰ رضویہ،24/369 )
پیر پر اعتراض نہ کرے : مرید پر ہر صورت میں لازم ہے کہ پیر
پر اعتراض نہ کرے ۔ اسی ضمن میں سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں:
پیروں پر اعتراض سے بچے کہ یہ مریدوں کے لئے زہرِ قاتل ہے، کم کوئی مرید ہوگا جو
اپنے دل میں شیخ پر کوئی اعتراض کرے پھر فلاح پائے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/510)
پیر کےحق کو سمجھنا: مرید کو چاہئے کہ اپنے پیر کے حقوق
کو سمجھے، اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے افضل جانے، مال جان، اولاد، سب
ان پر تصدق کرنے کو تیار رہے ۔ ان کے ہاتھ میں ایسے رہے جیسے زندہ کے ہاتھ میں
مردہ، ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمن کا دشمن رہے۔ (فتاویٰ رضویہ ،
24/369ملتقطاً)
ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں
حقِ مرشد کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطافرما اور ہمارے مرشد، شیخِ کامل، امیرِ
اہلِ سنت مولانا الیاس قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کو ہم سے راضی
فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
احمد رضا عطاری (درجہ سادسہ، جامعۃ
المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد ہند)

مرشد كا لغوی معنی راہنمائی کرنے والا، طریقہ بتانے والا
ہے۔ مرشد اپنے مریدین کو گناہ سے توبہ کرا
کر انہیں نیکی کا راستہ بتاتا ہے مرشد بروز قیامت اپنے مریدین کی شفاعت کرے گا جب مرید کی روح نکلتی ہے اس وقت
مرشد مدد کرتے ہیں جب قبر میں منکیر نکیر سوال کرتے ہیں، جب حشر میں نامۂ اعمال
کھلتے ہیں، جب اس سے حساب لیا جا تا ہے ، یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب
وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں
مرشد اپنے مریدین کی نگہبانی کرتے اور ان سے کسی جگہ بھی غفلت نہیں برتتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیر و مرشد کا اتصال سلسلہ
حضور غوث الاعظم سے ہوتے ہوئے آقائے دو جہاں
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملتا ہے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا اتصال رب العالمین سے ہیں مرشد سے
رابطہ گویا رب سے رابطہ ہے۔
پیر پیرِ واجبی ہو چاروں شرائط کا جامع ہو تو سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا نائب ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 26/562)
پیر و مرشد کے حقوق:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ نمبر
563 پر ارشاد فرماتے ہیں کہ : ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ مرشد کے حقوق باپ کے
حقوق سے زائد ہے اور فرمایا کہ باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے۔
(1) یہ
اعتقاد کرے کہ مطلب میرے مرشد سے حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو پیر
و مرشد کے فیض و برکات سے محروم رہے گا۔
(2) ہر طرح
سے مرشد کا مطیع ہو جان و مال سے اس کی خدمت کرے کیونکہ بغیر محبتِ پیر کچھ نہیں
ہوتا اور محبت کہ پہچان یہی(خدمت کرنا) ہے۔
(3) مرشد جو
کچھ کہے اس کو فوراً بجا لائے بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتدا نہ کرے کیونکہ بعض
اوقات وہ اپنے حال و مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید وہ کرنا زہر قاتل ہوتا
ہے۔
(4) جو وِرد
و وظیفہ مرشد تعلیم کرے اس کو پڑھے اور تمام وظائف چھوڑ دے خواہ اس نے اپنی طرف سے
پڑھنا شروع کیا ہو یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔
(5) مرشد کی
موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے یہاں تک کہ سوائے فرض و سنت کے
نماز نفل اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت بغیر
نہ پڑھیں۔
(6) حتی
الامکان ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یا اس کے کپڑے پر پڑے۔
(7) مرشد کے
مصلے پر پَیر نہ رکھے۔
(8) مرشد کی
طہارت اور وضو کی جگہ طہارت و وضو نہ کرے۔
(9) مرشد کے
برتنوں کو استعمال میں نہ لائے۔
(10) مرشد کے
سامنے نہ کھانا کھائے نہ پانی پیئے اور نہ وضو کرے ہاں اجازت کے بعد مضائقہ نہیں ۔
(11) اس کے
روبرو کسی سے بات نہ کرے بلکہ کسی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔
(12) جس جگہ
مرشد بیٹھتے ہوں اس طرف پَیر نہ پھیلائے اگر چہ سامنے نہ ہو۔
(13) اور اس
کی طرف تھوکے بھی نہیں۔
(14) جو کچھ
مرشد کہے اور کرے اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے کہتا ہے اگر
سمجھ میں نہ آئے تو حضرت موسی و خضر
علیہما الصلوۃ والسّلام کا قصہ یاد کرے۔
(15) اپنے
مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے۔
(16) اگر کوئی
شک وشبہ دل میں گزرے تو فوراً عرض کرے اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقصان سمجھے اگر مرشد اس کا کچھ
جواب نہ دے تو یہ جان لے کہ میں اس کے
جواب کے لائق نہ تھا ۔
(17) بے ضرورت اور بغیر اجازت مرشد سے علیحدہ نہ ہو۔
(18) مرشد کی
آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے بآواز گفتگو بھی نہ کرے بقدرِ ضرورت مختصر کلام کرے
اور نہایت ہی توجہ سے جواب کے منتظر رہے۔
(19) جو کچھ اس
کا حال ہو برا یا بھلا اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب قلبی ہے اطلاع کے بعد
اس کی اصلاح کرے گا مرشد کے کشف پر اعتماد کر کے سکوت نہ کرے ۔
(20) جو کچھ
فیض باطنی مرید کو پہنچے اسے مرشد کا طفیل
سمجھے اگر چہ خواب میں یا مراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے تب بھی یہ
جانے کہ مرشد کا کوئی لطیفہ اس بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
یہ سارے حقوق اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان سے
سائل نے یہ تحریر فرما کر تصحیح کروائی تو اعلی حضرت نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمام
حقوق صحیح ہے ان میں بعض قراٰن عظیم اور
احادیث کریمہ اور بعض کلمات علما اور بعض ارشادات اولیا سے ثابت ہے۔(فتاویٰ رضویہ،
26/571تا572)
پیارے اسلامی بھائیو! ابھی ہم نے پیر مرشد کے حقوق پڑھے اگر
ہم ان حقوق پر عمل پیرا ہو جائے تو ہمارا مقدر چمک اٹھے گا ۔
محمد امان اویسی(درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد تیلنگانہ ہند)

آج کے دور میں شریعت کے احکام پر عمل کرنا مشکل سے مشکل تر
ہوا جا رہا ہے جہاں نگاہ دوڑائی جائیں فتنہ فساد و ایمان کے لٹیرے نظر آتے ہیں
ایسے میں بندے کو ایک شیخ کامل ( پیر کامل) کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ شیخ اپنے
مرید کے ایمان کی حفاظت کریں اور اس کے ظاہر کو پاک و صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے
باطن کی بھی حفاظت کریں۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ آخر کار پیر کون ہوتا ہے اور اس کے
کیا کیا حقوق ہے۔
پیر و مرشد کی تعریف بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ
علیہ بیان فرماتے ہیں: پیر کامل وہ ہے جس میں یہ چار شرائط پائیں جائے۔ (1) شیخ کا
سلسلہ باتصال صحیح ( درست واسطوں کے ساتھ تعلق) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم تک پہنچتا ہو۔ بیچ میں کہی منقطع (جدا) نہ ہو کہ منقطع کے ذریعے اتصال
(تعلق) ناممکن ہے۔ (2) مرشد سنی صحیح
العقیدہ ہو۔ بد مذہب گمراہ کا سلسلہ شیطان تک پہنچتا ہے نہ کہ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک۔ (3) مرشد عالم ہو۔
یعنی کم از کم اتنا علم ضروری ہے کہ بلا کسی امداد (مدد) کے اپنی ضرورت کے مسائل کتب دے نکال سکے۔
(4) فاسق معلن ( یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا) نہ ہو۔
آئیے اب ہم اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے کئے سوال کے جواب
میں جو اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے پیر و مرشد کے حقوق بیان کئے ہیں انہیں سنتے
پڑھتے ہیں :
پیر بواجبی پیر ہو،
چاروں شرائط کا جامع ہو، وہ حضور سیدالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نائب
ہے۔ اس کے حقوق حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کے پرتو (عکس) ہیں جس
سے پورے طور پر عہدہ برا ہونا محال ہے، مگر اتنا فرض و لازم ہے کہ اپنی حد قدرت تک
ان کے ادا کرنے میں عمر بھر ساعی رہے۔ پیرکی جو تقصیر رہے گی اللہ و رسول معاف
فرماتے ہیں پیر صادق کہ ان کا نائب ہے یہ بھی معاف کرے گا کہ یہ تو ان کی رحمت کے
ساتھ ہے۔ ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ
( 1) مرشد کے
حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔ اور فرمایا ہے کہ
( 2) باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ
ہے۔ اور فرمایا ہے کہ
( 3) کوئی کام اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز
نہیں۔
( 4) اس کے سامنے ہنسنا منع ہے۔
( 5) اس کی
غیبت (عدم موجودگی) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے۔
( 6) اس کی
اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر ہوں۔
( 7) اس کے
کپڑوں کی تعظیم فرض ہے، اس کے بچھونے کی تعظیم فرض ہے۔
( 8) اس کی
چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے۔
( 9) اس سے
اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں۔
( 10) اپنے جان
ومال کو اسی کا سمجھے۔(فتاویٰ رضویہ، 26/ 562 تا 563)
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے شیخ کے حقوق کہ ان کے
حقوق باپ سے بھی زیادہ ہیں ہمیں اولاً چاہئے کہ ہم کسی مرشد کامل کے ہاتھ میں اپنا
ہاتھ دے دیں پھر شیخ کامل کی خوب خوب تعظیم و خدمت کریں۔ اگر آپ کسی شیخ کامل کے مرید
نہیں ہے تو دورِ حاضر کی علمی و روحانی شخصیت شیخ طریقت امیر اہلسنت مولانا الیاس
قادری ضیائی مد ظلہ العالی کے مرید ہو جائے ان شاء غوثِ پاک کا فیضان جاری ہو جائے
گا اور آپ کی دنیا و آخرت بھی سنور جائے گی۔
اللہ پاک ہم سب کو شیخ کامل کے حقوق کی خوب پاسداری کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور ان کی صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو حامد عمران رضا عطاری مدنی(تخصص
فی الحدیث جامعۃُ المدینہ فیضان عطار ناگپور ہند)

دنیا و آخرت میں سر خروئی حاصل کرنا کا بہترین ذریعہ کسی
پیرِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ہر شخص کو چاہیے کہ کسی پیر کامل کے ہاتھ پر
بیعت کرلے ، علامہ ابو القاسم قشیری رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: يجب
عَلَى المريد أَن يتأدب بشيخ فَإِن لَمْ يكن لَهُ أستاذ لا يفلح أبدا. هَذَا أَبُو
يَزِيد يَقُول: من لَمْ يكن لَهُ أستاذ فإمامه الشَّيْطَان. ترجمہ: مرید پر واجب ہے کہ کسی پیر سے تربیت لے کہ بے پیر فلاح نہ پائے گا۔
شیخ
کی تعریف: حضرت سیِّدُنا عبد
الغنی نابلسی حنفی رحمۃُ اللہ علیہ حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی تعریف
کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ احکامِ
شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے حالات
اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب ِ کمال کی
طرف متوجہ رہے ۔ (جامع شرائط پیر، ص5)
امامِ اہلسنت رحمۃُ
اللہ علیہ لکھتے ہیں: بیعت بیشک سنت محبوبہ ہے، امام اجل شیخ الشیوخ شہاب الحق
والدین عمر رضی اللہ عنہ کی عوارف شریف سے شاہ ولی اﷲ دہلوی کی قول الجمیل تک اس
کی تصریح اور ائمہ واکابر کا اس پر عمل ہے۔ (فتاوی رضویہ، 26/585)
شیخ در اصل بندہ
اور خدا کے درمیان ایک واسطہ ہوتا ہے جو مرید کو خدا کی بارگاہ میں مقرب بناتا ہے،
اس کی محبت در اصل خدا کی محبت ہے، اس کی اتباع رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اتباع ہے جبھی تو علما نے فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول کے مرتبے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فنا
فی الشیخ کے مرتبہ پر فائز ہو ۔ ورنہ بغیر پیر کے کوئی اس مرتبہ عالیہ تک نہیں
پہنچ سکتا۔ جو شخص اپنے پیر کی محبت میں مبالغہ نہ کرے یعنی اپنی تمام خواہشات پر
ترجیح نہ دے وہ طریقت میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ شیخ کی محبت ہی اچھائی کا
مرتبہ ہے۔
شیخ محی الدین ابن
عربی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شیخ اللہ تک پہنچانے والے اور اس کے قریب کرنے
والے ہیں اور وہ اللہ تک راہنمائی میں ان کی بھرپور تائید و مدد کرتے ہیں ۔ (رسالہ
قشیریہ، ص160)
اسی طرح راہِ حق کے
سالک کے لئے ایک ایسے مرشد کامل کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے جو اس کی اَحسن طریقے
سے تربیت کرے اور اللہ پاک کے راستے کی
طرف اس کی راہ نمائی کرے۔
فتاوی رضویہ میں ہے
: ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔ اور فرمایا
ہے کہ باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے، اور فرمایا ہے کہ کوئی کام
اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔ (فتاوی رضویہ، 26/562)
ذیل میں چند مرشد
کے چند آداب ذکر کیے جاتے ہیں :۔
(1) محبت شیخ میں تمام گناہوں سے توبہ : اہلِ طریقت اس بات پر متفق ہیں کہ شیخ کی محبت میں سچے
مرید کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرے اور تمام عیوب
سے پاکیزگی حاصل کرے۔
(2)صرف شیخ کی بات سننا : صوفیا فرماتے ہیں : مرید طریقت میں اپنے شیخ (پیر کامل )کے
علاوہ کسی دوسرے کی بات سننے سے بہرہ ہوجائے ۔
(3) شیخ سے محبت : سب سے زیادہ اپنے شیخ سے محبت کرے ،
کہ شیخ کی محبت اسے اللہ پاک اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
محبت تک پہنچائے گی۔ امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرشد کی
محبت سیڑھی کی سی ہے ، مرید اس کے ذریعے ہی سے چڑھ کر اللہ کی بارگاہ عالیہ کو
پہنچتا ہے۔ (آداب مرشد کامل، ص38)
(4) شیخ کا ادب : مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ
کا ہر حال میں ادب کرے کہ جو شخص اپنے مرشد کا ادب نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں
ہوگا۔
(5) حسن اعتقاد: مرید اپنے پیر و مرشد کے متعلق اچھا
خیال رکھے ، بدگمانی اور برے نہ سوچے بلکہ اپنے مرشد کو وقت کا سب سے بڑا ولی
جانے۔
شیخ عبد القادر
جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو مرید اپنے شیخ کے کمال کا اعتقاد نہ رکھے
وہ مرید اس مرشد کے ہاتھوں پر کبھی کامیاب نہ ہوگا۔
(6) پیر پر اعتراض نہ کرے: طریقت کے میدان
میں مرید کے لیے ضروری ہے کہ پیر کے ہر حکم کو لازم جانے اور اس کے کسی قول و فعل
پر اعتراض نہ کرے۔ امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے
ہیں: پیرکے افعال و اقوال پر اعتراض سخت حرام اور موجب محرومی برکات دارین ہے، اس
کی جو بات اپنے ذہن میں خلاف معلوم ہو واجب ہے کہ اچھی تاویل کرے اور تاویل میں
سمجھ نہ آئے تو یہ سمجھے کہ اس کا کوئی عمدہ منشا ہوگا جو میری سمجھ میں نہ آیا۔
(فتاوی رضویہ، 26/587)
(7) پیر سے کچھ نہ چھپائے : مرید کے دل کی جو
کیفیت اور حالت ہے اسی طرح جو خارجی چیزیں اس کے متعلق ہیں سب اپنے مرشد کو بتائے
کوئی چیز مرشد سے نہ چھپاے ، حضرت علی بن وفا رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرید پر
لازم ہے کہ وہ اپنے تمام مسائل و وسائل ، ابواب اور اپنے تمام معمولات کو جن پر
اسے اعتماد ہے اپنے مرشد کے سامنے پیش کرے تاکہ مرشد ان تمام چیزوں کو فنا اور گم
کرڈالے۔ (آداب مرشد کامل، ص54)
(8)
مرشد کی اطاعت: جس بات کا شیخ حکم کریں اور جس بات سے منع کرے اس پر عمل
کرنا ضروری ہے، پیر کی باتوں پر عمل نہ کرنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عبد الوہاب شعرانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تو مرشد کی اطاعت کو لازم کر لے ان شاءاللہ دائمی عزت پائے گا۔
(9)مرشد
کی ہر اعتبار سے تعظیم بجا لائے۔ امامِ اہلسنت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس کے سامنے ہنسنا منع ہے، اس کی غیبت میں اس
کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے، اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر
ہوں، اس کے کپڑوں کی تعظیم فرض ہے، اس کے بچھونے کی تعظیم فرض ہے، اس کی چوکھٹ کی
تعظیم فرض ہے، اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں، اپنے جان ومال کو اسی کا سمجھے۔
محمد صابر عطاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد ہند)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دنیاوی زندگی گزارنے کے لیے ہر
شخص کا کوئی نہ کوئی رہنما ہوتا ہے جو اس کی زندگی کے ہر امور میں راہ نمائی کرتا
ہے اسی طرح دین اسلام نے شریعت و طریقت کے مطابق اپنی دنیا و آخرت کو
اچھی بنانے کے لئے ایک ایسا رہنما دیا جو ہر وقت ہماری اصلاح و راہ نمائی کرتا ہے
جسے پیر و مرشد کہتے ہیں۔ جس کی توجہ ہر وقت اپنے مرید پر ہوتی ہے علمائے کرام
فرماتے ہیں ایمان کی حفاظت کا ذریعہ کسی مرشد کامل سے مرید ہونا بھی ہے پیر و مرشد امور آخرت کے لئے بنایا جاتا ہے
تاکہ اس کی راہ نمائی و باطنی توجہ کی برکت سے مرید اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی والے
کاموں سے بچتے ہوئے رضائے الہی کے مدنی کاموں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں ۔
مرشد کی
تعریف : حضرت سید نا عبد
الغنی نابلس حنفی علیہ رحمۃُ اللہ القوی حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی
تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ
احکام شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے
حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب کمال
کی طرف متوجہ رہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الباب الأول، فمرجع الاحكام ومثبتها الكتاب
والسنۃ الخ، 1/159)
ساتھ ہی ساتھ یہ
چار شرائط بھی پائی جائیں : (1) صحیح العقیدہ سنّی ہونا(2) ضروری علم کا
ہونا(3) کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا(4)اِجازتِ صحیح متصل ہونا۔(فتاویٰ رضویہ،21/491)
اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ
اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے
امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:
71)
مُفسّرِ قراٰن ، مُفْتی احمد یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تَحت
فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی صالح کو اپنا اِمام بنالیناچاہئے ، شَرِیْعَت میں تَقْلِید کرکے اور طَریقت میں بَیْعَت کرکے ،
تاکہ حَشْر اَچھوں کے ساتھ ہو۔ مزیدفرماتے
ہیں : اس آیتِ کریمہ میں تَقْلِید ، بَیْعَت اور مُریدی سب کا ثُبوت ہے
۔ (تفسیر نور العرفان ، پ15 ، بنٓی
اسرآءیل ، تحت الآیۃ : 71 ، ص 461)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! آپ نے سنا کہ پیر و مرشد کا ہونا کتنا ضروری ہے ، یاد
رہے! کہ کسی پیرِ کامل کے ہاتھ پر بیعت ہو جانا یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ
صدیوں سے چلا آ رہا ہے ، تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مرید
تھے اور ان کے بعد آنے والے اولیائے کرام
بھی کسی نہ کسی پیرِ کامل کے مرید تھے۔
پیر و مرشد وہ ہستی
ہے کہ جس کی صحبت دل میں خوف ِ خدا و عشق ِ مصطفےٰ اجاگر کرتی نیز باطن کی صفائی ،گناہوں سے
بیزاری ،اعمال ِ صالحہ میں اضافہ اور سلامتیٔ ایمان کے لیے فکر مند رہنے کی سوچ
فراہم کرتی ہے ۔لہٰذا مرید کو چاہئے کہ اپنے مرشد سے فیض پانے کیلئے پیکر ِ ادب
بنا رہے۔
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں
: میرے آقا اعلٰی حضرت، اِمامِ اہل سنّت ، وَلیِ نِعمت، عَظِیمُ البَرَکت، عظیمُ
المَرْتَبَت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیِ سُنَّت، ماحِیِ
بِدعت، عالِمِ شَرِیعت پیرِ طریقت، باعثِ خَیرو بَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج
الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مرشد کے حقوق مرید پر شُمار سے (بھی) اَفزوں (یعنی
بڑھ کر) ہیں ۔ خُلاصہ یہ ہے کہ (مرید)
(1) اِن (یعنی مرشد) کے ہاتھ میں ’’مردہ بدستِ
زندہ‘‘ (یعنی زندہ کے ہاتھوں میں مردہ کی طرح) ہو کر رہے ۔
(2) مرشد کامل کو راضی رکھنا۔ مُرشِد کی رِضا میں
اللہ پاک کی ر ِضا، مُرشِد کی ناراضی میں اللہ پاک کی ناراضی جانے۔(فتاویٰ رضویہ،24/369،
ملخصاً)
(3) انہیں اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر
سمجھے ۔
( 4)ان کے
دوست کا دوست، اِن کے دشمن کا دشمن رہے ۔ اللہ و رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد اِن کے عِلاقے (یعنی تعلُّق) کو تمام جہان
کے عِلاقے (یعنی تعلُّق) پر دل سے ترجیح دے اور اِسی پر کار بند رہے۔
(5)کس بھی
حال پیر کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ پیر کا مُرید پر کس قدر حق ہے؟
تو آپ نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی مُرید عمر بھر حج کی راہ میں پِیر کو سر پر اُٹھائے
رکھے تو بھی پِیر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ (ہشت بہشت ، ص 397)
(6) مرشد
کامل کا ادب۔ حضرت سیّدنا ذُوالنُّون مِصری علیہ رحمۃُ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب
کوئی مرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا
تھا۔(الرسالۃ القشیریۃ، باب الادب، ص 319)
(7)مرشد کامل
سے محبت: غوثِ زماں حضرت سیّدنا شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرید
پیر کی محبت سے کامل نہیں ہوتا کیونکہ مُرشِد تو سب مریدوں پر یکساں شفقت فرماتے
ہیں بلکہ یہ مرید کی مُرشِد سے محبت ہوتی ہے جو اسے کامل کے درجے پر پہنچاتی
ہے۔(کامل مرید، ص21،الابریز،2/،74،77 ملخصاً)
(8)مرشد کامل
پر کبھی اعتراض نہ کریں : بانیِ سلسلۂ عالیہ سہروردیہ حضرت سیّدنا شہابُ الدین
عمر سہروردی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: پیر پر اعتراض کرنے سے ڈرنا چاہئے
کہ یہ مریدوں کے لئے زہرِ قاتل ہے، شاید ہی کوئی مرید ہو جو پیر پر اعتراض کرنے کے
باوجود فلاح پا جائے۔ (عوارف المعارف، ص62)
(9)مرشد کامل
و پیر بھائی سے محبت : حضرت شَیخ عبدالرحمٰن جیلی علیہ رحمۃُ اللہ القَوی فرماتے
ہیں کہ جو مرید اپنے نفس کو اپنے مُرشِد اور اپنے پیر بھائیوں کی مَحبّت سے
رُوگردانی کرنے (منہ پھیرنے) والا پائے تو اسے جان لینا چاہئے کہ اب اس کو اللہ پاک
کے دروازہ سے دُھتکارا جا رہا ہے۔ (آدابِ مرشدِ کامل، ص 53)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے
جس کامل مرید کا تذکرہ فرمایا ہے کہ وہ پیر کے افعال و اعمال اور اقوال کو عقل کے
پیمانے پر نہ پرکھے ، ایسے کامل مرید کا اس دور میں ملنا یقیناً انتہائی مشکل ہے ، کیونکہ اس مادہ پرستی کے دور میں ہم اپنی
عبادات اور دیگر بے شمار معمولات کی طرح پیری مریدی کی اصل روح سے محروم ہوتے جا
رہے ہیں ، اس لیے کہ اب ہر شے کو عقل کے ترازو میں تولا جاتا ہے اور اس جانب کسی
کا دھیان ہی نہیں جاتا :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
پیارے اسلامی بھائیو! اپنی سوچوں کے انداز بدلنے اور اللہ
والوں کا فیض پانے کے لیے اپنے پیر و مرشد کی محبت کو دل و جان سے سینے میں بسا
لیجئے اور یاد رکھئے کہ محض پیر کامل سے محبت کرنے سے فیض نہیں ملتا بلکہ پیر کامل
کے ہر فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان کے حقوق ادا کرتے ہوئے رضائے الہی و رضائے مصطفیٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اپنی زندگی گزاریں۔
جوکسی کا
مُرید نہ ہو اُسکی خدمت میں مَدَنی مشورہ ہے! کہ اس زمانے کے سلسلہ عالیہ قادِریہ
رَضَویہ کے عظیم بُزُرگ شَیخ طریقت اَمیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ذاتِ مبارَکہ کو غنیمت جانے اور بلا تاخیر
ان کا مُرید ہوجائے۔ یقیناً مُرید ہونے میں نقصان کا کوئی پہلو ہی نہیں ، دونوں
جہاں میں اِنْ شَآءَاللہ فائدہ ہی فائدہ
ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے پیر و مرشد کا وفادار و با ادب مرید بن
کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم

موجود دور مادیت کا دور ہے جو ایک طرف مسلمانوں کے عقیدے
برباد کر رہا ہے تو دوسری طرف گناہوں کا
سیلاب جاری ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو خراب کر رہا ہے، اگر ہم موجود حالات
کا جائزہ لے تو ہمیں تزکیۂ نفس کا حصول بہت کم نظر آتا ہے ہر طرف گناہوں کی بھرمار
نظر آرہی ہے، آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی اور باطن کو پاک
وصاف کر دے جس کی صحبت اور نگاہِ کرم گناہوں سے زنگ آلودہ دلوں کو آئنہ کی طرح پاک
و شفاف کرے، وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہے جس کو پیر کہتے ہیں
اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔
مرشد کی تعریف: حضرت سید نا عبد الغنی نابلس
حنفی علیہ رحمۃُ اللہ القوی حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی تعریف کرتے
ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ احکام شرع
کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے حالات اور
ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب کمال کی طرف
متوجہ رہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الباب الأول، فمرجع الاحكام ومثبتها الكتاب والسنۃ
الخ، 1/159)
پیر و مرشد کے 10 حقوق:(1) ہمیشہ پیر و مرشد کا ادب کرے، حضرت ذوالنون مصری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں
:جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں
رکھتا ،تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے
جہاں سے چلا تھا۔(رسالہ قشیریہ ، ص319، بیروت )
(2) پیر و
مرشد کا فیض پانے کے لیے اس کی محبت کو دل وجان سے سینے میں بسا لینا ضروری ہے، حضرت
سیّدنا شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرید پیر کی محبت سے کامل
نہیں ہوتا کیونکہ مُرشِد تو سب مریدوں پر یکساں شفقت فرماتے ہیں بلکہ یہ مرید کی
مُرشِد سے محبت ہوتی ہے جو اسے کامل کے درجے پر پہنچاتی ہے۔(کامل مرید، ص21)
(3) مرید
اپنے مُرشِد کے ہاتھ میں ”مُردہ بدستِ زندہ“ (یعنی زندہ کے ہاتھوں میں مُردہ کی
طرح) ہو کر رہے۔(فتاویٰ رضویہ،24/369، ملخصاً)
(4) مرشدِ
کامل کا فیض پانے کے لیے ضروری ہے کہ کبھی بھی خود کو علم و عمل میں مرشد سے اعلیٰ
نہ جانے، اگر چہ علمائے زمانہ میں شمار کیا جاتا ہو ۔
(5) مرشد کی
رضا میں اللہ کی رضا اور مرشد کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی جانے۔( فتاویٰ
رضویہ، جلد 24 )
(6) اپنے پیر
پر کبھی اعتراض نہ کرے۔
(7) اپنے مرشد
اور پیر بھائیوں سے محبت کرے۔
(8) مرشد کی
آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے، بآواز بلند مرشد سے بات نہ کرے اور بقدرِ ضرورت
مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے ۔
(9) مرشد جو
باتیں بتلادے اس کو خوب توجہ سے سنے اور اس کو خوب یاد رکھیں اور جو بات سمجھ نہ
آئے اپنا قصور سمجھے ۔
(10) ہر طرح
مرشد کا مطیع ہو اور جان و مال سے اس کی خدمت کرے کیونکہ بغیر محبت پیر کے کچھ
نہیں ہوتا۔
میرے پیارے اسلامی بھائیو! یہ وہ حقوق ہے جن پر ہر مرید کو
عمل کرنا چاہئے اور پیر کامل کے فیض سے مستفیض ہونا چاہیے کیونکہ کامل مرشد کے
ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں
لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشد اپنی عبادتوں کے بعد مرید کی
جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی
دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و
آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔
محمد مقصود عالم قادری (جامعۃُ المدینہ فیضان کنزالایمان،کھڑک،
ممبئی ہند)

کسی کام کو یا
کسی فن کو سیکھنا ہو تو ایک ماہر استاد کا
ہونا ضروری ہے جو اس کو گاہےبگاہے راہ نمائی کرتا رہے ،اسی طرح قربِ الٰہی حاصل
کرنے کے لئے اور ہدایت کی راہ پر گامزن رہنے کیلئے ایک کامل روحانی استاد کی بہت
ضرورت ہے، جسے تصوف کی زبان میں شیخ یا مرشد کہا جاتا ہے، مرشد کا معنیٰ ہے ،سیدھا
راستہ دکھانے والا، ہادی، راہ نما وغیرہ ۔(عام لغات)
ایک
مسلمان کے لئے ایک کامل مرشد کا ہونا بہت ضروری ہے کہ وہی اپنے مرید کو راہِ راست
پر لاتا ہے، گمراہی سے بچاتا ہے، اور خدا و رسول سے ملا دیتا ہے۔حضرت سیدی علی بن وفا رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: جس
شخص نے بغیر مرشد اور ہادی کے کمال کا ارادہ کیا وہ مقصود کے راستے سے بھٹک گیا۔(آداب
مرشد کامل، ص55، مکتبۃ المدینہ)
پیری مریدی کا سلسلہ قراٰنِ کریم سے ثابت ہے ،اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:﴿ یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل: 71)
اس آیت کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں کہ :اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنا لینا
چاہیے، شریعت میں تقلید کرکے اور طریقت میں بیعت کرکے ،تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو،
اگر صالح امام نہ ہو تو اس کا امام شیطان ہوگا ،اس آیت میں تقلید، بیعت اور مریدی
سب کا ثبوت ہے۔ (نور العرفان تحت الآیۃ
المذکورۃ)
کچھ لوگ کامل
مرشد کے دامن سے تو وابستہ ہیں لیکن وہ اپنے پیر کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے
فیضِ مرشد سے محروم رہتے ہیں، اعلی حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: مرشد کے
حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔(آداب مرشد کامل، ص71، مکتبۃ المدینہ ) تو آئیے پیر و
مرشد کے چند حقوق نو کِ قلم سےسینۂ ورق کے سپرد کیا جائے۔
(1) مرید پر
لازم ہے کہ اپنے پیر کے ساتھ حسن اعتقاد رکھے ،چنانچہ حضور غوث اعظم رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: جو مرید اپنے شیخ سے کمالِ اعتقاد نہ رکھے وہ مرید اس مرشد کے
ہاتھوں پر کبھی کامیاب نہ ہو گا ۔(آداب
مرشد کامل، ص53،مکتبۃ المدینہ )
(2)مرشد کا
حق یہ بھی ہے کہ مرید اپنے پیر سے انتہائی درجے کی محبت رکھے۔
(3)مرشد کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانی سے
بچنا ضروری ہے کہ اس سے مرشد کےفیضان سے محروم رہے گا۔
(4) مرشد پر
یقین کامل رکھنا بھی ضروری ہے۔
(5) مرید جب
بھی مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہو تو سچائی اور ادب کو مد نظر رکھ کر حاضر ہو۔
(6)مرید پر
اپنے پیر کے تمام اقوال اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ۔
(7) مرشد کی
تعظیم و تکریم اور ان کا ادب بجالانا مرید کے لئے بے حد ضروری ہے۔
(8)مرشد جو
حکم صادر فرمائے تو مرید بلا چوں چراں اس حکم کو سر آنکھوں پر تسلیم کرلے ۔
(9)مرید کبھی
بھی اپنے پیر صاحب سے کرامت طلب نہ کرے، کہ یہ شرائط پیر میں سے نہیں ہے۔
(10)مرید اپنے
پیر صاحب کی خدمت کو حرز جاں بنا لے۔
(11)ایک مرید
اپنے مرشد کو ہمیشہ راضی رکھے، کبھی بھی ناراض نہ کرے کہ اس میں نقصان ہی نقصان
ہے۔
(12)جب مرشد
کی بارگاہ میں حاضر ہو تو ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کو بھی سنبھالیے۔
(13)مرید کبھی
بھی یہ خیال نہ کرے کہ میں نے اپنے پیر کا حق ادا کردیا اگرچہ اپنے خیال کے مطابق
تمام حقوق ادا کردیا ہو، مرید کیلئے یہ تصور مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے مرشد کے تمام حقوق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد توفیق عطاری(درجۂسابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِاولیا، احمد آباد، ہند)

اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد
فرماتا ہے:﴿یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ
﴾ ترجمۂ کنزالایمان: جس دن ہم ہر
جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15،بنٓی اسرآءیل:71)
اس آیتِ مبارکہ کے تحت مُفَسِّرِ شَہیر،حکیمُ الْامَّت حضرت مفتی احمد یا
ر خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس
سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنا لینا چاہئے شریعت میں ”تقلید“
کر کے اور طریقت میں ”بیعت “کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو۔ اگر
صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہو گا۔ اس آیت میں
تقلید، بیعت اور مُریدی سب کا ثبوت ہے۔(نورُالعرفان، ص 461)
بیعت کا لغوی معنی بک جانا اور اصطلاحِ
شرع و تصوف میں اس کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ کسی پیرِ کامل کے ہاتھوں
میں ہاتھ دے کر گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے، آئندہ گناہوں سے بچتے ہوئے نیک اعمال
کا ارادہ کرنے اور اسے اللہ پاک کی معرفت کا ذریعہ
بنانے کا نام بیعت ہے۔(پیری مُریدی کی شَرعی حیثیت،ص3)
اعلیٰحضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بیعت بیشک
سنّتِ محبوبہ(پسندیدہ سنت) ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 26/586)
اعلیٰحضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں شیخ سے
مراد ہادیانِ راہِ خدا ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ پاک کی راہ کی جانب ہدایت دینے
والے ہیں اور قراٰنِ کریم میں ایسے لوگوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ
باری تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان : حکم مانو اللہ
کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت
والے ہیں ۔ (پ5،النسآء: 59) یہاں اُولِی الْاَمْر سے مراد علمائے شریعت و طریقت
دونوں ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/483،ملخصاً)
جس ہستی کی اہمیت و فضیلت اس قدر ہے
تو اس کے حقوق کی ادائیگی بھی بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سے یہاں
پیر و مرشد کے 10 حقوق فتاویٰ رضویہ جلد24، ص369 سے
خلاصۃً بیان کئے جا رہے ہیں:
(1) اپنے پیر و مرشد کی رضا
کو اللہ پاک کی رضا اور ان کی ناخوشی کو اللہ کریم کی ناخوشی جانے۔
(2) انہیں اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے ۔
(3) اگر کوئی نعمت بظاہر
دوسرے سے ملے تو بھی اسے اپنے مرشد ہی کی عطا اور انہی کی نظرِ توجہ کا صدقہ جانے اور
مال ، اولاد، جان، سب ان پر تصدق (قربان) کرنے کو تیار رہے
(4) ان کے حضور ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل، ہمہ
تن(مکمل طور پر) انہی کی طرف مصروف رکھے اور جو وہ پوچھیں نہایت ہی نرم آواز سے بکمالِ
ادب بتا کر جلد خاموش ہو جائے۔
(5) اگر وہ حکم دیں تو لفظ ”کیوں“
نہ کہے اور حکم پر عمل کرنے میں دیر نہ کرے بلکہ سب کاموں پر اسے تقدیم (اولیت)
دے۔
(6) ان کے کپڑوں، بیٹھنے کی جگہ، اولاد اور ان کے
مکان، محلے، شہر کی تعظیم کرے حتی کہ ان کی غَیْبَت(غیر موجودگی) میں بھی ان کے
بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے۔
(7) اگر وہ زندہ ہیں تو
روزانہ ان کی سلامتی و عافیت کی دُعا بکثرت کرتا رہے اور اگر انتقال ہو گیا تو ہر
روز ان کے نام پر فاتحہ و دُرُود کا ثواب پہنچائے۔
(8) ان کے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن رہے۔
(9) اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ان کے
تعلق کو تمام جہان کے تعلق پر دل سے ترجیح دے اور اسی پر کار بندر ہے۔
(10) ان کے ہاتھ میں اس طرح رہے جس طرح مردہ
زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں کماحقہ پیر کے حقوق ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
شناور غنی بغدادی (درجہ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد
پاکستان)

فی زمانہ ہمارے معاشرے میں کثرت سے پائی جانے والی برائیوں
میں سے ایک حسد بھی ہے ۔ لوگوں کی ایک تعداد اس باطنی بیماری میں مبتلا ہے۔ کوئی
مال و خوشحالی سے حسد کرتا ہے تو کوئی اعلیٰ دینی یا دنیاوی منصب و مرتبے سے، تو
کوئی عزت و وقار سے ۔ الغرض بہت سے لوگ جانے انجانے میں اس گناہ میں پڑے ہوتے ہیں
اور بعض اوقات ان کو اس کا علم (خبر) بھی نہیں ہوتا ۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم حسد کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کریں
تاکہ اس مذموم و قبیح (قابل مذمت اور برے) فعل کے ارتکاب سے بچ سکیں ۔ تو آئیے اس
کے بارے میں جانتے ہیں :حسد کے بارے میں آیت قرآنی : ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى
مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جواللہ نے انہیں اپنے فضل
سے دیا تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک
دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
اس کے علاوہ اور بھی
مقامات پر قراٰنِ کریم میں حسد کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
حسد کی تعریف : کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ
خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص 43)
حسد کا حکم : اگر انسان کے اختیار و ارادے سے دل میں حسد کا خیال آئے اور وہ اس پر عمل بھی کرتا
ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے۔ آئیے حسد کی تعریف اور اس کا حکم جاننے کے بعد حسد کی مذمت میں چند احادیث
ملاحظہ کیجئے :
(1) حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے : حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
نور مجسم شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس
طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘ یا فرمایا: گھاس کو کھا جاتی ہے۔(ابو
داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، 4 / 361، حدیث: 4903)
(2)حاسد کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں : آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسِد سے اپنی
بیزاری کا اِظہار ان اَلفاظ میں فرمایا ہے : حَسَد کرنے والے، چُغلی کھانے والے
اور کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں ۔ (حسد، ص : 25)(3) حسد ایمان کو
فاسد کر دیتا ہے : حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: الحسَدُ يُفسِدُ الإيمانَ،
كما يُفسِدُ الصَّبرُ العسلَ یعنی حسد ایمان
کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے ، جیسے ایلوا ، شہد کو بگاڑ دیتا ہے ۔(الجامع الصغیر
للسیوطی ، ص 223 ،حديث: 3819) مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
الحَنّان فرماتے ہیں : ایلوا ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس ہے، سخت کڑوا ہوتا ہے
اگر شہد میں مل جائے تو تیز مٹھاس اور تیز کڑواہٹ مل کر ایسا بدترین مزہ پیدا ہوتا
ہے کہ اس کا چکھنا مشکل ہوجاتا ہے، نیز یہ دونوں مل کر سخت نقصان دہ ہوجاتے ہیں ۔
اکیلا شہد بھی مُفِید ہے اور اکیلا ایلوا بھی فائدہ مند، مگر مِل کر کچھ مُفِید نہیں
بلکہ مُضِر ہے جیسے شہد و گھی ملا کر کھانے سے بَرَص کا مَرَض پیدا ہونے کا اندیشہ
ہوتا ہے، یوں ہی مچھلی اور دودھ۔ (مراٰۃ
المناجیح، 6/665)
(4)حسد اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوتے : نبی پاک صاحب لولاک سیاحِ افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا یَجتَمِعُ فِی جَوفِ
عَبدٍ مُّؤمِنٍ اَلاِیمانُ وَالحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔(شعب الایمان،5/266،حدیث:6609)
بوقتِ نزْع سلامت رہے مِرا
ایماں
مجھ نصیب ہو توبہ ہے التجا یا
ربّ (وسائلِ بخشش ص 94)
(5)آپس میں حسد نہ کرو : پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : آپس میں حسد نہ کرو آپس میں بغض عداوت نہ رکھو پیٹھ پیچھے ایک
دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ پاک کے بندو بھائی بھائی ہو کر رہو۔( صحیح
بخاری کتاب الادب ،4/117،حدیث:6066)(6)مونڈ دینے والی ہے : الله پاک کے پیارے حبیب، حبیب لبیب،
طبیبوں کے طبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی
امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا
کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518) حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ
الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے خَتم
کر دیتی ہے کبھی انسان بُغْض و حَسَد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے شیطان بھی انہیں
دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/615)
یا د رکھیے حسد کرنے والے کو حاسد اور جس سے حسد کیا جائے
اسے محسود کہتے ہیں۔
پیارے قارئینِ کرام حسد کی مذمت میں اس کے علاوہ بھی کئی
احادیث ہیں جن میں حسد کے نقصانات اور وعیدوں کا تذکرہ ہے ۔ آئیے اب حسد کے چند
اسباب ، نقصانات اور علاج ملاحظہ کرتے ہیں: حسد کے اسباب : سات چیزیں حسد کی
بنیاد بن سکتی ہیں: (1) بغض و عداوت (2) خود ساختہ عزت (3) تکبر (4)احساس کمتری (5)
من پسند مقاصد کے فوت ہو جانے کا خوف (6) حب
جاہ (7) قلبی خباثت۔
حسد کے نقصانات : حسد کرنے والے کو درج ذیل نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے:(1) اللہ و رسول کی
ناراضگی(2)ایمان کی دولت چھن جانے کا خطرہ(3) نیکیاں ضائع ہو جانا (4) مختلف
گناہوں میں مبتلا ہو جانا(5)نیکیوں کے ثواب سے محروم رہنا (6)دعا قبول نہ ہونا (7)نصرتِ
الہی سے محرومی (8)ذلت و رسوائی کا سامنا(9)سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو جانا (10)
خود پر ظلم کرنا اور(11) بغیر حساب جہنم میں
داخلہ۔
حسد کے علاج: مندرجہ ذیل تدابیر اِختیار کرکے حَسَد سے جان چھڑائی جاسکتی ہے : ٭توبہ کرلیجئے٭دعا کیجئے٭ رضائے الٰہی پر راضی
رہیے٭حَسَد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھئے٭اپنی موت کو یاد کیجئے٭حَسَد کا سبب بننے
والی نعمتوں پر غور کیجئے٭ لوگوں کی نعمتوں پر نظر نہ رکھئے ٭حَسَدسے بچنے کے
فضائل پرنظر رکھئے ٭اپنی خامیوں کی اِصلاح میں لگ جائیے٭ حَسَد کی عادت کو رشک میں
تبدیل کرلیجئے٭نفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیریں کیجئے٭دوسروں کی خوشی میں خوش
رہنے کی عادت بنالیجئے ٭رُوحانی عِلاج بھی کیجئے٭ نیک اعمال پر عمل کیجئے۔
کیا
آپ جانتے ہیں ؟:حسد شیطانی کام ہے کیونکہ سب سے پہلا آسمانی گناہ حسد ہی
تھا اور یہ شیطان نے کیا تھا اور حسد کی وجہ سے ہی ابلیس نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ
والسلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا ۔ نیز روئے زمین پر سب سے پہلا قتل جو قابیل
نے ہابیل کا کیا تھا اس کی ایک وجہ حسد بھی تھا۔ اسی طرح منہ سے بدگمانی و شماتت جیسی
بہت سی باطنی وظاہری بیماریاں پیدا ہوتی ہے اس لئے حسد کو ام الامراض یعنی بیماریوں
کی ماں کہا گیا ہے۔
حسد ، وعدہ خلافی ، جھوٹ، چغلی،
غیبت وتہمت
مجھے ان سب گنا ہوں سے ہو
نفرت یا رسول َالله
مدنی مشورہ : حسد کے بارے میں مزید اہم معلومات حاصل کرنے کیلئے
ان دو کتابوں" حسد " اور "باطنی بیماریوں کی معلومات " کا
مطالعہ مفید رہے گا۔
جھوٹ سے بغض و حسد سے ہم بچیں
کیجئے رحمت اے نانائے حسین
الله پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو حسد سے بچنے کی توفیق رفیق
مرحمت فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد یامین مدنی(درجہ ثالثہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ علی ٹاؤن سرگودھا پاکستان)

حسد کی تعریف : دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ
کے مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل رسالے حسد صفحہ 8 پر ہے : کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت
کے زوال (یعنی چھن جانے) کی تمنا کرنا یا خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ
ملے، اس کا نام حسد ہے۔
حسد کرنے والے کو حاسد اور جس پر حسد کیا جائے اُسے محسود
کہتے ہیں۔ حسد ایک قبیح (برا) فعل ہے ۔ حسد کی جو صورتیں ناجائز یا ممنوع ہیں ان
کا دنیا یا آخرت میں کچھ بھی فائدہ نہیں
بلکہ نقصان ہی نقصان ہے مگر حیرت ہے حاسد
کی نادانی پر کہ وہ پھر بھی اس روگ کو پالتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت مجدد و دین و ملت
مولانا امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: حسد ایسا مرض ہے جس کو
لاحق ہو جائے ہلاک کر دیتا ہے۔ (فتاوی رضویہ ، 19/ 420 ،مکتبہ رضافاؤنڈیشن لاہور)
حدیث نمبر (1) آپس میں حسد نہ کرو: مدینے کے سلطان، رحمت عالمیان، سرور ذیشان صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :آپس میں حسد نہ کرو ، آپس میں بغض و
عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی
بڑائی نہ کرو اور اے اللہ پاک کے بندو ! بھائی بھائی ہو کر رہو۔ ( صحیح البخاری ، کتاب الادب، 4/118،
الحدیث 6066، مکتبہ دار الكتب العلمیہ بیروت)
حدیث نمبر (2) اللہ کی نعمتوں کے دشمن: رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : اللہ کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں،
عرض کی گئی: وہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
وہ جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔(التفسیر الکبیر،1/645،البقرۃ،تحت الاٰیۃ: 109
،والزواجر،1/114)
حدیث نمبر (3) ایمان کی دولت چھن جانے کا خطرہ: رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ
مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی
ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518) حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی
احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اس طرح کہ دین
و ایمان کو جڑ سے خَتم کر دیتی ہے کبھی انسان بُغْض و حَسَد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا
ہے شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/615)
حدیث نمبر (4) نیکیاں ضائع ہو جانا: نبی اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إيّاكُم والحسدَ فإنّ الحسدَ يأكلُ الحسناتِ
كما تأكلُ النّارُ الحطبَ یعنی حسد سے بچو
وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو ۔(سنن ابي داؤد ، 4/360،
حديث : 4903)حضرتِ علامہ ملا علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی تم مال
اور دنیوی عزت و شہرت میں کسی سے حسد کرنے سے بچو کیونکہ حاسد حسد کی وجہ سے ایسے
ایسے گناہ کر بیٹھتا ہے جو اس کی نیکیوں کو اسی طرح مٹا دیتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو
! مثلاً حاسِد محْسود کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں
محسود کے حوالے کر دی جاتی ہیں ، یوں محسود کی نعمتوں اور حاسد کی حسرتوں میں
اضافہ ہو جاتا ہے ۔(مرقاة المفاتيح، 8/772)
حدیث نمبر(5) حسد اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوتے: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا یَجتَمِعُ فِی جَوفِ
عَبدٍ مُّؤمِنٍ اَلاِیمانُ وَالحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔(شعب الایمان،5/266،حدیث:6609)
بوقتِ نزْع سلامت رہے مِرا
ایماں
مجھ نصیب ہو توبہ ہے التجا یا
ربّ (وسائلِ بخشش ص 94)
متحرم قارئینِ کرام! دیکھا آپ کہ حسد کتنا برا اور قبیح فعل
ہے ۔ اپنے ظاہر اور باطن کو حسد اور دوسرے گناہوں سے بچانے کی کوشش کے لیے دعوت
اسلامی کے مشکبار دینی ماحول سے وابستہ ہو
جائیے اور حسد و غیبت اور دوسرے گناہوں سے بچنے کے لیے نیک اعمال کا رسالہ روزانہ
پر کر کے اپنے یہاں کے ذمہ دار کو جمع کروانے کا معمول بنا لیجیئے۔ ہر مہینے کی
پہلی تاریخ کو ان شاء الله عزوجل اس کی برکت سے پابند سنت بننے، گناہوں سے نفرت
کرنے اور ایمان کی حفاظت کے لئے کڑھنے کا ذہن بنے گا۔