احمد رضا عطاری (درجہ سادسہ، جامعۃ
المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد ہند)
مرشد كا لغوی معنی راہنمائی کرنے والا، طریقہ بتانے والا
ہے۔ مرشد اپنے مریدین کو گناہ سے توبہ کرا
کر انہیں نیکی کا راستہ بتاتا ہے مرشد بروز قیامت اپنے مریدین کی شفاعت کرے گا جب مرید کی روح نکلتی ہے اس وقت
مرشد مدد کرتے ہیں جب قبر میں منکیر نکیر سوال کرتے ہیں، جب حشر میں نامۂ اعمال
کھلتے ہیں، جب اس سے حساب لیا جا تا ہے ، یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب
وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں
مرشد اپنے مریدین کی نگہبانی کرتے اور ان سے کسی جگہ بھی غفلت نہیں برتتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیر و مرشد کا اتصال سلسلہ
حضور غوث الاعظم سے ہوتے ہوئے آقائے دو جہاں
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملتا ہے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا اتصال رب العالمین سے ہیں مرشد سے
رابطہ گویا رب سے رابطہ ہے۔
پیر پیرِ واجبی ہو چاروں شرائط کا جامع ہو تو سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا نائب ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 26/562)
پیر و مرشد کے حقوق:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ نمبر
563 پر ارشاد فرماتے ہیں کہ : ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ مرشد کے حقوق باپ کے
حقوق سے زائد ہے اور فرمایا کہ باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے۔
(1) یہ
اعتقاد کرے کہ مطلب میرے مرشد سے حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو پیر
و مرشد کے فیض و برکات سے محروم رہے گا۔
(2) ہر طرح
سے مرشد کا مطیع ہو جان و مال سے اس کی خدمت کرے کیونکہ بغیر محبتِ پیر کچھ نہیں
ہوتا اور محبت کہ پہچان یہی(خدمت کرنا) ہے۔
(3) مرشد جو
کچھ کہے اس کو فوراً بجا لائے بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتدا نہ کرے کیونکہ بعض
اوقات وہ اپنے حال و مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید وہ کرنا زہر قاتل ہوتا
ہے۔
(4) جو وِرد
و وظیفہ مرشد تعلیم کرے اس کو پڑھے اور تمام وظائف چھوڑ دے خواہ اس نے اپنی طرف سے
پڑھنا شروع کیا ہو یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔
(5) مرشد کی
موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے یہاں تک کہ سوائے فرض و سنت کے
نماز نفل اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت بغیر
نہ پڑھیں۔
(6) حتی
الامکان ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یا اس کے کپڑے پر پڑے۔
(7) مرشد کے
مصلے پر پَیر نہ رکھے۔
(8) مرشد کی
طہارت اور وضو کی جگہ طہارت و وضو نہ کرے۔
(9) مرشد کے
برتنوں کو استعمال میں نہ لائے۔
(10) مرشد کے
سامنے نہ کھانا کھائے نہ پانی پیئے اور نہ وضو کرے ہاں اجازت کے بعد مضائقہ نہیں ۔
(11) اس کے
روبرو کسی سے بات نہ کرے بلکہ کسی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔
(12) جس جگہ
مرشد بیٹھتے ہوں اس طرف پَیر نہ پھیلائے اگر چہ سامنے نہ ہو۔
(13) اور اس
کی طرف تھوکے بھی نہیں۔
(14) جو کچھ
مرشد کہے اور کرے اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے کہتا ہے اگر
سمجھ میں نہ آئے تو حضرت موسی و خضر
علیہما الصلوۃ والسّلام کا قصہ یاد کرے۔
(15) اپنے
مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے۔
(16) اگر کوئی
شک وشبہ دل میں گزرے تو فوراً عرض کرے اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقصان سمجھے اگر مرشد اس کا کچھ
جواب نہ دے تو یہ جان لے کہ میں اس کے
جواب کے لائق نہ تھا ۔
(17) بے ضرورت اور بغیر اجازت مرشد سے علیحدہ نہ ہو۔
(18) مرشد کی
آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے بآواز گفتگو بھی نہ کرے بقدرِ ضرورت مختصر کلام کرے
اور نہایت ہی توجہ سے جواب کے منتظر رہے۔
(19) جو کچھ اس
کا حال ہو برا یا بھلا اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب قلبی ہے اطلاع کے بعد
اس کی اصلاح کرے گا مرشد کے کشف پر اعتماد کر کے سکوت نہ کرے ۔
(20) جو کچھ
فیض باطنی مرید کو پہنچے اسے مرشد کا طفیل
سمجھے اگر چہ خواب میں یا مراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے تب بھی یہ
جانے کہ مرشد کا کوئی لطیفہ اس بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
یہ سارے حقوق اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان سے
سائل نے یہ تحریر فرما کر تصحیح کروائی تو اعلی حضرت نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمام
حقوق صحیح ہے ان میں بعض قراٰن عظیم اور
احادیث کریمہ اور بعض کلمات علما اور بعض ارشادات اولیا سے ثابت ہے۔(فتاویٰ رضویہ،
26/571تا572)
پیارے اسلامی بھائیو! ابھی ہم نے پیر مرشد کے حقوق پڑھے اگر
ہم ان حقوق پر عمل پیرا ہو جائے تو ہمارا مقدر چمک اٹھے گا ۔