محمد صابر عطاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد ہند)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دنیاوی زندگی گزارنے کے لیے ہر
شخص کا کوئی نہ کوئی رہنما ہوتا ہے جو اس کی زندگی کے ہر امور میں راہ نمائی کرتا
ہے اسی طرح دین اسلام نے شریعت و طریقت کے مطابق اپنی دنیا و آخرت کو
اچھی بنانے کے لئے ایک ایسا رہنما دیا جو ہر وقت ہماری اصلاح و راہ نمائی کرتا ہے
جسے پیر و مرشد کہتے ہیں۔ جس کی توجہ ہر وقت اپنے مرید پر ہوتی ہے علمائے کرام
فرماتے ہیں ایمان کی حفاظت کا ذریعہ کسی مرشد کامل سے مرید ہونا بھی ہے پیر و مرشد امور آخرت کے لئے بنایا جاتا ہے
تاکہ اس کی راہ نمائی و باطنی توجہ کی برکت سے مرید اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی والے
کاموں سے بچتے ہوئے رضائے الہی کے مدنی کاموں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں ۔
مرشد کی
تعریف : حضرت سید نا عبد
الغنی نابلس حنفی علیہ رحمۃُ اللہ القوی حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی
تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ
احکام شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے
حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب کمال
کی طرف متوجہ رہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الباب الأول، فمرجع الاحكام ومثبتها الكتاب
والسنۃ الخ، 1/159)
ساتھ ہی ساتھ یہ
چار شرائط بھی پائی جائیں : (1) صحیح العقیدہ سنّی ہونا(2) ضروری علم کا
ہونا(3) کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا(4)اِجازتِ صحیح متصل ہونا۔(فتاویٰ رضویہ،21/491)
اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ
اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے
امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:
71)
مُفسّرِ قراٰن ، مُفْتی احمد یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تَحت
فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی صالح کو اپنا اِمام بنالیناچاہئے ، شَرِیْعَت میں تَقْلِید کرکے اور طَریقت میں بَیْعَت کرکے ،
تاکہ حَشْر اَچھوں کے ساتھ ہو۔ مزیدفرماتے
ہیں : اس آیتِ کریمہ میں تَقْلِید ، بَیْعَت اور مُریدی سب کا ثُبوت ہے
۔ (تفسیر نور العرفان ، پ15 ، بنٓی
اسرآءیل ، تحت الآیۃ : 71 ، ص 461)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! آپ نے سنا کہ پیر و مرشد کا ہونا کتنا ضروری ہے ، یاد
رہے! کہ کسی پیرِ کامل کے ہاتھ پر بیعت ہو جانا یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ
صدیوں سے چلا آ رہا ہے ، تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مرید
تھے اور ان کے بعد آنے والے اولیائے کرام
بھی کسی نہ کسی پیرِ کامل کے مرید تھے۔
پیر و مرشد وہ ہستی
ہے کہ جس کی صحبت دل میں خوف ِ خدا و عشق ِ مصطفےٰ اجاگر کرتی نیز باطن کی صفائی ،گناہوں سے
بیزاری ،اعمال ِ صالحہ میں اضافہ اور سلامتیٔ ایمان کے لیے فکر مند رہنے کی سوچ
فراہم کرتی ہے ۔لہٰذا مرید کو چاہئے کہ اپنے مرشد سے فیض پانے کیلئے پیکر ِ ادب
بنا رہے۔
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں
: میرے آقا اعلٰی حضرت، اِمامِ اہل سنّت ، وَلیِ نِعمت، عَظِیمُ البَرَکت، عظیمُ
المَرْتَبَت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیِ سُنَّت، ماحِیِ
بِدعت، عالِمِ شَرِیعت پیرِ طریقت، باعثِ خَیرو بَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج
الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مرشد کے حقوق مرید پر شُمار سے (بھی) اَفزوں (یعنی
بڑھ کر) ہیں ۔ خُلاصہ یہ ہے کہ (مرید)
(1) اِن (یعنی مرشد) کے ہاتھ میں ’’مردہ بدستِ
زندہ‘‘ (یعنی زندہ کے ہاتھوں میں مردہ کی طرح) ہو کر رہے ۔
(2) مرشد کامل کو راضی رکھنا۔ مُرشِد کی رِضا میں
اللہ پاک کی ر ِضا، مُرشِد کی ناراضی میں اللہ پاک کی ناراضی جانے۔(فتاویٰ رضویہ،24/369،
ملخصاً)
(3) انہیں اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر
سمجھے ۔
( 4)ان کے
دوست کا دوست، اِن کے دشمن کا دشمن رہے ۔ اللہ و رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد اِن کے عِلاقے (یعنی تعلُّق) کو تمام جہان
کے عِلاقے (یعنی تعلُّق) پر دل سے ترجیح دے اور اِسی پر کار بند رہے۔
(5)کس بھی
حال پیر کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ پیر کا مُرید پر کس قدر حق ہے؟
تو آپ نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی مُرید عمر بھر حج کی راہ میں پِیر کو سر پر اُٹھائے
رکھے تو بھی پِیر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ (ہشت بہشت ، ص 397)
(6) مرشد
کامل کا ادب۔ حضرت سیّدنا ذُوالنُّون مِصری علیہ رحمۃُ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب
کوئی مرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا
تھا۔(الرسالۃ القشیریۃ، باب الادب، ص 319)
(7)مرشد کامل
سے محبت: غوثِ زماں حضرت سیّدنا شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرید
پیر کی محبت سے کامل نہیں ہوتا کیونکہ مُرشِد تو سب مریدوں پر یکساں شفقت فرماتے
ہیں بلکہ یہ مرید کی مُرشِد سے محبت ہوتی ہے جو اسے کامل کے درجے پر پہنچاتی
ہے۔(کامل مرید، ص21،الابریز،2/،74،77 ملخصاً)
(8)مرشد کامل
پر کبھی اعتراض نہ کریں : بانیِ سلسلۂ عالیہ سہروردیہ حضرت سیّدنا شہابُ الدین
عمر سہروردی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: پیر پر اعتراض کرنے سے ڈرنا چاہئے
کہ یہ مریدوں کے لئے زہرِ قاتل ہے، شاید ہی کوئی مرید ہو جو پیر پر اعتراض کرنے کے
باوجود فلاح پا جائے۔ (عوارف المعارف، ص62)
(9)مرشد کامل
و پیر بھائی سے محبت : حضرت شَیخ عبدالرحمٰن جیلی علیہ رحمۃُ اللہ القَوی فرماتے
ہیں کہ جو مرید اپنے نفس کو اپنے مُرشِد اور اپنے پیر بھائیوں کی مَحبّت سے
رُوگردانی کرنے (منہ پھیرنے) والا پائے تو اسے جان لینا چاہئے کہ اب اس کو اللہ پاک
کے دروازہ سے دُھتکارا جا رہا ہے۔ (آدابِ مرشدِ کامل، ص 53)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے
جس کامل مرید کا تذکرہ فرمایا ہے کہ وہ پیر کے افعال و اعمال اور اقوال کو عقل کے
پیمانے پر نہ پرکھے ، ایسے کامل مرید کا اس دور میں ملنا یقیناً انتہائی مشکل ہے ، کیونکہ اس مادہ پرستی کے دور میں ہم اپنی
عبادات اور دیگر بے شمار معمولات کی طرح پیری مریدی کی اصل روح سے محروم ہوتے جا
رہے ہیں ، اس لیے کہ اب ہر شے کو عقل کے ترازو میں تولا جاتا ہے اور اس جانب کسی
کا دھیان ہی نہیں جاتا :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
پیارے اسلامی بھائیو! اپنی سوچوں کے انداز بدلنے اور اللہ
والوں کا فیض پانے کے لیے اپنے پیر و مرشد کی محبت کو دل و جان سے سینے میں بسا
لیجئے اور یاد رکھئے کہ محض پیر کامل سے محبت کرنے سے فیض نہیں ملتا بلکہ پیر کامل
کے ہر فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان کے حقوق ادا کرتے ہوئے رضائے الہی و رضائے مصطفیٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اپنی زندگی گزاریں۔
جوکسی کا
مُرید نہ ہو اُسکی خدمت میں مَدَنی مشورہ ہے! کہ اس زمانے کے سلسلہ عالیہ قادِریہ
رَضَویہ کے عظیم بُزُرگ شَیخ طریقت اَمیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ذاتِ مبارَکہ کو غنیمت جانے اور بلا تاخیر
ان کا مُرید ہوجائے۔ یقیناً مُرید ہونے میں نقصان کا کوئی پہلو ہی نہیں ، دونوں
جہاں میں اِنْ شَآءَاللہ فائدہ ہی فائدہ
ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے پیر و مرشد کا وفادار و با ادب مرید بن
کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم