اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ترجمۂ کنزالایمان: جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15،بنٓی اسرآءیل:71) اس آیتِ مبارکہ کے تحت مُفَسِّرِ شَہیر،حکیمُ الْامَّت حضرت مفتی احمد یا ر خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنا لینا چاہئے شریعت میں ”تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو۔ اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہو گا۔ اس آیت میں تقلید، بیعت اور مُریدی سب کا ثبوت ہے۔(نورُالعرفان، ص 461)

بیعت کا لغوی معنی بک جانا اور اصطلاحِ شرع و تصوف میں اس کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ کسی پیرِ کامل کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے، آئندہ گناہوں سے بچتے ہوئے نیک اعمال کا ارادہ کرنے اور اسے اللہ پاک کی معرفت کا ذریعہ بنانے کا نام بیعت ہے۔(پیری مُریدی کی شَرعی حیثیت،ص3)

اعلیٰ‌حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بیعت بیشک سنّتِ محبوبہ(پسندیدہ سنت) ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 26/586)

اعلیٰ‌حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں شیخ سے مراد ہادیانِ راہِ خدا ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ پاک کی راہ کی جانب ہدایت دینے والے ہیں اور قراٰنِ کریم میں ایسے لوگوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ ترجمۂ کنز الایمان : حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔ (پ5،النسآء: 59) یہاں اُولِی الْاَمْر سے مراد علمائے شریعت و طریقت دونوں ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/483،ملخصاً)

جس ہستی کی اہمیت و فضیلت اس قدر ہے تو اس کے حقوق کی ادائیگی بھی بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سے یہاں پیر و مرشد کے 10 حقوق فتاویٰ رضویہ جلد24، ص369 سے خلاصۃً بیان کئے جا رہے ہیں:

(1) اپنے پیر و مرشد کی رضا کو اللہ پاک کی رضا اور ان کی ناخوشی کو اللہ کریم کی ناخوشی جانے۔

(2) انہیں اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے ۔

(3) اگر کوئی نعمت بظاہر دوسرے سے ملے تو بھی اسے اپنے مرشد ہی کی عطا اور انہی کی نظرِ توجہ کا صدقہ جانے اور مال ، اولاد، جان، سب ان پر تصدق (قربان) کرنے کو تیار رہے

(4) ان کے حضور ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل، ہمہ تن(مکمل طور پر) انہی کی طرف مصروف رکھے اور جو وہ پوچھیں نہایت ہی نرم آواز سے بکمالِ ادب بتا کر جلد خاموش ہو‌ جائے۔

(5) اگر وہ حکم دیں تو لفظ ”کیوں“ نہ کہے اور حکم پر عمل کرنے میں دیر نہ کرے بلکہ سب کاموں پر اسے تقدیم (اولیت) دے۔

(6) ان کے کپڑوں، بیٹھنے کی جگہ، اولاد اور ان کے مکان، محلے، شہر کی تعظیم کرے حتی کہ ان کی غَیْبَت(غیر موجودگی) میں بھی ان کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے۔

(7) اگر وہ زندہ ہیں تو روزانہ ان کی سلامتی و عافیت کی دُعا بکثرت کرتا رہے اور اگر انتقال ہو گیا تو ہر روز ان کے نام پر فاتحہ و دُرُود کا ثواب پہنچائے۔

(8) ان کے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن رہے۔

(9) اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ان کے تعلق کو تمام جہان کے تعلق پر دل سے ترجیح دے اور اسی پر کار بندر ہے۔

(10) ان کے ہاتھ میں اس طرح رہے جس طرح مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں کماحقہ پیر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم