محمد لیاقت
علی قادری رضوی (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ گجرات ، پاکستان)
محترم اور
معزز قارئین ۔ آج کل ہمارے معاشرے میں کئی گناہ عام ہیں جس میں ہر فرد خاص و عام
مبتلا ہے۔ان گناہوں میں سے ایک چغل خوری ہے۔جس کے ارتکاب کے سبب ہمارے معاشرے کے
کثیر لوگ اس گناہ میں ملوث ہیں۔تو آئیے پہلے چغل خوری کی تعریف سمجھ لیتے ہیں۔
چغل
خوری کی تعریف ۔کسی کی بات سن کر
کسی دوسرے سے اس طور پر کہہ دینا کہ دونوں میں اختلاف اور جھگڑا ہوجائے۔یہ بہت بڑا
گناہ اور بہت خراب عادت ہے۔ ( جنتی زیور، ص،116،مکتبہ المدینہ )
اور حدیث پاک
میں چغل خوری کو رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم نے گناہ کبیرہ بتایاہے۔ ( کتاب
الکبائر للامام الذھبی، ص،182 )
حدیث نمبر :01
{ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا}پیارے آقا مکی مدنی عربی مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :لا یَد خُل الجنّۃَ نمام
یعنی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا۔دوسری روایت میں ہے ۔کہ لا یدخل الجنۃ قتات ، قتات سے مراد بھی چغل خور ہے۔ ( صحیح مسلم
،کتاب الایمان ، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ ، ص،66 ، حدیث ،150 )
حدیث نمبر :
02: { شریر لوگ }حضور تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت ،مخزن جود سخاوت، صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہارے درمیان موجود شریر لوگوں کے بارے میں نہ
بتاؤں ؟،، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ضرور ۔ ارشاد فرمایا : چغل خور ،
دوستوں کے درمیان فساد ڈالنے والے اور پاک باز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والے۔ (
المسند للامام احمد بن حنبل، من حدیث اسماء ابنۃ یزید،ج ، 10، ص، 442، حدیث
،27670)
حدیث نمبر: 03
{ چغل خور اللہ پاک کو ناپسند ہے }حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان
کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت شفیع امت قاسم نعمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد
فرمایا : اللہ عزوجل کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب وہ لوگ ہیں جو تم میں
سب سے زیادہ خوش اخلاق ہیں، جن کے ساتھ رہنے والا ان سے اذیت نہیں پاتا ، جو لوگوں
سے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور تم میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ لوگ وہ ہیں جو
چغلیاں کھاتے ، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے اور پاک باز لوگوں کے عیب تلاش کرتے
ہیں۔ ( المعجم الاوسط، ج، 5، ص، 387 ، حدیث ، 7697)
حدیث نمبر: 04
{ آٹھ (08) لوگ جنت میں نہیں جائیں گئے}حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ پیارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: اللہ عزوجل نے جب جنت کو پیدا فرمایا تو اس سے ارشاد فرمایا : کلام کر ۔ اس نے
کہا : جو میرے اندر داخل ہوگا وہ خوش نصیب ہے ۔ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا : میری
عزت و جلال کی قسم ! تجھ میں آٹھ قسم کے لوگ نہیں جائیں گے: (1) شراب کا عادی (2)
زنا پر اصرار کرنے والا (3) چغل خور (4) دیوث (5) ظالم کا مددگار (6) مخنث (7)
رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا اور (8) وہ شخص جو کہے مجھ پر اللہ عزوجل کا عہد
ہے اگر میں یہ یہ کام نہ کروں پھر اس سے نہ کرے۔( جامع الاحادیث القدسیہ ، ص، 38 ،
حدیث ، 729)
حدیث نمبر :
05{ برے آدمی کی پہچان}حضور سرور ذیشان ، محبوب رحمن صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : انّ مِن شرار النّاس مَن اتقاہ الناس لشرّہٖ ۔ یعنی برے لوگوں میں
سے ہے وہ شخص جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے بچتے ہوں۔ (صحیح بخاری ، کتاب الادب،
ج،4، ص، 108،حدیث ، 6032)
حدیث نمبر: 06پیارے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ چغل خور کو آخرت سے پہلے اس کی قبر میں
عذاب دیا جائے گا ۔(صحیح البخاری، کتاب الوضو، باب من الکبائر، ج،1 ،ص،95، حدیث
،216)
حکایت:
{ چغل خور پر لعنت}ایک
چغل خور نے وزیر اسماعیل بن عباد کو ایک رقعہ بھیجا جس میں اس نے یتیم کے مال کی
اطلاع دی تھی اور یتیم کے مال کے کثیر ہونے کے سبب اس سے اس کے لینے پر اکسایا تھا
۔ وزیر نے رقعہ کی پشت پر اس کے جواب میں لکھا : چغل خوری بری چیز ہے اگرچہ وہ بات
درست ہی کیوں نہ ہو ، اگر تو نے یہ رقعہ خیر خواہی کے ارادے سے بھیجا ہے تو اس میں
تیرا خسارہ نفع سے زیادہ ہے اور اس بات سے اللہ عزوجل کی پناہ کے ہم چھپی ہوئی چیز
کی پردہ دری کو قبول کریں، اگر تو بڑھاپے کی پناہ میں نہ ہوتا تو تیرے فعل کا جو
تقاضہ ہے اس کے سبب ہم ضرور ایسا کام کرتے جس سے تجھ کو عبرت ہوتی ، اے ملعون ! عیب
لگانے سے بچ بے شک اللہ عزوجل عالم الغیب ہے ، اللہ عزوجل میت پر رحم فرمائے ، یتیم
کے حال کو درست کرے ، اس کے مال میں اضافہ فرمائے اور چغل خور پر لعنت کرے۔( احیاء
العلوم ،ج ، 3 ، ص ،564 مترجم )
محمد مبین
علی (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
"چغلی
کی مذمت"ہمارے معاشرے میں بہت
سے گناہ عام ہیں اور انہیں گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا اور انہی میں سے ایک گناہ اپنے
مسلمان بھائی کی چغلی کرنا بھی ہے۔چغلی کی تعریف: لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لیے
ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر،46/2)آئیے چغلی کی مذمت
کے متعلق چند احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:
(1)حضرت حذیفہ
رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا کہ چول خور جنت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، صفحہ 66، حدیث
168)
(2) حضرت
عبدالرحمن بن غنم اشعری سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اللہ تعالی کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تعالی کی یاد ا
جائے اور اللہ تعالی کے بدترین بندے چغلی کھانے کے لیے ادھر ادھر پھرنے والے
دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں۔
(3)حضرت علا
بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: منہ پر برا بھلا کہنے والوں،پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں، چغلی
کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ(قیامت کے دن)کتے کی
شکل میں جمع فرمائے گا۔(التوضیح التوبیح والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی،ص 237،حدیث
216)
(4)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب ہے۔(شعب الایمان، حدیث
4813،جلد 4،ص 208)
(5)حضرت ابن
عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے سے
اور گانے سننے سے،غیبت سے اور غیبت سننے سے،چغلی سے اور چغلی سننے سے منع فرمایا۔(بہار
شریعت،جلد 3،صفحہ 503)
اللہ تعالی ہمیں
چغلی جیسے مضموم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی
اللہ علیہ وسلم
محمد جنید عطّاری (درجۂ خامسہ
جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
چغلی
کی تعریف:۔ کسی کی بات ضَرر (یعنی
نقصان )پہنچانے کےاِرادے سے دُوسروں کو پہنچانا چُغلی ہے۔ (عُمدۃُ القاری ج2
ص594)
امام نَوَوِی رحمۃُ
اللہِ علیہ نے چغلی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : لوگوں میں فساد کروانے کے
لئے اُن کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانا چغلی ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج1،جزء
2،ص211)
چغل خور ی کی
مذمت میں احادیث:۔ (1) چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری، 4 /
115 ، حدیث : 6056)
(2) اللہ پاک
کے بد ترین بندے وہ ہیں جو لوگوں میں۔ چغلی کھاتے پھرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان
جدائی ڈالتے ہیں۔ (مسند احمد ،10/442، حدیث27670)
(3)غیبت
کرنے والوں، چغل خور اورپاکباز لوگوں پر عیب لگانے والوں کا حشر کتوں کی صورت میں
ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ) ،3/325،حدیث:10)
چغلی
اور عذاب قبر: حضرت
قتادَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : عذابِ قبر کو تین حصوں میں تقسیم
کیا گیا ہے:(1)ایک تِہائی (1/3) عذابِ غیبت کی وجہ سے (2)ایک تِہائی
چغلی کی وجہ سے اور (3)ایک تِہائی پیشاب(کے چھینٹوں سے خود کو نہ بچانے)کی
وجہ سے ہو تا ہے۔ ( اثبات عذاب القبربیھقی ، ص136 ، حدیث
: 238)
حضرت
کعب احبار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: چُغلی سے بچو کہ
بلاشُبہ چغلی کرنے والا عذابِ قبر سےمحفوظ نہیں رہتا۔
(76کبیرہ گناہ، ص154)
حضرت میمونہ رَضِیَ
اللہُ عَنْہَافرماتی ہیں کہ رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اےمیمونہ! عذابِ قبر
سے اللہ پاک کی پناہ مانگوکیونکہ زیادہ تر عذابِ قبر غیبت اور پیشاب (سے
نہ بچنے)کی وجہ سے ہوتا ہے۔
(شعب الایمان، 5/ 303، حدیث : 6731)
چغلی اور چغل خور سے چھٹکارا دلانے والے چھ
اُمور:حضرت امام محمد غزالی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں: جس شخص کے پاس چغلی کی جائے اور اس سے کہا جائے کہ
فُلاں نے تمہارے بارے میں یہ کہا یا تمہارے خلاف ایسا کیا یا وہ تمہارے معاملے کو
بگاڑنے کی سازش کر رہا ہے یا تمہارے دشمن سے دوستی کرنے کی تیاری کر رہا ہے یا
تمہاری حالت کو خراب کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے یا اس قسم کی دوسری باتیں کہی
جائیں تو ایسی صورت میں اس پر چھ باتیں لا زم ہیں۔
﴿1﴾…اس کی تصدیق
نہ کرے کیو نکہ چُغْل خور فاسق ہوتا ہے اور فاسق کی گو اہی مردود ہے۔
﴿2﴾…اسے چغلی
سے منع کرے، سمجھائے اور اس کے سامنے اس کے فِعْل کی قَباحَت ظاہر کرے ۔
﴿3﴾…اللہ پاک
کی رِضا کے لئے اس سے بغض رکھے کیونکہ چغل خور اللہ پاک کو ناپسند ہے
اور جسے اللہ پاک ناپسند کرے اس سے بغض رکھنا واجب ہے۔
﴿4﴾…اپنے
مسلمان بھائی یعنی جس کی غیبت کی گئی اس سے بدگمان نہ ہو کیو
نکہ اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ
اِثْمٌ (پ26،الحجرات:12)ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والوبہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔
﴿5﴾…جو بات تمہیں بتائی گئی وہ تمہیں تَجَسُّس اور
بحث پرنہ اُبھارے کہ تم اسے حقیقت سمجھنے لگ جاؤ۔اللہ ارشاد فرماتا ہے
: وَلَا
تَجَسَّسُوْا (پ26، الحجرات:12) ترجمۂ
کنز الایمان: اور عیب نہ ڈھونڈھو۔
﴿6﴾…جس بات
سےتم چغل خور کو منع کر رہے ہو اسے اپنے لئے پسند نہ کرو اور نہ ہی اس کی چغلی آگے
بیان کرو کہ یہ کہو:اس نے مجھ سے یہ یہ بات بیان کی۔ اس طرح تم چغل خور اور غیبت
کرنے والے ہوجاؤ گے اور جس بات سے تم نے منع کیا خوداس کے کرنے والے بن جاؤ گے۔
چغلی ایسا برا
فعل ہے جو کہ معاشرے میں لوگ کثرت سے کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ فعل عورتوں میں بہت زیادہ
پایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی پایا جاتا ہے اور یہ اس لیے ہو
رہا ہے کیونکہ اس کی لوگوں کو معلومات ہی نہیں ہیں ۔ اکثریت اس کی وعید سے ناواقف
ہیں اس بنا پر لوگ اس کام کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔
چغلی : عام فہم زبان میں چغلی اس کو کہا جاتا ہے کہ کسی کا راز فاش کرنا یا اس
بات سے پردہ اٹھا دینا جس کے ظاہر ہونے کو انسان ناپسند کرتا ہو۔ اس کے بے شمار
نقصانات ہیں مثلآ لڑائی جھگڑا اور دیگر فسادات ۔ ( احیاء العلوم ویب ایڈیشن، جلد نمبر
3 ، صفحہ نمبر557)
قرآن و احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی
ہے آئیے اس کے بارے میں کچھ احادیث پڑھتے ہیں ۔
کون جنت میں داخل نہیں ہو گا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قاطع جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ عرض کی گئی قاطع کون ہے؟ ارشاد فرمایا: لوگوں کے
درمیان اختلافات پیدا کرنے والا ۔ اور یہی چغل خور ہے ۔ ( احیاء العلوم ویب ایڈیشن،
جلد نمبر 3،صفحہ نمبر 561)
چغل خور سب برا شخص ہے: سرور ذیشان صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : برے لوگوں میں سے ہے وہ شخص جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے بچتے ہوں
۔ ( احیاء العلوم ویب ایڈیشن ، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 561)
چغل خور کتوں کی شکل میں
اٹھایا جائے گا :فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : طعنہ زنی ،غیبت،
چغل خوری اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن )
کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔ ( ظاہری گناہوں کی معلومات ، صفحہ نمبر 53)
پیارے اسلامی بھائیو معاشرے میں پھیلی برائیوں میں
غور کریں تو چغلی بھی بڑی واضح نظر آتی ہے ۔ اس سے بچنے کی تدبیروں میں سے ایک یہ
ہے کہ اس کی وعیدوں کا مطالعہ کیا جائے۔ دنیا و آخرت کے نقصانات کو جانا جائے تاکہ
اس کام سے بچ سکیں ۔ درد مندانہ اپیل ہے کہ چغلی سے بچنے کے لیے قرآن و حدیث میں
ذکر کئے گئے چغلی کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجئے
کہ اگر چغلی کے سبب ہم پر کوئی عذاب مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا ۔ عموم
گناہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ علم دین کا نہ ہونا ۔ اس لیے خوب علم دین حاصل کیجیے
اور علماء اہلسنت کی صحبت حاصل کیجئے ۔ گناہوں کی معلومات اور احیا العلوم جیسی
کتب کا مطالعہ کیجیے تاکہ ہم گناہوں سے بچ سکیں ۔
دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں صیح معنوں میں قرآن و
حدیث پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ، چغل خوری اور دیگر ظاہری و باطنی
گناہوں سے اپنی پناہ عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ابو واصف کاشف علی عطّاری (درجۂ
خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
آج ہم
انشاءاللہ چغلی کرنے کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے سب سے پہلے ہم چغلی کی
تعریف پڑتے ہے کہ چغلی ہے کیا؟
چغلی
کسے کہتے ہیں؟ امام نوَ وِی
رَحْمَةُ الله علیہ سے منقول ہے : کسی کی بات نقصان پہنچانے کے ارادے سے دوسروں
کوپہنچانا چغلی ہے۔ (عمدۃ القاری، تحت الحدیث 594/2،216)
چغلی کی تعریف
یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔ (الزواجر
عن اقتراف الكبائر، الباب الثاني، الكبيرة الثانية والخمسون بعد المأتين: النميمة،
46/2)
اب اگر ہم اس
تعریف پہ غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز ہمارے اندر کتنی زیادہ پائی جاتی
ہے اور کیا یہی چیز ہم اپنے معاشرے میں نہیں دیکھتے؟ یقینا ہم دیکھتے ہے اور ہمیں
پتہ بھی ہے لیکن اس برائی سے بچا کیسے جائے ؟ تو اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس
کے عذاب پہ نظر کی جائے کیونکہ جس چیز کا انجام برا ہوں اس سے انسان بچتا ہے تو ہم
دیکھتے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کیا ارشاد فرمایا؟
حدیث مبارکہ میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح کاٹ دیتی ہیں جیسے چرواہا درخت کو
کاٹ دیتا ہے۔ (الترغيب والترهيب، كتاب الادب، رقم: 4362، ج 3، ص 405)
اب میرے محترم
اسلامی بھائیوں! غور کریں کہ اس مثال سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے یقنا چرواہا جو ہوتا
ہے یہ کوشش کرتا ہے کہ درخت جلدی کٹ جائے لیکن اگر یہ روزانہ کلھاڑے کی ایک ہی ضرب
درخت کو لگائے تو ایک نہ ایک دن درخت کٹ جائے گا ایسے ہی اگر ہم چغلی کرتے رہے اور
یہ سمجھتے رہے کہ بس ایک شخص کی یا دو کی ہی تو کی ہے لیکن کہیں یہ ایک،دو ہی
ہمارا ایمان نہ برباد کر دیں۔ ہمیں ہر لحاظ سے اس سے بچنا ہے۔
حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ وہ
ہے جو ادھر اُدھر کی باتوں میں لگائی بجھائی کر کے مسلمانوں میں اختلاف اور پھوٹ
ڈالتا ہے۔ (مسند امام احمد، حديث عبد الرحمن بن عثم، رقم: 291/18020،6)
تو میرے محترم
اسلامی بھائیوں! اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ چغلی کرنے والا بھی اللہ پاک کا ناپسندیدہ
بندہ ہے اور جو اللہ پاک کا ناپسندیدہ ہو وہ جنت میں کیسے داخل ہو گا ؟ اور اللہ
پاک کے پسندیدہ بندوں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ پاک کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا
جائے تو اللہ پاک یاد آجائے اور اللہ پاک کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے اِدھر
اُدھر پھرنے والے، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں
نکالنے والے ہیں۔ (مسند امام احمد، مسندالشاميين، حديث عبد الرحمن بن غنم الاشعرى،
291،6 ، حدیث : 18020)
اسی طرح ایک
اور مقام پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چغل خور کو آخرت سے پہلے
اس کی قبر میں عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب الوضو باب من الكبائر ... الخ، حدیث:
95/1،216)
تو میرے محترم
اسلامی بھائیوں اس حدیث پاک سے ہمیں پتہ چلا کہ چغلی کرنے والوں کے عذاب کا سلسلہ
قبر سے ہی شروع ہو جائے گا اور یہ بشارت بھی وہ فرما رہے ہے جو تمام نبیوں کے
سردار دو جہاں کے مالک مختار جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے آپ کی زبان
مبارکہ سے کبھی کافروں نے جھوٹ نہیں سنا تھا تو ہم یہ کیسے گمان کر لیں کہ اس میں
ہمارے لئے کمی ہو گی یقینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے تو یہ ہو کر ہی
رہے گا اور چغلی کرنے والے کو سزا مل کر ہی رہے گئ اگر ہم چاہتے ہے کہ قبر کے عذاب
سے محفوظ رہے تو ضروری ہے کہ ہم دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ چغلی سے بھی بچتے رہے جو
ہماری زبانوں اور معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔
حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم شفیع روز شمار ، دو عالم کے مالک و مختار
صلی اللہ عَلَيْهِ والہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، ہمارا گزر دو (2) قبروں کے پاس
سے ہوا، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ اللَّهِ وَ سَلَّمَ ٹھہر گئے، لہذا ہم بھی آپ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ ٹھہر گئے ، آپ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کا رنگ مبارک تبدیل ہونے لگا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ
علیہ والہ و سلم کی قمیص مبارک کی آستین کپکپانے لگی، ہم نے عرض کی: یارسول الله
صلى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! کیا معاملہ ہے ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَاللَّهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کیا تم بھی وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا
ہوں؟ ہم نے عرض کی : یا رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ! آپ کیا
سن رہے ہیں ؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان
دونوں افراد پر ان کی قبروں میں انتہائی سخت عذاب ہو رہا ہے وہ بھی ایسے گناہ کی
وجہ سے جو حقیر ہے ( یعنی ان دونوں کے خیال میں معمولی تھا یا پھر یہ کہ اس سے
بچنا ان کے لئے آسان تھا) ہم نے عرض کی : وہ کون سا گناہ ہے؟ تو آپ صلى الله
عَلَيْهِ والله وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان میں سے ایک پیشاب سے نہ بچتا تھا
اور دوسرا اپنی زبان سے لوگوں کو اذیت دیتا اور چغلی کرتا تھا۔ پھر آپ صلى الله
عَلَيْهِ والہ وسلم نے کھجور کی دو (2) ٹہنیاں منگوائیں اور ان میں سے ہر ایک کی
قبر پر ایک ایک ٹہنی رکھ دی، ہم نے عرض کی: یارسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَاللَّهِ وَسَلَّمَ ! کیا یہ چیز ان کو کوئی فائدہ دے گی؟ آپ صلى اللہ عَلَيْهِ
وَالہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں ! جب تک یہ دونوں ٹہنیاں تر رہیں گی ان سے عذاب
میں کمی ہوتی رہے گی۔ (صحیح ابن حبان كتاب الرقائق، باب الاذكار، حدیث: 96/2،821
" لا يستنزه" بدله "لا يستتر")
اب دیکھے میرے
محترم اسلامی بھائیوں! چغلی کرنا کیسا برا کام ہے کہ جو شخص چغلی کرتا تھا اس کو
قبر میں عذاب ہو رہا تھا اور وہ عذاب کتنا سخت ہو گا جس کو دیکھ کر حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کا قمیض مبارک بھی کپکپانے لگا یقنا ہم اس عذاب کو برداشت نہیں کر سکے
گے اور ایک لمحہ بھی نہیں برداشت کر سکے گئے تو ہمیں چاہے کہ ہم ان کاموں سے محفوظ
رہے
اسی طرح حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: : لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَاتُ یعنی چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔(بخاری ،
کتاب الادب، باب ما يكره من النميمة ، الحديث 6052 ، ص 512)
اب جس کے
متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ یہ جنت میں نہیں جائے گا تو پھر اس
کا ٹھکانہ جہنم کے علاوہ اور کونسی جگہ ہو سکتی ہے یقنا ہم حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کی شفاعت سے ہی جنت میں جائے گے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اس
وقت ہی ملے گئ جب ہم ان کے فرامین پہ عمل کریں گے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو چغلی کرنے اور چغلی کرنے والے کی صحبت سے محفوظ
رکھے۔(آمین)
سرفراز (درجۂ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
چغل خوری ظاہری
امراض میں سے انتہائی خطرناک مرض ہے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ چغل خوری ناجائز حرام
اور نہایت ہی قبیح اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے آئیے چغل خوری کی مذمت میں چند
احادیث ملاحظہ کرتے ہیں
حدیث نمبر:-1 حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چغل
خور
جنت میں نہیں
جائے گا۔ ( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما يكره من النميمة)
حدیث نمبر:-2 رسول
اللہ صلی علیم نے فرمایا: میرے نزدیک سب سے زیادہ برے لوگ وہ ہیں جو چغل خور ہیں،
اور وہ لوگ جو آپس میں محبت کرنے والوں کے درمیان جدائی ڈلواتے ہیں اور وہ لوگ جو
بے گناہ لوگوں پر الزام تراشی کرتے ہیں۔(المعجم الصغير للطبرانی: 7/350، السلسلة
الصحيحة: 2/379)
حدیث نمبر:-3حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں سے لوگوں کی چغلی کھانے والا
صحیح النسب نہیں( یعنی وہ حلال کی اولاد نہیں ہے) احیاء العلوم جلد(3) صفحہ (475)
حدیث نمبر:-4حضرت
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ میں تمہیں نہ بتلاوں کہ غصہ کیا چیز ہے ؟ وہ چغلی ہے لوگوں کے درمیان ( کسی کی
) بات کرنا۔ ( صحیح مسلم ، کتاب البر ، باب تحريم النميمة)
حدیث نمبر:-5 حضرت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب وہ لوگ ہیں
جو تم میں سب سے زیادہ خوش اخلاق ہیں جن کے ساتھ رہنے والا ان سے اذیت نہیں پاتا
جو لوگوں سے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور تم میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ لوگ وہ
ہیں جو چغلیاں کھاتے دوسروں کے درمیان جدائی ڈالتے اور پاک باز لوگوں کے عیب تلاش
کرتے ہیں۔ المعجم الاوسط 5(387 حدیث 7697
چوری سے بچ
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں چغل خوری جیسی باطنی بیماریوں سے
بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
وقاص (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
حدیث نمبر 1: چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا : سرکار والا تبار صلی
اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔( مسلم
کتاب الایمان ص( 22) ح :105)
2:-چغل خور رب کو ناپسند ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں
کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک کے نزدیک تم
میں سب سے زیادہ محبوب وہ لوگ ہیں جو تم میں سب سے زیادہ خوش اخلاق ہیں جن کے ساتھ
رہنے والا ان سے اذیت نہیں پاتا جو ان لوگوں سے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں تم میں
سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ لوگ ہیں جو چغلیاں کھاتے ہیں دوستوں کے درمیان جدائی
ڈالتے ہیں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرتے ہیں احیا العلوم جلد 3 صفحہ 470
3 حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے
ارشاد فرمایا لوگوں سے لوگوں کی چغلی کھانے والا صحیح نسب نہیں ہے (یعنی وہ حلال کی
اولاد نہیں ہے ) احیاء العلوم جلد 3ص478
4
شریر لوگ :حضور اکرم صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہارے درمیان موجود شریر لوگوں کے بارے میں
نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ضرور
ارشاد فرمائیں تو اپ نے ارشاد فرمایا جغل خور دوستوں کے درمیان فساد ڈالنے والا
اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والا
احیاء العلوم جلد 3ص470
5۔ حضور مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا چغلی خوری اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ عزوجل قیامت
کے دن کتے کی شکل میں اٹھائے گا۔
ظاہری گناہوں کی معلومات اللہ عزوجل ہمیں غیبت جیسے
برے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد اسامہ عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
چغلی اللہ و
رسول کی نافرمانی اور ناراضی کا سبب ہے۔ چغلی جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔چغلی
بندوں کے حقوق ضائع کرنے کا سبب ہے۔ افسوس صد افسوس! آج ہمارے معاشرے میں چغلی کا
مرض عام ہے۔بدقسمتی سے بعض لوگوں میں یہ مرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ لاکھ کوشش کے
باوجود اس کا علاج نہیں ہوپاتا۔آہ! اب ہرطرف نفرتوں کی دیواریں قائم ہوچکی ہیں۔لہٰذا
احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں چغلی کی مذمت کے بارے میں بیان کیا جائے گا پڑھئے اور
علم وعمل میں اضافہ کیجئے۔
چغلی
کی تعریف: امام نووی رحمۃُ اللہِ
علیہ سے منقول ہے:کسی کی بات نقصان پہنچانے کے ارادے سے دوسروں کو پہنچانا چُغلی
ہے۔ (عمدۃ القاری، 2/594،تحت الحدیث:216 ) چغلی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ لوگوں
کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ان کی باتیں ایک دوسرے کو بتانا۔(جہنم میں لے جانے
والے اعمال، 2/99)
چغلی کی مذمت
کے بارے میں 6 فرامینِ مصطفی ٰ پڑھئے:
(1) چغلخور جنت میں نہیں جائے گا:چغل خورجنت میں داخل نہ ہوگا۔ (بخاری، 4/115،حدیث:6056)
(2)
چغلی کرنا ایمان کو ختم کر دیتا ہے:
غیبت اورچغلی ایمان کواس طرح کاٹ دیتی ہیں جیسےچرواہا درخت کو کاٹ دیتا ہے۔(الترغیب
و الترہیب،3/332، حدیث: 7352)
(3)
اللہ پاک کا ناپسندیدہ: الله کے
بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں،دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور پاک
لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے۔ (مراٰۃ المناجیح،6/484، 485)
(4)
بروز قیامت کتے کی شکل میں: منہ پر
بُرا بھلا کہنے والوں، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں،چغلی کھانے والوں اور بے
عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک(قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں جمع
فرمائے گا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/94)
(5)
قبر میں عذاب: چغل خور کوآخرت
سےپہلےاس کی قبر میں عذاب دیا جائے گا۔(دیکھئے: بخاری، 1/95، حدیث: 216) رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک بار دو قبروں کے قریب سے گزرے تو آپ نے
فرمایا:اس وقت یہ دونوں قبر والے عذاب میں مبتلا ہیں، حالانکہ جس وجہ سے عذاب میں
مبتلا ہیں وہ بظاہر کوئی خاص بہت بڑی وجہ نہیں ہے ان میں سے ایک شخص تو اس لئے
عذاب میں مبتلا ہے کہ چغلیاں کیا کرتا تھا، جبکہ دوسرا شخص پیشاب (کے چھینٹوں) سے
بچنے کا اہتمام نہیں کیا کرتا تھا۔ (بخاری، 1/96، حدیث: 218)
(6)
بدترین حرام چیز: کیا میں تمہیں یہ
نہ بتاؤں کہ بدترین حرام کیا ہے؟ یہ چغلی ہے جو لوگوں کی زبان پر رواں ہو جاتی
ہے۔(مسلم، ص 1077،حدیث: 6636)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں چغلی کھانے اور اس جیسی دیگر باطنی بیماریوں سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ محمد احمد عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم
مارکیٹ لاہور، پاکستان)
حضرت یوسف علیہ
السلام کا اِجمالی ذکرِ خیر قرآنِ کریم میں تین مقامات پر ہے سورهِ انعام، سورہِ
مؤمن اور آپ علیہ السلام کا تفصیلی ذکر وہ سورہِ یوسف میں ہے.آئیے اب ہم آپ علیہ
السلام کی قرآنی صِفات کا ذکر کرتے ہیں. اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا
ہے :وَ
وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا
مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ
وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)ترجمہ کنز الایمان :اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب
عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی
اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا
ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔ (پارہ 7،سورة الأنعام، آیت 84)
اس آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو اُن کے زمانے میں تمام
جہان والوں پر فضیلت بخشی ،آپ علیہ السلام کو ہدایت و صلاحیت عطا فرمائی اور آپ علیہ
السلام کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی.
وہ مقام جس میں آپ علیہ السلام کا تفصیلی ذکر ہے
کہ ارشادِ خُدا وندی ہے :وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ
مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ
نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ
مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ
النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(21)ترجمہ
کنز الایمان :اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے
رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو
اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام
پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 21)
اس آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا. آپ
علیہ السلام کو کنواں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا. آپ علیہ السلام کو مصر کی سر
زمین میں ٹھکانہ دیا اور اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کرنا سکھایا.
(سیرت الانبیاء ص418)
اللہ تعالٰی
نے آپ علیہ السلام کو بُرائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور آپ علیہ السلام کو
اپنے چُنے ہوئے بندوں میں شمار کیا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد
فرماتا ہے :وَ
لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ
لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)ترجمہ کنز الایمان :اور بیشک عورت نے اس کا
ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی
کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں
ہے. (پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 24)
اس آیتِ
مبارکہ میں جس دلیل کا ذکر ہوا وہ برہان عصمتِ نبوت ہے. اللہ تعالٰی نے انبیاءِکرام
علیھم السلام کے پاکیزہ نفوس کو بُرے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا
ہےاور پاکیزہ، مقدّس اور شرافت والے اَخلاق پر اُن کی پیدائش فرمائی ہے، اس لیے وہ
ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو.
ایک روایت یہ
بھی ہے کہ جس وقت زُلیخا، حضرت یوسف علیہ السلام کے درپے ہوئی اُس وقت آپ علیہ
السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ حضرت یعقوب علیہ
السلام اپنے انگشتِ مبارک دِندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں.
(سیرت النبياء ص430)
اللہ تعالٰی
نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کرنا سکھایا تھا کہ آپ علیہ السلام قید خانے
کے ساتھیوں کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے قید خانے کے دونوں ساتھیوں
تم میں ایک ساتھی بادشاہ کو شراب پلانے والا تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور
پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کیے گئے تھے
اس سے مراد تین دن ہیں، وہ اِتنے ہی دن قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اُسے
بُلالے گا اور جہاں تک دوسرے یعنی شاہی باورچی کا تعلّق ہے تو اُسے سولی دی جائے گی
پھر پرندے اس کا سر کھا لیں گے(سیرت الانبیاء، ص440) جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ کریم
میں اِس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ
رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ
رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ(41)ترجمہ کنز الایمان : اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو
تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا رہا دوسرا وہ سُولی دیا جائے گا
تو پرندے اس کا سر کھائیں گے حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے۔(پارہ
12،سورہِ یوسف، آیت 41)
اسی سورہِ یوسف
میں آگے آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر ہوتا ہےکہ اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد
فرماتا ہے : وَ
كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ
بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)وَ
لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(57) ترجمہ کنز الایمان : اور یونہی ہم نے یوسف کو اس
ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں
کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔ اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور
پرہیزگار رہے۔(پارہ 13،سورہِ یوسف، آیت 56،57)
مذکورہ آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی عطا
فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں آپ علیہ السلام کو معزّز بنایا، آپ علیہ السلام کو
مصر کی سرزمین میں اِقتدار عطا فرما کر سب کچھ اُن کے تحتِ تصرّف کر دیا اور اللہ
تعالٰی نے آپ علیہ السلام کے لیے آخرت میں بہت زیادہ افضل و اعلٰی ثواب رکھا.
اشتیاق احمد عطّاری ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
جس طرح اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات
اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ
السلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان کی صفات بیان فرمائی آئیے کچھ آیتیں مبارکہ آپ کے
سامنے رکھتا ہوں آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔
(1)۔
چاند اور سورج کا سجدہ کرنا:اِذْ
قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا
وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4) ترجمۂ کنز الایمان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے
کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ
کرتے دیکھا ۔
تفسیر :{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔} یعنی اے
حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے
باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ
ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔
( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 4)
(2)۔حضرت
یوسف علیہ السلام کا خزانوں کی حفاظت کرنا۔ قَالَ
اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55) ترجمۂ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے
خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔
تفسیر : حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک
میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟
چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو
منظور کرلیا۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 55)
(3)۔
اللہ پاک کا آپ علیہ السلام کو ملک پر قدرت بخشنا:كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی
الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ
نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56) ترجمۂ کنز الایمان:اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر
قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا
نیگ ضائع نہیں کرتے۔
تفسیر : یعنی جس طرح ہم نے اندھیرے کنویں سے
نجات دے کر، قید خانے سے رہائی عطا فرما کر اور بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنا کر
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انعام فرمایا اسی طرح ہم نے حضرت یوسف
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرمایا اور سب
کچھ اُن کے تحت ِتَصَرُّف ہے ۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 56)
(4)۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے جنت کی خوشبو:وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ
اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(94)ترجمہ کنزالایمان:جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں
ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ گیا
۔
تفسیر: یعنی جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور
کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں
اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرما دیا ’’بیشک میں یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی قمیص سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں ۔ اگر تم مجھے کم سمجھ نہ کہو تو
تم ضرور میری بات کی تصدیق کرو گے۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 94)
(5)۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں سے ملنا:قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ
اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ
وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90) ترجمہ کنزالایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں
کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری
اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا۔
تفسیر: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے بھائیوں نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک
اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین
و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں سے بچے اور اللہ تعالیٰ کے
فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللہ تعالیٰ
نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا ثواب اورا س کی اطاعت
گزاریوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔ (حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 90)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے اور انبیاء علیہم السلام جیسی صفات اپنانے کی
توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
عبدالعلی مدنی ( مدرس جامعۃُ المدینہ کنزالایمان مصطفیٰ
آباد رائیونڈ لاہور ، پاکستان)
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب
اللہ پاک نے
انسانوں کی ہدایت کےلئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے۔
جن میں سے 26 کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے ۔اور جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے ، ان میں
سے ایک حضرت یوسف علیہ السلام بھی ہیں۔
مختصر
تعارف:حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب
علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے پڑپوتے ہیں۔ یعنی نسب نامہ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراھیم علیھم
السلام ہے۔
خود نبی، والد
نبی، دادا نبی اور پردادا بھی نبی ہیں۔ (از سیرت الانبیاء ص:416)
حضور علیہ
السلام نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود
اللہ کے نبی، اور نبی اللہ کے بیٹے، اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے
بیٹے ہیں۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: و اتخذ اللہ ابراھیم
خلیلا،421/2، حدیث:3353 ) آئیے اب حضرت یوسف علیہ السلام کی قرآنی صفات کا مطالعہ
کرتے ہیں ۔
1-
جوانی میں عطائے علم و حکمت: اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کو جوانی میں علم و حکمت عطا فرمائ۔ قرآن مجید میں ہے ۔وَ
لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ بن عِلْمًا ط وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی
الْمُحْسِنِیْنَ (ترجمہ کنزالایمان)
اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی
صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ (سورۃ یوسف، آیت:22)
یعنی جب حضرت یوسف
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی
انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قول کے
مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس
کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض
علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد
ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق
عمل کرنا حکمت ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 22، 3 / 11-12)
2-
خوابوں کی تعبیر بتانا:اللہ پاک نے
آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا۔ چنانچہ فرمایا: وَ
كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘ وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ
الْاَحَادِیْثِ ط وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ
لَا یَعْلَمُوْنَ (ترجمہ کنزالایمان):
اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام
سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(سورۃ یوسف، آیت:21)
(3٫4)- اللہ
پاک نے برائ سے محفوظ رکھا اور اپنے چنے ہوئے بندوں میں شامل فرمایا۔ قرآن مجید میں
ہے:وَ
لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ج وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ط
كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ ط اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُخْلَصِیْنَ (ترجمہ کنزالایمان):اور
بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل
نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ
ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔(سورۃ یوسف آیت نمبر:24)
(5)-
سر زمین مصر میں اقتدار:اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا:وَ
كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُ
ط نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(ترجمہ کنزالایمان):اور یونہی ہم نے یوسف کو اس
ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں
کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔(سورۃ یوسف ، آیت : 56)
(6)-
آخرت میں بہترین اجر و ثواب:وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ
لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان:اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر
جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔(سورۃ یوسف ، آیت: 57)
(7)-
قبولیت دعا:قَالَ
رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِ ج وَ اِلَّا
تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ (ترجمہ کنزالایمان):یوسف نے عرض کی: اے میرے رب!
مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو
مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا۔
یہ یوسف علیہ
السلام کی دعا تھی اللہ پاک نے آپ کی دعا کو قبولیت کا شرف بخشا اور عورتوں کا مکر
و فریب ان سے پھیر دیا ۔فرمایا:فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ
عَنْهُ كَیْدَهُنَّ ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(ترجمہ کنزالایمان):تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس
سے عورتوں کا مکر پھیردیا بیشک وہی ہے سنتا جانتا ۔(سورۃ یوسف آیت نمبر: 33-35)
اور بھی بہت سی
صفات اور خوبیاں حضرت یوسف علیہ السلام کی قرآن مجید میں بیان کی گئ ہیں- شیخ الحدیث
والتفسیر حضرت علامہ مولانا مفتی قاسم صاحب کی کتاب سیرت الانبیاء اور تفسیر صراط
الجنان سے سورۃ یوسف کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام کی سیرت کا
مطالعہ کرنے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد شاہ زیب
سلیم عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
انسان کی زمین
پر آمد کے بعد گزرتے وقت کے ساتھ ابلیس کی کوششیں رنگ لانا شروع ہوئیں اور لوگ اس
کے بہکاووں اور وسوسوں کا شکار ہو کر گناہ اور گمراہی میں مبتلا ہو گئے یہاں تک کہ
خالق حقیقی، معبود برحق کی بندگی چھوڑ دی اور اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے بتوں کو خدا
کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرا لیا۔
ان کی اصلاح
کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف پے در پے انبیاء و مرسلین
علیهم السلام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا، لوگوں کی ہدایت و نصیحت
کے لیے ان پیغمبروں پر کئی صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں ۔ ان میں سے حضرت یوسف
علیہ السلام بھی ہیں اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان کی صفات کا ذکر فرمایا ہے آپ
بھی پڑھیے اور جھومئے
1)
علم و حکمت: اللہ عزوجل قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے : وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا
وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے
اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔
بعض علماء نے یہ
بھی فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے
اور بعض نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا علم اور علم کے مطابق عمل کرنا
حکمت ہے ۔(پارہ 12 آیت 22 سورت یوسف سیرت الانبیاء صفحہ 418)
2)حضرت
یوسف علیہ السلام کا خواب :ایک بار
آپ علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس کی یوں
خبر دی: اِذْ
قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا
وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَترجمۂ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے
کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ
کرتے دیکھا ۔ (پارہ 12 آیت 4 سورت یوسف)
3)حضرت
یعقوب علیہ السلام کی نصیحت:حضرت یعقوب
علیہ السلام کو اپنے فرزند یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی، جس کی وجہ سے
ان کےدیگر بھائی یوسف علیہ السلام کے بھائی یہ سمجھتے تھےکہ والد، یوسف سے زیادہ
محبت کرتے ہیں تو اس وجہ سے ان کے دل میں کچھ بات آتی تھی اور چونکہ یہ بات حضرت یعقوب
علیہ السلام جانتے تھے ، اور وہ بیان کردہ خواب سے ظاہر ہونے والی حضرت یوسف علیہ
السلام کی عظمت و فضیلت بھی سمجھ گئے ، اس لئے خواب سن کر فرمایا: قَالَ
یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًاؕ-اِنَّ
الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ترجمۂ کنز الایمان: کہا اے میرے بچے اپنا خواب اپنے
بھائیوں سے نہ کہنا کہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں گے بیشک شیطان آدمی کا کھلا
دشمن ہے۔ (پارہ 12 آیت 5 سورت یوسف سیرت الانبیاء صفحہ 420)
4)آپ
علیہ السلام بے حیائی اور برائی سے محفوظ:اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ
هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ
عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ
ترجمۂ کنز
الایمان:اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے
رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں
بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔ (پارہ 12 آیت24 سورت یوسف )
5)آپ
علیہ السلام قتل سے محفوظ اور کنویں میں سلامت رہے : اللہ عزوجل نے آپ علیہ السلام کو قتل ہونے سے محفوظ
رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی سر زمین میں ٹھکانہ دیا اور
خوابوں کی تعبیر نکالناسکھایا۔ ارشاد باری تعالی ہے :-وَ كَذٰلِكَ
مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ
اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور اسی طرح ہم نے یوسف کو
اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام
پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(پارہ 12 آیت 21 سورت یوسف)