تکبر ایک ہلاک کر دینے والی باطنی بیماری ہے شیطان جو راندۂ درگاہ الہی ہوا اس کا ایک اہم سبب تکبر ہے، تکبر کہتے کسے ہیں  چنانچہ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:

تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔

تکبر کے نقصانات قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں، چھ فرامین مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ذکر کیے جاتے ہیں

(1) کبریائی رب کی چادر: نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا

رب پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب اہل الجنۃ ۔۔۔الخ الحدیث 210، ج 1، ص 235)

رب تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا ہمیں سمجھانے کے لیے ہے جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے یونہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لیے نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از مراۃ المناجیح ج 4، ص 459)

(2) اللہ پاک کا نا پسندیدہ بندہ:حدیث مبارکہ میں ہے

اللہ پاک متکبرین اور اترا کر چلنے والوں کو نا پسند فرماتا ہے (کنز العمال کتاب الاخلاق قسم الاقوال الحدیث 7727 ج 3 ص 210)

(3) قیامت میں رسوائی: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا۔۔۔ فرمان آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی انہیں جہنم کے بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گااور بہت آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گ۔ انہیں طینۃ الخبال پلائی جائے گی (جامع الترمذی کتاب القیامۃ باب ماجاء فی شدہ۔۔۔الخ الحدیث 2500 ج 4 ص 221)

(4) جنت میں داخل نہ ہو سکے گا: فرمان مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریمۃ الکبر و بیانہ الحدیث 147 ص 60)

اس سے مراد یہ کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگابلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہوگا (مرقاۃ المفاتیح ج 8 ص 829)

(5) رب تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا: فرمان آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس الحدیث 5788، ج ۔۔۔)

تکبر کی کچھ علامات بھی ہیں جیسے کسی کی نصیحت قبول نہ کرنا۔۔۔ دوسروں کو حقیر جان کر حقوق پورے نہ کرنا۔۔۔ سلام میں پہل نہ کرنا وغیرہ۔

تکبر سے چھٹکارا پانے کے لیے انسان اپنی کمزوری اور رب تعالیٰ کی قدرت پر غور کرے ان شاء اللہ چھٹکارا ملے گا۔

مزید معلومات کے لیے تکبر پڑھیے۔

تکبر کی تعریف:

رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَلْکِبْرُ بَطَرْالْحَقِ وَغَمْطْ النَّاسِ۔ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبرو بیانہ، ص61، حدیث 147)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے، جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ (مفردات الفاظ القرآن، کبر، ص697، باطنی بیماریوں کی معلومات)

1۔ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص 221، حدیث 2500)

2۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے فوت شدہ آباء و اَجْدَاد پہ فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہئے کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہوجائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہوگا یا بدبخت وبدکار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل الشام والیمن، ج5، ص497، حدیث 3981)

3۔ مخزنِ جودو سخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جو شخص تکبر، خیانت اور دَین(یعنی قرض وغیرہ) سے بری ہوکر مرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (جامع الترمذی، کتاب السیر، باب ماجاء فی الفلول، الحدیث158، ج3، ص208)

4۔ تکبر کرنے والے کی مثال ایسی ہے، جیسے کہ کوئی غلام بغیر اجازت بادشاہ کا تاج پہن کر اس کے شاہی تخت پر بیٹھ جائے، تو جس طرح یہ غلام بادشاہ کی طرف سے سخت سزا پائے گا بالکل اسی طرح صفت کبر میں شرکت کی مذموم کوشش کرنے والا شخص اللہ پاک کی جانب سے سزا کا مستحق ہوگا، چنانچہ نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:ربّ پاک فرماتا ہے:کبریائی میری چادر ہے، لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اُسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الایمان، باب اھل الجنۃ لمفلورون ۔۔ الخ، الحدیث 210، ج1، ص235)

ربّ پاک کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا، ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یونہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی۔ (ماخوذ اَز مراۃ المناجیح، ج6، ص659)

ربّ کائنات تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،جیسا کہ سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔ (پ14، النحل: 23) ترجمہ:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر کا نقصان:

شہنشاہ ِخوش خصال، پیکر حُسن و جمال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحدیث 7727، ج3، ص210)

5۔ رحمتِ الٰہی سے محروم:

رحمت الٰہی سے محروم ہونے والوں میں متکبر بھی شامل ہوگا، جیساکہ اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب من الخیلائی، الحدیث 5788، ج4، ص46)

تکبر اور اس جیسی دیگر باطنی بیماریوں سے بچنا نہایت ضروری، بلکہ فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مخرجہ، ج23، ص624)

اس لئے ہر اسلامی بھائی/بہن کو چاہئے کہ پہلے تکبر کی تعریف، تباہ کاریاں، اقسام، اسباب، علامات، علاج وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے دیانتداری کے ساتھ محاسبہ کرے، پھر اگر اس باطنی گناہ میں گرفتار ہونے کا احساس ہوتو ہاتھوں ہاتھ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرے اور علاج کے لئے بھرپور کوشش شروع کردے۔

اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تکبر ایک بہت بُری عادت ہے، جو نیکیوں کو برباد کردیتی ہے، اس سے بچنا ازحد ضروری ہے، تکبر سے بچنے کے لئے اولاً تو تکبر کی پہچان ہونی چاہئے، کیا ہے تکبر؟ تو تکبر کی علامت یہ ہے کہ اپنا قُصور ہوتے ہوئے بھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا اور معافی مانگنے کے لئے تیار نہ ہونا تکبر ہے۔

تکبر چاہے دولت کا ہو، طاقت کا ہو، رتبے کا ہو، حیثیت کا ہو، حُسن کا ہو، حسب و نسب کا ہو، حتیٰ کہ تقویٰ کا ہی کیوں نہ ہو، انسان کو رُسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے، اب تکبر کی مذمت پر احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں:

01۔ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح مسلم،5455)

02۔فرمان مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، ح147)

03۔غرور و تکبر کا انجام:

حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو غرور و تکبر کرتا ہے، اللہ پاک اُسے ذلیل کردیتا ہے (جس کے نتیجے میں) وہ اپنے آپ کو تو بہت بڑا سمجھتا ہے، لیکن لوگوں کی نگاہوں میں چھوٹا اور ذلیل ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ کتے اور خنزیر سے بھی بدتر لگنے لگتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، ح5119)

04۔ تکبر کی چال کا انجام:

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک شخص دو دھاری دار کپڑوں میں ملبوس اِتراہٹ اور اکڑ کے ساتھ چل رہا تھا، نیز (وہ اپنے کپڑوں کو اتنا نفیس اور برتر سمجھ رہا تھا کہ اُس کے نفس نے اُس کو غرور و خود بینی میں مبتلا کردیا تھا) اُس کا انجام یہ ہوا کہ زمین نے اُس شخص کو نگل لیا، چنانچہ وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (بخاری شریف)

05۔حضرت جابر رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن خدا کچھ لوگوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اُٹھائے گا، لوگ انہیں اپنے قدموں سے روندے گے، پوچھا جائے گا، یہ چیونٹیوں کی شکل میں کون لوگ ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو تکبر کرتے تھے۔ (ترغیب و ترہیب، بحوالہ بزار)

نہ اُٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تُو نے نظر سے گِرا کر چھوڑدیا

اللہ پاک تکبر کرنے والے کو ناپسند فرماتا ہے اور عاجزی کرنے والے کو پسند فرماتا ہے، اگر آپ اللہ پاک کا پسندیدہ بننا چاہتے ہیں، تو تکبر چھوڑ کر عاجزی کا پیکر بن جائیے، اگر اپنے اندر سے تکبر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اپنے کام خود کریں اور اِس میں شرم محسوس نہ کریں۔

تکبر کا علاج:

فرمانِ حبیبِ پروردگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے دور ہوجاتا ہے۔ (شعب الایمان، ح8786، ص433)

جس نے ربّ کے لئے جُھکنا سیکھ لیا، وہی علم والا ہے، کیونکہ علم کی پہچان عاجزی اور جاہل کی پہچان تکبر ہے۔

اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچائے رکھے اور عاجزی و انکساری کا پیکر بنائے۔ آمین 


ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے، اگر باطن خراب ہوتو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، ریا اور تکبر وغیرہ عیوب سے پاک ہوتو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں، باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل سے ہوتا ہے، لہٰذا دل کی اصلاح ضروری ہے، باطنی گناہوں میں تکبر بھی ہے، جس کی مذمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

تکبر کی تعریف:

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کانام ہے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبّر اور مغرور کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 275)

آیتِ قرآنیہ:

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنْ۔ ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص276)

تکبر کی مذمت پر احادیث مبارکہ:

حدیث نمبر1۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طینۃُالخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص276_277)

حدیث نمبر2۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو آدمی مرجائے اور تکبر اور خیانت اور قرض سے پاک ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (جامع ترمذی، باب جہاد: 1572)

شرح: اس حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ جو تکبر سے پاک ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا، لیکن جو تکبر سے پاک نہ ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

حدیث نمبر3۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عزت میری ازار ہے اور کبریائی میری رداء ہے، جو مجھ سے ان صفات کو چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو عذاب دوں گا۔ (مسلم شریف، کتاب البروالصلہ)

حدیث نمبر4۔رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ پاک تین قسم کے آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا، نہ ہی ان کی طرف نظرِ رحمت فرمائے گا اور ان کو درد ناک عذاب دے گا ،1:بوڑھا زنا کرنے والا، 2:جھوٹ بولنے والا، 3: تکبر کرنے والا فقیر ۔ (مسلم شریف، کتاب الایمان)

حدیث نمبر5۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے مجھ پر وحی فرمائی کہ عاجزی اختیار کرو، کوئی شخص فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔ (مسلم شریف، باب جہنم)

درس:

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کرنے والا عذاب کا حق دار ہے، ہر مسلمان پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کے علاج پر بھی بھرپور توجہ دینا لازم ہے، تاکہ ہم اپنے دارِ آخرت کو ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں، باطنی گناہوں کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر باطنی بیماریوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے،  چنانچہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تخریم الکبر، ص 61، حدیث 51)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اس کو متکبر کہتے ہیں، یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔

تکبر ایسا مہلک مرض ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی برائیوں کو لاتا ہے اور کئیں اچھائیوں سے آدمی کو محروم کر دیتا ہے، بنیادی طور پر دل میں تکبر اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان خود کو بڑا سمجھے اور اپنے آپ کو وہی بڑا سمجھتا ہے، جو اپنے اندر کسی کمال کی بُو پاتا ہے، پھر وہ کمال یا تو دینی ہوتا ہے، جیسے علم و عمل وغیرہ اور کبھی دنیاوی مثلا مال و دولت اور طاقت منصب وغیرہ۔

جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین آدمی ہیں کہ ان سے اللہ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں ستھرا کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا، ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بوڑھا زناکار، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔ (صحیح مسلم، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمن باالعطیہ،ج1،ص72، رقم359)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ عنایت نہ فرمائے گا، جو اپنی چادر کو تکبر سے ٹخنوں کے نیچے گھسٹتا ہوا چلے۔ (صحیح بخاری، باب من جرثوبہ من الخیلاء، جلد 7، صفحہ 141، رقم 5788)

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس کسی کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تخریم الکبرو بیانہ، ص 60، حدیث 147)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا، بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ (مرقاۃ المفاتیح)

تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ما جاء فی شدۃ۔۔الخ، ج4،ص 22، حدیث 2500)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے زیادہ نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہوگا، جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہوگا اور قیامت کے لئے میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور متفیھق ہیں، صحابہ کرام نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بیہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا، مگر یہ کون ہے؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایااس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ،ج3،ص410،ح2025)

اللہ پاک تکبر سے محفوظ فرمائے۔آمین

نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا


جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر بھی ہے، جس کا علم سیکھنا فرض ہے، خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جانے کا نام تکبر ہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا:تکبرحق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث91،تکبر، ص16)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر کہتے ہیں، تکبر کی 3 قسمیں ہیں:

1۔اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر،

2۔اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر، یہ بھی کفر ہے،

3۔بندوں کے مقابلے میں تکبر، یہ گناہ ہے۔

تکبر ایک مذموم صفت ہے اور اللہ کریم کو سخت ناپسند ہے۔

1۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (جامع الترمذی، كتاب الادب، حديث 2764،تکبر ص27)

2۔حضور علیہ السلام فرمایا:الله پاک متکبرین( یعنی مغروروں)اور اترا کر چلنے والوں کو کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنز العمال، كتاب الاخلاق، ص 210، حدیث 7727 ، تکبر، ص 22)

3۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ح2500،تکبر، ص 24)

4۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِرحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس ،حدیث5788، تكبر،ص 24 )

5۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ( صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث147، تکبر، ص25)

اے عاشقانِ رسول! محبت تو یہ ہے کہ محبوب جس کا حکم دے، وہ کرے اور جس سے روکے، اس سے رک جائے اور جوبات محبوب کو پسند نہ ہو، اس سے بہت دور رہے۔

ہاں جس آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ہم محبت کرتے ہیں، وہ تکبر کی مذمتیں بیان فرمار ہے ہیں، کتنے مہربان ہیں ہمارے محبوب آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم عذابات بیان فرما فرما کر اپنے امتیوں کو بچار ہے ہیں، کتنا اچھا ہے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کاوه امتی، جو کہے لبیک وسعدیک يارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔

ارے گنا ہوں سے بچنے کی نیت و کوشش تو کرو، پھر دیکھو کہ وہ راہیں تمھارے لئے کھول دی جائیں گی اور جنت کا راستہ تمھارے لئے آسان ہو جائے گا، چاہتے ہو نا کہ جنت میں محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس ملے؟

توبس اُن کے احکام پر عمل کر لو، با مراد ہو جاؤ گے۔۔

تکبر یعنی خود کو دوسروں سے افضل سمجھنا ایسی باطنی بیماری ہے، جو انسان کو سیدھا جہنم کی طرف لے جاتی ہے، بزرگی اور برتری صرف ربّ  پاک کی ذاتِ گرامی کیلئے ہے، اس کے آگے سب نیست، تمام عزتیں اس کے آگے پست، جسے چاہے عزت دے، اب جسے عزت دی، وہ بجائے اس کے حضور عاجزی کرنے اور شکر گزار بننے کے خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگ جائے تو یہ کہاں کا انصاف ؟؟

کیا متکبروں کو یہ معلوم نہیں کہ جب والی کونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فتحِ مکہ کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے تو سیاہ عمامہ سجائے، سر انور اونٹنی کے کجاوے تک جھکا ہوا تھا، تو ان متکبرین کی کیا اوقات اور انہیں کس بات کا غرور ؟؟

فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔کبریائی اللہ کی چادر ہے:

اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرما یا:اللہ پاک فرماتا ہے، بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے، جو کوئی ان میں کسی ایک کے بارے میں جھگڑے گا، میں اسے تباہ کر دوں گا۔ ( سنن ابى داؤد، كتاب اللباس،4/81، الحدیث 4090)

رائی کے دانے برابر تکبر:

رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا، اللہ پاک اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔ (شعب الايمان، باب فی حسن الخلق، 6/280،ح 8154)

3۔بد ترین شخص:

حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، 9/130، الحديث 23517)

جہنم کا حقدار:

آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہر سخت مزاج، اترا کر چلنے والا، متکبر، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے، جبکہ اہلِ جنت کمزور اور کم مال والے ہیں۔ (المسند للام احمد بن حنبل، 2/972 ، حدیث 7030)

وادی ہب ہب کا حقدار:

مصطفی جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب ہب کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ ہر جا برو ظالم کو اس میں ڈالے گا۔ (المسند لا بی یعلى ، حديث ابوموسی العشری 6/207، حدیث7213)

الامان والحفیظ! اللہ پاک تکبر اور ہربری خصلت و گناہ سے بچائے، معلوم ہوا کہ تکبر میں تباہی ہی تباہی ہے، نجات اللہ ربّ العزت کی رضا، عاجزی اور انکساری میں ہے، اسی میں عافیت اور عاجز لوگ ہی جنت کے وارث ہیں، ہمیں چاہئے کہ خود پر غور اور خوب فکر کر لیں، کہ کہیں اس بیماری میں ہم بھی تو شامل نہیں؟


تکبر ایک بہت قبیح و مذموم صفت ہے، قرآن و حدیث میں اس کی بہت مذمت وارد ہوئی، اللہ  پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:انه لا يحب المتكبرين۔ ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب تکبر کے صفحہ 16 پر ہے:خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جانے کا نام تکبر ہے، چنانچہ رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61)

تکبر کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب ہیں:

٭مال و دولت،٭عہدہ و منصب، ٭علم، ٭حسب نسب، ٭حسن و جمال، ٭طاقت و قوت، ٭خود پسندی، ٭بغض وکینہ (گناہوں کے عذابات، صفحہ82)

آئیے اب تکبر کی مذمت پر احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔

1۔حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص221، ح2500)

2۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص175)

3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے، کبریائی میری چادر ہےاور عظمت میرا راز ہے، جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے حوالے سے میرا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا، میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا۔ (سنن ابی داؤد،4084)

4۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں، جو شخص اللہ پاک کے لئے تواضع کا ایک درجہ اختیار کرے گا، اللہ پاک اس کے عوض میں اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو شخص اللہ پاک کے مقابلے میں ایک درجہ تکبر اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ پست کر دے گا، یہاں تک کہ اسے اسفل سافلین میں ڈال دے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد،77)

5۔جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ (صحیح مسلم، حدیث5455)

ہمیں چاہئے کہ خود کو تکبر سے بچانے کی کوشش کریں کہ اللہ پاک تکبر کو ناپسند فرماتا ہے اور عاجزی کو پسند فرماتا ہے، اگر ہمیں اللہ کا پسندیدہ بندہ بننا ہے، تو تکبر کو چھوڑ کر عاجزی اپنانی چاہئے، تکبر سے بچنے کے لئے اپنے عیبوں پر نظر رکھئے اور سلام و مصافحہ میں پہل کیجئے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہسلام میں پہل کرنے والا تکبر سے دور ہو جاتا ہے۔ (شعب الایمان، صفحہ433/8786)

علم کی پہچان عاجزی اور جہالت کی پہچان تکبر ہے۔

اللہ پاک ہمیں تکبر سے محفوظ رکھے اور عاجزی و انکساری کا پیکر بنائے۔آمین یا رب العالمین


ہم سب کو اپنے حصّہ کی زندگی گزار کر سفرِ آخرت پر روانہ ہونا ہے، اس سفر کے نازک مراحل سے گزر کر انسان اپنے اعمال کے مطابق ربّ تعالیٰ کی مشیت سے جنت و دوزخ کا حقدار قرار پاتا ہے اور افسوس! جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے، وہ ان کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہے، گناہ ظاہر اور باطنہ بھی ہوتے ہیں، انسان کی ظاہری گناہ سے بچنے پر توجہ ہوتی ہے، ایسے میں باطنی گناہوں کا علاج نہیں ہوپاتا اور اکثر باطنی گناہوں کے باعث انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے، اس طرح یہ تکبر  بھی ایک باطنی اور مہلک مرض ہے۔

تکبر:

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تکبر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الکبر بطر الحق وغظ الناستکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہےاور جس شخص کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر کہتے ہیں۔

تکبر کی مذمت پر ایک آیت مبارکہ:

انه لا يحب المتكبرين۔ (پ14، النحل:23) ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر کی تین اقسام ہیں:

1۔ربّ پاک کے مقابلے میں تکبر،

2۔اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر،

3۔بندوں کے مقابلے میں تکبر، ان میں پہلی دو صورتیں کفر اور تیسری اگرچہ ان سے کم، مگر حرام ہے۔

تکبر کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفی:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک تین قسم کے آدمیوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور ان کو دردناک عذاب ہوگا،1۔بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرنے والا، 2۔جھوٹ بولنے والا بادشاہ، 3۔اور تکبر کرنے والا۔

حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، ج4، ص221، ح2500)

فرمانِ رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا،تو وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین لوگوں سے ربّ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان کے لئے دردناک عذاب ہے، پھر رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، حضرت ابو ذر نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم وہ کون نا مراد ہیں؟ فرمایاتکبر کے سبب اپنا تہبند لٹکانے والا، احسان جتانے والا، جھوٹی قسموں کے ذریعے اپنا مال بیچنے والا۔ (رواہ مسلم:104)

خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اپنے فوت شدہ آباؤاجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آنا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کُریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہو گا یا بد بخت و بد کار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی،جلد 5، صفحہ497، حدیث3981)

تکبر کی مذمت سے حاصل ہونے والا درس یہ ہے کہ ہمیں کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے، تکبر سے بچنے کے لئے اس کے اسباب پر غور کریں، تکبر سے حفاظت کا علاج کرنا چاہئے، کیونکہ تکبر صرف صرف دولت اور حسن کی ہی وجہ سے نہیں، بلکہ بعض اوقات کثرتِ علم، عبادت اور ریاضت، حسب نسب، کامیابی اور کامرانی وغیرہ سے بھی ہوتا ہے تو غور کیجئے کہ کل بروز خدا نخواستہ اس تکبر کی وجہ سے شدید آگ کا عذاب نہ دے دیا جائے، ہاں  ہم کیسے برداشت کریں گے؟ تکبر جیسے موذی مرض سے ربّ کی پناہ مانگیں اور ربّ سے عرض کیجئے کہ اس دنیا سے ایمان سلامت لے کر جائیں اور مکتبۃالمدینہ کا رسالہ تکبر کا مطالعہ فرمائیں۔

تکبر کے متعلق خدا  پاک پارہ نمبر 14، سورہ نحل کی آیت نمبر 23 میں مغروروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

انه لا يحب المتكبرين۔ (پ14، النحل:23)ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا، جیسا کہ ابلیس(شیطان) جس کا پہلا نام عزازیل تھا، بڑا ہی نیک، عبادت گزار، علم و حکمت کی معلومات رکھنے والا اور اللہ پاک کا قرب یافتہ تھا، اس کے علم و معلومات کی وجہ سے اسے معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا استاد بنایا گیا اور اس لقب سے سرفراز کیا گیا، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر اور خود کو افضل جانتے ہوئے تکبر کے نشے میں عقل کھو بیٹھا اور اللہ پاک کے حکم کو انکار کرتے ہوئے کہنے لگا:

انا خیر منہ۔خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔ ترجمہ: میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔

اس کے اس مغرور بات پر ربّ پاک نے ارشاد فرمایا:فاخرج منہا وانک رحیم۔وان علیک لعنتی الی یوم الدین۔ (پارہ 23،ص77،78) ترجمہ کنزالایمان:تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بے شک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔

عزازیل کی مغروریت کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا گیا، جہاں وہ معلم الملکوت کے لقب سے جانا جاتا تھا، اب وہ ابلیس(یعنی شیطان) کے نام سے معلوم ہونے لگا۔

تکبر کی تعریف:

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ فرمانِ رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: اَلْکِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، ص61،حدیث 91)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 697)

تکبر کے نقصانات:

تکبر کرنے والے کو مغرور کہتے ہیں اور مغرور ہمیشہ خسارہ (یعنی نقصان) میں رہتا ہے، چنانچہ تکبر کے نقصان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہو گا، چنانچہ دو جہاں کے تاجدار، رحمت اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان عالیشان ہے:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص221، ح2500)

تکبر کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی مندرجہ ذیل ہیں:

1۔حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:کہ جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، ص60، حدیث47)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، بلکہ تکبر اور اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یااللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 8، صفحہ 828،829)

2۔نبی اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نے ارشاد فرمایا:کبریائی میری چادر ہے، لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم، جلد 1، صفحہ 235، ح21)

ربّ پاک کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 659)

3۔سید المرسلین، خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کیلئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا ئے۔ (جامع ترمذی، کتاب الادب، جلد 4، صفحہ 347، ح2864)

4۔شہنشاہِ خوش خصال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عبرت نشان ہے:اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں)اور اِترا کر چلنے والوں کو نا پسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 21، حدیث 7727)

5۔اللہ کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے فوت شدہ آباؤاجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آنا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کُریدیتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہو گا یا بد بخت و بد کار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی،جلد 5، صفحہ97، حدیث3981)

درس:

پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے مسلمانوں! ذرا غور و فکر سے اس زندگی کو دیکھ کر بتائیے، اس تکبر سے ہمیں کیا حاصل ہوگا، صرف لذتِ نفس اور دنیا کے سامنے جھوٹی شان و شوکت اور اس کے نقصان میں آخرت کی بربادی، نیکیوں سے خالی اور گناہوں سے بھرا ہوا اعمال نامہ اور سزا میں دوزخ کی تڑپتی، کڑکتی اور بھڑکتی آگ ہے، جس کا ایندھن انسان ہے۔

ذرا سوچیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، یہ دنیاوی زندگی کتنی ہے اور جس اور جن خوبیوں (دولت، نعمت، خوشحالحانی، علم وغیرہ) کے گھمنڈ میں، میں تکبر کرتا ہوں اور دوسروں کو حقیر جانتا ہوں تو یہ سب خوبیاں تو اللہ پاک کی عطا کردہ ہیں اور اس تکبر کے چکر میں، میں اپنا دین و ایمان تو داؤ میں نہیں لگا رہا، ذرا سوچیں دنیا کی عارضی عیش و عشرت اور تکبر میں زندگی بسر کرنے والے ذرا سوچیں، آخرت میں جو دائمی زندگی ہے، اس میں ہمارا کیا حال ہو گا۔

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی اور اس کے ساتھ ساتھ تمام باطنی و اُخروی اور نقصان دہ بیماریوں سے بچائے۔آمین


اِسلام خوبصورت دین ہے، جہاں کسی بھی عربی کو عجمی پر، امیر کو غریب پر، گورے کو کالے پر، کوئی فضیلت حاصل نہیں، بلکہ اسلام میں تمام لوگ برابر ہیں، مگر بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں ایک بیماری بہت عام ہو گئی ہے، جو دین میں خرابی کا سبب بن رہی ہے اور وہ بیماری تکبر ہے۔

تکبرکی تعریف:

دوسروں کے مقابلے میں خود کو بڑے مرتبے والا سمجھنا اور دوسروں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا ہے۔ (احياء العلوم،ج3، ص 1012)

تکبر ایک ایسی بیماری ہے، جو اچھائیوں کو سَلب اور برائیوں کو پیدا کرتی ہے، تکبر نصیحت سننے اور ادب اور اخلاق کی تعلیم قبول کرنے سے روک دیتا ہے، تکبر ایسا مرض ہے، جو بغض و عناد پیدا کرتا ہے اور دل جوئی سے روکتا ہے، ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی تکبر کی بہت سی مذمت بیان فرمائی ہیں۔

1۔سرورِکائنات، شاہِ موجودات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مفہوم،جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (معجم کبیر، جلد 7، صفحہ 153، حدیث6668)

2۔ایک اور جگہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبّار پاک کو بھول جائے، بدتر ہے وہ شخص، جو سرکشی کرے اور سب سے بلند اور بڑائی والی ذات کو بھول جائے، بدتر ہے وہ شخص، جو غافل ہو کھیل کود میں پڑھا رہے اور قبر اور اس میں بوسیدہ ہونے کو بھول جائے۔ (سنن ترمذی، جلد 4، صفحہ 203، ح2456)

3۔محبوبِ خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:بے شک جہنم میں ایک مکان ہے، جس میں متکبرین کو ڈال کر اوپر سے بند کر دیا جائے گا۔ (مساوی الاخلاق للخراطی، صفحہ 234،ح577)

4۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے، تو جو کوئی ان دونوں کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا، تو میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ج4، ص5174)

5۔سرورِکونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا اور اللہ پاک کے ہاں ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔ (موسوعۃ الامام ابن ابی دنیا، جلد 3، حدیث 224) ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تکبر عمل کی بربادی اور دین کی خرابی کا سبب ہے، اس سے بچنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ تکبر انسان کے دل میں جس قدر داخل ہوتا ہے، اسی قدر اس کی عقل کم ہو جاتی ہے۔

تکبر سے بچنے کا طریقہ:

علماء نے تکبر کے علاج میں سے ایک علاج یہ بیان فرمایا، اگر آپ چاہتے ہیں عاجزی اختیار ہو جائے، تکبر دور ہو جائے، فرمایاجس کو جانے یا نہ جانے، سلام میں پہل کرے، سب کو سلام کریں، ان شاء اللہ پاک دل سے تکبر دور ہو جائے گا۔

اللہ کریم ہمیں تکبر جیسی مہلک بیماری سے محفوظ فرما کر عاجزی کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین


تکبر ایک مذموم صفت ہے، تکبر حق کی مخالفت اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہے، کسی کے پاس اگر معلومات زیادہ آجاتی ہیں تو یہ بھی اسے تکبر کی تاریک وادی میں دھکیل سکتی ہیں، بعض اوقات کثرتِ علم کی وجہ سے بھی انسان تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے، قرآن پاک میں بھی تکبر کی مذمت پر آیات آئی ہیں، قرآن پاک میں اللہ  پاک ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالعرفان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ ( پ 14، النحل، 23)

حدیث پاک میں ہے:تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر و بیانہ، صفحہ 60)

ایک حدیث پاک میں ہے، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں، چیونٹیوں کی طرح جمع کئے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی، پھر انہیں جہنم کے بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور وہ دوزخیوں کی پیپ طینۃ الخبال سے پلائے جائیں گے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 471، باب4/221، حدیث2500)

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں اہلِ جہنم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر بد زبان، بد دماغ متکبر شخص (جہنمی) ہے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)

نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظرِ رحمت نہیں کرے گا، جو تکبر کے طور پر اپنے تہبند کو گھسیٹ کر چلے گا۔ (بخاری5791)

ایک شخص نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس بیٹھ کر بائیں ہاتھ سے کھانے لگا، تو نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے عرض کی:میں نہیں کر سکتا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم کر بھی نہیں سکو گے، اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کیا تھا، راوی بیان کرتے ہیں، وہ شخص اپنا دایاں ہاتھ پھر منہ تک نہیں لے جا سکا۔ (طبرانی6235)

آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب ہب کہتے ہیں، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری6/207، حدیث7213)

حضرت سیّدنا حاتم اصم نے اپنے ارشاد میں تین حالتوں پر مرنے سے بچنے کا فرمایا، ان میں سے ایک تکبر بھی ہے، تکبر کرنے والے کو اللہ پاک اس وقت تک موت نہیں دیتا، جب تک وہ اپنے گھر والوں اور نوکروں میں سب سے کم تر شخص کے ہاتھوں ذلیل نہ ہو جائے۔ (منہاج العابدین، صفحہ168)

تکبر خطرناک باطنی مرض ہے، اس لئے جو اپنے اندر تکبر پائے، اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے، احادیث مبارکہ میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے دو درج ذیل ہیں، ارشاد فرمایا:جس نے اپنا سامان خود اٹھایا، وہ تکبر سے بری ہو گیا۔

اور ایک یہ بیان کیا گیا ہے کہ عاجزی اختیار کرنا اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھنا۔

مزید معلومات کے لئے باطنی بیماریوں کی معلومات کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

اللہ پاک اس قبیح صفت سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین