قرآن کی روشنی میں تکبر کی مذمت:

اور لوگوں سے( غرور کے ساتھ) اپنا رُخ نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اللہ ہر متکبر اترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔(سورۃ لقمان، آیت 18)

تکبر کے معنی:

اپنی ذات و صفات کو اچھا اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔

اچھا تکبر:

مسلمان کا اپنے آپ کو کفار سے اچھا جاننا اچھا تکبر ہے۔ (مراۃالمناجیح،ج6، باب الکبر)

فرامینِ مصطفی:

1۔حدیث پاک:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جس کسی کے دل میں رائی برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور جس کسی کے دل میں رائی برا بر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ( سنن ابن ماجہ، باب طہارت و مسائل، حدیث 59)

2۔ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو خبر دی امام مالک نے، انہیں ابو زناد نے، انہیں اعرج نے، انہیں ابوہریرہ نے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اپنا تہبند غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہے، اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔ (بخاری، باب لباس کا بیان، ح5788)

3۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تخریم الکبر)

4۔روایت ہے عمر بن شعب سے، وہ اپنے والد، وہ اپنے دادا سے راوی، وہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح جمع کئے جائیں گے، مردوں کی صورت میں جنہیں ہر جگہ سے ذلت چھا جائے گی، ہانکے جائیں گے، دوزخ کے ایک قید خانہ کی طرف جسے بولس کہا جاتا ہے، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی، جہنمیوں کی پیپ طینہ سے پلائے جائیں گے۔ (ترمذی، شعب الایمان، باب الکبر)

5۔حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک تین شخص ایسے ہیں، جن سے کلام نہ فرمائے گا، نہ ہی پاک کرے گا، ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بڈھا زانی، جھوٹا بادشاہ ، غروراور تکبر والا فقر۔ (مرآۃ المناجیح، حدیث، صحیح مسلم)


تمام تعریفیں اللہ پاک کیلئے ہیں، جو عزت و عظمت و بڑائی والا ہے، ایسا جبار ہے کہ ہر سرکش اس کے سامنے ذلیل ورسوا ہے، ایسا غالب ہے کہ کوئی ا سے اس کا ارادہ پورا کرنے سے روک نہیں سکتا، ہر متکبر اس کی بارگاہِ عزت میں مسکین اور عاجز ہے، انسان کی پیدائش بدبودار نطفے سے ہوتی ہے اور انجامِ کار سڑا ہوا مردہ ہے، اس کے باوجود انسان تکبر جیسی باطنی بیماری میں پڑا ہوا ہے۔

تکبر کسے کہتے ہیں؟

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ فرمانِ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: اَلْکِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِیعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔

تکبر انسان کیلئے صرف اور صرف نقصان اور ہلاکت ہی کا باعث ہے، ارشادِ باری پاک ہے :اللہ یوں ہی مہر کر دیتا ہے، متکبر سرکش کے سارے دل پر۔ (پ 24، المؤمن: 35)

بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ ( پ 14، النحل، 23)

تکبر کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی:

(1)بڑائی اللہ کی چادر ہے:

حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے،اللہ پاک ارشادفرماتا ہے:بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے، جو کوئی ان میں کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اسے تباہ کردوں گا۔

مفتی احمد یارخان علیہ الرحمۃ اس کے تحت فرماتے ہیں:چادر اور تہبند فرمانا ہم کو سمجھانے کیلئے ہے کہ جیسے ایک چادر، ایک تہبند دو آدمی نہیں پہن سکتے، یونہی عظمت وکبریائی سوائے میرے دوسرے کیلئے نہیں ہو سکتی۔

(02 ) جس کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہو ۔۔۔؟

فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث 91)

(03 )جنت میں داخل نہیں ہوں گے:

فرمايا:لا يدخل الجنة بخيل ولاجبار ولا سيئ الملكةیعنی بخیل سرکش اور بد اخلاق جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ (مساوی الاخلاق للخرائطی، ح 361، احیاءالعلوم، جلد 3 ، ص 992)

(04)کیا متکبر کے پیچھے موت نہیں ۔۔۔ ؟

بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:یا رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! فلاں شخص کتنا بڑا متکبر ہے، فرمایا:کیا اس کے پیچھے موت نہیں ہے۔(شعب الايمان، حديث 8209)

(03 )متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا:

فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹهایا جائیگا اور اللہ پاک کے ہاں ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کےسبب لوگ انہیں قدموں تلے روندتے ہوں گے۔ (احياء العلوم، ج3، ص 993، موسوعة الامام، حدیث 224)

يقیناً تکبر ایک بہت ہی بری خصلت ہے، جس میں اللہ پاک اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نافرمانی ہے، ہمیں خود کو تکبر و خود پسندی جیسی عادات سے نکال کے عاجزی کرنے والے آقائے کریم محمد مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت یعنی عاجزی کو اپنانا اور اللہ پاک کی خفيہ تدبیر سے ہردم ڈرنا چاہئے۔

اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاه خاتم النبيين صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


درود شریف کی فضیلت:

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے مجھ پر دن میں ایک ہزار مرتبہ درود پاک پڑھا، وہ مرے گا نہیں، جب تک جنت میں اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے۔ ( الترغيب والترهيب، ج ص 338، حدیث 22، فیضان سنت، فيضان ليلة القدر،ص 292)

الله پاک ارشاد فرماتا ہے:

واذ قلنا للملکۃ اسجدو لاٰدم فسجدوا الا ابليس ابٰى واستكبر وكان من الکفرین۔1، البقره: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور (یاد کرو ) جب ہم نےفرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا۔

پس جس نے بھی ابلیس کی طرح حق کے مقابل تکبر کیا، اسے اس کے ایمان نے نفع نہ دیا، تکبرسچی بات کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔

جب سب فرشتوں کو سجدہ کا حکم ہوا تو ابلیس نے انکار کر دیا اور بطورِ تکبر خود کو حضرت آدم علیہ السلام سے افضل جانا اور اس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے، اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الہی سے انکار اور تعظیمِ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا۔

تکبر حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔

معلوم ہوا کہ جب تکبر سےاتنا مقربِ الہی شیطان مردود قرار پا گیا، حالانکہ وہ فرشتوں کا استاد تها، تو یہ تکبرکس قدر نقصان کا باعث ہے کہ انسان کو جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے،احادیث مبارکہ میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی۔

1۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں، اللہ پاک فرماتا ہے :عظمت میراتہبند ہے اور کبر یائی میری چادر ہے تو جو ان دو بارے میں مجھ وسے جھگڑے گا، میں اسے آگ میں ڈال دوں گا۔

امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے روایت کیا ہے، حدیث میں مذكورہ لفظ منازعہ بمعنی چھیننا ہے۔

2۔رسول کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں خبرنہ دوں، ہر ناحق جھگڑا کرنے والا، اکڑ کر چلنے والا اور تکبر کرنے والا جہنمی ہے۔ (مسلم، کتاب الجنة، باب النارید خلھا الجبارون، ص1527، حدیث 2853)

3۔ایک مرد اپنی دو چادروں میں فخر و غرور سے اکڑتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا رہے گا۔ (مسلم، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم التبخثر، ص 1156، حدیث 2088)

4۔ظلم کرنے والوں اور تکبر کرنے والوں کو بروزِ قیامت چیونٹیوں کی مثل اٹھایا جائے گا، لوگ انہیں روندتے ہوں گے۔ (موسوعة ابن ابى الدنيا، كتاب التواضع والخمول 3/578، حدیث 224)

یعنی تکبر کرنے والے اپنے چہرے اور قدو قامت کے اعتبار سے چھوٹے اور حقیر ہونے میں چیونٹیوں کی طرح ہوں گے۔ (مرقاة المفاتیح 833/8،تحت الحديث 5112)

ایک بزرگ فرماتے ہیں: پہلا گناہ جس کے سبب اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی، تکبر ہے۔

5۔سب سے پہلے تین لوگ جہنم میں داخل ہوں گے:

٭(ظلم وجور کے ساتھ) زبردستی حاکم بننے والا۔

٭وہ مال دار جو زکوۃ ادا نہ کرتا ہو

٭متکبر فقیر۔ (مسند احمد، مسند ابی هریرہ 3/522، حدیث 10209)

بد ترین متکبر:

بد ترین متکبر وہ ہے، جو ا پنے علم کے سبب لوگوں پر تکبر کرے اور علمی فضیلت کے سبب اپنے آپ کو دل میں بڑا جانے، بلاشبہ ایسے شخص کو اس کا علم نفع نہیں دیتا اور جو شخص آخرت کے لئے علم حاصل کرتا ہے تو اس کا علم اس کی نفس کُشی کرتا ہے، اس کے دل کو خاشع( انکساری کرنے والا) اور نفس کو عاجزی کرنے والا بنا دیتا ہے، ایسا ہر شخص ہر وقت اپنے نفس کی تاک میں رہتا ہے، نفس سے دھوکا نہیں کھاتا، بلکہ ہر آن نفس کا محاسبہ کرتا اور اس کو عیوب سے پاک کرنے میں لگا رہتا ہے اور اگر بندہ نفس کی چالوں سے غافل ہو جائے تو یہ اسے صراط مستقیم سے ہٹا دے گا اور ہلاکت میں مبتلا کر دے گا۔

جو شخص اظہارِ فخر اور لوگوں پر بڑائی جتانے کے لئے علم سیکھے، نیز علمی فضیلت کی وجہ سے دیگر مسلمانوں کو بنظرِ حقارت دیکھے اور ان سے احمقانہ سلوک کرے اور انہیں ادنٰی تصور کرے تو ایسا شخص عظیم ترین تکبر کا شکار ہے اور جس شخص کے دل میں ذرہّ برابر بھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (76 کبیرہ گناہ ، ص 71)

جب تکبر کی اس قدر سخت وعید ہے کہ جس کے دل میں ذرہّ برابرتکبر ہو، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا تو انسان کو ہر اُس عمل سے بچنا چاہئے کہ جس سے جنت میں داخلہ مشکل بنے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک سے دعائیں بھی کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں ہر طرح کی روحانی بیماریوں سے نجات عطا فرما کر بیمارِ مدینہ بنائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

تکبر کی تعریف:

تکبر ایک باطنی مرض ہے، جس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے، تکبریہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے،جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 276، 275)

اللہ کریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: انه لا يحب المتكبرين۔ (پ1، النحل:23) ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر تین طرح کا ہوتا ہے۔

(1)اللہ کے مقابلے میں تکبر:

تکبر کی یہ قسم کفر ہے، جیسے فرعون کا کفر کہ اس نے کہا تھا:

انا ربكم الاعلى۔فأخذه الله نکال الاٰخرة والاولٰى۔(پ 30، النٰزعات:24۔25) ترجمہ کنزالایمان:میں تمہارا سب سے اونچا ربّ ہوں تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔

(2)الله کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر:

تکبرکی یہ قسم بھی کفر ہے کہ تکبر جہالت اور بغض و عداوت کی بنا پر رسول کی پیروی نہ کرنا۔

(3)بندوں کے مقابلے میں تکبر:

یعنی اللہ و رسول کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر کرنا کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کرا س پر بڑانی چاہنا، یہ صورت اگرچہ پہلی دوصورتوں سے کم تر ہے، مگر یہ بھی حرام ہے اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔

تکبر کے نقصانات:

تکبر انسان کو کئی اچھائیوں سے محروم کر دیتا ہے، متکبر شخص عاجزی پر قادر نہیں ہوتا، جو تقوی و پرہیزگاری کی جڑہے، متکبر انسان کینہ میں مبتلا ہوتا، اپنی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بولتا، غصہ کرتا، حسد کرتا، دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم رہتا ہے، تکبر اللہ و رسول کی ناراضگی، میدانِ محشر کی رسوائی، اللہ کریم کی رحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہا ئشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سبب ہے۔

تکبر کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ:

(1)متکبر کا ذلت آمیز انجام:

چنانچہ حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 276، 277)

(2)جنتیوں اور جہنمیوں کی خبر بزبان مصطفی:

چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں تم کو جنت والوں کی خبر نہ دوں، وہ ضعیف ہیں، جن کو لوگ ضعیف وحقیر جانتے ہیں(مگریہ ہے کہ)اگر اللہ پاک پر قسم کھا بیٹھتے ہیں تو اللہ اس کو سچا کر دے اور کیا جہنم والوں کی خبر نہ دوں، وہ سخت گو، سخت خو ، تکبرکرنے والے ہیں۔ (صحيح البخاری، الحديث 4918، ج3، ص363، بہار شریعت، ج 3 ، حصہ16، ص546، حدیث نمبر 11)

(3)رائی کے برابر ایمان اور رائی کے برابر تکبر:

چنانچہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: جس کسی کے دل میں رائی برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور جس کسی کے دل میں رائی برا بر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، ح 148، ص 61، بہار شریعت، ج 3، حصہ 16، ص546، حدیث 12)

(4)اللہ پاک جن سے قیامت کے دن کلام نہ کرے گا:

چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: تین شخص ایسے ہیں، جن سے قیامت کے دن نہ تو اللہ پاک کلام کرے گا، نہ ان لوگوں کو پاک کرے گا، نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے (١)بوڑھا زناکار (٢) بادشاه کذاب اور (٣)محتاج متکبر۔ (مسلم، المرجع السابق، الحديث 172، ص 68، بہار شریعت، ج 3، حصہ16، ص546 ، ح13)

(5)جبارین میں لکھ دیا جاتاہے:

چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا: آدمی اپنے آپ کو (اپنے مرتبے سے اونچے مرتبہ کی طرف) لے جا تارہتا ہے، یہاں تک کہ جبارین میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر جو انہیں پہنچے گا، اسے بھی پہنچے گا۔ (سنن ترمذی، کتاب البر والصلة، الحديث 2007، ج 3، ص 403، بہار شریعت، ج 3، حصہ16، ص547 ، ح15)

تکبر سے بچنے کا درس:

دنیا میں سب سے پہلا متکبر شیطان ہوا ہے، جو معلم الملكوت کے منصب تک پہنچ چکا تها، مگراسے تکبر کے نتیجے میں قیامت تک ذلت و رسوائی ملی، متکبرانسان شیطان کے طریقے پر ہوتا ہے، تکبر سے بچنے کے لئے اپنی پیدائش کو یاد کیجئے، جوکہ بدبودارنطفے سے ہوئی ہے اور انجام سڑا ہوا مردہ ہے، متکبرین کے عذابات اور وعیدوں پر نظر رکھی جائے۔

تکبرایک باطنی بیماری ہے، لہذا اس کا علاج کیجئے، ایک علاج حدیث مبارکه کی روسے پیشِ خدمت ہے، چنانچہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:پہلے سلام کرنے والا تکبر سے بری ہے۔ (شعب الايمان، باب فی مقاربة، حدیث 8786، ج 6، ص 433)

ایک ورد بهی حاضر خدمت ہے: روزانہ 10 بار تعوذ (اعوذ بالله من الشيطان الرجيم)پڑھنے والے پر الله کریم شیطان سے حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے۔

اللہ کریم ہمیں ہر قسم کے تکبر سے بچائے۔آمین بجاه خاتم النبین

تکبر اور اپنے آپ کو بڑا ماننا ایک نہایت مذموم عادت ہے اور درحقیقت اللہ پاک کے ساتھ دشمنی کرنا ہے، کبریائی اور عظمت اسی کو زیبا ہے، یہی وجہ ہے کہ جبار اور متکبر کی قرآن پاک میں بہت مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے:

انه لا يحب المتكبرين۔ (پ14، النحل:23)ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

کافر متکبرین کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

فادخلوا ابواب جہنم خلدین فیہا فلبئس مقوی المتکبرین۔(پ14، النحل:29) ترجمہ کنزالایمان: اب جہنّم کے دروازوں میں جاؤ کہ ہمیشہ اس میں رہو تو کیا ہی برا ٹھکانہ ہے مغروروں کا۔

تکبر نہایت بری عادت ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود کو دوسرے سے بہتر جانے اور اس وجہ سے خوش ہو کر پھولے نہ سمائے، تو جو شے اسے پھلاتی ہے، اسے تکبر کہتے ہیں، تکبر ہلاکت میں ڈالنے والی باطنی بیماری ہے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا فرمان:

حضرت سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تکبر ایسا گناہ ہے کہ کوئی عبادت اس متکبر کو نفع نہیں دے گی۔ (کیمیائے سعادت اصل نسیم، صفحہ 583)

تکبر کی تعریف:

تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب تکبر صفحہ16 پر ہے:خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے چنانچہ رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث147)

امام اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 697)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔

تکبر کا نقصان:

قرآن پاک میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

ان لذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم دٰخرین۔(سورہ مؤمن:60) ترجمہ کنزالعرفان: بے شک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں جائیں گے۔

تکبرایک خطرناک باطنی مرض ہے، اس کے نقصانات بے شمار ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات انسان تکبر کے سبب ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اگر اس مرض کو اپنے اندر پائے تو اس کا علاج کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ صرف پچھتاوا رہ جائے، آئیے تکبر کے نقصان سے متعلق ایک حکایت پڑھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔

بنی اسرائیل کا ایک شخص بہت گناہگار تھا، ایک مرتبہ بہت بڑے عبادت گزار کے پاس سے گزرا، جس کے سر پر بادل سایہ کرتے تھے، گنہگار شخص نے اپنے دل میں سوچا، میں گنہگار ہوں، یہ عبادت گزار، اگر میں ان کے پاس بیٹھوں گا تو امید ہے کہ اللہ پاک مجھ پر بھی رحم فرما دے، یہ سوچ کر وہ اس عابد کے پاس بیٹھ گیا، عابد کو اس کا بیٹھنا برا لگا، اس نے دل میں کہا، کہاں مجھ جیسا عبادت گزار، کہاں یہ بڑے درجے کا گناہ گار!

یہ میرے پاس کیسے بیٹھا ہے، چنانچہ اس عابد نے گناہ گار شخص سے کہا ،یہاں سے اٹھ جاؤ، اس پر اللہ پاک نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ ان دونوں سے فرمائیے کہ وہ اپنے عمل نئے سرے سے شروع کریں، میں نے اس گناہ گار کو (اس کے حسن ظن کے سبب) بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل (اس کے تکبر کے باعث) ضائع کر دیئے۔ (احياء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب بیان مابہ التکبر،ج3، ص 429، باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 279)

تکبر کی تعریف و نقصان و مذمت سے متعلق پانچ احادیث مبارکہ:

1۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جو شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث91، احیاء العلوم، ج3، ص1073)

2۔حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص221، ح2500،باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 277)

3۔ حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امیر بصرہ بلال بن ابوبُردہ کے پاس آیا اور اس سے کہا، اے بلال! مجھے تمہارے والد محترم نے تمہارے دادا کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: کہ جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب ہب کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ ہر جابر و ظالم انسان کو اس میں ڈالے گا، لہٰذا اے بلال!تم اس کے مکین بننے سے بچنا۔ (مسند ابی یعلی،الحدیث ابی موسی الشعری6/207،ح7213، احیاء العلوم، ج3، ص1073)

4۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ حق پاک جل شانہ ایسے شخص پر جو تکبر سے اپنے لباس کو زمین پر کھینچتا چلا جائے، نظر نہیں فرماتا ، حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے منقول ہے کہ ایک شخص فاخرہ لباس پہن کر تکبر سے چلتا اور اپنے آپ کو دیکھتا تھا، حق تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک اسی طرح دھنستا رہے گا، (کیمیائےسعادت، صفحہ 583)

5۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب ہوں گے، جن کے اخلاق اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے، جو زیادہ بولنے والے، منہ پھٹ اور متفیھقون ہوں گے، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم زیادہ بولنے والے اور منہ پھٹ کو تو جانتے ہیں، لیکن یہ متفیھقون کون ہیں؟ ارشاد فرمایاتکبر کرنے والے۔ (سنن ترمذی، کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی معالی الاخلاق3/709، حدیث2025،بتقدم وتاخر، احیاء العلوم، ج3، ص1078)

کسی بزرگ کا قول ہے کہ آدمی بہشت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ہر ایک انسان سے کمتر سمجھے۔

اللہ پاک ہمیں بھی اس مہکتے ہوئے قول پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک سے دعا مانگتے تھے:اعوذبک من نفحۃِ الکبر۔اے اللہ میں کبر کی ہوا سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔

جب آدمی میں غرور پیدا ہوجائے تو وہ دوسروں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھتا ہے، اللہ پاک ہمیں غرور و تکبر سے بچا کر ایسا بندہ بنا دے، جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے، شیطان بھی تکبر کے سبب جنت سے بے دخل کیا گیا، اس تکبر نے ابلیس کو ایسا تباہ و برباد کر دیا کہ اس نے خدا پاک کی نافرمانی کی اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے ہمیشہ کے لئے ملعون ہو گیا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عاجزی و انکساری کا پیکر بنا دے، غرور تکبر سے بچا لے، ہم دنیا و آخرت میں اللہ کے فضل وکرم کے ذریعے اس سے درگزر کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ تکبر کرنا سراسر نادانی ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے عظام اور مشائخِ کبار نے ہمیشہ عاجزی و انکساری کو اپنایا ہے۔

حکایت:

منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی کو خلیع بنی اسرائیل(یعنی اسرائیل کا اوباش) کہا جاتا تھا، اس لئے کہ وہ بہت فسادی آدمی تھا، ایک روز دوسرے آدمی کے پاس سے گزرا، جس کو بنی اسرائیل کا عابد کہا جاتا تھا، عابد کے سر پر بادل سایہ کئے ہوئے تھا۔

جب یہ اوباش وہاں سے گزرا تو خلیع(اوباش) نے اپنے دل میں کہا، میں بنی اسرائیل میں سے ایک اوباش آدمی ہوں اور یہ آدمی عبادت گزار ہے، اگر میں اس کے بعد بیٹھ جاؤں تو شاید اللہ پاک مجھ پر رحم کر دے، وہ اس کے پاس بیٹھ گیا،عابد نے کہایہ میرے پاس کیسے بیٹھ سکتا ہے؟

اس نے اس سے نفرت کی اور کہا کہ مجھ سے دور ہو جاؤ، اللہ پاک نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی، ان دونوں سے کہہ دو کہ دوبارہ آغازِ عمل شروع کرو، میں نے اس اوباش کو معاف کر دیا اور عابد کا سارا عمل باطل کر دیا۔

قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ کس طرح سے ایک تکبرجیسے کبیرہ گناہ کی وجہ سے عابد کی ساری عبادات، نیک اعمال ضائع ہوگئے اور عاجزی اپناتے ہوئے اللہ کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے کس طرح سے ایک اوباش کے گناہ معاف ہو گئے۔

ہمیں بھی تکبر جیسے کبیرہ گناہ سے بچنا چاہئے، کیونکہ اسی تکبر نے ابلیس کو حضرت آدم علیہ السلام کے آگے سجدہ کرنے سے روکا تھا اور اسے کفر تک پہنچا دیا۔

تکبر ایک ایسا خطرناک عمل ہے کہ جو بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اور نیکیاں برباد کر دیتا ہے، آیئے ہمارے آخری نبی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پانچ احادیث مبارکہ تکبر کے بارے میں پڑھتے ہیں اور نیت کرتے ہیں کہ ان شاءاللہ اس سے بچنے کی کوشش کریں گے۔

1۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث147(91))

2۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تکبر سے بچتے رہو، کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے۔ (ابن عساکر، زحرف القاف، ذکر من اسمہ قابیل 49 /40)

3۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا، جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔ (ترمذی، کتاب البرو الفلہ، باب ما جاء فی الکبر،3/403، حدیث2007)

4۔حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مشکوۃ)

5۔ حضرت سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر کرنے والے قیامت کے دن میدانِ محشر میں چیونٹیوں کی مثل لائے جائیں گے، مگر ان کی صورتیں آدمی کی ہوں گی اور ہر طرف سے ان پر ذلت کا گھیرا ہوگا اور وہ گھسٹ کر جہنم سے اس قید خانے میں ڈالے جائیں گے، جس کا نام بولس ہوگا۔ (مشکوۃ)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تکبر جیسے خطرناک عمل سے بچائے۔آمین

یاد رہے  خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے (کتاب تکبر، ص 16) آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب تحریم الکبروبیانہ الحدیث :91 ص 61)امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ذٰلِکَ اَنْ یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے (المفردات للراغب ص 697) تکبر ہی وہ گناہ عظیم ہے جس نے 80 ہزار سال کے عبادت گزار فرشتوں کے استاد کو ہمیشہ کیلیئے مردود ٹھہرا دیا،اور یہی مہلک مرض نمرود کی مچھر کے ذریعے دردناک موت کا ضامن ہے،اسی غلیظ بیماری نے فرعون کو سمندر میں غرق کیا تکبر کے کئی نقصانات بھی ہیں جو درج ذیل ہیں جس میں سرِ فہرست ہے رب کی ناپسندیدگی چنانچہ سورة النحل میں ارشاد ہوتا ہے اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْن (سورة النحل آیت نمبر 23) ترجمہ کنز الایمان: بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ (سورة النحل آیت نمبر 29) ترجمہ کنزالایمان:تو کیا ہی برا ٹھکانا مغروروں کا۔ علاوہ ازیں متکبر شخص رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بھی ناپسندیدہ بندہ بن جاتا ہے ، متکبر تکبر کے ذریعے آخرت کی رسوائی کا سامان اکھٹا کرتا،جب یہ بدبودار نطفے سے بنا انسان اپنے اندر کسی کمال کی بُو پاتا ہے تو تکبر کی راہ جاتا ہے اور آخرت کی خواری کماتا ہے اور یوں یہ تکبر متکبر کی نیکیوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے حضورِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تکبر سے بچنے کا بارہا درس عطا فرمایا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نا ہو گا ( صحیح مسلم کتاب الایمان،باب التحریم الکبروبیانہ،الحدیث 147 ص 60)

گر تکبر ہو دل میں ذرہ بھر

سن لو جنت حرام ہوتی ہے (وسائل بخشش)

1۔ دوجہاں کے تاجور سلطان بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور اللہ پاک کے ہاں انکی قدر و قیمت نا ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہونگے (موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا، کتاب التواضع و الخمول 3/578 حدیث: 224)

2۔ ارشاد فرمایا: آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبّار(سرکش) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ( سنن ترمذی کتاب البر و الصلة، باب ما جاء فی الکبر٣/٤٠٣ حدیث ٨١٥٤)

3۔ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک فرماتا ہے: بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہےجو کوئی ان میں کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا تو میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اسکی کوئی پرواہ نہیں (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد ،کتاب البراءة من الکبر الخ...4 /457 حدیث:٥١٧٤ دون قول ولا ابالی)

4۔ ارشاد فرمایا: بے شک جہنم میں ایک مکان ہے جس میں متکبرین کو ڈال کر اوپر سے بند کر دیا جائے گا (المسند لابی یعلی، حدیث ابی موسیٰ الاشعری ٦/٢٠٧ حدیث:٧٢١٣) اب ذرا غور کیجیے کہ جب کوئی بیماری ہماری جانب رخ کرے تو مہنگے سے مہنگے اور تجربہ کار ڈاکٹرز سے علاج معالجے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر کیا اپنے اندر کی اس پوشیدہ خطرناک باطنی بیماری کے علاج کیلیئے آپ کوشاں ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو آج ہی مکتبہ المدینہ کی کتاب تکبر کا مطالعہ فرمائیں۔


اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے  ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (النحل: 23) خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کو تکبّر کہتے ہیں۔ (تکبر،ص 16) تکبّر بہت ہی تباہ کن باطنی بیمار ی ہے کہ اگر کسی کو لاحق ہو جائے تو بندے کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کردیتی ہے۔یہ اعلیٰ سے اعلیٰ ، نیک ، عبادت گزار شخص کوہمیشہ کے لیئے مردوداور ذلیل و خوار کرتی اور عذاب نار کا حقدار ٹہراتی ہے۔جیسےابلیس نےتکبر کیا حضرت آدم علیہ السلام کواپنے سے حقیر جانا اور سجدہ نہ کیا اور اسی سبب ہمیشہ کےلیئےمردود ہوا۔ اللہ پاک نے اس کے تکبر کے سبب اس کو لعنت کا طوق پہنا کر اس کو جنت سے نکال دیا ۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تکبّر کو انتہائی ناپسند فرماتے ہوئےمتعدد مواقع پر اس کی شدید مذمت بھی فرمائی۔چنانچہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ: ’’ جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (المسلم،کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ح: 265،ص 697) ایک اور حدیث میں انکے ٹھکانے کے بارےمیں بیان فرمایاکہ ’’ بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللّٰہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔‘‘ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، 6/ 207، ح: 7213)۔ متکبرین کے خاتمہ کے حوالے سے ایک حدیث میں یوں فرمایا کہ آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبار (سرکش ) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی کچھ پہنچتا ہے جو اُن کو پہنچتا ہے۔ (ترمذی، 3/403، ح 2007..احیاء العلوم،3/991) اسی طرح ایک اور حدیث میں تکبر کی مذمت کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ جو غرور کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے نیچا کردیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہ میں چھوٹا ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا۔حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سور سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔ (مرآة المناجيح،ج 6،ص 449،ح 4486،مطبوعہ قادری پبلیشرز) اور متکبر شخص کے قیامت کے احوال حدیث میں کچھ اسطرح بیان ہوئےکہ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن تین شخصوں سے نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان پر نظرِ رحمت فرمائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا اور وہ تین یہ ہیں، بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ، اور متکبر فقیر۔ ( المسلم ،کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم …الخ،ح: 296،ص 696) یہ مذموم صفت عقل کو زائل کر تی حتیٰ کہ بندہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس قبیح بیماری سے بچیں اور اللہ پاک کی محبوب صفت عاجزی کو اختیار کریں اور تکبر سے بچنے کے لیئے اس کے اسباب یعنی کثرت علم و مال،حسب ،نسب ، حسن جمال وغیرہ کی طرف غور کریں اور اپنے آپکو یہ یاد دلائیں کہ یہ سب اللہ کی عطا ہے۔ اپنا کمال کچھ نہیں ،وہ جب چاہے جسکو چاہے عطا اور جس کو چاہے محروم کرے۔ہمیں اللہ پاک کی خُفیہ تدبیر سے ڈرنا چا ہیے ۔اللہ پاک ہمیں تکبر سے پناہ اور عاجزی اختیا ر کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔آمین۔


اللہ پاک نے اس کائنات کو پیدا فرمایا انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطاء کیا ساتھ ہی اسے یہ بھی بتادیا گیا کہ اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔اب بندہ حقیقی معنوں میں عبادت گزار اس وقت بن سکتا ہے جب وہ اپنے آ پکو ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے۔باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ تکبر بھی ہے جو کہ انتہائی ہلاک کردینے والا گناہ ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں تکبر کسے کہتے ہیں۔ *تکبر کی تعریف* خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ ( کتاب تکبر صفحہ16) *تکبر کے نقصانات* تکبر کے چند نقصانات یہ ہیں 1 تکبر کرنے والا ہر برے کام کرنے کی طرف مجبور ہوجاتا ہے تاکہ اس سے اپنی عزت کی حفاظت کرسکے صفحہ(1013 احیاء العلوم جلد 3 2 )متکبر شخص منافقین کا سا (جیسا) طریقہ اپناتا ہے (1022 احیاء العلوم جلد 3 3 )تکبر انسان کو وعظ و نصیحت قبول کرنے سے بھی روک دیتا ہے (1023 احیاء العلوم جلد 3 ت 4) تکبر کے باعث جہالت کے اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے (احیاء العلوم جلد 3 5 ) لوگوں پر تکبر کرنا اللہ پاک کے حکم پر تکبر کی طرف لے جاتا ( احیاء علوم جلد 3) تکبر دوسروں کی خامیاں نکالنےان کی برائیاں کرنے پر ابھارتا ہے ( احیاء علوم جلد 3 /1041 صفحہ) *تکبر کی مذمّت احادیث مبارکہ کی روشنی میں* نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا! جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔۔۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ کہ وہ تکبر کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور دیگر برائیوں کے عذاب کو بھگتنے یا اللہ سے معافی طلب کرنے کے بعد پاک و صاف ہوکر داخل جنت ہوگا۔ (تکبر صفحہ7 )آ دمی اپنے نفس کے بارے میں بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جباریں(سرکش)لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا اللہ پاک اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔ (احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 990/991) جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (کتاب تکبر صفحہ 6) نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے (کتاب تکبر صفحہ6) *نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم* *جس کو تو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا* *حرف آ خر* لہذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ دیگر گناہوں سے بچنے کے ساتھ بالخصوص اپنے آ پکو تکبر سے بچانے کی کوشش کرے .عاجزی اپنائے ہر ایک کو اپنے سے اعلی تصور کرے اس کی برکت سے اللہ پاک ایسے شخص کو دونوں جہاں میں بلندی عطا فرمادیگا۔

*مٹادے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے* *کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے *


تکبر کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تکبر ایک باطنی گناہ ہے۔ اس کا علم سیکھنا فرض ہے۔ یہ اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ ابلیس نے مُعَلمُ المَلکوت کا رُتبہ پانے کے بعد تکبر کیا تو مردود ٹھہرا۔آئیے تکبر کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔ خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حَقیر جاننے کا نام ہے۔ تکبر تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر کرنا؛ جیسے فرعون،نمرود کا تکبر،یہ کُفر ہے۔ دوسرا رسولوں کے مقابلے میں تکبر کرنا؛ یعنی جہالت اور بغض وعداوت کی وجہ سے رسول کی پیروی نہ کرنا،یہ بھی کفر ہے۔تیسرا بندوں کے مقابلے میں تکبر کرنا؛ یعنی خود کو بہتر اور دوسروں کو حقیر سمجھنا، تکبر کی یہ قسم اگرچہ کمتر ہے،لیکن یہ بھی بڑا گناہ ہے۔ تکبر کرنے کے دنیا و آخرت میں بے شمار نقصانات ہیں؛چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔ * تکبر کرنے والے کو اللہ پاک اور مکی مَدَنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ناپسند فرماتے ہیں۔ * تکبر کرنے والے کی قیامت کے دن رسوائی ہو گی اور وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔ * تکبر کرنے والا بد ترین شخص ہے؛ اللّه پاک بروزِ حشر اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تکبر کی مذمت فرمائی،فرامین مُبارک ملاحظہ ہوں۔ * رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص آگ میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو اور وہ شخص جنّت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر غرور ہو۔(مسلم) (مرات ج 6,ص510,511,حدیث5107) * رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جنّت میں وہ نہ جاوے گا جس کے دل میں ذرہ برابر غرور ہو۔ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اس کا جوتا اچھا ہو۔ فرمایا کہ اللّه پاک جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ غرور حق کو جھٹلانا لوگوں کو ذلیل سمجھنا ہے۔(مسلم) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے آگ میں کِبر و غرور ہے خاک میں عِجز و اِنکسَاری؛ دیکھ لو باغ کھیت خاک میں لگتے ہیں آگ میں نہیں لگتے، ایسے ہی ایمان و عِرفان کا باغ خاک جیسے عاجز ومُنکسر دِل میں لگتے ہیں آگ جیسے متکبر دل میں نہیں لگتے۔ متکبر وہ ہے جو کسی انسان کی حق بات کو اس لیے جھٹلائے کہ یہ اس آدمی کے منہ سے نکلی ہے اور مَساکین کو ذَلیل سمجھے۔ (مرات ج 6، ص 511، حدیث 5108) *رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: الله پاک نے فرمایا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے جو ان دونوں میں سے ایک مجھ سے چھیننا چاہے گا میں اسے آگ میں داخل کروں گا اور ایک روایت میں ہے میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔ (مسلم) کِبر سے مُراد ذاتی بَڑائی ہے اور عظمت سے مراد صِفاتی بَڑائی۔چادر اور تِہبَند فرمانا ہم کو سمجھانے کے لیے ہے کہ جیسےایک چادر ایک تہبند دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لیے نہیں ہو سکتی۔ (مرات ج6,ص512,513,حدیث5110) * رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے آپ کو اونچا لے جاتا رہتا ہے حتی کہ وہ جَبارین میں لکھ دیا جاتا ہے تو اسے وہ ہی عذاب پہنچتا ہے جو جبارین کو پہنچتا ہے۔ (ترمذی) یعنی اس کا نام متکبرین و جبارین کے دفتر میں لکھ دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ رب کے دفتر الگ الگ ہیں۔نیکوں کے صدہادفتر بدوں کے ہزارہا دفتر۔جو دنیوی اوراخروی عذاب،ذلت و رسوائی،فرعون،ہامان،قارون کو پہنچی ہے یا پہنچے گی وہ اسے بھی ملے گی۔ انہیں قیامت والے اپنے پاؤں تلے روندیں گے۔ (مرات ج6,ص513,حدیث5111) * روایت ہے حضرت عمر رضی الله عنہ سے آپ نے منبر پر فرمایا اے لوگو! انکساری اختیار کرو کیوں کہ میں نے رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو الله پاک کے لیے اِنکسَار و عِجز کرتا ہے الله اسے اونچا کر دیتا ہے تو وہ اپنے دل کا چھوٹا ہوتا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا اور جو غرور کرتا ہے الله پاک اسے نیچا کر دیتا ہے تو وہ لوگوں کی نِگاہ میں چھوٹا ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتے اور سُور سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔ حضرت احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ قاعدہ بہت ہی مجرب ہے۔ جو کوئی اپنے کو رضائے الہی کے لیے مسلمانوں کے لیے نرم کر دے، ان کے سامنے انکسار سے پیش آئے تو الله پاک لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت پیدا فرما دیتا ہے اور اسے بڑی بلندی بخشتا ہے۔ (مرات ج6,ص518,519,حدیث5119) محترم قارئین! تکبر ایسا مُہلک باطنی مرض ہے جو کئی اچھائیوں سے آدمی کو محروم کر دیتا ہے۔عِلم،عِبادت، حُسن،طاقت، مال و دولت،حَسب و نَسب،عہدہ و منصب کی وجہ سے آدمی تکبر جیسے مرض میں مُبتلا ہو جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے عیبوں پر نظر رکھیں، عاجزی کریں، ہر وقت الله پاک کی خُفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیں۔ الله پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں تکبر اور دیگر باطنی امراض سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین بجاہ خَاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ (اس مضمون کی تیاری میں رسالے تکبر سے مدد لی گئی)


حق بات کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام تکبر ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص 60، الحدیث: 147(91)) تکبر ایک ایسی بری صفت ہے جو دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے مذموم ہے۔ متکبر انسان نہ صرف دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا اور ان کے ساتھ حقارت بھرا سلوک کرتا ہے بلکہ اپنا بھرم رکھنے کیلئے ہر برائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ (تکبر ص 37) اسلام میں تکبر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیات طیبہ اور احادیث مبارکہ میں صراحتاً تکبر کی مذمت کا بیان موجود ہے۔ تکبر کی مذمت پر مشتمل 5 فرامینِ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ کیجئے اور اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کا ذہن بنائیے۔

1۔کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بداخلاق اور متکبر ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث 23517، ج 9، ص 120)

2۔ہر سخت مزاج، اترا کر چلنے والا، متکبر، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جبکہ اہلِ جنت کمزور اور کم مال والے ہیں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، 672/2، حدیث 7030)

3۔آخرت میں تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب ہوں گے جن کے اخلاق اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے جو زیادہ بولنے والے، منہ پھٹ اور مُتفیْہِقُون ہوں گے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! ہم زیادہ بولنے والے اور منہ پھٹ کو تو جانتے ہیں لیکن یہ مُتفیْہِقُون کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: تکبر کرنے والے۔ (سنن الترمذی، کتاب البر و الصلة، باب ما جاء فی معالی الاخلاق، 409/3، حدیث 2025 بتقدم و تاخر)

4۔تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے ایک بُوْلَسْ نامی قید خانہ کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّالْ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 47- باب، 4 / 221، الحدیث: 2500)

5۔قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو روندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، 2 / 578، الحدیث: 224) الامان و الحفیظ۔

تکبر سمیت دیگر ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کیلئے نیکیوں اور گناہوں کی پہچان ہونا نہایت اہم ہے اور اس کیلئے علمِ دین حاصل کرنا بہت ضروری ہے چنانچہ تکبر کا علم سیکھنا بھی فرض ہے جیساکہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان رحمة اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں: مُحرّماتِ باطِنِیّہ (یعنی باطنی ممنوعات مثلا) تکبر و ریا و عجب و حسد وغیرہا اور ان کے مُعالجات (یعنی علاج) کہ ان کا علم (یعنی جاننا) بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض (میں) سے ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ تکبر کی تعریف، تباہ کاریاں، اقسام، اسباب، علامات اور علاج وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے دیانتداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں، پھر اگر خود کو اس باطنی گناہ میں مبتلا پائیں تو فوراً اللہ کریم کی بارگاہ میں توبہ کریں اور علاج کیلئے بھرپور کوششیں شروع کردیں۔ (تکبر ص 14 بتغیر قلیل) تکبر سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے مکتبة المدینہ کی ان دو کتابوں احیاء العلوم جلد 13 اور تکبر کا مطالعہ بہت مفید ہے۔اللہ پاک ہمیں تکبر کی معلومات حاصل کرنے اور تکبر سمیت تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اللہ و رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا لازم ہے۔ بنیادی طور پر بعض گناہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل جبکہ بعض باطنی جیساکہ تکبر۔ اس پرفتن دور میں اول تو گناہوں سے بچنے کا رجحان بہت ہی کم ہے اور جو خوش نصیب گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو باطنی گناہوں کی طرف عموماً ان کی بھی توجہ نہیں ہوتی۔ حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ایک باطنی گناہ بہت سے ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 9 ملتقطا) یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کی بھی مذمت فرمائی، ان سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا اور عذابات سے ڈرایا۔

باطنی گناہوں میں سے ایک ہلاکت خیز گناہ تکبر بھی ہے۔ خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنا تکبر ہے۔ (تکبر، ص 16) اسی تکبر کے سبب شیطان مردود نے حضرت آدم علیہ السلام سجدہ تعظیمی کرنے کے حکمِ الہی پر عمل کرنے سے انکار کیا اور ہمیشہ کیلئے مردود ہوگیا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ تکبر سے بچتے ہوئے رِضائے الہی کیلئے عاجزی کرتے رہیں کیونکہ تکبر کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے جبکہ رضائے الہی کیلئے عاجزی کرنے میں دونوں جہاں کی بھلائی ہے۔

تکبر کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ، جن میں عاجزی کی فضیلت کا بیان بھی ہے، درج ذیل ہیں:

1۔جو اللہ پاک کیلئے عاجزی اختیار کرے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا، پس وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوگا اور جو تکبر کرے اللہ پاک اسے ذلیل کردے گا، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خود کو بڑا سمجھتا ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔

2۔ہر انسان کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جو ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جب بندہ تواضع کرتا ہے تو اس لگام کے ذریعے اسے بلندی عطا کی جاتی ہے اور فرشتہ کہتا ہے: بلند ہوجا! اللہ پاک تجھے بلند فرمائے۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو (تکبر سے) خود ہی بلند کرتا ہے تو وہ اسے زمین کی جانب پست (یعنی نیچا) کرکے کہتا ہے: پست (یعنی نیچا) ہوجا! اللہ پاک تجھے پست کرے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، باب التواضع، الحدیث 5741، ج 3، ص 50)

3۔جو شخص اللہ پاک کی رضا کیلئے جس درجے کی عاجزی کرتا ہے، اللہ پاک اسے اسی درجے بلند فرمادیتا ہے یہاں تک کہ اسے اعلیٰ عِلِّیِّیْن (سب سے بلند درجے) میں کردیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے مقابلے میں جس درجے کا تکبر کرتا ہے، اللہ پاک اسے اسی درجے میں گرادیتا ہے حتیٰ کہ اسے اسْفلُ السّافلین (سب سے نچلے درجے) میں کردیتا ہے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر و الاباحة، باب التوضع۔۔۔الخ، 457/7، حدیث 5649)

4۔جو اپنے مسلمان بھائی کے سامنے عاجزی اختیار کرے گا، اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا اور جو اس کے سامنے اپنی بڑائی کا اظہار کرے گا، اللہ پاک اسے رسوا کردے گا۔ (معجم اوسط، باب الف، 390/5، حدیث 7711)

5۔جو شخص عاجزی کرتا ہے، اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے، اللہ پاک اسے ذلیل کرتا ہے۔ (موسوعة الامام ابن ابی الدنیا، کتاب التواضع و الخمول، 552/3، حدیث 77)

اللہ پاک ہمیں تکبر سمیت تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی رضا کیلئے عاجزی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم