اللہ پاک کی رضا کیلئے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کو اِنْفاق فِیْ سبِیْلِ اللہ کہتے ہیں۔ نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے، خواہ وہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل۔ خواہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کوئی شِفا خانہ بنانا ہو یا یتیموں کی کفالت کرنا، اسی طرح طلبہ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو مال خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی انفاق فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیة 3 + 261، ملتقطاً)

خیال رہے کہ اللہ پاک کو لوگوں کے مال کی حاجت نہیں بلکہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں بندوں کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صورت میں وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں اور (واجب ہونے کی صورت میں) خرچ نہ کرنے کے وبال سے بچ جائیں گے، جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ غریب اور مَفْلُوکُ الحال لوگوں کو معاشی سکون نصیب ہو گا اور معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہوگا۔ (صراط الجنان، محمد، تحت الآیة 38، ملتقطاً)

جس طرح راہِ خدا میں خرچ کرنا دینی و دنیاوی فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے، اسی طرح خرچ نہ کرنا دنیا و آخرت میں نقصانات کا سبب ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے:

• ”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔“ (البقرة 198)

یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیۃ 198)

• ”اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔“ (التوبۃ 34)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ (صراط الجنان، التوبة، تحت الآیۃ 34، ملتقطاً)

• ”ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔“ (محمد 38)

ارشاد فرمایا کہ جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ (صراط الجنان، محمد، تحت الآیة 38)

• ”تو وہ چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔ کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں آنے نہ پائے۔ اور وہ خود کو روکنے پر قادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے۔ پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا توکہنے لگے:بیشک ہم ضرور راستہ بھٹک گئے ہیں۔ بلکہ ہم محروم ہوگئے ہیں۔“ (القلم 23۔27)

اس آیت میں ایک باغ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا مالک ایک نیک مرد تھا اور وہ باغ کے پھل کثرت سے فُقراء کو دیتا تھا، اس کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹوں نے باہم مشورہ کیا کہ اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں تو تنگ دست ہوجائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح سویرے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی باغ میں چل کر پھل توڑ لیں گے تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو۔ لیکن جب وہ باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں پھل کا نام ونشان نہیں۔ اس پر وہ بولے: بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے۔ پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے لگے: ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ حق دار مسکینوں کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے پھل سے محروم ہوگئے ہیں۔ (صراط الجنان، القلم، تحت الآیة 17۔32، مختصراً)

• ”اور جب وہ ہلاکت میں پڑے گا تو اس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔“ (اللیل 11)

یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے وہ جب مر کر قبر میں جائے گا یا جہنم کی گہرائی میں پہنچے گا تواس کا مال اللہ پاک کے عذاب سے بچانے میں اسے کچھ کام نہ آئے گا۔ (صراط الجنان، اللیل، تحت الآیة 11)

ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کے عطا کیے ہوئے مال میں سے دل کھول کر اس کی راہ میں خرچ کریں بالخصوص زکوٰة، فطرہ، عشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہ کریں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم


تمہید: اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ والبقیت الصلحت خیر عند ربک ثوابا و خیر املا۔

ترجمہ کنز الایمان:"مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور باقی رہنے والی اچھی باتیں تیرے ربّ کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور امید کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں۔" (پارہ 15، سورۃ الکہف، آیت نمبر 46)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ مال اور اولاد فی نفسہ تو اگرچہ دنیا ہیں، لیکن یہی دو چیزیں آخرت کے لئے عظیم زادِ راہ بھی بن سکتی ہیں، کیونکہ اگر مال کو راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، خصوصاً کوئی صدقہ جاریہ کیا تو یہی مال نجات کا ذریعہ بنے گا اور باعثِ ثواب ہوگا۔

انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار:

حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم نے فرمایا: "بے شک مؤمن کے لئے مؤمن مثلِ عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت دیتا ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث نمبر 481، جلد اول، صفحہ نمبر 181)

جب کوئی شخص راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتا ہے تو یہ مال جب ضرورت مند تک پہنچے تو اسے معاشرے میں سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے اور یہ شخص اس کے مال میں برکت کے لئے دعاگو رہتا ہے۔ بھائی چارہ مضبوط ہوتا ہے، اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے، معاشرہ خوشحال ہوجاتا ہے۔

انفاق نہ کرنے کے قرآنی آیات و تفسیر کی روشنی میں نقصانات:

راہِ خدا میں خرچ کرنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، مثلاً رضائے الہی کا حصول، مال میں برکت، بلائیں کافور، اجرو ثواب وغیرہ، اس کے ساتھ ساتھ خرچ نہ کرنے کی ہلاکت خیزیاں بھی ہیں، اس متعلق کچھ آیات، مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔

مختلف آیات کا ترجمہ کنزالایمان مع تفسیر:

1۔اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پارہ1، سورہ البقرہ، آیت نمبر 195)

اس آیت کا مطلب ہے کہ اللہ پاک کی فرمانبرداری اور رضا میں اپنے مال و جان کو صرف کرو، راہِ خدا میں خرچ کرنا بند یا کم کرکے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں خرچ کرنا ترک کر دینا ہلاکت کا باعث ہے۔ (صراط الجنان)

2۔ تم ہرگز بھلائی کونہ پہنچو گے، جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ (پ3،سورۃ آل عمران، آیت نمبر 92)

یہاں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے، گویا اگر کوئی راہِ خدا میں اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کرے گا تو وہ اپنے مالک کا فرماں بردار نہیں کہلائے گا۔

3۔ وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پارہ نمبر 9، سورہ التوبہ:34)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کر تے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے، سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (صراط الجنان)

اس مال کو بروزِ قیامت جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، یہاں تک کہ شدتِ حرارت سے سفید ہو جائے گا، پھر اس سے زکوۃ نہ دینے والوں کے پہلوؤں، پیشانیوں اور پشتوں کو داغا جائے گا۔ (صراط الجنان)

لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں میں سے خرچ کرے، کبھی بھی تنگی مال کا خوف نہ رکھے، بلکہ حدیث پاک کے مطابق راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مال بڑھ جاتا ہے ،اس پریقین رکھیں اور اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے لئے صدقہ جاریہ کے کام کر جائیں،تاکہ اس کے قبر و حشر میں نجات کا باعث بن سکیں۔


جمعہ کے فضائل  دین اسلام میں جمعہ کا دن خصوصی اہمیت کا حامل ہے کائنات کی ابتداء سے اب تک تاریخ اسلام کے کئی اہم ترین واقعات روز جمعہ کو پیش آئےاحادیث کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت اور وفات اسی دن ہوئی،اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن قیامت قائم ہو گی، اسی دن حشر ہو گا ، اسی دن حساب ہوگا ۔ شرح صحیح مسلم کتاب الجمعہ ج2 ص 621 جمعہ نام کی وجہ و تاریخی پسِ منظر اسلام سے پہلے اہل عرب اس دن کو عروبہ کہتے تھے۔ علامہ ثعلب کے مطابق سب سے پہلے اس دن کو جمعہ کا نام دینے والے سید الانبیاء صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے جد امجد کعب بن لوَی ہیں،آپ اس دن لوگوں کو جمع فرما کر ان سے خطاب فرماتے اور انہیں اپنی اولاد میں مبعوث ہونےوالےآخری نبی حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کی آمد کی خبردیتے اور ان پر ایمان لانے اور اتباع کی تلقین کرتے، سبحان اللہ وبحمدہ یعنی محفل میلاد کرتے تھے کہ میلاد یا مولود کی محافل میں بھی یہی ہوتا ہے۔ اس دن میں مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اس لیے اسے یوم جمعہ کہا جاتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جمعہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس روز حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی کو مختلف رنگوں اور مختلف اقسام کی مٹیوں کو لے کر جمع کیا گیا اسی لیے اس دن کو جمعہ کہتے ہیں۔ (شرح صحیح مسلم کتاب الجمعہ ج2 ص 621بحوالہ لسان العرب ازعلامہ ابن منظور افریقی ج8ص58059,مطبوعہ نشر ادب الحوذقم ایران)

جمعہ المبارک کی اہمیت سے متعلق احادیث: جمعہ المبارک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں اس نام کی پوری سورت موجود ہے  ۔ احادیث میں بھی اس دن کے متعلق کئی فضائل مروی ہیں ، جمعہ کو یوم العید فرمایا، جمعہ سید الایام ہے، اس دن جہنم کی آگ کو نہیں بھڑکایا جاتا، ا ور اس دن جہنم کے دروازوں کو بھی نہیں کھولا جاتا، قیامت کے روز اسے دلہن کی مانند اُٹھایا جائے گا  نیز  اس دن مرنے والا شہید ہے اور اسے قبر کا عذاب نہیں ہو گا۔  اگر حج جمعہ کے دن ہو تو اسکو حج اکبر کہا جاتا ہے اور اسکا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔  جمعہ کے دن کی جانے والی نیکیوں کا ثواب ستر گناہ ہے۔  اس کے ساتھ اس بات پر  بھی غور کرنے اور ڈرنےکی شديدحاجت ہے کہ اس دن کیے جانے والا گناہ کا عذاب بھی ستر گناه بڑھ جاتا ہے۔ (مراة المناجيح ج٢ص٣٢٣تا٣٣٦)   حدیث مبارکہ میں ہے تمہارے لیے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے ،لہذا تمہارا نماز جمعہ کے لیے جلدی نکلنا حج اور نماز جمعہ کے بعد عصر تک انتظار کرنا عمرہ ہے (سنن کبری للبیہقی ج3ص 342حدیث ٥٩٥٠) امام غزالی فرماتے ہیں بعد نماز جمعہ مسجد میں ہی ٹھہرے اور مغرب تک ٹھہرنا افضل ہے۔ عصر تک ٹھہرنا عمرہ جبکہ مغرب پڑھنے کے بعد مسجد سے جانا حج اور عمرہ ہے۔  (احیاء علوم ج1ص249)  حضرت ابن عباس سے روایت ہے سرکار دوعالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم  نے فرمایا الجمعة حج المساکین یعنی جمعہ مساکین کا حج ہے۔ (جمع الجوامع ج٤ص٨٤)  سرکار دوعالم   صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم  کا فرمان عالیشان ہے جمعہ کے دن و رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں جس  میں رب کائنات چھ لاکھ ایسے افراد کی بخشش نہ  فرمائے جن پر جہنم واجب ہو چکا تھا۔ (مسند ابی یعلیٰ ج 3 حدیث3421 تا 3471) ایک بہت ہی قابل عبرت حدیث ملاحظہ ہو  حضور سید عالم    صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم  نے فرمایا کوئی جانور ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سورج طلوع ہونے تک قیامت کے خوف سے نہ چیخے سوائے جنوں اور انسانوں کے۔  (مؤطا امام مالک ج1ص115حدیث246 )یہ غالباً اس لیے کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ قیامت جمعہ کے دن قائم ہو گی لہذا ان تمام روایات کو سامنے رکھ کر ہم اپنے دل میں اس مبارک دن کی خوب خوب عزت و عظمت پیدا کریں ،جمعہ کے دن کو گناہ سے مکمل طور پر بچتے ہوئے نیکیوں میں گزاریں اور جمعہ کی سنتوں پر عمل  کی سعادت حاصل کریں کیونکہ احادیث کی روشنی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جمعہ کا دن مومنوں کے لیے کسی بھی طرح سیاہ نہیں ہو سکتا بلکہ سنہری ہی سنہری ہے۔ اس دن میں خوب درود پاک پڑھیے دیگر اوراد جو احادیث میں میں وارد ہوئے جن میں سورہ کہف اور سورہ دخاں کی تلاوت بھی شامل ہے انکو کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کو بغیر عذر شرعی نماز جمعہ ہر گز ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے۔    اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی کا ہر دن ہر لمحہ اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارنے کی سعادت نصیب فرمائے جمعہ المبارک کی قدرو منزلت ہمارے دلوں میں لمحہ بہ لمحہ فزوں فرمائے آمین بجاہ النبی الامین

تمہید:

جمعۃ المبارک ایک عظیم دن اور سب دنوں کا سردار ہے۔ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ اس کے ذریعے اللہ پاک نے اسلام کو عزت بخشی اور اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا، اس کی اہمیت اس بات سے مزید اجاگر ہوتی ہے کہ اللہ کریم نے جمعہ کے متعلق پوری سورۃ الجمعۃ قرآن کریم میں نازل فرمائی، آیت نمبر 9 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ کنز الایمان جب نماز کی اذان ہو جمعہ کےدن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو

اس آیت کے تحت امام غزالی فرماتے ہیں اللہ پاک نے دنیوی امور میں مشغول ہونے اور ہر اس کام کو حرام ٹھہرایا جو جمعہ کی طرف کوشش سے روکتا ہو (احیاء العلوم ج 1 ص 550)

تاریخی پس منظر:

نماز جمعہ ہجرت کے بعد شروع ہوئی، حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم م 12 ربیع الاول، 622ء بروزپیر شریف مسجد قبا تشریف لائے، قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی، پھر جمعہ کے روز مدینہ منورہ کا عزم فرمایا، بنی سالم کے بطن وادی میں جمعہ کا وقت آیا تو سید عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں سب سے پہلا جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ دیا۔ (خزائن العرفان ص 884)

حدیث پاک میں ہے بے شک توریت و انجیل والوں کو جمعہ کا دن عطا کیا گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور منہ موڑلیا تو اللہ پاک اسے اس امن کیلئے مؤخر کیا اور اسے ان کے لیے عید بنایا، بس یہ امت سب لوگوں سے سبقت والی ہے۔(مفھوماً) (صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ، الحدیث: 876، ج 2، ص 303)

جمعہ کے متعلق فرامین آخری:

(1) الجمعۃ حج المساکین یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ (جمع الجوامع للسیوطی ج 4 ص 84 حدیث 11108)

(2) بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نمازکیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کیلئے انتظار کرنا عمرہ ہے (السنن الکبرٰی للبیھقی ج 3 ص 342 حدیث 5950)

امام غزالی فرماتے ہیں کہ (نماز جمعہ کے بعد ) عصر کی نماز تک مسجد میں رہے اور اگر نماز جمعہ تک ٹھہرے تو افضل ہے، کہا جاتا ہے کہ اگر عصر تک ٹھہرے تو حج کا ثواب اور اگر مغرب تک ٹھہرے تو حج و عمرے کا ثواب ہے۔ (احیاء العلوم ج 1 ص 249) مکتبہ دار صادر بیروت

(3) جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اس وقت اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ اس کو ضرور دے گا اور وہ گھڑی مختصرہے۔ (صحیح مسلم ص 424 حدیث 852)

(4) جمعہ کے دن جس ساعت کی خواہش کی جاتی ہے اسے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔ (سنن ترمذی ج 2 ص 30 حدیث 489)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رات میں روزانہ قبولیتِ دعا کی ساعت آتی ہے مگر دنوں میں صرف جمعہ کے دن۔ (فیضان جمعہ المدینۃ العلمیہ: ص 10)

(5) بے شک اللہ پاک نے تم پر اس دن اور اس مقام پر جمعہ فرض فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ، باب فرض الجمعۃ، الحدیث 1081، ج 2، ص 5، بتقدیم و تاخر)

جمعہ فرض عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ (در مختار ج 3 ص 5، بہار شریعت ج 1 ص 762)

روایت میں ہے کہ جس نے بلاعذر تین جمعے ترک کئے اللہ پاک اسکے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند المکیین، الحدیث 15498، ج 5 ص 280)

لہٰذا مسلمان کو چاہیے اپنے رب کا حکم بجا لاتے ہوئے دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ بھی پابندی سے ادا کرے۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

(مواد احیاء العلوم اور فیضانِ جمعہ المدینۃ العلمیہ سے لیا گیا ہے)

ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا، افسوس! ہم ناقدرے جمعہ کو بھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزارتے ہیں، حالانکہ جمعہ یومِ عید ہے اور سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ کے روز جہنم کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے، جمعہ کے روز مرنے والا مسلمان شہید کارتبہ پاتا اور عذابِ قبر سے محفوظ ہو جاتا، جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ہے، جمعہ کے روز گناہ کا عذاب بھی ستر گنا ہے، جمعہ کوحج ہو تو اس کا ثواب ستر ( 70) حج کے برابر ہے۔

جمعہ کے معنی:

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی اس دن جمع ہوئی، نیز اس دن لوگ جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں، ان وجوہ (reasons) سے اسے جمعہ کہتے ہیں، اسلام سے پہلے اہلِ عرب اسے عروبہ کہتے تھے۔ (مرآة المنا جیح،ج2، ص 317، ملخصا)

حدیث نمبر 1:حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سلطانِ دوجہاں صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور طہارت(یعنی پاکیزگی) کی استطاعت (یعنی طاقت) ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے، پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں، انہیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جونماز اس کے لئے لکھی گئی ہے، پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے توچپ رہے، اس کے لئے ان گناہوں کی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں، مغفرت ہو جائے گی۔ (بخاری، ج1،ص 306، حدیث 883)

حدیث نمبر 2:تاجدارِ مدینہ منورہ ،سلطانِ مکہ مکرمہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فر مایا: جو روزِ جمعہ یاشبِ جمعہ ( یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب)مرے گا، عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مہر ہوگی۔ (حلية الاولياء، ج3،ص181، ح 3629)

حديث نمبر3:اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلناحج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الکبری للبہیقی، ج3،ص342، ح5950)

حدیث نمبر 4:نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:جمعہ کا دن عام دنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللہ پاک کے نزدیک عید الا ضحٰى اور عید الفطر سے بڑا ہے، اس میں پانچ خصوصیتیں ہیں،(1)اللہ پاک نے اسی میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ( 2)اس میں زمین پر انہیں اتارا اور ( 3) اس میں انہیں وفات دی اور ( 4 ) اسی میں ایک ساعت ( یعنی گھڑی) ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے گا، وہ اسے دے گا، جب تک حرام سوال نہ کرے اور ( 5)اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مقرب فرشتہ و آسمان وزمین اور ہوا و پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کے جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔ (ابن ماجہ، ج2،ص8، حدیث1084)

حدیث نمبر5:سرکار مدینہ  صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:جمعہ کے دن اور رات  میں چوبیس(24) گھنٹے ہیں، کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتاہو، جن پر جہنم واجب ہو گیا تھا۔ (مسند ابو یعلی، ج3،ص235/291،ح3471/3421)

تمہید:

نماز اسلام کا اہم رکن ہے، مسلمان پردن رات مىں پانچ نمازیں فرض ہیں، با جماعت نماز مسلمانوں کو اخوت اور برابری کا درس دیتی ہے، پانچ نمازوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پرنمازِ جمعہ بھی فرض ہے، قرآن و حدیث میں نماز جمعہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، ارشادِباری تعالی:

يایها الذین آمنواذا نوديَ للصلوة من یوم الجمعۃ فاسعواالی ذکر اللہ وذرو البیع ذلکم خیرکم ان کنتم تعلمون۔ (سورة الجمعہ:9)

جمعہ کی فضلیت پر حدیث مبارکہ:

1۔حضور پرنور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے: جمعہ کےدن جس ساعت(یعنی گھڑی) کی خواہش کی جاتی ہے، اسے عصر کے بعد سے غروبِ آفتاب تک تلاش کرو۔ (ترمذی، ج2، ص30، حدیث 489)

2۔حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے۔(مسند احمد: 16162)

3۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:جس شخص کے پاؤں نمازِ جمعہ کے لئے جاتے ہوئے گرد آلود ہوئے، اللہ پاک اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دے گا۔ (صحیح بخاری: 907)

4۔آپ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کافرمان عالیشان ہے:جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جس قدر ممکن ہوپاکی حاصل، پھرتیل یا خوشبو استعمال کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے روانہ ہوگیا اور (وہاں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان گھس کر) تفریق نہ کی، جتنی نماز اس کی قسمت میں تھی اداکی، پھر جب امام (خطبہ دینے کے لئے) باہر آیا، تو خاموشی اختیار کئے رکھی، تو اس شخص کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری: 883)

5۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:کہ جمعہ کا دن سب دنوں سے افضل ہے اور اللہ پاک کے نزدیک اس کا مرتبہ تمام دنوں سے بڑھ کر ہے، جمعہ کے اوقات میں ایک لمحہ دعا کی قبولیت کے لئے رکھا گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 1085)

خلاصہ:

جمعہ کا دن مسلمانوں کے لئے اتفاق واتحاد اور یک جہتی کا دن ہے، اس دن تمام مسلمان جامع مسجد میں جمع ہوتے ہیں، نماز جمعہ میں شرکت کرنے سے ایک دوسرے کے احوال سے باخبر رہنے کا موقع بھی ملتا ہے، ہمیں چاہئے کہ جمعہ کے دن اذان کے ساتھ ہی تیار ہوکر مسجد جائیں، پہلی صف میں امام صاحب کے قریب بیٹھیں اور خطبہ غور سے سن کر تمام باتوں پر عمل کریں۔

اللہ عز وجل ہم سب کو تمام نمازوں کو وقت پر اور پابندی کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

تمہید:

قرآن کی روشنی میں، اللہ پاک فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو، پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو، اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (سورۃ الجمعہ، آیات9تا 10)

جمعہ کا تاریخی پسِ منظر :

علامہ ثعلب بیان کرتے ہیں:جمعہ کو جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن قریش دارالندوہ میں جمع ہوتے تھے، علامہ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عروبہ کا نام جمعہ اسلام میں مقبول ہوا۔ (علامہ ابن منظور افریقی، لسان العرب، جلد 8، صفحہ58۔59)

احادیث کی روشنی میں:

1۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:جو آدمی جمعہ کے روز غسل کرے اور حسبِ استطاعت طہارت کرے، تیل لگائے اور خوشبو لگائے، پھر اپنے گھر سے نماز جمعہ کے لئے نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر نماز پڑھے جو اس پر فرض کی گئی ہے، پھر جب امام خطبہ دے تو خاموش رہے، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (البخاری فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب الدھن للجمعہ1/301، رقم843)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے جمعہ کے روز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:اس میں ایک ساعت ہے، جو بندہ مسلمان اسے پائے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللہ پاک سے جو چیز مانگے گا، وہی عطا فرما دی جائے گی اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ قلیل وقت ہے۔ (البخاری فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب الساعۃفی یوم الجمعہ1/316، رقم893)

3۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: کہ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے لے کر دوسرا جمعہ پڑھنا، اور ایک رمضان کے روزوں کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا، ان کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کےلئے کفارہ بن جاتا ہے، جب تک گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے۔ (امام مسلم، الصلوۃ، باب ما جاء فی فضل الصلوات الخمس1/418، الرقم214)

4۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے اچھی طرح سے وضو کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیا اور خاموشی کے ساتھ غور سے خطبہ سنا، اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور فرمایاجس نے کنکریاں چھوئیں، اس نے لغو کام کیا۔ (مسلم فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب فضل من اسمتع وانعت فی الخطبۃ2/588، رقم857)

5۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، جمعہ کا دن ہے ،اس دن حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن وہ جنت سے اتارے گئے۔ (مسلم فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب فضل یوم الجمعہ 2/585، رقم854)

جمعہ کی پابندی کا درس:

نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلناحج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الکبری للبہیقی، ج3،ص342، ح5980 دارالکتب علمیہ)

جمعہ کی پابندی کرنا ہر مسلمان کے لئے فرضِ عین ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور سنتِ رسول کی ادائیگی کے لئے اس فرض کو ادا کریں۔


ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ  اللہ پاک نے ہمیں جمعہ جیسی نعمت سے نوازا ہے اور ہم اسے بھی غفلت میں گزار دیتے ہیں اور جمعہ کے دن ایک نیکی ستر نیکیوں کے برابر ہے۔

1۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:کہ کوئی جانور ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن صبح کے وقت، آفتاب نکلنے تک قیامت کے ڈر سے چیختا نہ ہو، سوائے آدمی اور جن کے۔ (مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 115، حدیث 246)

2۔سرکارِ مکہ مکرمہ، سردارِ مدینہ منورہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فر مانِ رحمت نشان ہے:کہ جمعہ کی ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پا کر اس وقت اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ پاک اس کو ضرور دے گا اور وہ گھڑی مختصر ہے۔(مسلم، صفحہ 424، حدیث 852)

3۔حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے؛کہ جمعہ کے دن جس ساعت (یعنی گھڑی) کی خواہش کی جاتی ہے، اسے عصر کے بعد سے غروبِ آفتاب تک تلاش کرو۔ (ترمذی، جلد 2، صفحہ 30، حدیث489)

4۔حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قبولیتِ دعا کی ساعتوں (یعنی گھڑیوں، وقتوں) کے بارے میں دو قول قوی(یعنی مضبوط) ہیں:

٭ امام کے خطبے کے لئے بیٹھنے سے ختم نماز تک

٭جمعہ کی پچھلی(یعنی آخری) ساعت۔ (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 754)

5۔حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم فرماتے ہیں:الجمعة حج المساكين۔یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ (الفردوس بما ثور الخطاب، ج1، ص333، ح2436)

مساکین مسکین کی جمع ہے، جو شخص حج کے لئے جانے سے عاجز ہو، اس کا جمعہ کے دن مسجد کی طرف جانا اس کے لئے مانند ہے۔ (فیض القدیر، جلد 3م صفحہ 474، تحت حدیث3636)


اللہ پاک  کا احسان کہ اللہ کریم نے مسلمانوں کو جمعۃ المبارک جیسے عظیم الشان دن سے نوازا، جمعہ کو یومِ عید کہا گیا ہے، جمعہ سیّدالایام سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ کے روز جہنم کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے، مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستر حج کے برابر ہے، جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ہے۔ (فیضان نماز، ص115)

جمعۃ المبارک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے قرآن کریم میں پوری سورت سورۃالجمعہ نازل فرمائی، اللہ پاک قرآن کریم میں 28 پارے میں سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر 9 میں فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے ذریعے اللہ پاک نے اسلام کو عزت بخشی اور اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا۔ (احیاء العلوم، جلد1، صفحہ 550)

تاریخی پسِ منظر:

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے، تو بارہ ربیع الاول 622 عیسوی، روز دوشنبہ(یعنی پیر شریف) کو چاشت کے وقت مقام قباء میں امامت فرمائی۔ (یعنی ٹھہرے) دوشنبہ(پیر شریف) سہ شنبہ(یعنی منگل) چہار شنبہ(یعنی بدھ) پنج شنبہ(جمعرات) یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی، روزِ جمعہ مدینہ طیبہ کا عزم فرمایا، بنی سالم ابن عوف کے بطنِ وادی میں جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا، سید عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں جمعہ ادا فرمایا، اور خطبہ فرمایا، الحمدللہ عزوجل آج بھی اس جگہ پر شاندار مسجد جمعہقائم ہے اور زائرین حصولِ برکت کے لئے اس کی زیارت کرتے اور وہاں نوافل ادا کرتے ہیں۔ ( فیضان جمعہ، صفحہ 2،3)

آئیے نماز جمعہ کی فضیلت و اہمیت کے متعلق 5 فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم ملاحظہ فرمائیے۔

1۔حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار نامدار، باذنِ پروردگار، دوعالم کے مالک و مختار، شہنشاہِ ابرار صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الجمعة حج المساکين۔یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ (جمع الجوامع للسیوطی، ج 4، ص84، حدیث11108)

2۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور عمرہ موجود ہے، لہذا جمعہ کی نماز کیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعدعصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الکبری للبہیقی، حدیث 590، ج3، ص342)

3۔ نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا اور اچھی طرح سے سے وضو کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیا اور خاموشی سے خطبہ سنا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استماع وانصت فی الخطبہ:857)

4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہ یں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ اس میں ایسی ساعت بھی ہے، جس کو مسلمان بندہ اس حال میں پالے کہ وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہا ہو، تو جو بھی اللہ سے مانگو، اللہ پاک اس کو ضرور عطا فرمائے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کے کم ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔(بخاری، کتاب الجمعہ، باب اساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، جلد1، صفحہ128)

5۔حضرت حکم بن میناء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا:لوگ جمعہ کو چھوڑنے سے باز آجائیں گے یا اللہ پاک ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا ،پھر وہ ضرور بے خبر لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔ (مسلم، کتاب الجمعہ، جلد 1، صفحہ 284)

جمعہ فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ مؤکد(یعنی تاکیدی)ہے اور اس کا منکر(یعنى انکار کرنے والا) کافر ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:جو شخص تین جمعہ (کی نماز) سستی کے سبب چھوڑے، اللہ پاک اس کے دل پر مہر کر دے گا۔ (ترمذی، جلد 2، صفحہ 38، حدیث 500)

ایک روایت میں ہے کہ ایسے شخص نے اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا۔ (مجمع الزوائد، کتاب الصلوۃ، ح3177)

اللہ کریم ہمیں نماز جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اللہ پاک  نے اپنے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے صدقے امتِ محمدیہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم پر جہاں اور بہت سے انعام و اکرام کئے ہیں، وہیں ایک بہت بڑا احسان جمعۃ المبارک عطا کرنے کی صورت میں کیا ہے، اس دن کی قدر و منزلت اس قدر ہے کہ اس کو یومِ عید بھی کہا جاتا ہے اور غریبوں کا حج بھی کہا گیا ہے، اس دن کو تمام دنوں کا سردار فرمایا گیا ہے، اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کے روز جہنم کی آگ کو سلگایا نہیں جاتا اور اس جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے اور اس سے بھی بڑی خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ جمعہ کے دن مرنے والا مسلمان خوش نصیب شہید کا مرتبہ پاتے ہیں اور قبر کے عذاب سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

اس دن کو جمعہ کا نام اس لئے دیا جاتا ہے، کیونکہ اس دن تمام مخلوقات وجود میں مجتمع یعنی اکٹھی ہوئیں اور اسی دن تکمیلِ خلق بھی ہوئی، اس دن تمام لوگ ایک جگہ جمع ہو کر جمعہ ادا کرتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی اسی دن جمع ہوئی، ان ہی وجوہات کی بنا پر اس کو جمعہ کہا جاتا ہے۔

اسلام سے پہلے اس کو عروبہ کہا جاتا تھا، جب آقا علیہ السلام مدینہ شریف ہجرت کر کے تشریف لائے تو بارہ ربیع الاول 622 عیسوی کو پیر شریف کے دن چاشت کے وقت مقامِ قباء میں ٹھہرے ۔

یہاں سے جمعہ کے دن مدینہ جانے کا ارادہ کیا تو بنی سالم ابن عوف وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آ گیا، اس جگہ کو مسجد بنایا اور وہاں آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے جمعہ ادا کیا، آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے اپنی زندگی میں 500 جمعہ ادا کئے۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ جمعہ کے دن رات میں 24 گھنٹے ہیں، کوئی گھنٹہ ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو، جن پر جہنم واجب ہو گیا تھا۔

اس کے علاوہ آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:کہ جو جمعہ کے دن نہائے، اس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور جب چلنا شروع کرے تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

ماشاءاللہ کتنا آسان طریقہ نیکیاں کمانے کا ارشاد فرما دیا، یہ انعام و اکرام ہم پر آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کی وجہ سے فرمایا گیا کہ اتنا عظمت والا دن ہم کو نصیب ہوا۔

آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے جمعہ کی نماز پڑھی، اس دن کا روزہ رکھا، کسی مریض کی عیادت کی، کسی جنازہ میں حاضر ہوا، کسی نکاح میں شرکت کی،تو جنت اس کے لئے واجب ہوگئی۔

ایک جگہ ارشاد فرمایا:جو شخص جمعہ کے روز اپنے والدین یا ایک کی قبر کی زیارت کرے اور اس کے پاس یٰسین پڑھے، بخش دیا جائے۔

آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ سورۃ الدخان پڑھے، اس کے لئے اللہ پاک جنت میں ایک گھر بنائے گا۔

کیا بات ہے جمعۃ المبارک کی!یقیناً اس دن کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور صرف خوش نصیب مسلمان ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اپنی بخشش کا سامان کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اس قدر فوائد وثمرات والے دن سے فائدہ نہ اٹھانا یقیناً بےوقوفی ہے، کیونکہ جمعہ کی نماز ادا کرنا جنت کو واجب کر دینے والے اعمال سے ہے، ہر مسلمان جنت کا طلبگار ہے، اس کے پاس جمعہ کا دن گولڈن چانس ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور خوب نیکیاں کمائیں۔

اللہ ہمیں اس دن کی اہمیت کو سمجھ کر اس کو نیکیوں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

واہ اے عطر ساز مہکنا تیرا

خوبرو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا

جمعہ کا ذکر قرآن کریم کی روشنی میں:

یا ایھا الذین آمنو اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الٰی ذکراللہ وذکروا البیع۔ذلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون۔ (پارہ 28، الجمعہ:9)

جمعہ سے مراد:

جمعہ کو جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے اس میں تمام خیر یعنی بھلائی کو جمع فرمایا ہے، چنانچہ جمعہ کے متعلق بہت سے اقوال مروی ہیں، چنانچہ مفسرِ شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کو جمعہ کہنے کی وجوہات کچھ یوں نقل فرماتے ہیں کہ

٭اس دن تکمیلِ خلق ہوئی۔

٭حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی مٹی اس دن جمع ہوئی۔

٭اسی دن میں لوگ جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں، اس لئے اس دن کو جمعہ کہتے ہیں۔ (مرآة المنا جیح، جمعہ کا باب،ج2، ص 317، بتغیر)

جمعہ کا شرعی حکم:

جمعہ فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت کے متعلق نمازِ ظہر سے زیادہ تاکید مروی ہے۔ (درِ مختار، تتمہ کتاب الصلوۃ، باب جمعہ3/5)

جمعۃ المبارک کے دن خاص عنایتیں:

ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ربّ کریم نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا، افسوس! ہم نا قدر جمعہ شریف کو بھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزار دیتے ہیں، حالانکہ جمعہ یومِ عید ہے، جمعہ سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ کے روزجہنم کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے، جمعہ کے بروزِ قیامت دلہن کی طرح اٹھایا جائے گا، جمعہ کے روز مرنے والا خوش نصیب مسلمان شہید کارتبہ پاتا اور عذابِ قبر سے محفوظ ہو جاتاہے۔

جمعہ کےدن نیکی کا ثواب اور گناہ کا عذاب:

مفسرِشہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستر حج کے برابر ہے، جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ہے، (چونکہ اس کا شرف بہت زیادہ ہے لہذا)جمعہ کے روز گناہ کا عذاب بھی ستر گنا ہے۔ (مرآة المنا جیح، جمعہ کا باب،ج2، ص 320)

فرمانِ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جو روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ مرے گا، عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مہر ہوگی۔ (حلية الاولياء، ج3،ص181، ح 3629)

سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان خوشبودار ہے:کہ جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ پاک اس کو ضرور دے گا۔ (مسلم، کتاب الجمعہ، باب فی اساعۃ التی فی یوم الجمعہ، صفحہ424، حدیث15۔852)

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جس نے جمعہ ادا کر لیا اور اس دن روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور نکاح میں حاضر ہوا تو اس کے لئےجنت واجب ہو گئی۔ (معجم کبیر، ج8، ص97، ح7484)

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جس نے جمعہ کا روزہ رکھا تو اللہ تبارک و تعالی اسے آخرت کے دس دنوں کے برابر اَجر عطا فرمائے اور وہ ایام (اپنی مقدار میں)ایامِ دنیا کی طرح نہیں ہیں۔ (شعب الایمان، جلد 3، ص393، حدیث3862)

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جمعہ کا غسل بال کی جڑوں سے خطائیں کھینچ لیتا ہے۔ (المعجم الکبیر8/256، حدیث7994)

جمعہ نہ پڑھنے، سستی کرنے کے بارے میں وعیدات و دیگر احادیث مبارکہ:

جہاں جمعۃ المبارک کو ادا کرنے کی فضیلتیں، عظمتیں، اجرو ثواب کا ذکر کیا گیا ہے، اسی کے ساتھ نہ پڑھنے پر وعیدات بھی ذکر کی گئی ہیں۔

فرمانِ مصطفی صلى اللهُ علیہ و اٰلہ وسلّم :جو شخص تین جمعہ کی نماز سستی کے سبب چھوڑ دے، اللہ پاک اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔ (مستدرک، کتاب الجمعہ، التشدید علی التخلف عن الجمعہ1/589، حدیث1120)

سب سے پہلے جمعہ پڑھنے والے صحابی:

سرکاردوعالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کے حکم سے سب سے پہلے جمعہ حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے پڑھا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3، صفحہ 145)

اول جائے صلوۃ الجمعہ:

سب سے پہلے نمازِ جمعہ مسجدنبوی نہیں، بلکہ حضرت سیدنا سعد بن خیثمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں ادا کی گئی۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3، صفحہ 145)

آغاز جمعۃ المبارک:

جمعۃ المبارک کا آغاز سرکار دو عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ شریف میں ہوا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3، صفحہ 145)

پیارے آقا کا پہلا جمعہ:

سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بارہ ربیع الاول پیر شریف کو چاشت کے وقت مقامِ قباء میں امامت فرمائی، پیر، منگل، بدھ اور جمعرات یہاں قیام فرمایا اور ایک مسجد کی بنیاد رکھی تھی، پھرجمعہ کے دن مدینہ شریف روانہ ہوئے، راستے میں بنی سالم ابن عوف بطن وادی میں جمعہ کا وقت ہوا تو اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور سرکار دوعالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں 16 ربیع الاول کو پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ (خزائن العرفان، پارہ 28، الجمعۃ، تحت الآیۃ9، حاشیہ نمبر 21)

نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے کل کتنے جمعے پڑھے:

سرکار دو عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں تقریباً پانچ سو جمعے ادا فرمائے۔ (مرآۃالمناجیح، خطبہ اور نماز2/346 ملخصاً)

غسلِ جمعہ کا آغاز، حکایت:

حضرت سیّدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ عراقی لوگ آئے اور بولے:اے ابنِ عباس! کیا آپ جمعہ کے دن کا غسل واجب سمجھتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، لیکن یہ بہت پاکی ہے اور غسل کرنے والے کے لئے اچھا ہے اور جو غسل نہ کرے، اس پر ضروری نہیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل شروع کیسے ہوا؟ لوگ مشقت میں تھے کہ اون پہنتے اور اپنی پیٹھ پر مزدور یاں کرتے تھے، ان کی مسجد تنگ تھی، جس کی چھت نیچے تھی، جو صرف چھیر(خس پوش) تھی، حضور انور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم ایک گرم دن میں تشریف لائے اور لوگ اسی اُون میں پسینہ پسینہ تھے، ان سے بو پھیل گئی، جس کی وجہ سے بعض نے بعض سے تکلیف پائی، تو جب رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے یہ بو پائی تو فرمایا: اے لوگو! جب یہ دن ہوا کرے تو نہا آیا کرو اور چاہئے کہ ہر ایک اپنا بہترین تیل و خوشبو مَل لیا کرے۔

حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:پھر اللہ پاک نےمال عطا فرمایا اور لوگوں نے اُون کے علاوہ دیگر اچھے لباس اور کام کاج سے چھوٹ گئے، ان کے مسجد فراخ ہوگئی اور پسینہ سے جو بعض کو بعض سے پہنچتی تھی، وہ جاتی رہی۔ (ابو داؤد، کتاب الطہارہ، باب فی الرخصۃ۔۔ال1/160، الحدیث353)

وضاحت:

مفسرِ شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے حصے:ہر ایک اپنا بہترین تیل و خوشبو مل لیا کرےکے تحت لکھتے ہیں:تیل سر اور جسم اور خوشبو کپڑوں میں، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مجمع میں، مجلسوں میں اچھے کپڑے پہن کر جانا چاہئے، شادی، عرس، تبلیغ کے جلسے، سب میں اس بات کا خیال رکھا جائے، مجلسوں میں ہار پھول ڈالنے کی اصل یہ حدیث ہے۔ (مرآۃالمناجیح1/348)

یہ تسلیم عمدہ ہے خوشبوئےجنت

مجھے کاش مل جائے ان کا پسینہ

نوٹ:

جمعۃ المبارک کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (درمختار، باب الجمعہ3/5)

جمعۃ المبارک کے دن زینت اختیار کرنا:

جمعہ کے دن زینت اختیار کرنا چاہئے، یعنی لباس و جسم کی صفائی کے ساتھ ساتھ مسواک کرنا چاہئے، خوشبو لگانی چاہئے ناخن ترشوانے چاہئے، حجامت بنوانا چاہئے، چنانچہ حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سلطانِ دو جہاں، شہنشاہِ کون و مکاں صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہےکہ جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت(یعنی پاکیزگی) کی استطاعت ہو، کرے اور خوشبو لگائے اور کم میں خوشبو ہو سکے، پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جدائی نہ کرے، یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں، ا نہیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نماز اس کے لئے لکھی گئی ہے، پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے ، اس کے لئے ان گناہوں کی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں، مغفرت ہو جائے گی۔ (بخاری، کتاب الجمعہ، باب الدھن للجمعہ: 306)

جمعہ کے 5خصوصی اعمال:

رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان معظم ہے: پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللہ پاک اس کو جنتی لکھ دے گا۔

٭ جو مریض کی عیادت کو جائے،٭ نماز جنازہ میں حاضر ہو،٭ روزہ رکھے،٭ نماز جمعہ کو جائے، ٭اور غلام آزاد کرے۔

دعائے خیر:

اللہ پاک میری اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس میں جو غلطیاں ہوئی ہیں، معاف فرمائے اور ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


ویسے تو ہر نماز کی ایک اپنی جگہ، اہمیت و فضیلت ذکر کیئے گئے ہے، لیکن جمعہ کی نماز کی فرضیت و اہمیت کہ کیا کہنے ہے کہ جمعہ کے دن کو صرف تمام دنوں کا سردار کہا گیا ہے تو نماز جمعہ کی کیا فضیلت و اہمیت ہوگئی چنانچہ

اللہ پاک نے جمعہ کی نماز کی فضیلت و اہمیت بیان کرنے کے لیئے 28 ویں پارہ کی ایک سورہ سورۃ الجمعہ کے نام سے نازل فرمائی، اس مبارک سورت میں اللہ پاک نے جمعہ کی نماز کی فرضیت کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ

اللہ پاک 28ویں پارہ کی سورت الجمعہ کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتا ہے،

یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ و ذروا البیع ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ (پارہ 28 سورہ الجمعہ آیت نمبر 9)

جمعہ کو جمعہ کیوں کہتے ہیں:

حضرت احمد یار خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ اس دن میں تمام مخلوقات وجود میں مجتمع ہوئی کہ تکمیل خلق اسی دن ہوئی، نیز حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی اسی دن جمع ہوئی نیز اس دن لوگ جمع ہو کر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں، ان وجوہ میں اسے جمعہ کہتے ہیں، اسلام سے پہلے اہلِ عرب اسے عروبہ کہتے تھے۔ (مرآۃ المناجیح 2/317)

آقا نے پہلا جمعہ کب ادا فرمایا:

آقا صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم نے پہلا جمعہ بنی سالم ابن عوف کے بطن وادی میں ادا فرمایا، اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم جب ہجرت کے لیئے مدینۂ منورہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاول (622ء) روز دو شنبہ (یعنی پیر شریف) کو چاشت کے وقت مقام قباء میں اقامت فرمائی اس کے بعد روز جمعہ مدینہ طیبہ کا عزم فرمایا، بنی سالم ابن عوف کے بطن وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنائی سرکار صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں جمعہ ادا فرمایااور خطبہ فرمایا اور الحمدللہ اب وہ مسجد جمعہ کے نام سے قائم ہے۔

سرکار نے کل کتنے جمعے ادا فرمائے:

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے کل پانچ سو (500) جمعہ ادا فرمائے، جمعہ بعد ہجرت شروع ہوا تھا جس کے بعد آپ دس سال آپ کی ظاہری زندگی شریف رہی اس عرصہ میں جمعے اتنے ہی ادا ہوتے ہیں۔ مرآۃ المناجیح 2/346

پانچ فرامین مصطفےٰ:

(1) صحابی ابن صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الجمعۃ حج المساکین یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ الجمعۃ حج الفقراء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع 4/184 حدیث 11108، 11109)

(2) حضور پرنور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان پر سرور ہے: جمعہ کے دن جس ساعت کی خواہش کی جاتی ہےاسے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔ (کتاب الجمعہ، ص146)

مفتی امجد علی اعظمی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے فرماتے ہیں: قبولیت دعا کی ساعتوں کے بارے میں دو قول ہے (1) امام خطبے کے لیئے بیٹھنے سے ختم نماز تک (2) جمعہ کی پچھلی (یعنی آخری) ساعت۔ (بہار شریعت 1/754 حصہ 4 ملتقطا)

(3) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سلطان دو جہاں صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت (یعنی پاکیزگی) کی استطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں انہیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نماز اس کے لیئے لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لیے ان گناہوں کی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں مغفرت ہو جائے گی۔ (بخاری کتاب الجمعۃ ص 272 حدیث 883)

(4) حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سلطان دو جہاں صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: جس نے جمعہ کی نماز پڑھی، اس دن کا روزہ رکھا، کسی مریض کی عیادت کی، کسی جنازہ میں حاضر ہوا ور کسی نکاح میں شرکت کی تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئی۔ (معجم کبیر 4/250 حدیث 7357)

جس طرح نماز جمعہ کا اہتمام کرنے میں اتنا ثواب و کرم ہے آئیے نماز جمعہ کے چھوڑنے کے بارے میں ملنے والے گناہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں چنانچہ

(5) اللہ پاک کے محبوب صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے: جو شخص تین جمعہ(کی نماز) سستی کے سبب چھوڑے اللہ اس کے دل پر مہر کر دے گا۔ (ترمذی ابواب الجمعۃ ص 149 حدیث 500)

جمعہ کی نماز فرض عین ہے اور یہ تمام باقی نمازوں سے افضل ہے۔ (تحفۃ المحتاج، کتاب صلاۃ الجمعۃ 1/404)

درس:

پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے مسلمانو! نماز جمعہ تمام نمازوں سے افضل و اہم ہے، جمعہ کے دن کی ایک نیکی ستر نیکیوں کے ثواب کے برابر ہے، تو ذرا غور کیجیے جمعہ کی نماز کی پابندی خوش و خضوع سے کرنے کی کتنی نیکیوں و گناہ سے نجات ملنے کا سبب ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان کو جمعہ کے دن و نماز کا خاص اہتمام کرنا چاہیے بلکہ تمام نمازوں کا خاص اہتمام چاہیے کیونکہ بروز قیامت یہی نمازیں ہماری نجات کا بنیادی سبب ہے۔