ابو منصور محمد تیمور عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور
، پاکستان)
والدین کے بعد سب سے زیادہ حق رشتہ داروں کا آیا ہے چنانچہ سب سے پہلے رشتہ داروں کا فرمایا
گیا کہ انہیں ان کا حق دو چنانچہ اللہ پاک نے قران پاک میں ارشاد فرمایا : فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ترجمۂ کنزالایمان: تو رشتہ دار کو ا س کا حق
دو ۔ ( سورۃ الروم آیت نمبر 38 )
یعنی اے وہ شخص!
جسے اللہ تعالیٰ نے وسیع رزق دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان
کر کے ا س کا حق دو ۔ (صراط لجنان)
(1)رشتہ
داروں کو نفقہ دینا: اس آیت
سے مَحْرَم رشتہ داروں کے نَفَقہ کا وُجوب
ثابت ہوتا ہے (جبکہ وہ محتاج ہوں )۔
(مدارک،
الروم، تحت الآیۃ: 38 ص909)
(2)
ثواب کا مستحق کون: اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمو د
اور رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ
محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کر ے وہی ثواب کا مستحق ہے۔( صراط الجنان)
(3)
صلہ رحمی کرنا : اُن
کے ساتھ صِلہ رحمی کرو ، ان سے محبت سے پیش آؤ۔ (تفسیر صراط الجنان، تحت الآیۃ، سورۃ بنی اسراءیل، آیت نمبر 26)
(4)
خبر گیری کرنا : ان سے میل جول رکھو اور ان کی خبر گیری کرتے رہو ۔ (تفسیر
صراط الجنان)
(5) رشتہ داروں کی مدد کرنا : ضرورت کے موقع پر ان کی مدد کرو اور ان کے ساتھ
ہر جگہ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ (تفسیر صراط الجنان)
رشتہ
داروں کا خرچ اٹھانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ
ہے کہ اگر رشتے دار مَحارم میں سے
ہوں اور محتاج ہوجائیں تو اُن کا خرچ اُٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور
صاحب ِاِستطاعت رشتہ دار پر لازم وواجب ہے۔ ( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: 25،
3 / 172)
کلیم اللہ چشتی عطّاری ( درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ سادھو کی لاہور ، پاکستان)
جس طرح انسان
پر معاشرے میں مختلف حقوق کی ادائیگی لازم ہے اسی طرح ہر انسان پر ذی رحم رشتہ
داروں کے حقوق کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے یہ حقوق معاشرے کے بنیادی اصولوں میں
شامل ہیں اگر ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان حقوق کی
پاسداری نہ صرف اخلاقی ذمہ داری بلکہ ایک دینی فریضہ بھی ہے یہ حقوق معاشرتی توازن
اور ہم آہنگی کی فضا کو قائم کرتے ہیں آئیے ان میں سے چند حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(1)صلہ
رحمی : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی کو یہ پسند
ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی و کشائش ہو اور عمردراز ملے تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیئے۔(
بخاری، الادب، باب من بسطہ فی الرزق لصلۃ الرحم، حديث:5985)
(2)صدقہ
کرنا: صدقہ کرنے میں سب سے زیادہ حقدار قریبی مستحق رشتہ دار ہیں ۔ رسول پاک صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : مسکینوں پر صدقہ کرنے سے ایک صدقے کا ثواب ملتا ہے
جب کہ رشتہ دار پر صدقہ کرنے سے دو صدقوں کا ثواب ملتا ہے۔ (سنن الترمذی،كتاب الزكاه،بابو ما جاء فی الصدقۃ على ذی القرابۃ، 142/2, الحديث658)
(3)
معاف کرنا : ہمیں چاہیے کہ ہمارے
رشتہ داروں میں سے اگر کسی سے کوئی غلط بات یا کوئی غلط کام صادر ہو جائے تو اسے
معاف کر دیا جائے معاف کرنے کی فضیلت کے حوالے سے رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان بھائی کو اس کی لغزش کے سبب چھوڑ دیا اللہ تعالی
قیامت میں اسے چھوڑ دے گا ۔ (شعب
الايمان السابع والخمسون من شعب،،،الخ فصل في ترک الغضب،،،الخ 313/6, الحديث
8310)
(4) حاجت کو پورا کرنا : رشتہ داروں کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی کسی
بھی حاجت وغیرہ کو پورا کیا جائے اور مسلمان بھائی کی حاجت کو پورا کرنے کا بہت زیادہ
ثواب ہے ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کی حاجت کو
پورا کرنے کے لیے دن یا رات میں سے ایک گھڑی بھی چلے خواہ وہ حاجت کو پورا کر سکے
یا نہ۔ اس کا یہ عمل اس کے لیے دو ماہ کے اعتکاف سے بہتر ہے ۔ (المعجم الاوسط 279/5 الحديث 7326)
(5) حسن
اخلاق: قریبی رشتہ داروں کے حقوق
میں سے ایک اہم حق یہ بھی ہے ان کے ساتھ ہمیشہ حسن اخلاق سے پیش آ یا جائے ۔ حضور
علیہ الصلوۃ والسلام سے سب سے افضل عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : حسن اخلاق ۔ (المعجم الكبير، 180/1 ، الحديث:
468)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں رشتہ داروں کے حقوق کا لحاظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جنید یونس بن یونس علی ( درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم ساھوکی لاہور ، پاکستان)
اسلام میں صلہ
رحمی، یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک، کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور قطع رحمی کو سختی
سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں صلہ رحمی سے رزق میں برکت اور عمر میں درازی کی
بشارت، جبکہ قطع رحمی کرنے والوں کے لیے جنت سے محرومی کی وعید ہے۔
(
1) رشتہ داروں سے اچھا سلوک : وَ
اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ
السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ
كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا
ترجمہ کنز العرفان : اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو
شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر
اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں
کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔ (سورۃ النساء پارہ 5 آیت 36)
(2) رشتہ داروں پر خرچ کرنا: اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی
الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ و
السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ
ترجمہ کنز
العرفان : اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ
داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی)
گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے ۔ (سورۃ البقرہ پارہ 2 آیت177 )
(3) اَلنَّبِیُّ
اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-وَ
اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى
اَوْلِیٰٓىٕكُمْ مَّعْرُوْفًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
ترجمہ کنز
العرفان : یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں
سے زیادہ مالک ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور مومنوں اور مہاجروں سے
زیادہ اللہ کی کتاب میں رشتے دار ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں مگر یہ کہ تم اپنے
دوستوں پر احسان کرو۔ یہ کتاب میں لکھاہوا ہے۔ (سورۃ الاحزاب پارہ 21 آیت6 )
(4) رزق کشادہ: رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:من
أحب أن يُبسط له في رزقه ويُنسأ له في أثره فليصل رحمه ترجمہ: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے
اور اس کی عمر دراز کی جائے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (صحیح بخاری: کتاب الادب،
باب صلۃ الرحم وتأكيدها، حدیث نمبر 5986)یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور اس میں صلہ
رحمی (رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک) کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
(5)قطع
تعلقی: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ ترجمہ:
قطع رحمی کرنے والا (رشتہ داروں سے تعلقات توڑنے والا) جنت میں داخل نہیں
ہوگا۔ (صحیح بخاری: کتاب الادب، باب اثم القاطع، حدیث
نمبر 5984)
یہ حدیث صلہ
رحمی کی اہمیت اور قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلقات توڑنا) کی سخت ممانعت کو واضح
کرتی ہے۔
عبید رضا آصف (درجۂ
رابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم
سادھوکی لاہور ، پاکستان)
ذو رحم
رشتےداروں کے حقوق اسلام میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن و سنت میں ان رشتہ داروں
کے ساتھ حسن سلوک، مدد، اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ذو
رحم رشتےدار وہ ہیں جن سے نسب یا قرابت کی بنا پر رشتہ ہے، جیسے والدین، بہن
بھائی، چچا، پھوپھی، خالہ، اور ان کے بچوں وغیرہ۔ذو رحم رشتہ داروں کے حقوق کے
حوالے سے قرآن مجید میں کئی آیات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک اہم آیت سورۃ النساء
پارہ (4) آیت (36) ہے :
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبَىٰ ترجمہ کنز العرفان : اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے
ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں سے ۔
یہ آیت نہ صرف
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو بیان کرتی ہے بلکہ ذو رحم رشتہ داروں کے ساتھ
بھی اچھے برتاؤ پر زور دیتی ہے۔ اس کے ذریعے اسلامی معاشرت میں رشتہ داروں کے حقوق
کی پاسداری کی تاکید کی گئی ہے۔چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے :
حضور علیہ
السلام نے ارشاد فرمایا :إِنَّ الرَّحِمَ شِعْبَةٌ مِنَ الرَّحْمَةِ، فَصَلُوهَا
يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ ترجمہ: رشتہ داری اللہ کی رحمت کی ایک شاخ ہے، اس کو
جوڑو، تاکہ اللہ تم پر رحم کرے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2556)
اس حدیث سے
ظاہر ہوتا ہے کہ ذو رحم رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور ان کے حقوق کا
خیال رکھنا اللہ کی رضا اور رحمت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات کے مطابق، ذو رحم رشتہ
داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی مدد کرنا، معاشرتی فلاح کی بنیاد ہے۔ ان کے
حقوق میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں:
(1)اخلاقی حسن سلوک : انہیں
محبت، عزت، اور احترام دینا۔
(2)مالی مدد :
ضرورت مند رشتہ داروں کی مالی مدد کرنا۔
(3)ملاقات اور رابطہ: انہیں وقت دینا اوران سے رابطے میں رہنا۔
(4)دعائیں: ان کے
لیے دعا کرنا اور ان کی فلاح کی خواہش کرنا۔
(5)مشورہ اور
مدد : مشکلات میں ان کی مدد کرنا اور
مشورہ دینا۔
(6)سخاوت اور قربانی : اپنے رشتہ داروں کی مدد کے لیے مالی اور غیر
مالی دونوں طرح کی قربانیاں دینا، جیسے ان کی بیماری میں عیادت کرنا یا ان کی مشکلات میں شریک ہونا۔
(7)جھگڑالو
اور متنازعہ مسائل میں صلح : خاندان میں
اگر کوئی جھگڑا یا تنازعہ ہو تو صلح کرانے کی کوشش کرنا، کیونکہ خاندان کی امانت
داری اور ہم آہنگی کو فروغ دینا اہم ہے۔وراثتی حقوق: ذو رحم رشتہ داروں کو ان کے
قانونی اور شرعی وراثتی حقوق دینا، کیونکہ وراثت میں ان کا حق ہوتا ہے۔
دینِ اسلام
میں ذو رحم رشتہ داروں کے حقوق کی پاسداری اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کو معاشرتی
استحکام اور فرد کی روحانیت کی بہتری کے لیے بہت اہم سمجھا گیا ہے۔
محمد
فیصل فانی بدایونی (درجہ عالمیہ سال اول جامعۃ المدینہ پیراگون سٹی لاہور)
ذو رحم یعنی قریبی رشتہ داروں کے حقوق اسلام میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ قراٰن و احادیث میں ان کے ساتھ حسن
سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے پر زور
دیا گیا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تو معاشرے میں امن و
امان اور پیار محبت کی فضا قائم ہوجائے گی۔ یہاں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ذو رحم رشتہ داروں کے 5حقوق پیش کئے جا
رہے ہیں:
(1)صلہ رحمی:حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
فرماتے ہوئے سنا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر دراز
ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔(بخاری،
4/97، حدیث:5985)
(2)رشتہ داروں کی مدد کرنا: حضرت سلمان بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار
کرے کیونکہ یہ باعث برکت ہے اور اگر کھجور نہ ہو تو پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ
پاک کرنے والا ہے۔ پھر فرمایا: مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہے لیکن رشتہ دار کو
صدقہ دینے پر دو مرتبہ صدقے کا ثواب ہے، ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔(ترمذی، 2/142، حدیث: 658)
(3)رشتہ داری جوڑو: حضرت
عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: (رشتہ داری کا حق یہ ہے کہ) جو تمہارے ساتھ تعلق توڑے، تم اس سے تعلق
جوڑو اور جو تمہیں محروم کرے، تم اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے، تم اسے معاف
کرو۔(دیکھئے: مسند احمد، 28/654، حدیث: 17452)
(4)والدین کے دوستوں کی عزت: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بہترین نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے والد سے محبت
کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔(ترمذی،
3/361، حدیث: 1910)
(5)معاف کرنا اور درگزر کرنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں جن سے میں تعلق جوڑتا ہوں
اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان سے نیکی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بُرائی کرتے
ہیں اور میں ان سے بردباری کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر واقعی ایسا ہی ہے جیسا تم نے
کہا ہے تو تم ان کو جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم ایسا ہی کرتے رہو گے تو
اللہ پاک کی طرف سے ایک مددگار ان کے مقابلے میں تمہارے ساتھ رہے گا۔(مسلم، ص 1062، حدیث: 6525)
محمد
لیاقت علی قادری رضوی ( درجہ سابعہ مرکزی جامعہ المدینہ فیضان مدینہ گجرات ،
پاکستان)
اللہ پاک نے
ہمارےپیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو
جوامع الکلم بنا کر مبعوث فرمایا۔
پیارے
آقا صلی اللہُ علیہ وسلم موقع بموقع
مختلف انداز میں اپنی امت کی اصلاح فرماتے
رہے، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے کئی احادیثِ مبارکہ میں چھ چیزوں
کو بیان فرما کر اپنی امت کی اصلاح فرمائی۔ ان احادیث میں چند احادیث طیبہ درج ذیل
ہیں :
(1)
چھ چیزیں نیکی میں شمار ہوتی ہیں: عن أبی ہریرۃ رضی اللہ
عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ست من البر: (إطعام الطعام، و إفشاء
السلام، و تشمیث العاطس، و اتباع الجنائز، و عیادة المریض، و إعطاء السائل) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھ چیزیں نیکی میں شمار ہوتی
ہیں: (1) کھانا کھلانا، (2) سلام کو عام کرنا، (3) چھینکنے والے کو دعا دینا، (4)
جنازے کے ساتھ جانا، (5) بیمار کی عیادت کرنا، (6) سوال کرنے والے کو دینا۔ (المعجم الأوسط للطبرانی ،جلد، 5
،صفحہ:331،حدیث نمبر:9488)
(2)
قیامت کے دن چھ حقوق: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ
عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ،
وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا
مَاتَ فَاتَّبِعْهُ ترجمہ: مسلمان
کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں:(01) جب اس سے ملو تو سلام کرو، (02)جب وہ تمہیں دعوت دے
تو قبول کرو، (03)جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو نصیحت کرو، (04)جب وہ چھینکے اور
الحمدللہ کہے تو اسے دعا دو،(05) جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرو، (06)اور جب وہ فوت
ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔ (صحیح مسلم ،جلد: 4،صفحہ: 1705،حدیث نمبر: 2162)
(3)
شہید کے چھ فضائل: عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي
كَرِبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلشَّهِيدِ عِنْدَ
اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ: يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ، وَيُرَى
مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَيُؤْمَنُ مِنَ
الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ، وَيُحَلَّى حُلَّةَ الْإِيمَانِ، وَيُزَوَّجُ ثِنْتَيْنِ
وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ
أَقَارِبِه۔ ترجمہ: اللہ کے نزدیک
شہید کے چھ فضائل ہیں:(1) اس کے خون کا
پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ (2) اسے جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا ہے۔ (3) اسے قبر کے عذاب سے نجات ملتی ہے۔ (4) قیامت کے بڑے خوف (فزعِ اکبر) سے محفوظ رہتا ہے۔
(5) اسے ایمان کی حلہ پہنائی جاتی ہے۔ (6)
72 حوروں سے اس کا نکاح کیا جاتا ہے، اور اسے 70 رشتہ داروں کی
شفاعت کا حق دیا جاتا ہے۔ ( سنن الترمذی،جلد:4 ،صفحہ:187،حدیث نمبر:1663)
(4)
مجھے انبیاء پر چھ چیزوں کے ذریعے فضلیت دی گئی : عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى
الله عليه وسلم، قال: فضلت على الانبياء
بست، اعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب، واحلت لي الغنائم، وجعلت لي الارض طهورا
ومسجدا، وارسلت إلى الخلق كافة، وختم بي النبيون ترجمہ۔ حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: مجھے دوسرے انبیاء پر چھ چیزوں کے
ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے:(01) مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں (02)(دشمنوں پر)
رعب ودبدے کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے (03)میرے لیے اموال غنیمت حلال کر دیے
گئے ہیں (04)زمین کومیرے لیے پاک کرنے
والی اور سجدہ گاہ بنا دیا گیا (05)مجھے
تمام مخلوق کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہے (07) اور میرے ذریعے نبیوں (کی آمد)
پر مہر لگا دی گئی ۔( صحیح مسلم ،کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ،ج،1،ص،371،بیروت)
محمد امجد عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ
راولپنڈی ، پاکستان)
کسی کی تربیت
کرنے کا مطلب اسے آداب سکھانا، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لوگوں کی
طرف اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو دین ودنیا کے آداب سکھائے جائیں اور ان کی تربیت کی جائے۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف اوقات میں اور مختلف انداز ( میں
کبھی اقوال سے اور کبھی افعال)سے اپنے غلاموں کی تربیت فرمائی۔کبھی حضورصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انداز یہ رہا کہ آپ نے اعداد میں
اپنی امت کی تربیت فرمائی۔درج ذیل میں حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ پانچ فرامین مبارک کو بیان کیا جائیے
گا ۔جن میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ وَسَلَّمَ نے چھ چیزوں کو ذکر
فرما کر اپنی امت کی رہنمائی فرمائی:
(1)مسلمان
کے چھ حقوق ہیں: حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں (1)جب اس سے ملے تو اسے بھلائی کے ساتھ
سلام کرے (2) جب وہ بلائے تو دعوت قبول کرے(3) جب چھینکے یہ جواب دے
(4) جب بیمار ہو عیادت کرے(5) جب وہ مرجائے اس کے جنازے کے ساتھ جائے
(6) جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ (سنن
الترمذی،کتاب الادب،باب ماجاء فی تشمیت العاطس، ،ج 4،ص338 الحدیث:2745 )
(2)چھ
چیزوں سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو(1) سورج کے
مغرب سے طلوع ہونے (2)دھوئیں (3)دجال
(4)دابۃُ الارض(6،5) تم میں سے کسی ایک کی موت سب کی موت (یعنی قیامت ) سے
پہلے۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص 1579 ،
الحدیث: 7398)
(3)چھ
چیزوں کی وجہ سے جنت کی ضمانت دیتا ہوں: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ میں تمہارے لیے جنت
کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (1)جب بات کرو سچ بولو (2) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو (3) جب
تمہارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو (4)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (5) اپنی نگاہیں نیچی رکھو (6)
اپنے ہاتھوں کو روکو۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن
الصامت رضی اللہ عنہ،413/8 حدیث 9630 بیروت)
(4)راہ
خدا میں شہید ہونے کے چھ فضائل:
حضرت مقدام بن
معدیکرب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے، نبی اکرم
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید کے لئے چھ خصلتیں
ہیں ، (1)خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کی بخشش ہو جاتی ہے (2)جنت میں اپنا
ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ (3)قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ (4)سب سے بڑی گھبراہٹ سے
امن میں رہے گا۔ (5)اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک
یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ (6)بڑی آنکھوں والی 72 حوریں ا س
کے نکاح میں دی جائیں گی اور ا س کے ستر رشتہ داروں کے حق
میں ا س کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب
الشہید،250/3 ، الحدیث: 1669)
(5)چھ
آدمیوں پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: چھ قسم کے لوگوں پر میں نے لعنت کی اور اللہ نے بھی ان پر
لعنت کی ، اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے (1)اللہ
کی کتاب میں اضافہ کرنے والا ،(2)اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا ، (3)طاقت کے بل
بوتے پر مسلط ہونے والا شخص تاکہ وہ کسی ایسے شخص کو معزز بنائے جسے اللہ نے ذلیل
بنایا ہو ، اور کسی ایسے شخص کو ذلیل بنا دے جسے اللہ نے معزز بنایا ہو ،(4) اللہ
کے حرم کی بے حرمتی کرنے والا ، (5)میری اولاد کی بے حرمتی کرنے والا (6) میری سنت
کو ترک کرنے والا ۔‘‘ (مشکوة المصابیح ج1ص
26حدیث109 )
علی
اکبر ( درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ،
پاکستان)
ہمارے پیارے
آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب اس دنیا میں تشریف آوری ہوئی تواس
وقت لوگ اللہ عزوجل کی نافرمانیوں میں لگے ہوئے تھے اس وقت سود عام تھا زنا عام
تھا ماں باپ کی کوئی عزت نہ تھی لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے تو اللہ تعالیٰ
نے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا
بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی فرمائی اور لوگوں
کو سیدھے راستے پر چلایا آئیے حدیث پاک کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔
(
حدیث 1) چھ چیز وں سے بزرگی:روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول
الله نے فرمایا مجھ کو تمام پیغمبروں پر چھ چیزوں سے بزرگی دی گئی مجھے جامع الفاظ
دیئے گئے ،ہیبت سے میری مدد کی گئی،میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئیں اور میرے لیے
ساری زمین مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنائی گئی اور میں ساری مخلوق کی طرف بھیجا گیا
اور مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ ( مراٰة
المناجيح، شرح مشكوة المصابيح جلد: 8،
حدیث نمبر : 5748)
(حدیث
2) چھ چیزوں کا ذکر: آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا :سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور، نمک اور
فرمایا کہ جب سونا، سونے کے بدلے چاندی، چاندی کے بدلے گیہوں، گیہوں کے بدلے جو،
جو کے بدلے کھجور کھجور کے بدلے، نمک نمک کے بدلے فروخت کیا جائے، تو برابر ہونا
چاہیے، اور ایک ہاتھ لے اور دوسرے ہاتھ دے، کمی بیشی سود ہے۔ (صحيح مسلم، باب الصرف، رقم الحديث:1587)
(حدیث
3) چھ چیز وں کی ذمہ داری : حضرت
عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صَلَّى اللَّه تَعَالَى
عَلَيْهِ والِہ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تم لو گ اپنی طرف سے میرے لیے چھ چیزوں کی
ذمہ داری قبول کرلو تو میں تمہارے لیے جنت کی ذمہ داری لیتا ہوں ۔ (۱) جب بات کرو تو سچ بولو (۲) جب کوئی وعدہ کرو اس کو پورا کرو (۳) جب کوئی امانت تم کو سونپی جائے تو اس امانت کو ادا کرو
(۴) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (۵) اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو (۶) اپنے ہاتھوں کو ہر ظلم و مَعْصِیت سے ) روکے رکھو۔ ( منتخب
حدیثیں، حدیث نمبر : 25)
(
حدیث 4) مومن کے مومن پر چھ حق : روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ
وسلم نے کہ مؤمن کے مؤمن پر چھ حق ہیں جب وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی کرے اور جب
مرجاوے تو جنازہ پر حاضر ہو جب دعوت دے تو قبول کرے ، جب اس سے ملے تو اسے سلام
کرے اور جب چھینکے تو جواب دے اور اس کی خیر خواہی کرے جب وہ غائب ہو یا حاضر ۔ (
کتاب مرآة المناجيح شرح مشكوة المصابيح جلد : 6، حدیث نمبر : 4630 )
(حدیث
5) چھ آدمیوں پر لعنت: روایت ہے حضرت عائشہ
سے فرماتی ہیں: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے چھ آدمی وہ ہیں جن پر میں نے اور اللہ نے لعنت کی اور ہر نبی مقبول
الدعا ہے ،(1) اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا، (2)اللہ کی تقدیر کا انکاری، (3)جبرا قبضہ جمانے
والا تاکہ انہیں ذلیل کرے جنہیں اللہ نے عزت دی اور انہیں عزت دے جنہیں اللہ نے
ذلیل کیا ،(4)اللہ کے حرام کو حلال سمجھنے والا ،(5) میری آل کے متعلق وہ باتیں
حلال سمجھنے والا جنہیں اللہ نے حرام کیا اور(6) میری سنت کو چھوڑنے والا۔ (مرآة
المناجيح شرح مشكوة المصابيح جلد : 1،
حدیث نمبر : 109)
تربیت کی
اہمیت یعنی قدرو منزلت اور ضرورت کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ ربِّ کریم جَلَّ
جَلاَلُہٗ اپنے محبوبِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو اِس کے آداب اِرشاد فرما رہا ہے ۔ چنانچہ پارہ
۱۴ سُورۂ نَحْل آیت نمبر ۱۲۵ میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمۂ کَنْزُ العرفان : اپنے رب
کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو
جو سب سے اچھا ہو ۔
تربیت کی مثال
بالکل اس طرح ہے جس طرح ایک کسان کھیتی باڑی کے دوران اپنی فصل سے غیر ضروری گھاس
اور جڑی بوٹیاں نکال دیتا ہے تاکہ فصل کی ہریالی اور نشوونما میں کمی نہ آئے۔حضور
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مختلف مواقع پر اپنے
اقوال اور افعال کے ذریعے سے تربیت فرمائی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی متعدد احادیثِ
طیبات میں چھ چیزوں کے بیان سے تربیت کرنا ملتا ہے۔ کہیں ان میں آپ نے نیک اعمال
کی ترغیب (شوق دلایا) ہے تو کہیں آپ نے گناہوں سے ترہیب (ڈرایا) ہے ان احادیث میں
سے چند ملاحظہ فرمائیں:
(1)
میں چھ چیزوں سے خوفزدہ ہوں: حضرت سیِّدُنا عوف بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : میں چھ
چیزوں سے خوفزدہ ہوں : (۱)بیوقوفوں کی حکمرانی (۲)رشوت کے
فیصلوں (۳)سپاہیوں کی کثرت (۴)قطع رحمی (۵) ایسی قوم سے جو قرآن کو موسیقی کے طرز پر پڑھے گی ، اور
(۶)قتلِ ناحق ۔ (مسند احمد، ۹/ ۲۵۲حدیث : ۲۴۰۲۵)
(2)
چھ (6)چیزوں کی ضمانت: حضرت
سَیِّدُنَا عُبَادہ بن صَامِت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سُلطانِ بَحْر و بَر، مَدینے کے تَاجْوَر،
مَحْبُوبِ رَبِّ اَکْبَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا کہ ’’تم مجھے چھ (6) چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جَنّت کی ضمانت دیتا
ہوں (۱) جب بولو
تو سچ بولو (۲)جب وعدہ کرو تو اُسے پورا
کرو (۳) جب امانت لو تو اُسے ادا کرو (۴) اپنی
شرمگاہوں کی حِفاظت کرو (۵) اپنی
نگاہیں نیچی رکھا کرو اور (۶) اپنے
ہاتھوں کو روکے رکھو ۔ (الاحسان بترتیب
صحیح ابن حبان ، کتاب البر والصلۃ والاحسان۔۔الخ ، باب الصدق۔۔۔الخ ، حدیث ۲۷۱ ، ج۱، ص ۲۴۵)
ہم جائیں گے فردوس میں رِضواں سے یہ کہہ کر
روکو نہ ہمیں ہم ہیں غلامانِ محمد
(3) حضور نبی
اکرم، رسول اعظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد
فرمایا:چھ قسم کے لوگ چھ چیزوں کے سبب جہنم میں جائیں گے: (۱)عرب عصبیت
(اپنوں کی بے جا حمایت اور دوسروں سے نفرت )کی وجہ سے (۲)حکمران ظلم کی وجہ سے (۳)سردار تکبُّر کی وجہ سے (۴)تاجر خیانت کی وجہ سے (۵)دیہات والے جہالت کی وجہ سے اور (۶)علما حسد
کی وجہ سے ۔(التفسیرالکبیر،سورة البقرة،تحت الآيۃ:۱۰۹ ،۱/۶۴۵مسندالفردوس،۱/۴۴۴،حدیث:۳۳۰۹)
(4) دافِعِ
رنج و مَلال، صاحب جُود و نوال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : چھ چیزیں عمل کو ضائع
کر دیتی ہیں : (۱)مخلوق کے عیوب کی ٹوہ میں
لگے رہنا (۲)قَساوتِ قلبی (۳)دنیاکی محبت (۴)حیا
کی کمی (۵)لمبی اُمید اور (۶)حد سے زیادہ ظُلْم کرنا ۔ (کنز العمال ، جزء ۱۶ ، ۸ / ۳۶ حدیث
: ۴۴۰۱۶)
اللہ پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو جہاں دیگر معجزات سے نوازا وہیں آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو ایک معجزہ یہ بھی عطا کیا گیا کہ آپ جامع الکلم تھے یعنی آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے الفاظ کم ہوتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم زیادہ۔ بعض احادیثِ مبارکہ میں حضورِ اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 6اہم باتوں کا ذکر فرما کر مسلمانوں کی تربیت
فرمائی ہے، یہ احادیث ہمارے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہیں، آیئے! 4احادیثِ مبارکہ
ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)6حقوق المسلمین: حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ کیا ہیں:(۱)جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو (۲)جب وہ تمہیں دعوت دے تو قبول کرو (۳)جب
وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو (۴)جب اسے چھینک آئے اور وہ اللہ پاک کی حمد کرے تو اس کا جواب دو (۵)جب وہ بیمار ہو تو اس
کی عیادت کرو اور (۶)جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو۔(مسلم، ص919، حدیث:
5651)
(2)شہید کی چھ فضیلتیں: حضرت مِقدام بن مَعدی کرب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے یہاں شہید کو چھ خصلتیں حاصل ہوں
گی: (1)پہلی بار ہی اسے بخش دیا جائے گا (2)اسے جنّت کا ٹھکانا دکھا دیا جائے گا
(3)اسے قبر کے عذاب سے امان دی جاتی ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا
(4)اس کے سَر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت موتی دنیا اور جو کچھ اس
میں ہے اس سے بہتر ہوگا (5)بہتّر(72)حوروں سے اُس کا نکاح کیا جائے گا (6)ستّر(70)
قریبی رشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔(ترمذی، 3/250، حدیث:1669)
(3)سچے مسلمان کی چھ خصلتیں: حضرت ابو سعید رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا:جس مسلمان میں یہ چھ اوصاف ہیں وہ
سچا مسلمان ہے: (۱)مکمل وُضو کرنے والا
(۲)سخت بارش کے دن نماز کے لئے جلدی مسجد جانے والا (۳)سخت گرمیوں میں کثرت سے روزے رکھنے والا (۴)(جہاد
میں)دشمنوں کو تلوار (ہتھیار) سے قتل کرنے والا (۵)مصیبت پر صبر کرنے والا (۶)حق
پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑا ختم کرنے والا۔(الفردوس بماثور الخطاب، 2/326،
حدیث: 3458)
(4)چھ چیزوں کی ضمانت: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی
ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: (1)جب بولو تو سچ بولو (2)جب
وعدہ کرو تو پورا کرو (3)جب تمہارے پاس امانت
رکھوائی جائے تو اس میں خیانت نہ کرو (4)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (5)اپنی نظریں نیچی رکھو (6)اپنے ہاتھوں کو
ظلم سے روکو۔(مسند احمد، 37/417، حدیث:
22757)
علی شان (درجہ ثانیہ مرکزی
جامعۃالمدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
نصیحت کا مطلب
ہمدردی اور خیر خواہی کرناہے۔ہر نبی علیہ
السلام نے اپنے دورِ نبوت میں اپنی قوم کی
بھلائی کے لیے مختلف نصیحتیں کیں۔ان میں سے چند انبیاءکرام علیہ السلام کی نصیحتوں
کو قرآن کریم نے بیان کیا ہےان میں سے حضرت ھود علیہ السلام کی چند نصیحتوں کو ذیل
میں بیان کیا جاتا ہے۔
(1)
دعوتِ دین: حضرت ھود علیہ السلام
نے جو نصیحت فرمائی قرآن پاک میں اس کا ایسے تذکرہ آیا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمۂ
کنز الایمان: کہااے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔ (سورۃالاعراف 65)
(2)
کفار کے ردِ عمل پر جواب: جب ھود
علیہ السلام نے اپنی قوم کو وحدانیت کی دعوت دی تو کفار نے کہا کہ آپ ہمیں حماقت
کا شکار لگتے ہیں کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین کو مانتے ہیں۔ اس پر
حضرت ھود علیہ السلام نے جواب دیا اس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے : اَوَ
عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ ترجمۂ
کنز الایمان: اور کیا تمہیں اس کا اچنبھا
ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت
کہ وہ تمہیں ڈرائے۔ (سورۃالاعراف69)
(3)
انعامات یاد دلا کر نصیحت: حضرت
ھود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پاک کے
انعامات یاد کرواکر نصیحت کی کہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ پاک نے
تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور
تمہیں زیادہ قوت و طاقت دی تو تمہیں چاہیے کہ ان نعمتوں کو یاد کرو اور شکرانے کے
طور پر ایمان لا کر اللہ پاک کی عبادت کرو
تاکہ فلاح حاصل کر سکو۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَ
اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی
الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا
اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا
ہو۔ (الاعراف 69)
(4) بُرے معمولات پر
نصیحت: حضرت ھود علیہ السلام کی
قوم کا معمول تھا کہ وہ بلند عمارات بناتے اور لوگوں کو نا حق تنگ کرتے اور غرور و
تکبر کے باعث بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے چنانچہ انہیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت ھود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً
تَعْبَثُوْنَ(۱۲۸) وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ
تَخْلُدُوْنَۚ(۱۲۹) وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ(۱۳۰) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۳۱) وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا
تَعْلَمُوْنَۚ(۱۳۲) اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَۚۙ(۱۳۳) وَ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۚ(۱۳۴) اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ
عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍؕ(۱۳۵)
ترجمۂ کنز الایمان : کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں
سے ہنسنے کو۔اور مضبوط محل چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے۔ اور جب کسی پر
گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہو۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو.اور
اس سے ڈرو جس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے کہ تمہیں معلوم ہیں ۔تمہاری مدد کی
چوپایوں اور بیٹوں ۔اور باغوں اور چشموں سے۔بیشک مجھے تم پر ڈر ہے ایک بڑے دن کے
عذاب کا۔ (سورۃالشعرآء: 128تا135)
محمد
سلمان الحنفی (درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور،
پاکستان)
انسانی زندگی
میں نصیحت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بزرگوں کی نصیحتوں کے بغیر حالات کی تاریکیوں
سے بچنا ناممکن سا ہے۔ زندگی میں کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو اس کی خوشبو سے محروم
رہے ہوں۔ انبیاء کرام علیہم السلام صف اول کی ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قوموں
کو نصیحتوں کے پھول عطا کیے جن لوگوں نے ان کی نصیحتوں کو اپنے سینے سے لگایا وہ
ابدی نعمتوں سے سرفراز ہوئے اور مخالفت کرنے والے دردناک عذاب کے مستحق ہوئے۔ حضرت
ہود علیہ السلام کی کچھ نصیحتیں جو انہوں نے اپنی قوم عاد کو کیں آئیے ملاحظہ
کیجیئے:
(1)
ایک معبود کی عبادت : حضرت ہود
علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ایک الله کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ
تمہارا کوئی معبود نہیں جیسا کہ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ
اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمۂ کنز
الایمان: اور عاد کی طرف ان کی برادری سے
ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں
تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(پ8،اعراف:65)
(2)
الله سے ڈرنا : حضرت ہود علیہ
السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ الله تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِذْ قَالَ
لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(124)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(125)فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ (126) ترجمۂ کنز الایمان: جب کہ ان سے ان کے ہم قوم ہود نے فرمایا کیا تم
ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور
میرا حکم مانو۔(پ19، الشعراء124-126)
تفسیر:
خلاصہ یہ ہے
کہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ’’عاد‘‘ نے انہیں اس وقت جھٹلایا جب آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: تم جس کفر و شرک
میں مبتلا ہو،کیا اس پر تم اللہ تعالٰی کے
عذاب سے ڈرتے نہیں ۔بیشک میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا رسول ہوں جس کی امانت
داری تم میں مشہور ہے اور میں اللہ تعالٰی کی وحی کا امین ہوں تو تم مجھے جھٹلانے
میں اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں جو حکم دوں اس میں میری
اطاعت کرو۔ (صراط الجنان 7 /128، مکتبۃ المدینہ)
(3)
استغفار کرنا : حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اپنی
خطاؤں پر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرو جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ یٰقَوْمِ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ
مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا
مُجْرِمِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم اپنے رب سے
معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ تم پر زور کا پانی بھیجے گا اور تم میں جتنی
قوت ہے اس سے اور زیادہ دے گا اور جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو۔(پ12، ھود52)
تفسیر:
جب قومِ عاد
نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے کفر کے سبب
تین سال تک بارش موقوف کردی اور نہایت شدید قحط نمودار ہوا اور اُن کی عورتوں کو
بانجھ کردیا، جب یہ لوگ بہت پریشان ہوئے تو حضرت ہود علیہ السلام نے وعدہ فرمایا
کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول کی تصدیق کریں اور اس کے
حضور توبہ و اِستغفار کریں تو اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا اور اُن کی زمینوں کو
سرسبز و شاداب کرکے تازہ زندگی عطا فرمائے گا اور قوت و اَولاد دے گا۔(صراط الجنان
4/ 450-451،مکتبۃ المدینہ)
Dawateislami