الحمد للہ دین اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر ہر لحاظ سے انسان کے معاشرتی و اخلاقی تربیت کی ہے اور قرآن کریم و احادیث طیبہ میں کئی مقامات پر اسکی مثالیں ملتی ہیں چاہے بندہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ آقا ہو یا غلام امیر ہو یا فقیر مالک ہو یا نوکر استاد ہو یا شاگرد(وعلی ھذا القیاس)لیکن آج کل معاشرے میں جس ذلت و رسوائی کا سامنا ایک ملازم و نوکر کو کرنا پڑتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق بیان فرماائے ہیں وہیں نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائیں ہیں۔ چند ایک حقوق ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:

فرمان نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ فقرا کو پہچانو، ان سے بھلائی کرو انکے کے پاس دولت ہے پوچھا گیا کونسی دولت ہے؟ فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا اللہ پاک ان سے فرمائے گا جس نے تمہیں کھلایا پلایا ہو یا کپڑا پہنایا ہو اسکا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جاؤ۔ (مکاشفتہ القلوب)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ایک غلام کو مار رہے تھا آواز آئی کہ اے ابو مسعود انصاری ! آپ اس طرف پھرے، کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اور فرما رہے ہیں کہ جتنی قدرت تو اس غلام پر رکھتا ہے اس سے زیادہ خدائے تعالیٰ تجھ پر رکھتا ہے۔ (کیمیائے سعادت صفحہ نمبر 320)

لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ انکو روٹی سالن اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور یہ بھی خیال کرے کہ یہ میری طرح بندے ہے اور اگر ان سے کوئی قصور سر زد ہوجائے تو آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے انکا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔ (کیمیائے سعادت، صفحہ نمبر 320)

اللہ پاک ہمیں اپنے متعلقین اور ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

دنیا میں ایسا کوئی بھی طبقہ نہیں جس کے متعلق ہمارے پیارے دین نے معتدل رہنمائی نہ دی ہو۔ نوکروں، ملازموں، اور مزدوروں کے حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات میں واضح رہنمائی ہے۔ جس طرح اسلام نے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو حقوق دیئے ہیں اسی طرح نوکروں اور ملازمین کو بھی حقوق دیئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

ساتھ حُسنِ سلوک کرنا:نوکروں اور ملازموں کے ساتھ اچھے اخلاق سے بات کرنا اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا یہ انکا حق اور ہماری اخلاقی ذمےداری ہے۔

طاقت سے زیادہ کام نہ کروانا:اُن سے اتنا ہی کام کروایا جائے جتنی اُن میں طاقت ہو اگر اسکے برعکس کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے انہیں اتنے زیادہ کام کا مکلف نہ کرو کہ وہ ان کی طاقت سےزیادہ ہو، اگر ایسا کرو تو ان کی مُعاوَنت بھی کرو۔ (بخاری، 1/23، حدیث:30، اللامع الصبیح شرح الجامع الصحیح،1/210، تحت الحدیث: 30)

وقت پر اجرت دینا:انہیں وقت پر اُن کی اجرت یا تنخواہ دینا اخلاقی اور شرعی دونوں طرح سے بہت ضروری ہے اس سے انکا دل بھی خوش ہوگا اور کوئی فساد بھی برپا نہ ہوگا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: مزدور کا پسينہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔(ابن ماجہ،3/162، حدیث:2443)

انہیں تحفظ فراہم کرنا:اسلام ملازموں کو جانی و مالی تحفظ دینے میں بھی سب سے آگے ہے۔اگر ہم کسی شخص کو ملازمت پر رکھیں خواہ وہ گھر کے کام کاج کے لیے رکھیں یا کاروبار میں مدد کے لیے تو اسے ہر طرح سے تحفظ دینا ہماری ذمےداری ہے۔ نوکروں اور ملازمین کا یہ بھی حق ہے کہ انہیں جن کاموں کی اجرت دی جاتی ہو اُن سے صرف وہی کام کروائے جائیں۔

انکا ادب و احترام کرنا:ملازمین کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے ان سے نرمی سے بات کرنی چاہیے اور اپنے گھر والوں کو بھی یہ تلقین کرنے چاہیے کے وہ بھی ایسا ہی کریں اگر اُنسے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو پیار سے اور اکیلے میں سمجھایا جائے نہ کے سب سے سامنے جھاڑ دیا جائے۔اگر وہ زیادہ عمر کے ہوں تو انکا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے۔

انہیں بہترین اجرت دینا:دور حاضر میں ملازمین کو اتنی اجرت دے جاتی ہے کے اس سے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہوجاتا ہےاور اکثر ملازمین معاشی اعتبار سے کمزور سے کمزور ترین ہوجاتے ہیں لہٰذا انہیں اتنی اجرت دی جائے جیسے انکا گزر بسر اچھا ہوسکے۔

اُنکی جسمانی صحت کا خیال رکھا جائے:اِنسانی جسم کو راحت و آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کا فطری تقاضا بھی ہے۔لہٰذا ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔

اچھے کام پر حوصلہ افزائی کرنا:اگر نوکر اپنے کام کو بخوبی مکمل کریں یہ کوئی ایسا کام کرے جس سے ملک کو فائدہ ہو تو مالک کو چاہیے کہ وہ اسکی تعریف کرے اسکی حوصلا افزائی کرے اور ممکن ہو تو اسے تحفہ بھی دے۔

انہیں فرائض و واجبات کی تلقین کرنا اور سہولت دینا:انہیں فرائض و واجبات کی تلقین کرنا اور سہولت دینا بھی اُنکی حقوق میں شامل ہے مثلا جب نماز کا وقت ہو تو اُنھیں نماز پڑھنے کا وقت دینا لازم ہے اور بہتر جگہ فراہم کی جائے۔

اسلام نے نوکروں اور ملازمین کے حقوق کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔ اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ انکے حقوق میں ذرا برابر بھی کوتاہی نا برتی جائے۔ ابھی جو معاشی حالات چل رہے ہیں اس میں ہمیں چاہیے کہ ایسے طبقے کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے اور اُنکی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

اللہ کریم ہم سب کو نوکر و ملازمین کے حقوق مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

اللہ کے نزدیک وہ افضل ہے کہ جو متقی ہو، اللہ نے مال ودولت، عقل و فہم، جاہ و منصب میں فرق اس لئے رکھا کہ مالدار غریب سے، عہدیدار ماتحت سے، عقل و فہم میں بلند رتبہ شخص اپنے سے کم عقل و فہم والے سے کام لے سکے، ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ملازموں کا بھی ہے۔ آئیے ان کے چند حقوق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

حسن سلوک: نیکی اور خیر کے کاموں میں حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے، ہمیں بھی ملازموں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے ان سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔

اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی بروقت کرنی چاہیے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ میں بلاوجہ کٹوتی کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔

عفوودرگزر سے کام لینا:دنیا میں ہر انسان بتقضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے، ملازم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، ملازم چونکہ ہمیں آرام پہنچانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ہماری خدمت کرتا ہے تو بعض اوقات وہ ایسا کام کرتا ہے جو ہماری منشاء کے خلاف ہوتاہے، لیکن ہمیں پھر بھی ملازم کو معاف کردینا چاہیے اور اس سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

سختی کرنے کی ممانعت:ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر تشدد کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں، یہ سلوک وہ لوگ کرتے ہیں کہ جن کے دل میں خوف خدا ختم ہوچکا ہوتا ہے، لوگ اپنے بچے کی غلطی تو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اپنے کمسن ملازموں کی ذرا سی غلطی پر آگ بگولہ ہو کر اس پر تشدد کرتے ہیں، ان ظالموں کو سوچنا چاہیے کہ کراما ً کاتبین ہماری ہر بات لکھ رہے ہیں اور ہمیں ان باتوں کا جواب اللہ کی بارگاہ میں دینا ہے تو سوچئے کہ ظلم کرنے کا حساب کس طرح دیں گے۔

ملازم پر مال خرچ کرنا:ملازم کی ضروریات کا خیال رکھنا ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے، جس کا اللہ کے یہاں بڑا اجرو ثواب ہے، ملازم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں جیسے عید وغیرہ کے موقع پر ملازم اور اس کے اہل خانہ کے کپڑے بنوادینا، ملازم کے بچوں کی شادی ہو تو اس کے اخراجات اٹھانا وغیرہ۔

دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا:اسلام میں جو تعلیم کی اہمیت ہے وہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ہے، مالکان کا فریضہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنے ملازم کی دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرے اور اسے معاشرے کا بہترین و باعزت شہری بننے میں اس کی مدد کرے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے ملازموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے حقوق ادا کرنے اور ان پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

معاشرہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتا ہے کسی بھی کاروبار کی ترقی کا انحصار اس میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔ اگر مالک اپنے ملازمین کا خیال رکھے اور ملاز مین بھی اچھے طریقے سے کام سر انجام دیں تو کاروبار اور ملازمین دونوں ہی ترقی کے زینے طے کریں گے۔ یہاں پر ملازمین کے حقوق بیان کئے جارہے ہیں۔

ملازمین کو دیر تک بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور بات کرنے پر ملازمت سے چھٹی کروائے کی دھمکی دی جاتی ہے، یہ اچھا رویہ نہیں، ہاں اگر کبھی کبھار کچھ تاخیر ہوتی ہے تو ملازم کو بھی اس میں تعاون کرنا چاھئے۔

ملازم کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اسکے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متاثر نہ ہو۔ مثلاً: کمروں کا ہوادار ہونا، روشنی کا معقول انتظام ہونا تحقیق وریسرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول ہونا وغیرہ کمپنی یا ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا، ملازمین کی تنخواہیں ملازمین کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کی جائیں اور ہر سال اس میں اضافے کی گنجائش بھی رکھنی چاہئے تاکہ ملازمین کی سالانہ حوصلہ افزائی ہو اور وہ لگن سے کام کر سکیں یہ بھی ملاز مین کا حق ہے۔

ملازمین سے مرضی کے مطابق کام لینے کا طریقہ: اگرملاز مین سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا چاہتے ہیں تو ان سے صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ والا راستہ اپنانے کے بجائے پیار و محبت، نرمی اور حوصلہ افزائی والا رویہ اپنائیے، آدمی جو بھی کام کرتا ہے وہ حوصلے کے ذریعے کرتا ہے حوصلہ ہی آدمی کو آگے بڑھاتا ہے اور اسی حوصلہ کی بنیاد پر محنت اور لگن کے ساتھ ملاز مین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے، عقلمند مالک وہی ہے جو ملازمین کی حوصلہ افزائی کرتا رہے اور اپنا کام نکالتا رہے۔

الله پاک ہمیں اپنے ملاز مین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور شفقت بھرا نرم انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے اس دنیوی زندگی میں کسی کو مالدار بنایا تو کسی کو فقیر، کاروباری زندگی میں ایک کو نوکر و ملازم بنایا تو دوسرے کو سیٹھ و افسر، امیر ہو یا غریب ہر ایک اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں صرف مالدار ہوتے تو ان کی خدمت کون کرتا؟ اور اگر دنیا میں صرف غریب ہوتے تو ان کی معاشی ضروریات کیسے پوری ہوتیں؟ انسان کی معاشی اور کاروباری زندگی میں نوکر و ملازم اس کے لئے بہترین مددگار ہیں۔

ملازم (Employee) سے مراد ایسا شخص ہے جو حکومت، کسی تنظیم، کسی ادارے یا کسی شخص کیلئے اجرت پر کام کرتا ہو۔

ایک زمانے میں گھریلو مددگاروں کو نوکر کہا جاتا تھا، لیکن آج کل ان کو بھی ملازم ہی کہنا ادب کے لحاظ سے موزوں سمجھا جاتا ہے۔دینِ اسلام میں جس طرح ماں باپ، بہن بھائی، استاد و شاگرد اور پڑوسیوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں اسی طرح نوکر و ملازم کے بھی کئی حقوق بیان ہوئے ہیں جن میں سے پانچ اہم حقوق درج ذیل ہیں، مالکان و سربراہان کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اپنے ملازمین سے ان کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے کام لیں۔

(1)طاقت و اہلیت کے مطابق کام لینا: کسی ادارے یا تنظیم کے سربراہان یا کمپنی مالکان کو اس بات کا خاص طورپر خیال رکھنا چاہئے کہ ملازم سے اس کی استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ لیاجانے والا وہ کام ملازم پر ظلم کے زمرے میں آجائے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: انہیں (یعنی غلاموں، ملازموں اور مزدوروں کو) اتنے زیادہ کام کا مکلف نہ کرو کہ وہ ان کی طاقت سے زیادہ ہو، اگر ایسا کرو تو ان کی مُعاوَنت بھی کرو۔ (بخاری، 1/23،حدیث:30)

(2)عزت و تکریم کا معاملہ کرنا: مالداروں اور ادارے کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آئیں، نوکر و ملازم کی کسی بھی قسم کی بے عزتی کر کے اس کی دل آزاری کرنے سے گریز کریں۔ عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں کیونکہ انسان ایک قابلِ احترام ذات ہے۔ خود اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ﴾ ترجمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:70)

(3)عمدہ کام کرنے پر دلجوئی کرنا:ملازمین و نوکر اگر کسی کام کو عمدہ یا غیر معمولی طور پر احسن انداز میں سرانجام دیں تو ان کے اس کام کرنے پر ان کی دلجوئی بھی کرنی چاہئے تا کہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور دیگر ملازمین کو بڑھ چڑھ کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو جو یقیناً ادارے کے لئے نفع مند عمل ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ معمولی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کا طرز اپنانا بھی Productivity یعنی پیداوار بڑھانے کے لئے کافی حد تک مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

(4)کام کرنے کیلئے بہتر ماحول فراہم کرنا: جس جگہ نوکر یا ملازمین کام کرتے ہوں دورانِ ملازمت ان کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو ان کے کام اور محنت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متأثر نہ ہو، مثلاً: کمروں کا ہوا دار ہونا، روشنی کا معقول انتظام ہونا، تحقیق و ریسرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول وغیرہ وغیرہ، اس سے کارکردگی کافی حدتک بڑھ جائے گی۔

(5)تنخواہ کا معیار: کام آسان ہو یا مشکل ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا اس میں کام کرنے والے نوکر و ملازمین کا یہ حق ہے کہ ان کی تنخواہیں قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کی جائیں اور ہر سال اس میں اضافے کی گنجائش بھی رکھنی چاہئے تاکہ ملازمین کی سالانہ حوصلہ افزائی ہو اور وہ لگن کے ساتھ کام کرسکیں۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنے فرائض و منصب کے مطابق کام کرنے، حقوقُ العباد کا خیال رکھنے بالخصوص اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ حُسنِ سلوک رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اسلام کا نظریہ حیات انتہائی خوبصورت وسیع جانچ اور اعلیٰ ہے کہ ہم اللہ عزوجل کےبندے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے ہیں اچھی اور پر مسرت زندگی بسر کر نی ہے خدا تعالٰی کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے میں ہمیں دین اسلام نے حقوق العباد پورے کرنے کی تلقین کی ہے جس کا ذکر قرآن کریم احادیث مبارکہ اور مختلف بزرگان دین کے اقوال سے ملتا ہے حقوق العباد میں۔ اہم ترین حقوق ملازم و تقریر کے حقوق ہیں جس طرح ہم پر والدین اساتذہ کرام اور ہمسایوں کے حقوق لازم ہیں اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی ہم پر ضروری ہیں ملازموں اور نوکروں کے حقوق میں ملازم کی اجرت وقت پر ادا کرنا۔ اور انکے ساتھ حسن سلوک برتنا اور نرمی کے ساتھ پیش آنا ملازمین کے بنیادی حقوق ہیں اجرت وقت پر ادا کرنا اسکو اسلئے بنیادی حق کہاگیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں اسکی تلقین فرمائی ہے حضور اکرم نبی کریم نے فرمایا مزدور کی مزدوری انکا پسینہ خشک ہونے سے پہلےدو اورکیونکہ مزدور وملازم کی بہت سی ضروریات مالک کی اجرت پر موقوف ہوتی ہیں اسے وقت پر اجرت ادانہ کی جائے تو اس پر مشکل حالات پیش آسکتے ہیں۔

اسی طرح ملازم کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی برتنا بھی انکا بنیادی حق ہے اگر مزدور و ملازم وغیرہ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر تشدد دوغیرہ برا بھلا کہنے کی بجائے اسے معاف کر دینا احسن عمل اور غلام و خادم کو معاف کرنے کے بارے میں بھی حدیث مبار کی میں ارشاد فرمایا گیا ہے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنے خادم کو کتنی بار معاف کروں تو آپ صلی اللہ علیہ کی خاموش ہو گئے تو اس آدمی نے دوبارہ اپنے کلام کو لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خاموشی اختیار فرمانی اس آدمی نے تیسری مرتبہ پھر اپنے کلام کو لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے ہر دن میں ستر مرتبہ معاف کرو۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو اپنے ہاتھ مبارک سے نہ مارا نہ ہی کسی غلام کو اور نہ ہی کسی عورت کو -(شمائل ترمذی ،ص 197)

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین 


اسلام نے غلام اور نوکر کے حقوق کے سلسلے میں انقلاب برپا کیا اور غلاموں کے لئے دور جہالت میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے تھے ان کے معنی بدل کر رکھ دیئے۔ ایک بنیادی تبدیلی پیدا کر دی۔ عربی میں غلام کے لیے لفظ” عبد“ بولا جاتا تھا۔ اللہ کریم نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیلئے بھی عبد کا خوبصورت لفظ ا ستعمال کیا حضور علیہ السلام عبد بھی ہیں اور نائب بھی ۔

اسلام نے لونڈیوں ، خادماؤں کے حقوق بھی مرد نوکروں کی طرح متعین کیے برابری کی ان مثالوں میں عورت کی حالت تو یہ بدترین تھی اسلام نے غلاموں کے حقوق مقرر کر کے نظری عملی ہر طرح کی تفریق مٹا دی ، مکمل آزادی کے ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی انکے حقوق کورکھا۔ اسلام میں غلاموں کو آزاد کرانے کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کے حقوق بھی مقرر فرمائے ۔ حضور کی سیرت میں زندگی کے تمام معاملات کی راہنمائی موجود ہے۔آیئے دیکھتے ہیں اسلام غلاموں، نوکروں کے کتنے اعلیٰ حقوق کا حامی ہے۔

مالکوں ہی جیسے کپڑے اور کھانے کی فراہمی: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی آقا کریم کی تعلیمات پر عمل کرتے زندگی گزاری ایک دن آپ نے دیکھا کہ غلام اپنے آقاؤں کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے تو سخت خفا ہوئے اور غلاموں کو ان کے آقاؤں کے ساتھ کھانا کھلوایا حضرت عمر جب دیکھتے کہ غلام پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ لادا گیا، تو اسے کم کر دیتے تھے۔ حضور علیہ السلام نے غلاموں کے متعلق ارشاد فرمایا: وہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کا ماتحت اُسکا بھائی ہو تو جو وہ خود کھائے اسی میں سے اسے کھلائے اور جو خود پہنے اسی میں سے اسے بھی پہنائے اور اسکی بساط سے زیادہ اس پر بوجھ نہ ڈالے اگر ایسا کرے تو خود بھی اسکی مدد کرے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر نے رضی اللہُ عنہ نے اپنا ایک غلام آزاد کیا ۔ پھر ز مین سے ایک تنکا اٹھا کر فرمایا اس تنکے کے برابر بھی اجر نہیں ملے گا کیونکہ میں نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا ہے : جس نے اپنے غلام کو ایک چانٹا یعنی رسید کیا اس کا کفارہ یہی ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے۔ قرآن میں ا یک بھی جملہ غلام بنانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ غلاموں کی آزادی کےخواہاں ہیں۔

ملازموں کے ساتھ احسان اور عدل و انصاف : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ 70 مرتبہ سے زیادہ اپنے ملازم کو معاف کرنے کا حکم ہے ۔

تعلیم و تریبت: ملازمین کا ایک حق ان کی اچھی تعلیم بھی ہے، دین و دنیا کے معاملے میں صلاحیت کے مطابق آزاد شخص سے آگے بڑھنے کی اجازت ہے امامت کی بھی اجازت ہے۔

ملازمین ما تحت ہونے کی بنا پر چھوٹے ہونے کے زمرے میں آتے ہیں ان کی دیکھ بھال کرنا مالک کی ذمہ داری ہے وہ مجبور اور مسکین ہوتے ہیں انہیں پڑھانا لکھانا ہمارا حق ہے کہ انہیں دین و دنیا کی تعلیم دے کر قابل انسان بنایا جائے۔

پیارے اسلامی بھائیو! نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّماور صحابہ کرام کی زندگی کی روشنی میں دیکھا جائے تو غلام بھی عام انسان کے برابر ہیں۔ کیا ہم آج کے دور کے انسان غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو سر خرو دنیا و آخرت میں اور اگر جواب نہیں میں ہے تو آیئے عہد کریں کہ اپنے خادمین ، نوکر ملازم وغیرہ کے ساتھ عدل و احسان سے پیش آئیں اور اللہ و رسول کی خوشنودی پائیں۔ 


جس طرح جھوٹ، غیبت چغلی، وعدہ خلافی، بہتان تراشی، اور بدگمانی وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے معاشرتی بد امنی، بداخلاقی اور بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں اور آخرت میں ان کبیرہ گناہوں کی وجہ سخت عذاب کی وعیدیں ہیں اسی طرح کسی کے بارے میں جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم اور گھٹیا عمل ہے۔

جھوٹی گواہی حرام و گناہ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا بدترین عمل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے اپنے خاص پسندیدہ بندوں کی فہرست بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجمۂ کنزالایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بے ہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔(پ19، الفرقان: 72)

یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ (مدارک، الفرقان، تحت الایۃ:72، ص811)

اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے 5 اَحادیث ملاحظہ ہوں:

جہنم میں لے جانے والا جرم: رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی بھی گناہ کبیرہ ہے۔ (صحیح البخاری، ج4، ص 95، حدیث 5976)

اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، ج11،ص172، الحدیث: 11541)

اللہ پاک کی ناخوشی کا سبب:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالٰی کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، ج6،ص132، الحدیث: 11444)

گواہی چھپانے والا بھی جھوٹی گواہی دینے والے کی طرح ہے:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(المعجم الأوسط، ج3، ص156، حدیث 4167)

جھوٹی گواہی شرک کے برابر:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پارہ17،سورۃالحج:آیت 30، 31۔سنن ابی داؤد، ج3، ص427، الحدیث 3599)

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ جھوٹی گواہی کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی کتنی سخت وعیدیں بیان ہوئیں کہ جہنم واجب کر دی جاتی ہے، اللہ پاک ناخوش ہوتا ہے۔ سب سے بدترین جرم حتیٰ کہ جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

اور دنیا میں بھی جھوٹے شخص کو بہت رسوائی ہوتی ہے لوگ اس شخص پر اعتبار نہیں کرتے لوگ لین دین کرتے ہوئے اس سے کتراتے ہیں۔ بہار شریعت میں ہے کہ جس نے جھوٹی گواہی دی قاضی اُس کی تشہیر کرے گا یعنی جہاں کا وہ رہنے والا ہے اُس محلہ میں ایسے وقت آدمی بھیجے گا کہ لوگ کثرت سے مجتمع ہوں وہ شخص قاضی کا یہ پیغام پہنچائے گا کہ ہم نے اسے جھوٹی گواہی دینے والا پایا تم لوگ اس سے بچو اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے پرہیز کرنے کو کہو۔(بہار شریعت، حصہ 12، ص 974)

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی جیسے بدترین گناہ سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِطاعت اور رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 

جس طرح انسان اچھے اعمال کر کے جنت کا حق دار بن سکتا ہے ایسے ہی برے اعمال کا ارتکاب کر کے جہنم کا سزا وار بھی بن جاتا ہے انھی برے اعمال جن کو کرنے والا سزا وار ہوتا ہے ان میں سے جھوٹی گواہی دینا جھوٹ بولنا بھی قابل مذمت اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اس کی مزمت میں کافی احادیث مبارکہ وار ہوئی ہیں ان سے چند درج ذیل ہیں:

حدیث مبارکہ: حضرت سید نا ابوبکر نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کی: يا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرما ئیں۔ ارشاد فرمایا: وہ اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: یا درکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا (بھی کبیرہ گناہ ہے)۔ (راوی فرماتے ہیں)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرمائیں (صحیح بخاری،باب شھادات،باب ما قیل فی شھادۃالزور،الحدیث:2654،صفحہ 209)

حدیث مبارکہ: حضور نبی رحمت، شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: کبیرہ گناہ یہ ہیں: (1)اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)والدین کی نافرمانی کرنا (3)کسی جان کو قتل کرنا اور (4)جھوٹی قسم کھانا۔ (صحیح بخاری،کتاب الایمان والنزور،بابالیمین الغموس۔۔۔۔الخ، الحدیث:6675،صفحہ 558)

حدیث مبارکہ: حضور نبی کریم، رؤوف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: الله عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کوقتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب الادب،باب عقوق الوالدین من الکبائر، الحدیث:5977،صفحہ 506)

حدیث مبارکہ: میٹھے میٹھے آقا کی مدنی مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(مسند امام احمد،مسند ابی ھریرۃ،الحدیث: 10622 جلد3،صفحہ 585)

فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: (بروز قیامت)جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے حتی کہ اس کے لئے جہنم واجب ہو جائے گی۔(سنن ابن ماجہ،ابواب الشھادات،باب شھادۃ الزور،الحدیث: 2373،صفحہ 2619)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اور اس کے قدم ابھی زمین سے جدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(المعجم الاوسط،الحدیث: 7616، جلد 5 صفحہ 362)

ابھی ہم نے کافی سارے فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جھوٹی گواہی کی مذمت کے بارے میں سنے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس بری خصلت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

جھوٹی گواہی کی تعریف:

جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ج 2، ص 713)

حضرت سیدنا شیخ عز الدین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں اگر ناحق گواہی میں گواہ جھوٹا ہوتو وہ 3 گناہوں کا مرتکب ہوگا (1)نافرمانی کا گناہ (۲)ظالم کی مدد کرنے کا گناہ اور (۳)مظلوم کو رسوا کرنے کا گناہ اور اگر گواہ سچا ہو تو صرف نافرمانی کے گناہ میں مبتلا ہو گا۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ج 2، ص 713)احادیث مبارکہ میں جھوٹی گواہی کی مذمت پڑھئے:

سب سے بڑا گناہ:

(1)حضور نبی کریم رؤوف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب الادب، باب عقوق الوالدین، من الکبائر، الحدیث: 5977، ص 506)

جھوٹی گواہی دینا شرک کے برابر ہے:

(2)حضرت سیدنا خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر ادا فرمائی جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر3 مرتبہ ارشادفرمایا: جھوٹی گواہی اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے۔(سنن ابی داؤد، کتاب القضاء،باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599،ص 1490)

جھوٹا گواہ جہنمی ہے:

(3)شہنشاہ مدینه، قرار قلب و سینه صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: (بروز قیامت)جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے حتی کہ اس کے لئے جہنم واجب ہو جائے گا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الشھادات، باب شھادۃ الزور،الحدیث 2373،ص2619)

جہنم میں ٹھکانہ:

(4)میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(المسند للامام احمد بن حنبل،مسند ابی ھریرۃ، الحدیث: 10622،ج 3،ص585)

جہنم میں پھینک دیا جائے گا:

(5)شہنشاہ نبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اور اس کے قدم ابھی زمین سے جدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (المعجم الاوسط، الحدیث 7616،ج 5،ص 362)


دین اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت مزید بڑھ جاتی ہے۔اس لیے دین اسلام نے ان تمام افعال سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ جس سے ایک مسلمان کی عزت پامال ہوتی ہو ان میں سے ایک فعل جھوٹی گواہی دینا بھی ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑا کردار ہے۔

جھوٹی گواہی کی تعریف:

جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 713)پاره 3 سورة البقرة آیت نمبر 283 میں فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-

ترجمہ کنز الایمان:اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گناہ گار ہے۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ الله کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔ آئیے! اب جھوٹی گواہی کی مذمت کے متعلق چند احادیث پڑھیے اور لرزئیے۔

(1)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 711)

(2)شہنشاہ مدینہ، قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: بروز قیامت جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے حتی کہ اس کے لیے جہنم واجب ہو جائے گا۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 711)

(3)نبی کر یم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اور اس کے قدم ابھی زمین سے جدا بھی نہ ہونگے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص711)

(4)حضور نبی پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے گواہی چھپائی جب اسے گواہی کے لیے بلایا گیا تو وہ جھوٹی گواہی دینے والے کی طرح ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 711،712)

(5)حضرت سیدنا ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے 3 مرتبہ ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ہم نے عرض کی: یارسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم ضرور ارشاد فرمائیں، ارشاد فرمایا:وہ اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے،آپ صلی اللہ علیہ واللہ وسلم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:یاد رکھو جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا (بھی کبیرہ گناہ ہے)راوی فرماتے ہیں: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرما رہے تھے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش!آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرمائیں۔ (جہنم میں لے جانے والے ا عمال، ص 710)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں جھوٹی گواہی دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری بلاحساب مغفرت فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


دینِ اسلام میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی بہت اہمیت ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت اور بڑھ جاتی ہے، اسی وجہ سے دینِ اسلام ان تمام افعال سے بچنے کا درس دیتا ہے جس کی وجہ سے کسی انسان کی عزت و حرمت کم ہو۔ انہی افعال میں سے ایک فعل جھوٹی گواہی دینا بھی ہے۔آئیے! جھوٹی گواہی کے بارے میں 5 احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

(1)اللہ تعالیٰ کا جہنم واجب کرنا:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ،کتاب الاحکام،باب شھادۃ الزور، 3/123، حدیث: 6383)

(2)اپنے اوپر جہنم واجب کر لینا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے (اپنے اوپر)جہنم کو واجب کر لیا۔ (معجم کبیر،عکرمتہ عن ابن عباس، 11/ 172،حدیث:11541)

(3)سب سے بڑا گناہ: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب عقوق الوالدین من الکبائر، ص506، حدیث: 5977)

(4)جھوٹی گواہی دینا شرک کے برابر:حضرت سیدنا خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر ادا فرمائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:ترجمہ کنزالایمان: تو دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے، ایک اللہ کا ہو کر اس کا ساجھی کسی کو نہ کرو۔(سنن ابی داؤد،کتاب القضاء،باب فی شھادۃ الزور، ص1490، حدیث: 3599)

(5)گواہی چھپانے والا جھوٹی گواہی دینے والے کی طرح:نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جب کسی کو گواہی کے لیے بلایا جائے اس وقت اس نے گواہی چھپائی تو وہ جھوٹی گواہی دینے والے کی طرح ہے۔(معجم اوسط،3/156، حدیث: 4167)

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین