تربیت کی
اہمیت یعنی قدرو منزلت اور ضرورت کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ ربِّ کریم جَلَّ
جَلاَلُہٗ اپنے محبوبِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو اِس کے آداب اِرشاد فرما رہا ہے ۔ چنانچہ پارہ
۱۴ سُورۂ نَحْل آیت نمبر ۱۲۵ میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمۂ کَنْزُ العرفان : اپنے رب
کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو
جو سب سے اچھا ہو ۔
تربیت کی مثال
بالکل اس طرح ہے جس طرح ایک کسان کھیتی باڑی کے دوران اپنی فصل سے غیر ضروری گھاس
اور جڑی بوٹیاں نکال دیتا ہے تاکہ فصل کی ہریالی اور نشوونما میں کمی نہ آئے۔حضور
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مختلف مواقع پر اپنے
اقوال اور افعال کے ذریعے سے تربیت فرمائی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی متعدد احادیثِ
طیبات میں چھ چیزوں کے بیان سے تربیت کرنا ملتا ہے۔ کہیں ان میں آپ نے نیک اعمال
کی ترغیب (شوق دلایا) ہے تو کہیں آپ نے گناہوں سے ترہیب (ڈرایا) ہے ان احادیث میں
سے چند ملاحظہ فرمائیں:
(1)
میں چھ چیزوں سے خوفزدہ ہوں: حضرت سیِّدُنا عوف بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : میں چھ
چیزوں سے خوفزدہ ہوں : (۱)بیوقوفوں کی حکمرانی (۲)رشوت کے
فیصلوں (۳)سپاہیوں کی کثرت (۴)قطع رحمی (۵) ایسی قوم سے جو قرآن کو موسیقی کے طرز پر پڑھے گی ، اور
(۶)قتلِ ناحق ۔ (مسند احمد، ۹/ ۲۵۲حدیث : ۲۴۰۲۵)
(2)
چھ (6)چیزوں کی ضمانت: حضرت
سَیِّدُنَا عُبَادہ بن صَامِت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سُلطانِ بَحْر و بَر، مَدینے کے تَاجْوَر،
مَحْبُوبِ رَبِّ اَکْبَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا کہ ’’تم مجھے چھ (6) چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جَنّت کی ضمانت دیتا
ہوں (۱) جب بولو
تو سچ بولو (۲)جب وعدہ کرو تو اُسے پورا
کرو (۳) جب امانت لو تو اُسے ادا کرو (۴) اپنی
شرمگاہوں کی حِفاظت کرو (۵) اپنی
نگاہیں نیچی رکھا کرو اور (۶) اپنے
ہاتھوں کو روکے رکھو ۔ (الاحسان بترتیب
صحیح ابن حبان ، کتاب البر والصلۃ والاحسان۔۔الخ ، باب الصدق۔۔۔الخ ، حدیث ۲۷۱ ، ج۱، ص ۲۴۵)
ہم جائیں گے فردوس میں رِضواں سے یہ کہہ کر
روکو نہ ہمیں ہم ہیں غلامانِ محمد
(3) حضور نبی
اکرم، رسول اعظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد
فرمایا:چھ قسم کے لوگ چھ چیزوں کے سبب جہنم میں جائیں گے: (۱)عرب عصبیت
(اپنوں کی بے جا حمایت اور دوسروں سے نفرت )کی وجہ سے (۲)حکمران ظلم کی وجہ سے (۳)سردار تکبُّر کی وجہ سے (۴)تاجر خیانت کی وجہ سے (۵)دیہات والے جہالت کی وجہ سے اور (۶)علما حسد
کی وجہ سے ۔(التفسیرالکبیر،سورة البقرة،تحت الآيۃ:۱۰۹ ،۱/۶۴۵مسندالفردوس،۱/۴۴۴،حدیث:۳۳۰۹)
(4) دافِعِ
رنج و مَلال، صاحب جُود و نوال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : چھ چیزیں عمل کو ضائع
کر دیتی ہیں : (۱)مخلوق کے عیوب کی ٹوہ میں
لگے رہنا (۲)قَساوتِ قلبی (۳)دنیاکی محبت (۴)حیا
کی کمی (۵)لمبی اُمید اور (۶)حد سے زیادہ ظُلْم کرنا ۔ (کنز العمال ، جزء ۱۶ ، ۸ / ۳۶ حدیث
: ۴۴۰۱۶)