علم دین ہی
انسان کو انسان بناتاہے ، امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری
علمِ
دین سکھانےاور لوگوں کی دینی، اخلاقی و تنظیمی تربیت کرنے والی عاشقانِ رسو ل کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت4 محرم الحرام 1445ھ بمطابق 22جولائی 2023ء بروز ہفتہ کی
شب عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔
معمول
کے مطابق تلاوتِ قراٰن و نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے
بعد ملک و بیرونِ ملک کے عاشقانِ رسول کی جانب سے امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ
مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری ضیائی دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے مختلف سولات ہوئے جن کے آپ دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے علم و حکمت بھرے جوابات ارشاد فرمائے۔ان میں سے
بعض درج ذیل ہیں:
سوال: بیان سننے کے آداب کیا ہیں ؟
جواب: شریعت کے مطابق جب عالم صاحب بیان کررہے ہوں تو اس بیان کو غور اوریکسوئی کے
ساتھ سننا،ادھرادھرنہ دیکھنا،ٹیک نہ لگانا،بغیروجہ کھڑے نہ ہونا،ان سب پر عمل
ضروری ہے ۔اس طرح سنیں گے تو سمجھ بھی آئے گی ۔بات کان میں جائے گی تو دل میں
بھی اترے گے ۔اگرکان میں نہیں جائے گی
سرسے گزرجائے گی تو دل میں کیسے اترے گی ۔جب دل میں نہیں اترے گی تو پھرعمل کیسے
ہوسکے گا۔
سوال:کیااجتماع میں شرکت کرنے والوں کے بھی آپس میں حقوق
ہیں ؟
جواب:اجتماع میں
جو شرکا ء ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کے پڑوسی ہوتے ہیں ،انہیں ایک دوسرے
کا لحاظ رکھنا ہوگا،دوسرے کے لیے جگہ تنگ کردینے،کہنی وغیرہ مارنے ،دھکم پیل کرنے
کی ہرگزاجازت نہیں ۔بس یہ کوشش کریں کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو،یہی حسن معاشرت
اورحسن اخلاق ہے ۔یہ مدنی پھول اپنی گرہ سے باندھ لیں گے اگرہم کسی کو راحت نہیں
پہنچاسکتے تو تکلیف تو نہ ہی پہنچائیں ۔ہمیں تودوسروں کو راحت پہنچانے
والاہوناچاہئے ۔قرآن پاک میں واضح طورپر ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔یوں
ایمان کے رشتے سے ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔بلکہ بلاوجہ کسی غیرمسلم کو بھی ہم
سے تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے ۔نرم اورمیٹھے میٹھے بن کررہیں گے تو ہمارااسلام بہت
ترقی کرے گا۔میٹھے بول ہماری خصوصیت ہونی چاہے۔حدیث پاک ہے جس چیز میں
نَرمی ہوتی ہے اُسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے جُدا کرلی جاتی ہے اُسے
عیب دار بنادیتی ہے ۔ (صحیح مسلم ص 1398 حدیث 2594 دار
ابن حزم بیروت)
سوال: ہمارے
پیارے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کتنی شہزادیاں ہیں؟
جواب : ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی 4شہزادیاں ہیں : حضرت بی بی
زینب ،حضرت بی بی رُقیہ،حضرت بی بی کُلثوم
اورحضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ
عنہن ۔
سوال: ان چاروں شہزادیوں کا مختصرتعارف بیان کردیجئے ۔
جواب: ٭سب سے بڑی حضرت بی بی زینب ہیں ،مکہ شریف سے مدینہ شریف ہجرت کے موقع پر
انہیں آزمائش پیش آئی ،فرمان مصطفیٰ (صلی اللہ
علیہ والہ وسلم):میری یہ بیٹی دوسری بیٹیوں میں اس بات میں
فضیلت رکھتی ہے کہ اس نے ہجرت کے وقت
مصیبت اٹھائی۔ (شرح زرقانی ،3/195)ان کی
وفات پر ہمارے پیارے آقا صلی اللہ
علیہ والہ وسلم نے ان کے کفن کے لیے اپنا تہبندعطافرمایااوراپنے
بابرکت ہاتھوں سے انہیں قبرمیں اتارا۔٭دوسری شہزادی حضرت رُقیہ اعلان نبوت سے سات سال
پہلےپیداہوئیں ۔یہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ہیں ۔یہ
غزوہ بدرکے موقع پر بیمارتھیں ،جب اس غزوہ میں کامیابی کی خبرمدینہ شریف میں پہنچی
تو ان کی وفات ہوئی ۔٭تیسری شہزادی حضرت ام کلثوم ہیں،ان کا نکاح حضرت رُقیہ
کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ سے ہوا۔ ان کی وفات شعبان شریف 9ہجری کو ہوئی۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نمازجنازہ پڑھائی ۔آپ کی تدفین جنۃ البقیع
میں ہوئی۔ ٭سب سے چھوٹی ،پیاری اورلاڈلی شہزادی حضرت فاطمۃ
الزہراہیں ۔ان کے بدن سے جنت کی خوشبوآتی
تھی اسی لیے ان کا لقب زہراہے، آپ
کا ایک لقب بتول بھی ہے۔ فرمان مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑاہیں ،جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض
کیا۔(بخاری شریف ، حدیث 3556)مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ
عنہافرماتی ہیں کہ مَیں نے شکل وصورت، چال ڈھال اورعادات میں حضرت فا طمہ سے بڑھ کر کسی کو نبی
کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم سے مشابہ یعنی ملتی جلتی نہیں دیکھا ۔ جب یہ آتیں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے
استقبال کے لیےکھڑے ہوجاتے اوران کا ہاتھ تھام کر انہیں بوسہ دیتے اورا پنی جگہ پر بٹھاتے۔
سوال: دنیا میں
وہ کون سی ہستی ہے جن کے نکاح میں یکے بعددیگرے ایک نبی علیہ السلام کی دوبیٹیاں
آئی ہوں ؟
جواب: وہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ان کے نکاح میں یکے بعددیگرے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
دوبیٹیاں حضرت رُقیہ اورحضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہما آئیں ۔اسی لیے آپ کا ایک لقب
ذوالنورین ہے یعنی دونوروالے ۔
سوال:واقعۂ کربلاکو اقتدارکی جنگ کہنا کیسا؟
جواب:یزیدکے جانب سے تو یہ اقتدارکی جنگ تھی کہ وہ سمجھتاتھاکہ حضرت امام عالی
مقام کی جانب سے مجھے اقتدارکے چھن جانے کا خطرہ ہے جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی جانب سے یہ اِعلائے کلِمَۃُ الْحَق(حق
بات کوبلندکرنا ) تھا ۔ورنہ انہیں اقتداراورتخت سے کیا دلچسپی تھی ،ان کا اقتدارتو
مسلمانوں کے دلوں میں تھا اورہے ۔انہیں دوطرفہ اقتدارکی جنگ خارجی کہتے ہوں گے
مسلمان تو ایسانہیں کہتے ۔عاشقانِ صحابہ واہل بیت تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
سوال : راستے
میں گاڑی کے پارک کرنے یاروک کررکھنے سے راستے بند یا تنگ ہوجاتے ہیں آپ کیا
فرماتے ہیں؟
جواب :
یہ مسئلہ تو ہے لوگ گاڑی میں بیٹھے ہوتے ہیں اورراستے میں اسے روک دیتے ہیں یا
بغیرپارکنگ کے گلیوں میں کھڑی کرکے چلے جاتے ہیں جس سے ٹریفک کے چلنے میں دشواری
ہوتی ہے اورلوگ پریشان ہوتے ہیں ۔یوں کرنے والے قانون اورشریعت دونوں اعتبارسے مجرم ہیں ۔یہ حسن معاشرت کے خلاف ہے ۔اسی طرح ہارن بجانے
والے بھی توجہ کریں کہ ان کے ہارن سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔
سوال: محرم الحرام میں ایصال ثواب کے لیےکھچڑابناناہی ضروری ہے یا دیگرکھانے
تقسیم کرکے ایصال ثواب کیا جاسکتاہے؟
جواب: جب
کسی کھانے کی نسبت ایصال ثواب کے لیے کسی
بزرگ سے کردی جائے تو اسے نیازکہاجاتاہے اورنیازکے کھانے کی برکت میں اضافہ ہوجاتاہے اوریہ
نیازکرنا شریعت کے مطابق ہوتو کارِ ثواب اورسعادت کی بات ہے ۔امام عالی مقام حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کے لیے
کھچڑاہی ضروری نہیں دوسراکھانا بلکہ پانی پلاکر بھی ایصال ثواب کیا جاسکتاہے ۔
سوال: محرم
الحرام میں کھچڑابنانے کارواج کیسے شروع ہوا؟
جواب: جب معرکہ کربلاہوگیا تو مقام غادریہ سے لوگ آئے ،یہ اچھے اورعقیدت مندلوگ
تھے ،انھوں نے کربلامیں آکر شہدائے کربلاکے لاشوں کی تدفین کی، یہ لوگ اپنے ساتھ مختلف
اناج لے کرآئے تھے انھوں نے یہاں کھانا بناکر ایصال ثواب کیا،اسی سے کھچڑے کی
نیازکا سلسلہ شروع ہوا۔یہ تاریخی بات ہے
اگریہ واقعہ نہ بھی ہو تو ایصال ثواب کےلیے کھچڑاتیارکرنے میں حرج نہیں ۔
سوال:کیا کسی کوکھانا کھلانا ثواب کا کام ہے؟
جواب:جی ہاں! یہ جنت میں لے جانے والاکام ہے ۔امیرغریب ،رشتہ دار،محلہ دارکسی کوبھی کھانا
کھلائیں تو ثواب ملے گا۔یہ کام اللہ کی رضا،اچھی نیتوں اورشریعت کے مطابق ہونا
چاہئے ۔
سوال : علم
دین کے حاصل کرنے کی کیا اہمیت ہے؟
جواب :
علم دین ہی انسان کو انسان بناتاہے ۔بزرگوں کا قول ہے کہ ہمارابس چلے تو ہم لوگوں
کو علم دین گھول کرپلادیتے ۔علم بہت ہی بڑی چیزہے ۔علم سے بہت فرق پڑتاہے ،اہل علم
عام لوگوں سے بہت فضیلت والے ہوتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں بھی سرمایہ داروں کی
بنسبت اہل علم کی قدرکی جاتی ہے ان کے احترام میں لوگ کھڑے ہوتے ہیں اورانہیں
راستہ دے دیتے ہیں ۔عالم دین کا ہاتھ چوماجاتاہے ان کا ادب کیا جاتاہے ۔خوف
خدارکھنے والے لوگ ایساہی کرتے ہیں اوران کی بھی ایک تعداد ہے ۔اللہ پاک ہمیں بھی
علماء سے محبت کرنے والابنائے ۔علم دین حاصل کرنے کے کئی ذرائع ہیں ،مدنی چینل
دیکھنا ،مدنی مذاکرے میں شرکت کرنا انہیں میں سے ہے ۔مدنی چینل دیکھا کریں ۔حضرت
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جس مسلمان میں علم دین حاصل کرنے کا شوق ہوگا اس کا ایمان پر خاتمہ ہوگا۔
سوال: نگاہ نیچی رکھ کر بات کرنا مشکل ہوتاہے بعض اوقات چہرے کی طرف دیکھ کر بھی
بات کرنا ضروری ہوتاہے ورنہ بات درست سمجھ نہیں آتی تو نظرنیچی رکھ کربا ت کرنے
والے نیک عمل پر عمل کیسے ہوگا ؟
جواب: موقع کی مناسبت سے ہی ہوگا۔ضرورتا چہرے کی طرف دیکھ کربات کرنے میں حرج نہیں بلکہ بعض
اوقات ضروری ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ ادھرادھردیکھنے کے بجائے نگا ہ کونیچے رکھیں
۔فضول نگائی اورپریشان نظری یعنی بلاضرورت
اِدھراُدھردیکھنا منع ہے۔ اس کا قیامت کے
دن حساب ہوگا۔اجنبیہ عورت کے چہرے پر
نظرڈال کربات کرنےسےبچنا ضروری ہے ۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ”
کراماتِ حضرت معروف کرخی “ پڑھنے
یاسُننے والوں کوامیراہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟
جواب: یااللہ پاک! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”کراماتِ حضرت معروف کرخی“ پڑھ یا سن لے اُسے سلسلۂ قادریہ کے بزرگانِ دین کے
فیضان سے مالا مال فرمااور اُس کی بے حساب بخشش کردے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔