پیارے اسلامی بھائیو! ہماری زندگی میں والد کا ایک خاص اور اہم کردار ہے، والد وہ سایہ دار درخت ہے جو دھوپ اپنے اوپر لیتا ہے اور بچوں کو سایہ دیتا ہے، اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے دن رات محنت کرتا ہے، اپنی خواہشات کو قربان کر کے بچوں کی فرمائشیں پوری کرتا ہے۔ آیئے! والد کی اطاعت و فرمانبرداری کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔

نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ بیٹا اپنے باپ کو غلام پائےاور اسے خرید کر آزاد کر دے (ترمذی)

اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں کسی نے حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے حسن اخلاق کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ عرض کی: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ پھر عرض کی: اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہی ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی: اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔(بخاری)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خدمت ماں کی زیادہ کرے اور عزت باپ کی زیادہ کرے کیونکہ وہ تمہاری ماں کا شوہر ہے اور تمہاری ماں کا سرتاج ہے۔(فتاویٰ رضویہ،24/387، 390)

اللہ پاک ہم سب کو اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

والد الله پاک کی عظیم نعمت ہے جو ہر قسم کی تکلیف برداشت کر کے اپنی اولاد کو چین فراہم کرتا ہے، باپ گھر کی چھت کی مانند ہوتا ہے جو سردی گرمی ہر قسم کی آفات و بلیات سے بچاتی ہے، جہاں ہمیں احادیث طیبات سے یہ پتا چلتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے وہیں احادیث میں باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے، مگربد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں لوگ ماں باپ کے اس مقدس رشتے کی قدر و منزلت بھول چکے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر والدین کو ناراض کر دیتے ہیں حالانکہ قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23)

آیئے! والد کی شان و عظمت اور اطاعت فرمانبرداری پر مشتمل چند احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

حدیثِ پاک میں الله کی رضا کو والد کی رضا قرار دیا گیا ہے، چنانچہ الله پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الله پاک کی اِطاعت والد کی اِطاعت کرنے میں ہے اور اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔ (معجم اوسط، 1/614،حدیث:2255)

ایک اور حدیث پاک میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے(ترمذی،3/360،حدیث:1907)

حدیثِ پاک میں والد کو جنت کا بیچ کا دروازہ قرار دیا ہے جیساکہ پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا حفاظت کرے۔(ترمذی، 3/359، حدیث:1906)

حدیثِ پاک میں والد کی طرف سے حج و عمرہ کرنے کی اجازت عطا فرما ئی، چنانچہ ایک صحابیِ رسول نے رسو ل کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا: اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ حج اور عمرہ کی قدرت نہیں رکھتے اور سوار بھی نہیں ہو سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کر سکتا ہوں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا:تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرلو۔ (ترمذی،ابو داؤد، نسائی)

حدیث پاک میں باپ کے دوستوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا ارشاد فرمایا گیا، چنانچہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب، ص1382، حدیث: 2552)

ایک حدیث پاک میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اولاد کے مال کو باپ کا مال قرار دیا چنانچہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ یعنی تو اور تیرا مال تیرے والد کی ملکیت ہے۔(ابن ماجہ)

قارئین کرام! باپ کا مرتبہ بہت بلند ہے، خوش قسمت ہے وہ اولاد جو اپنے والد کا ادب و احترام کرتی ہے، ہم چاہے باپ کی شان میں عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کریں پھر بھی ہم ان کے احسانات اور ان کی محبت و شفقت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ الله پاک ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم و دائم فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں والدین کے حق کو اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ہے، جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے، چنانچہ پارہ15،سُورۂ بَنی اِسرائیل کی آیت نمبر23 میں اللہ پاک اِرْشاد فرماتا ہے:وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23)

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ:23، 7/321، 323)

اور قرآنِ کریم میں یہ حکم بھی دیا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کرے جیساکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے متعلق بتایا کہ وہ یوں دعا مانگتے ہیں: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ ترجمۂ کنزالایمان: اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔(پ29،نوح:28)

پیارے اسلامی بھائیو! والد کے احسانات کا بدلہ دینا اور ان کے حقوق کو کما حقہ ادا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آیئے! والد کی اطاعت و فرمانبرداری پر چھ احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما، ص1382، حدیث:2552)

(2)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360، حدیث: 1907)

(3)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/641، حدیث:2255)

(4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ایک آدمی نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا اور کہا: میں آپ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ اآیا ہوں۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو واپس چلا جا: اور جیسے ان کو رلایا ہے ویسے ہی ان کو ہنسا۔(مستدرک للحاکم)

(5)حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا اس کو خوشخبری ہو: اللہ تعالیٰ اس کی عمر لمبی فرمائے۔ (مستدرک للحاکم)

(6)سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر اس صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے تو اسے خریدکر آزاد کردے۔( فیضان ریاض الصالحین)

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے والد کے احسانات یاد رکھنے اور ان کی بھرپور خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

محترم قارئین! والد اپنی اولاد کی پرورش کے لئے بے انتہا تکالیف برداشت کرتا ہے، والد اولاد کا سہارا ہوتا ہے، والد کی شان و عظمت بہت بڑی ہے، ایک حدیث پاک میں ہے: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے، جبکہ ایک حدیث مبارکہ میں والد کو جنت کا درمیانی دروازہ فرمایا گیا ہے۔ آئیے 5فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےاس بارےمیں ہمیں کیا درس ملتا ہے

رب کریم کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے:اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ کی نافرمانی والد کی نافرمانی ہے۔(معجم اوسط، 1/241،حدیث: 6655)

باپ کا حق:مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر اس صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے تو اسے خریدکر آزاد کردے۔( فیضان ریاض الصالحین)

والدکی دعا:رسولﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین دعائیں بلا شبہ مقبول ہیں: باپ کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا ۔(ترمذی، ابوداؤد،ابن ماجہ)

والدکی طرف سے حج و عمرہ:ایک شخص نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج و عمرہ کی طاقت رکھتے ہیں نہ سوار ہونے کی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو۔(ترمذی،ابو داؤد،نسائی)

رب کائنات کی خوشنودی:رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی والدکی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی نا راضی میں ہے۔(ترمذی، 4 /360، حدیث: 1907)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! قراٰنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیساکہ حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(سنن الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، 3/360، حديث:1907)

ایک حدیث پاک میں والد کی عظمت و شان کو بیان کرتے ہوئے حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: والد جنت کے سب دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے، اب تو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے خواہ نگاہ رکھ۔ (سنن الترمذی ، كتاب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدين، 3/359، حديث:1906)

ایک حدیث پاک میں ہے کہ سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔(مستدرک حاکم،5/216، حدیث: 7345)

والد دن رات ایک کرکے اولاد کو پالتا ہے اور اولاد پر مال و دولت خرچ کرکے اولاد کو کسی قابل بناتا ہے لیکن جب والد کو اولاد کے مال کی ضرورت ہوتی ہے تو اولاد والد پر مال خرچ کرنے میں کتراتی ہے جبکہ حدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے۔ اس کا باپ عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ کمزور تھا اور میں قوی تھا، وہ محتاج تھا اور میں مال دار تھا، میں اپنی ملکیت میں سے کسی چیز سے اسے منع نہیں کرتا تھا اور آج جب میں کمزور ہو گیا ہوں اور یہ مال دار ہے تو یہ اپنا مال مجھے دینے میں بخل کرتا ہے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رونے لگے اور فرمایا: کوئی پتھر یا ڈھیلا بھی اسے سنے گا تو وہ رونے لگے گا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس شخص سے فرمایا تو اور تیرامال تیرے باپ کاہے۔ (نزہۃ المجالس)

ایک حدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے پاس مال ہے اور اولاد بھی ہے اور میرے والد میرے مال کے محتاج ہیں تو میرے لئے کیا حکم ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے، تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے پس تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھا سکتے ہو۔(سنن ابی داؤد)

ایک حدیث پاک میں والد کی وفات کے بعد ان کے عزیز واقارب اور دوست احباب سے تعلق برقرار رکھنے کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق جوڑے رکھے۔(ریاض الصالحین)

یاد رکھئے! والدین کی شان بہت بڑی ہے، لہٰذا ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی اِطاعت کرتے ہوئے ان کا سونپا ہوا ہر جائز کام فوراً بجا لانا چاہئے۔ ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت نہ کی جائے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت نہیں۔(مسلم، ص789،حدیث: 4765)

پیارے اسلامی بھائیو! والدین ایک بہت بڑی نعمت ہے، ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور ان کی خدمت کرنی چاہئے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے، ان سے محبت و شفقت سے پیش آنا چاہئے، انہیں ٹائم دینا چاہئے اور ان کا خیال رکھنا چاہئے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں والدین کا ادب و احترام کرنے کی توفيق عطا فرمائے، اٰمین۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں والدہ کے ساتھ ساتھ والد کا ادب و احترام اور فرمانبرداری کرتے رہنا چاہئے، ہم والدہ کے ساتھ تو حسن سلوک اور ادب و احترام والا معاملہ کرتے ہیں مگر والد کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کم ہوتا ہے جبکہ اللہ پاک پارہ15،سُورۂ بَنی اِسرائیل کی آیت نمبر23اور24 میں ماں باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک اور ادب احترام کا حکم اِرْشاد فرماتا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23، 24)

آیئے! والد کی شان و عظمت اور اطاعت و فرمانبرداری پر مشتمل6 فرامین مُصْطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:

(1)باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے،اب تیری مرضی ہے کہ تو اس کی حفاظت کر یا اسے چھوڑ دے۔(ترمذی، کتاب البر والصلة،باب:ماجاء من الفضل فی رضا الوالدین،3/359، حدیث:1906)

(2)بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ بیٹا اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے۔(مسلم، کتاب العتق،باب فضل عتق الوالد،ص624، حديث:3799)

(3)ربّ کی رضا باپ کی رضا مندی میں ہے اور ربّ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360، حدیث:1907)

(4)اللہ پاک کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/614، حدیث:2255)

(5)جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان سے حسنِ سلوک نہ کیا وہ اللہ کریم کی رحمت سے دور ہوا اور غضبِ خدا کا مستحق ہوا۔(معجم کبیر، 12/66، حدیث:12551)

(6)تم میں سے کوئی اپنے باپ کو ہرگز گالی نہ دے،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!کوئی شخص اپنے باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا:یہ کسی شخص کے باپ کو گالی دے گا تو وہ اِس کے باپ کو گالی دے گا۔(مسلم،کتاب الایمان،باب الکبائر واکبرہا،ص60، حدیث:263ملخصاً)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے باپ کو کیسی اونچی شان کا مالک بنایا ہے کہ اللہ پاک نے اپنی رضا و فرمانبرداری کو باپ کی رضا و فرمانبرداری پر موقوف فرمایا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اللہ پاک و رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فراٰمِیْن پر لبیک کہتے ہوئے دل و جان کے ساتھ والدکی خدمت کرکے ان سے دعائیں لیں، ان کے حقوق کو پورا کریں، ان کے ہر جائز حکم کی بجا آوری کریں، ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ان کی بارگاہ میں دوڑے دوڑے چلے آ ئیں، ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھیں، ان کی نافرمانی اور بُرائی کرنے سے اپنے آپ کو بچائیں، مشکل حالات، بیماری اور بڑھاپے میں اُن کا سہارا بنیں،الغرض ہر طرح سے انہیں راضی رکھنے کی کوشش کر یں مگر آہ! صد ہزار آہ!عِلْمِ دین سے دوری کے باعث آج باپ مظلوم ترین لوگوں کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔ افسوس!اغیار کی دیکھا دیکھی آج باپ جیسی عظیم ہستی کے ساتھ نوکروں والا سُلوک کیاجارہا ہے،باپ کے ساتھ بدسُلوکی کے واقعات میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے،یاد رکھئے ایک حدیث پاک میں ہے:کَمَا تَدِیْنُ تُدَان یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

حضرت علّامہ عبدُالرؤف مُناوی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کَمَا تَدِینُ تُدَان کی وضاحت میں لکھتے ہیں: یعنی جیسا تم کام کرو گے ویسا تمہیں اس کا بدلہ ملے گا،جو تم کسی کے ساتھ کرو گے وہی تمہارے ساتھ ہوگا۔(التیسیر بشرح الجامع الصغیر، 2/222)

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ لکھتے ہیں:بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت و توانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں جلد نظر آجائے گا کہ جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے ہوئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے۔(فتاویٰ رضویہ، 24/424)

والد کی خدمت کا صلہ:

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”اللہ والوں کی باتیں“ جلد4، صفحہ نمبر14 پر ہے:ایک شخص کے چار بیٹےتھے، وہ بیمار ہوا تو ان میں سے ایک نے کہا: یا تو تم تینوں والدکی تیمارداری کرو اور ان کی میراث سے اپنے لئے کچھ حصہ نہ لو یا میں ان کی تیمارداری کرتاہوں اور ان کی میراث سے کچھ حصہ نہیں لیتا۔ تینوں نے کہا: تم تیمارداری کرو اور میراث سے کچھ حصہ نہ لو۔ چنانچہ وہ والدکی تیمارداری کرتا رہا حتّٰی کہ والد کا انتقال ہوگیا،لہٰذا اس نے میراث میں سے کچھ حصہ نہ لیا۔ایک رات اس نے خواب میں کسی کہنے والے کو یہ کہتے سنا: فلاں جگہ جاؤ اوروہاں سے100 دینارلے لو۔ لڑکے نے پوچھا: کیا اس میں برکت ہے؟ جواب ملا: نہیں۔ صبح ہوئی تو اس نے خواب اپنی بیوی کوسنایا، بیوی نے کہا: تم ان دیناروں کو لے لو،ان کی برکت یہ ہے کہ ہم ان سے کپڑے بنوائیں اور زندگی گزاریں۔لڑکے نے انکار کردیا۔اگلی رات پھراس نے خواب میں کسی کو کہتے سنا: فلاں جگہ جاؤ اور وہاں سے10دینار لے لو۔

اس نے پوچھا: کیاان میں برکت ہے؟ جواب ملا: نہیں۔ صبح اس نے اپنی بیوی کو خواب سنایا توبیوی نے پہلے کی طرح کہامگر اس نے پھرلینے سے انکار کردیا،تیسری رات پھر اس نے خواب میں سنا: فلاں جگہ جاؤ اورایک دینار لے لو۔ اس نے پوچھا: کیا اس میں برکت ہے؟ جواب ملا: ہاں۔ چنانچہ لڑکا گیااوردینار لے کربازار روانہ ہو گیا،اسے ایک آدمی ملا جو دو مچھلیاں اٹھائے ہوئے تھا، لڑکے نے کہا: ان کی قیمت کیا ہے؟ اس نے کہا: ایک دینار۔ لڑکے نے دینار کے بدلے دونوں مچھلیاں لیں اور چل دیا۔گھر آکر ان کا پیٹ چاک کیا تودونوں میں سے ہر ایک کے پیٹ سے ایک ایسا موتی نکلا جس کی مثل لوگوں نے نہ دیکھاتھا۔ ادھر بادشاہ نے ایک شخص کو ایسا ہی موتی تلاش کرنے اور خریدنے بھیجا تو وہ اس لڑکے کے پاس ملا، لہٰذااس نے وہ موتی سونے سے لدے ہوئے 30خچروں کے عوض بیچ دیا۔جب بادشاہ نے موتی دیکھا توکہا: اس کا فائدہ اسی صورت میں ہے کہ اس کی مثل ایک اوربھی ہو۔ لہٰذابادشاہ نے خدام سے کہا:اس کی مثل ایک اورتلاش کرو اگرچہ قیمت دگنی دینی پڑے۔چنانچہ وہ اسی لڑکے کے پاس آئے اور کہا: جوموتی ہم نے تم سے خریداتھا اس کی مثل اوربھی ہوتو ہمیں دے دو ہم تمہیں دگنی رقم دیں گے۔لڑکے نے پوچھا: کیا تم واقعی اتنا دوگے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ چنانچہ لڑکے نے دوسراموتی دگنی قیمت میں (یعنی سونے سے لدے ہوئے 60خچروں کے عوض)فروخت کردیا۔(اللہ والوں کی باتیں،4/14)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

کائنات میں اللہ پاک نے انسان کو رشتوں سے جوڑ کر پیدا فرمایا ہے، انہیں رشتوں میں سے ایک رشتہ والد محترم کا ہے، والد کے ہر اس حکم کو ماننا ضروری ہے جو شریعت کے تابع ہو،والد کی نافرمانی دنیا میں بھی ذلیل و خوار کرتی ہے اور آخرت میں بھی رُسوائی کا سبب بنتی ہے،باپ وہ ہستی ہے جس کے احسان اولاد پر اس قدر ہیں کہ ایک زندگی کیا انسان اگر لاکھوں زندگیاں پا کر ان کے احسان چکانا چاہے تو بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہ چکا پائے گا۔آئیے! اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وہ عالیشان فرامین سنئے جو والد محترم کی اطاعت و رضا حاصل کرنے کا جذبہ اور دلوں میں والدین کی عظمت و محبت پیدا کرنے والے ہیں:

(1)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ عزوجل کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، جلد1، صفحہ614، حدیث2255)

(2)اللہ عزوجل کی رضا والد کی رضا میں ہے اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی شریف، جلد3، صفحہ360، حدیث: 1907)

(3)تاجدار انبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے اب تو چاہے تو اس کو کھو دے یا اس کی حفاظت کر۔(ترمذی شریف، جلد3، صفحہ 359، حدیث 1906)

(4)ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے اور ان کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا سونپا ہوا ہر جائز کام فوراً بجا لانا چاہئے ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اطاعت نہ کی جائے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔(مسلم شریف، ص789، حدیث: 4765)

باپ ہی وہ ہستی ہے جو قدرت کا انمول تحفہ ہے، باپ خاندان میں اولاد کی پہچان کا ذریعہ ہے، باپ کے حقوق سے آزادی ناممکن ہے، باپ اپنی اولاد سے کبھی حسد نہیں کرتا، باپ اپنے احسانات کا کبھی بدلہ نہیں مانگتا، باپ اپنی بیمار اولاد کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا، باپ بیمار اولاد کی خاطر سخت سردیوں میں بھی ساری ساری رات جاگ کر گزارتا ہے، باپ اپنی اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں اولاد کے لیے وقف کر دیتا ہے، باپ اولاد کو کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھاتا ہے، باپ اولاد کو اپنے پرائے کا فرق بتاتا ہے، باپ وہ ہستی ہے کہ نافرمان اولاد کے لیے بھی اپنی محبتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے، باپ نہ ہو تو گھر ویران ہوتا ہے، اپنی عمر بھر کی خوشیوں اور خواہشات کو بچوں کی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قربان کر کے جینے والا باپ جب بڑھاپے میں اپنے بچوں سے شفقت اور حسن سلوک کا طلبگار ہوتا ہے لہٰذا جن کے والدین حیات ہیں ان سے یہ فریاد ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ اپنے والدین کی خدمت کریں اور ان کا ادب و احترام کر کے جنت کے حق دار بنیں۔

اللہ کریم ہمیں اپنے والدین کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے ذریعے انسانی سلسلے کو جاری فرمایا اور پھر ماں باپ کو اولاد کی پیدائش اور پرورش کا سبب بنایا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اپنی عبادت کے ساتھ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا بھی حکم دیا ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ترجمۂ کنز الایمان:اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ (پ1، البقرۃ:83)

اے بندے باپ کے مقام سے غافل نا ہو، زندگی بھر اس کی تعظیم و تکریم اور اس کی خدمت گزاری سے منہ نا موڑ، ایسے الفاظ نا بول جس سے تیرے والد کو اذیت پہنچے، والد کا دل دکھے۔ یاد رکھ! والد کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے والد کی نافرمانی اللہ پاک کی نافرمانی ہے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہےاور والد کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔(طبرانی)

والد کی اطاعت سے چونکہ اللہ عزوجل راضی ہو جاتا ہے اس لیے والد کی اطاعت کو ضروری قرار دیا گیا لامحالہ جب والد راضی ہوگا تواللہ عزوجل بھی راضی ہو جائے گا۔

بیٹے کی کمائی سے والدین کو کھانے کا حق ہے:

نزہتہ المجالس میں ہے: ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے، اس کا باپ عرض کرنے لگا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ کمزور تھا میں قوی تھا وہ محتاج تھا میں مالدار تھا میں نے اپنی ملکیت میں سے کسی چیز سے بھی اس کو منع نہیں کرتا تھااور آج میں کمزور ہو گیا ہو اور یہ مالدار ہے اور یہ اپنا مال مجھے دینے میں بخل کرتا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رونے لگے اور فرمایا: کوئی پتھر یا ڈھیلا بھی یہ سن لے تو وہ بھی رونے لگے گا پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس شخص سے فرمایا کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔

آیئے! والد کی اطاعت و فرمانبرداری پر 5احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: والد جنت کے سب دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہےاب تو چاہے تواس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا اس کی حفاظت کرے۔( ترمذی)

(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے: ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا، دیوث اور وہ عورت کہ مردانی وضع بنائے۔(مستدرک)

(3)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ماں باپ تیری جنت اور تیری دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ)

(4)اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(صحیح ابن حبان)

(5)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک شخص حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ شخص بھی تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! یہ میرے والد ہیں۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنے والد کے آگے مت چلنا، اس سے پہلے مت بیٹھنا، اپنے والد کو نام لے کر مت پکارنا اور اپنے والد کو گالی کے لئے پیش نہ کر۔(درمنثور)

اچھی اولاد وہی ہوتی ہے جو اپنے ماں باپ کی اطاعت کرتی ہے، اطاعت والدین میں اللہ پاک اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوشنودی ہے۔ والدین کی ناراضی والے کاموں سے بچنا چاہئے کہ اللہ پاک کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔ والدین کی خدمت رزق میں اضافے کا سبب بنتی ہے، والدین کی خدمت کرکے ان کی دعائیں حاصل کیجئے کہ والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی اطاعت کرنے اور والد محترم کا دست بازوں بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! والد دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کے لئے زمانے کی ہر سختی برداشت کرتا ہے، والد اللہ پاک کی خوشنودی کا ذریعہ ہے، والد جنت کا دروازہ ہے، والد اولاد کے لئے سرپرست اعلیٰ ہے، والد دنیا میں اولاد کے لئے بہترین رسائی اور سہارا ہے۔ آیئے!والد کی اِطاعت، رضا اور عظمت و شان پر مشتمل پانچ فرامین مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحظہ کرتے ہیں:

(1)اللہ پاک کی اِطاعت والد کی اِطاعت کرنے میں ہے اور اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، 1/614، حدیث:2255)

(2)اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

(3)والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا حفاظت کرے۔ (ترمذی،3/359، حدیث:1906)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، حدیث: 5978)

(5)بیشک سب نکو کاریوں سے بڑھ کر نکو کاری یہ ہے کہ فرزند اپنے والد کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل صلة أصدقاء الأب والأم ونحوهما، ص1382، حدیث:2552)

ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی اِطاعت کرتے ہوئےان کا دیا ہوا ہر جائز کام فوراً کر لینا چاہئے۔ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت نہ کی جائے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت نہیں۔(مسلم، ص789،حدیث: 4765) یاد رکھئے! سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دے دیتا ہے۔(مستدرک حاکم،5/216، حدیث: 7345)

ماں اگر جنت ہے تو والد جنت کا دروازہ ہے، ماں جنم دیتی ہے تو والد زندگی دیتا ہے، ماں چلنا سکھاتی ہے تو والد دوڑنا سکھاتا ہے، ماں بچے کی حفاظت کرتی ہے تو والد دونوں کی حفاظت کرتا ہے، ماں گھر سجاتی ہے تو والد گھر بناتا ہے، ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو والد ہی اسے جنت دیتا ہے، ماں شفیق ہوتی ہے تو والد بہت مہربان ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

اپنی عمر بھر کی خوشیوں اور خواہشات کو بچوں کی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قربان کر کے جینے والا والد جب بڑھاپے میں اپنے بچوں کی شفقت اور حُسنِ سلوک کا طلبگار ہوتا ہے تو اسے جواب میں بے رُخی،طعنے ملیں تو والد پر کیا گزرے گی اس کا اندازہ باپ بن کر ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جن کے والد حیات ہیں ان سے عرض ہے کہ وہ والد کی عظمت کو، والد کے مرتبے کو، والد کے مقام کو سمجھئے اور خُوش دِلی کے ساتھ اپنے والد کی خِدمت اور ان کا ادب و احترام کریں۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

والد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔اگر والد کی تعظیم اور ہر جائز کام میں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے تو کئی کامیابیاں اور سعادتیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر والد کی شان و عظمت اور مقام کو ذکر کیا گیا ہے۔آیئے!والد کی شان و عظمت اور اطاعت و فرمانبرداری پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

والد کی رضا میں رب کی رضا ہے:اللہ تعالیٰ کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ربِّ کریم کی رضا باپ کی رضامندی میں ہے اور ربِّ کریم کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، حدیث:1899)

والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا حفاظت کرے(ترمذی، حدیث: 1900)

والد کی اطاعت میں رب کی اطاعت ہے:اللہ عزوجل کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی فرمانبرداری والد کی فرمانبرداری کرنے میں ہے اور اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، حدیث: 2255)

دنیا میں ہی حساب:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔(مستدرک علی الصحیحین، حدیث :7263)

والدین کا اولاد پر حقوق:

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ماں باپ کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ دونوں تیری جنت اور دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث: 3662)

امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے فتاوٰی رضویہ میں ایک مقام پر والدین کے بارے میں فرمایا: علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کابھی حاکم وآقا ہے۔(فتاویٰ رضویہ،24/ 390)

اللہ کریم ہمیں والدین کی فرمانبرداری کرنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! والد اللہ پاک کی ایک عظیم نعمت ہے، والد کے راضی ہونے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور والد کی ناراضی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا باپ کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360، حدیث:1907)

والد کی فرمانبرداری کے متعلق بھی احادیث مبارکہ موجود ہیں چنانچہ چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں

(1)رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تمام گناہوں میں سے الله جو چاہے بخش دے گا سوا ماں باپ کی نافرمانی کے کہ اس شخص کے لیے موت سے پہلے زندگی میں ہی سزا دیتا ہے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔ الخ، فصل فی عقوق الوالدین،6/197، حدیث:7890)

(2)حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ ایک شخص نےرسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نےعرض کی: ’’ پھرکون؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ارشادفرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ ارشادفرمایا: ’’تمہارا باپ۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/ 93،  حدیث:5971)

(3)حضرت سَیِّدنا ابو عبد الرحمٰن عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تعالیٰ عَنْہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کیا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں کونسا عمل زیادہ پسندیدہ ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’وقت پر نماز ادا کرنا۔ ‘‘ میں نے عرض کی: پھر کونساہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ ‘‘ میں نے عرض کی: ’’پھر کونسا ہے ؟‘‘ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ (فیضان ریاض الصالحین جلد 3 حدیث 312)

(4)رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:رب کی رضا باپ کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360، حدیث:1907)

(5)حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو کہ جو والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پائے اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہماعند الکبر۔۔۔ الخ، ص1381، حدیث:2551)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے، ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی نافرمانی سے بچائے۔آمین۔

دل دُکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا

ورنہ ہے اس میں خسارہ آپ کا

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ہمیں اپنی عبادت و بندگی کے ساتھ اپنے والدین کے اطاعت و فرمانبرداری اور اُن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23)

اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: 23، 7/321، 323)

پیارے اسلامی بھائیو! دین اسلام نے جہاں ہمیں ماں کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا ہے وہیں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا بھی حکم دیا ہے کہ ہم اپنے والد کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ آیئے! والد کی اطاعت و فرمانبرداری پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/464، حدیث: 1899)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/ 241، حدیث: 2255)

ایک اور مقام پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ماں باپ تیری جنت اور تیری دوزخ ہیں۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الادب،باب بر الوالدین: 4/ 186، حدیث: 3662)

اسی طرح ایک اور مقام پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:والد جنت کے سب دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اب تو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا اس کی حفاظت کر۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3، 465، 466، حدیث: 1900)

باپ اولاد کو محبت سے کھلاتا پلاتا اور تمام ضروریات زندگی کی کفالت کرتا ہے، پسینہ بہا کر جو کچھ کماتا ہے اُسے اولاد پر خرچ کرتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود بھوکا رہتا ہے لیکن اولاد کا پیٹ بھرتا ہے، غرض یہ کہ والدین بڑی بڑی مشقتیں جھیل کر اولاد کو پالتے اور پرورش کرتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت کیا یا رسول اللہ! کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ حضور نے فرمایا وقت پر نماز پڑھنا میں نے دریافت کیا پھر کونسا عمل ؟ حضور نے فرمایا: اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے دریافت کیا پھر کونسا عمل ؟ حضور نے فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا۔(بخاری،کتاب الادب، باب البر والصلۃ، ص2227، حدیث:5625)

والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب والدین دنیا سے رخصت ہو جائیں تو ان کے لئے دعائے مغفرت اور ان کے دوستوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بھی ہے،چنانچہ حضرت ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم لوگ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے دریافت کیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! والدین کے انتقال کے بعد اب کوئی صورت ہے کہ میں ان سے نیک سلوک کروں؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہاں والدین کے لیے دعا و استغفار کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام کرنا۔(سنن ابی داؤد، ابواب النوم، باب فی بر الوالدین، 4/336، حدیث: 5142)

قارئین کرام! احادیث مبارکہ میں جہاں والد کی اطاعت و مانبرداری کی فضیلت آئی ہے وہیں والدین کی نافرمانی کرنے والی اولاد کے لئے سخت وعیدات کا ذکر بھی ہے۔ چنانچہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔ الخ، فصل فی عقوق الوالدین، 6/197، حدیث: 7890)

ایک مقام پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1)ماں باپ کا نافرمان (2)دیّوث (3)مَردوں کی وضع بنانے والی عورت۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، 2/43، حدیث: 2443)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص1381، حدیث: 2551)

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔