قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آیئے! قرآن وحدیث سے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کے حوالے سے چند مدنی پھول ملاحظہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:24)

اس آیت میں والدین سے محبت وشفقت اور حُسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ ان سے محبت سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو جیسے بچپن میں انہوں نے تم سے محبت کی۔ اس آیت میں والدین کے بڑھاپے میں بھی خدمت کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یقیناً ماں باپ کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے، بسا اوقات سخت بڑھاپے میں اکثر بستر ہی پر بول و براز ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے۔ مگر یاد رکھیے ! ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے۔ بچپن میں ماں بھی تو بچے کی گندگی برداشت کرتی ہے۔ بڑھاپے اور بیماریوں کے باعث ماں باپ کے اندر خواہ کتنا ہی چڑ چڑا پن آجائے، بلا وجہ لڑیں، چاہے کتنا ہی جھگڑیں اور پریشان کریں، صبر، صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجالانا ضروری ہے۔ اُن سے بد تمیزی کرنا، ان کو جھاڑنا وغیرہ در کنار اُن کے آگے اُف تک نہیں کرنا ہے، ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی اور دونوں جہانوں کی تباہی مقدر بن سکتی ہے کہ والدین کا دل دُکھانےوالا اس دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب نار کا حقدار ہے۔

آیئے! والد اطاعت و فرمانبرداری اور عظمت و شان پر پانچ احادیثِ کریمہ ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما، ص1382، حدیث:2552)

(2)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360، حدیث: 1907)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/641، حدیث:2255)

(4)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی عقوق الوالدین، 6/197، حدیث:7890)

(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص1381، حدیث:2551)

پیارےاسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا کہ احادیث میں بھی کس طرح ماں باپ فرمانبرداری کرنے اور نافرمانی نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو جائے تو ان کے حقوق بھی بتائے گئے ہیں اگر وہ وفات پا جائیں تو ان کے متعلق حقوق بیان کئے گئے ہیں اور جن کا تعلق والد کے ساتھ تھا یعنی باپ کے دوست احباب ان کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا گیا۔

اپنے باپ کے نافرمان کے متعلق کئے گئے ایک سوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: باپ کی نافرمانی الله جبار و قہار کی نا فرمانی ہے اور باپ کی ناراضی الله جبار و قہار کی ناراضی ہے، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اُس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اُس کے دوزخ ہیں۔ جب تک باپ کو راضی نہ کریگا، اُس کا کوئی فرض، کوئی نفل، کوئی نیک عمل اصلاً یعنی ہر گز قبول نہیں،عذاب آخرت کے علاوہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلا (یعنی شدید آفت) نازل ہو گی، مرتے وقت معاذ اللہ کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے۔(فتاویٰ رضویہ،24/ 385،384)

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! والد اللہ پاک کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے ہمیں اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے اپنے والد صاحب کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے کہ اس سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے اور والد کو بھی دلی خوشی ہوتی ہے۔ والد کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والا نیک بخت ہے اور برا سلوک کرنے والا بد بخت ہےاور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے ساتھ برا سلوک کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت میں بربادی ہی بربادی ہے۔ آیئے! والد اطاعت و فرمانبرداری اور عظمت و شان پر پانچ احادیثِ کریمہ ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں اور اللہ عزوجل کی نا فرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، 1/614،حدیث:2255)

(2)نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: باپ جنت کا درمیانی دروازه ہے، اب تیری مرضی ہے کہ تو اس کی حفاظت کرے یا اسے چھوڑ دے۔(ترمذی، 3/359، حدیث: 1906)

(3)حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے باپ کو ہرگز گالی نہ دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کوئی اپنے باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کسی شخص کے باپ کو گالی دے گا تو وہ اس کے باپ کو گالی دے گا۔(مسلم، ص60، حدیث: 263)

(4)اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ بیٹا اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے۔(مسلم، کتاب العتق، باب فضل عتق الوالد، ص624، حدیث: 3799)

(5)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان سے حسنِ سلوک نہ کیا وه اللہ کریم کی رحمت سے دور ہوا اور غضبِ خدا کا مستحق ہوا۔(معجم کبیر، 12/66، حدیث: 12551)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا، کہنے لگا: یارسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ پھر کون سا گناہ؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ماں باپ کو ستانا۔ پھر کون سا گناہ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غموس قسم کھانا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے عرض کی: یا رسول اللہ غموس قسم کیا ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جان بوجھ کر کسی مسلمان کامال مار لینے کے لئے جھوٹی قسم اٹھانا۔(بخاری، حدیث:6920)

پیارے اسلامی بھائیو ! اس حدیث پاک سے پتا چلا کہ ماں باپ کو ستانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، آئیے! والد کی فرمانبرداری سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو،اس کی ناک خاک آلود ہو،اس کی ناک خاک آلود ہو ! عرض کی گئی اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس کی؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو اپنےوالدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پا لے پھر وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے جنت میں داخل نہ ہو۔(مشکوة المصابیح، حدیث:4912)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازے کو ضائع کردو اگر چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔(ترمذی، حدیث:1899)

پیارے اسلامی بھائیو! ان احادیث مبارکہ سے پتا چلا کہ والد کی شان کتنی بڑی ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنے والد کی فرمانبرداری کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں۔ باپ کے اپنی اولاد پر اس قدر احسانات ہیں کہ اگر اولاد کو ایک کیا کئی زندگیاں بھی مل جائیں تب بھی وہ اپنے باپ کے احسانات کا بدلہ نہ چکا سکے۔ باپ قدرت کا انمول تحفہ ہے، باپ خاندان میں اولاد کی پہچان کا ذریعہ ہے، باپ بیمار و معذور اولاد کو اکیلا نہیں چھوڑتا، باپ اولاد کی خاطر سخت گرمی و سردی میں محنت و مشقت کرتا ہے، باپ اولاد کے ناز نکھرے اٹھاتا ہے، باپ نہ ہو تو گھر ویران سا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں والد کا خیال رکھنا چاہئے، ان کی خدمت کرنی چاہئے، ان کا ادب و احترام کرنا چاہئےاور ان سے پیار محبت کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ اللہ عزوجل ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

دینِ اسلام نے ہمارے محسن اور ہماری تربیت کرنے والی وہ اعلیٰ شخصیت کہ جو ہم سے سب سے بڑھ کر پیار کرتی ہے، ہماری خواہش پر اپنی خواہش قربان کرتی ہے، جو اذیتیں اور مشکلات برداشت کر کے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے، جو ہمارے وجود کا ظاہری سبب ہے، جن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا ہمیں درس دیا گیا ہے وہ شخصیت کوئی اور نہیں ہمارے والد ہیں۔ آیئے! والد کی فرمانبرداری سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

والد کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتا، مگر یہ کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے اور پھر اس کو خرید کر آزاد کردے۔

شرح حدیث:فیضان ریاض الصالحین میں ہے : پہلے زمانے میں انسانوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ ہوا کرتا تھا اور جنگ میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور پھر اُن سے مختلف کام لیے جاتے تھے یا انہیں فروخت کردیا جاتا تھا اور پھر خریدار ان غلاموں سے اپنی مرضی کا کام لیتا یا انہیں آزاد کردیتا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے باپ یا قریبی رشتہ داروں میں سے کسی کو خریدے گا تو جمہور کے نزدیک وہ خریدتے ہی آزاد ہو جائیں گے اسے آزاد کرنے کی حاجت نہیں۔ اس حدیث پاک میں باپ کے عظیم حق کو بیان کرنا مقصود ہے یہ مراد نہیں کہ اگر کوئی اپنے باپ کو خرید کر اسے آزاد کردے تو اس نے اپنے باپ کا حق ادا کردیا۔ چنانچہ علامہ ملا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بیٹا اپنے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتا۔(فیضان ریاض الصالحین، حدیث نمبر:313)

والد کے دوستوں سے بھلائی کرنا:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بہترین بھلائیوں میں سے کسی شخص کا اپنے باپ کے غائب ہونے کے بعد اس کے محبت والوں سے حسنِ سلوک کرنا ہے۔

شرح:یعنی جب ماں باپ سفر میں گئے ہوں یا وفات پاچکے ہوں تو ان کے دوستوں کو اپنا باپ سمجھ کر ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ ہمارے والدین کے دوست ہیں۔(مرآۃ المناجیح)

والد کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ کی نافرمانی والد کی نافرمانی میں ہے۔(معجم اوسط، 1/614، حدیث:2255)

والد کی رضا میں رب کی رضا ہے: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا(خوشی) میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔( ترمذی، ص454، حدیث:1859)

والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے:اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: والد جنت کے سب دروازوں میں درمیانی دروازہ ہے اب تو چاہے اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا اس کی حفاظت کر۔

لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ان احادیث پر عمل کرتے ہوئےاپنے والد کا ادب کریں، ان کی فرمانبرداری کرکے جنت حاصل کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، ان کے ساتھ نرم لہجے میں بات کریں، سختی سے کلام نہ کریں، اگر وہ وفات پاگئے ہوں تو ان کے دوستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں کیونکہ یہ بھی اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے والد کا ادب و احترام کرنے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم نے والد کو بڑا مقام و مرتبہ عطا فر مایا ہے، باپ ایک گھر کے پلر کی مانند ہے اگر اس پلر کو ختم کر دیا جائے تو گھر کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں، باپ جب تک گھر میں رہتا ہے تو گھر کے معاملات کا چلنا آسان ہوتا ہے کیونکہ باپ دن رات محنت و مشقت کر کے اپنی اولاد کو پالتا ہے، اولاد ساری زندگی بھی اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتی لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے والد کی تعظیم کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ احسان و بھلائی والا معاملہ بھی کرے، اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ترجمۂ کنز الایمان:اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ (پ1، البقرۃ:83)

نیز والد کی عظمت و اہمیت پر کئی احادیث مبارکہ میں بھی ہیں، آیئے! اس مناسبت سے پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)باپ کی خوشی میں رب کی خوشی ہے:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی نا خوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔ (صراط الجنان، 5/ 442)

(2)والد کی اطاعت رب کی اطاعت ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے۔ (صراط الجنان، 5/442)

(3)ذلیل شخص کون:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس کی ناک خاک میں ملے اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ کسی نے پوچھا، یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھا پے کے وقت پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم)

(4)زیادہ احسان کرنے والا کون؟ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرے۔(بہار شریعت، 3/551)

(5)والد جنت کا دروازہ:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ والد جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے، اب تیری خوشی ہے کہ اس دروازہ کی حفاظت کرے یا ضائع کر دے۔(ترمذی، ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والد کی حقیقی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، والدین کی خدمت کرنا بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے، احادیث مبارکہ جہاں ماں کی شان و عظمت بیان ہوئی ہے وہیں باپ کی شان و عظمت کو بھی بیان کیا گیا ہے، آیئے!والد کی اطاعت و فرمانبرداری پر 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)باپ کے دوستوں کے ساتھ احسان:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرنے۔(بہار شریعت بحوالہ مسلم)

(2)والد جنت کا درمیانی دروازہ:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ والد جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے، اب تیری خوشی ہے کہ اس دروازہ کی حفاظت کرے یا ضائع کر دے۔(ترمذی)

(3) باپ کو چھوٹی عمر میں پانی پلانے کی فضیلت:حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی چھوٹی عمر میں اپنے والد کو ایک مرتبہ پانی پلایا اللہ پاک بروزِ قیامت اسے آبِ کوثر سے 70 مرتبہ پانی پلائے گا۔( جمع الجوامع، 7/716،حدیث:2210)

(4)باپ سے منہ نہ پھیرو:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: باپ سے منہ نہ پھیرو جس نے اپنے باپ سے منہ پھیرا اس نے کفر کیا۔ (بُخاری شریف)

(5)والد کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی:حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد کی اطاعت اللہ پاک کی اطاعت ہے اور والد کی نا فرمانی اللہ کی نا فرمانی ہے۔(معجم اوسط)

اللہ پاک ہمیں اپنے والد کی عزت اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

الله عز و جل نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فر مائیں اور ہم پر بے شماراحسانات کئے جن میں سے ایک نعمت والد ہے۔ والد ایک ایسی نعمت ہے جس کاصلہ ہم زندگی بھر بھی ادا نہیں کر سکتے۔ والد کی رضا اللہ کی رضا ہے اور والد کی معصیت اللہ عزوجل کی معصیت ہے۔ والد کو جنت کا درمیانہ دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ آئیے! والد کی فرمانبرداری پر کچھ احادیث مبارکہ ملاحظہ فرماتے ہیں:

والدکی اطاعت اور معصیت:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد کی اطاعت اللہ عزوجل کی اطاعت ہے اور والد کی معصیت الله عزوجل کی معصیت ہے۔(المعجم الاوسط،3/134، حدیث: 227)

والد جنت کا درمیانی دروازہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے اب تو چاہے تو اسے ضائع کردے یا اس کی حفاظت کر۔ (ترمذی)

ر سول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ بیٹا اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے۔(احیاء العلوم)

والد کی دعا رد نہیں ہوتی:حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین دعائیں ایسی ہیں جن کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: (1) باپ کی دعا (2) مظلوم کی دعا(3) مسافر کی دعا۔( ترمذی، 3/362، حدیث: 1912)

والد سے احسان کرنے والا: حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم، ص1382، حدیث: 2552)

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں اپنے والد کی فرمانبرداری کرنی چاہئے اور کبھی بھی والد کی باتوں کا برا نہیں ماننا چاہئے، اللہ پاک ہمیں والد کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


والد کے ساتھ حسن سلوک اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیاہے، اسی مناسبت سے ترغیب کے لیے والد کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کرنے کے متعلق چند احادیث پیش خدمت ہیں:

(1)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روریت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم)

(2)حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر و الصلة، باب ماجاء من الفعل في هذا الوالدين)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی میں ہے۔ (معجم اوسط)

(4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص جنت میں نہ جائیں گئے: ماں باپ کا نا فرمان، مَردوں کی وضع بنانے والی عورت اور دیوث۔ (معجم اوسط)

(5)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی میں مل جائے گی۔ (شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان فعل في عقوق الوالدین)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

انسان کے پاس دنیا میں بہت سے رشتے ہیں مگر والدین کے رشتے جیسا کوئی رشتہ نہیں۔ اخلاق حسنہ کا سب سے پہلا سبق والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے، قرآن کریم میں بھی والدین کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا حکم موجود ہے، مگر آج ہم والد کی فرمانبرداری پر چند احادیث مبارکہ پڑھنے کی سعادت حاصل کریں۔

(1)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اگر تم چاہو تو اس دروازے کو ضائع کر دو اگر چاہو تو حفاظت کرو۔(ترمذی، حدیث:1899)

(2)صحابی ابن صحابی حضرت سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کو کیا سکھایا اور تمہارے بیٹے سے اپنے باپ کی (یعنی تمہاری) فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں سوال ہوگا۔(شعب الایمان، 6/ 400)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں شک نہیں۔ والد کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔(ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، مشكوٰة المصابیح)

(4)حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی چھوٹی عمر میں اپنے والد کو ایک مرتبہ پانی پلایا اللہ عزوجل بروز قیامت اسے آب کو ثر سے 70 مرتبہ پانی پلائے گا۔ (جمع الجوامع، 7/ 1716، حدیث: 2210)

(5)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ تمہیں اختیار ہے خواہ (اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازے کو ضائع کردو یا (اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔(ترمذی)

(6)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اعلیٰ نیکیوں میں سے ایک اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوست کے ساتھ احسان و سلوک کا معاملہ کرے۔(مسلم، حدیث: 1478)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

والدین کو اللہ نے اپنی صفتِ ربوبیت کا مظہر بنایا ہے۔ دنیا جہاں کی عیش و عشرت، آرائش و زیبائش اور خزانے ایک طرف مگر ماں کی محبت اور باپ کی شفقت ایک طرف ہے۔ (گلشنِ خطیب، 2/31)

دینِ اسلام میں جہاں اولاد کے حقوق بیان ہوئے ہیں وہاں اللہ کریم نے والدین کی عظمت کو جس انداز میں بیان کیا وہ بے مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا ذکر کیا وہاں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی حکم دیا اور والدین کی خدمت اور عزت و تکریم کو عبادت قرار دیا۔ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ماں کے قدموں میں جنت کی بشارت سنائی اور باپ کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا۔ (گلشنِ خطیب، 2/33)

ان دونوں ہستیوں یعنی ماں و باپ کی اطاعت و خدمت کرنا باعثِ سعادت و ذریعۂ نجات ہے لیکن آج ہم ان میں سے ایک ہستی یعنی باپ کی فرمانبرداری احادیث طیبہ کی روشنی میں بیان کریں گے۔

رب کی رضاباپ کی رضا میں:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، 1/328، حدیث: 430)

مذکورہ حدیث پاک میں اللہ کریم کو راضی کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ جس نے اپنے والد کو راضی کر لیا اس نے اللہ کو راضی کر لیا جس طرح والد نے بچپن میں تمہاری پرورش کی اور اپنی جملہ توانائیاں تمہارے لیے صَرف کر دی تو جب والد بڑھاپے کو پہنچ جائے اور تمہاری طرف سے خدمت، صلۂ رحمی کا متمنی ہو تو اس کی خدمت کرو حسن سلوک سے پیش آؤ تو یقیناً تمہارا باپ تم سے خوش ہوگا اور جب باپ راضی اور خوش ہو گا تو تمہارا پروردگار بھی تم سے راضی ہو جائے گا۔(گلشن خطیب، 2/56)

باپ کے احسانات کا بدلہ دینا ممکن نہیں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق نہیں ادا کر سکتا سوا اس صورت کے کہ باپ کو کسی کا غلام پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے (الترغیب والترہیب، 2/242)

بابِ جنت کی حفاظت کیجئے:حدیث پاک میں ہے:والد جنت کے سب دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اب تو چاہے تو اس دروازے کو ہاتھ سے کھو دے خواہ نگاہ رکھ۔ (تفسیر در منثور اردو، 4/456)

باپ کی صحیح خدمت کرنے والا بیٹا جب باپ کی فرمانبرداری کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو گویا قیامت کے دن اسے جنت کے درمیانے دروازے سے گزرنے کی اجازت مل جائے گی، باپ کے فرمانبردار کو جنت کے مین دروازے سے گزارا جائے گا اور جس نے باپ کی نافرمانی کی ہوگی گویا اس نے اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے بند کر دیا اور جب درمیانہ دروازہ ہی نہ کھلے گا تو گویا وہ جنت میں بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔(گلشنِ خطیب، 2/58)

اللہ ہمیں بھی ان فضائل کو مد نظر رکھتے ہوئے والد اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کو اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے انسان کی پیدائش اور پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا ہے۔ ماں راتوں کو جاگ کر اپنا آرام اپنے بچوں پر قربان کرتی ہے تو باپ اپنے بچوں اور ان کی ماں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے دن بھر محنت و مزدوری کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اُن کی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھا ہوتا تو یقیناً بچے کی صحیح معنوں میں پرورش و تربیت نہ ہو پاتی۔ اب اگر یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ دے،اُن کیساتھ حُسن سلوک سے نہ پیش آئے، ان کی گستاخی و بے ادبی کرے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم کیا ہو سکتا ہے۔

دینِ اسلام میں والدین کیساتھ حُسن سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ آج ہم خصوصاً والد کی فرمانبرداری پر احادیث مبارکہ پڑھیں گے:

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے (ترمذی)

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا اس کی حفاظت کرے۔(ترمذی،3/359، حدیث:1906)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتایہاں تک کہ بیٹا اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے۔(مسلم،کتاب العتق،باب فضل عتق الوالد،حديث:3799)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں، ان سے ادب واحترام سے پیش آئیں، ان پر اپنا مال خرچ کریں اور ان کی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی تلاش کریں۔کیونکہ دنیا میں ہر چیز دوبارہ مل سکتی ہے لیکن ماں باپ ایک ایسی چیز ہیں کہ یہ صرف ایک ہی بار ملتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے والدین کی قدر کرتے ہیں، ان کا ادب کرتے ہیں، ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کی دعائیں قبول کرتا ہے، ان کی عمریں دراز کرتا ہے، انہیں ناگہانی آفات سے محفوظ رکھتا ہے، ان کے رزق میں برکت دیتا ہے اور انہیں دنیا و آخرت میں عزت و شہرت عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بھی ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں اگرچہ والدین ہمیں برا بھلا کہہ دیں پھر بھی ان سے احترام سے پیش آئیں، ان کی نافرمانی نہ کریں، ان کے آگے اونچا نہ بولیں اور ان کی خدمت سے انکار نہ کریں۔

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

والد کے اپنی اولاد پر اس قدر احسانات ہیں کہ اگر اولاد کو ایک تو کیا کئی زندگیاں بھی مل جائیں تب بھی وہ اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ والد قدرت کا انمول تحفہ ہے، والد کے حقوق سے آزاد ہونا ناممکن ہے، والد وہ ہستی ہے جو بغیر کسی غرض، لالچ اور بدلے کے اپنی اولاد پر احسان کرتا ہے، ان کے لیے صبح سویرے کام کاج کے لئے گھر سے نکل پڑتا اور گرمی ہو یا سردی، سخت دھوپ ہو یا بارش، صحت ہو یا بیماری ہر حال میں روزانہ سارا سارا دن محنت مزدوری کر کے اولاد کا پیٹ بھرتا ہے، ان کی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، انہیں اچھی تعلیم دلواتا ہے، اچھا لباس پہنانے کی کوشش کرتا ہے، اولاد کی ترقی کے لئے ہمیشہ کڑھتا رہتا ہے، اولاد پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات ان کا خیال بھی رکھتا ہے اور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتا ہے، والد اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیتا ہے، والد اولاد کے لئے سایہ دینے والے درخت کی طرح ہوتا ہے، والد خود گرمی برداشت کر کے اولاد کو آرام و سکون پہنچاتا ہے، والد اولاد کے سکون کی خاطر خود تکلیفیں برداشت کر لیتا ہے، والد دنیا میں شاید وہ واحد ہستی ہے جو اولاد کو اپنی ذات سے بھی زیادہ کامیاب بنانا چاہتا ہے، وقتا فوقتا اپنی اولاد کو مفید مشوروں سے نوازتا ہے، اولاد کو اپنی زندگی کے تجربات سے آگاہ کرتا ہے، اولاد کو موجودہ اور آئندہ آنے والے خطرات و فتنوں سے باخبر کرتا ہے، انہیں کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھاتا ہے، اولاد کو اپنے پرائے کا فرق بتاتا ہے، انہیں خوش دیکھ کر خوش ہوتا اور اولاد کو دُکھ تکلیف میں مبتلا دیکھ کر بے قرار ہو جاتا ہے، والد اولاد کے چہرے سے ہی ان کی حاجات و پریشانیاں بھانپ لیتا ہے، مشکلات میں اولاد کی ہمت بندھاتا ہے، معذور اولاد کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑتا، والد نافرمان اولاد کے لئے بھی اپنی محبتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے، والد نہ ہو تو گھر ویران ہو جاتا ہے۔

والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم قرآنِ کریم میں بھی بیان ہوا ہے، چنانچہ پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 اور 24 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23، 24)

آئیے! اب احادیث مبارکہ کی روشنی میں والد کی اطاعت و فرمانبرداری پر 4فرامین مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:

(1)جنت کا دروازہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے، تیری مرضی ہے، اس کی حفاظت کر یا اسے چھوڑ دے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلة، باب: ماجاء من الفضل في رضا الوالدین، 3/359، حدیث:1906)

(2)رب کی رضا: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:رب کریم کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کریم کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،3/360، حدیث:1907)

(3)اللہ تعالیٰ کا غضب: نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان سے اچھا سلوک نہ کیا وہ اللہ کریم کی رحمت سے دور ہوا اور خدا پاک کے غضب کا حق دار ہوا۔(معجم کبیر،12/66، حدیث: 12551)

(4)والد کو گالی نہ دے:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اپنے والد کو ہر گز گالی نہ دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!کوئی شخص اپنے والد کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کسی شخص کے والد کو گالی دے گا تو وہ اس کے والد کو گالی دے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب الكبائر و اكبرها، ص20، حدیث: 263ملخصاً)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والد محترم کی خوب خوب اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔