عبد الرحیم عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
والد کے اپنی اولاد پر اس قدر احسانات ہیں کہ اگر اولاد کو
ایک تو کیا کئی زندگیاں بھی مل جائیں تب بھی وہ اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں
چکا سکتی۔ والد قدرت کا انمول تحفہ ہے، والد کے حقوق سے آزاد ہونا ناممکن ہے، والد
وہ ہستی ہے جو بغیر کسی غرض، لالچ اور بدلے کے اپنی اولاد پر احسان کرتا ہے، ان کے
لیے صبح سویرے کام کاج کے لئے گھر سے نکل پڑتا اور گرمی ہو یا سردی، سخت دھوپ ہو
یا بارش، صحت ہو یا بیماری ہر حال میں روزانہ سارا سارا دن محنت مزدوری کر کے
اولاد کا پیٹ بھرتا ہے، ان کی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے،
انہیں اچھی تعلیم دلواتا ہے، اچھا لباس پہنانے کی کوشش کرتا ہے، اولاد کی ترقی کے
لئے ہمیشہ کڑھتا رہتا ہے، اولاد پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات ان کا خیال بھی
رکھتا ہے اور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتا ہے، والد اولاد کے مستقبل کو
سنوارنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیتا ہے، والد اولاد کے لئے سایہ
دینے والے درخت کی طرح ہوتا ہے، والد خود گرمی برداشت کر کے اولاد کو آرام و سکون
پہنچاتا ہے، والد اولاد کے سکون کی خاطر خود تکلیفیں برداشت کر لیتا ہے، والد دنیا
میں شاید وہ واحد ہستی ہے جو اولاد کو اپنی ذات سے بھی زیادہ کامیاب بنانا چاہتا
ہے، وقتا فوقتا اپنی اولاد کو مفید مشوروں سے نوازتا ہے، اولاد کو اپنی زندگی کے
تجربات سے آگاہ کرتا ہے، اولاد کو موجودہ اور آئندہ آنے والے خطرات و فتنوں سے
باخبر کرتا ہے، انہیں کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھاتا ہے، اولاد کو اپنے پرائے
کا فرق بتاتا ہے، انہیں خوش دیکھ کر خوش ہوتا اور اولاد کو دُکھ تکلیف میں مبتلا
دیکھ کر بے قرار ہو جاتا ہے، والد اولاد کے چہرے سے ہی ان کی حاجات و پریشانیاں
بھانپ لیتا ہے، مشکلات میں اولاد کی ہمت بندھاتا ہے، معذور اولاد کو بھی بے سہارا
نہیں چھوڑتا، والد نافرمان اولاد کے لئے بھی اپنی محبتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے،
والد نہ ہو تو گھر ویران ہو جاتا ہے۔
والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم قرآنِ کریم میں بھی بیان
ہوا ہے، چنانچہ پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 اور 24 میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:
وَ قَضٰى
رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا
كَرِیْمًا(23) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب
نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر
تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ
کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ اور ان کے لیے عاجزی کا
بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان
دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23، 24)
آئیے! اب احادیث مبارکہ کی روشنی میں والد کی اطاعت و
فرمانبرداری پر 4فرامین مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:
(1)جنت کا دروازہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے، تیری مرضی ہے، اس کی حفاظت
کر یا اسے چھوڑ دے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلة، باب: ماجاء من الفضل في رضا
الوالدین، 3/359، حدیث:1906)
(2)رب کی رضا: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:رب کریم کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کریم کی
ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل في
رضا الوالدين،3/360، حدیث:1907)
(3)اللہ تعالیٰ کا غضب: نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان سے
اچھا سلوک نہ کیا وہ اللہ کریم کی رحمت سے دور ہوا اور خدا پاک کے غضب کا حق دار
ہوا۔(معجم کبیر،12/66، حدیث: 12551)
(4)والد کو گالی نہ دے:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اپنے والد کو ہر گز گالی نہ دے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم!کوئی شخص اپنے والد کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کسی شخص کے
والد کو گالی دے گا تو وہ اس کے والد کو گالی دے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب
الكبائر و اكبرها، ص20، حدیث: 263ملخصاً)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والد محترم کی خوب خوب اطاعت و
فرمانبرداری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔