انسان کے پاس دنیا میں بہت سے رشتے ہیں مگر والدین کے رشتے جیسا کوئی رشتہ نہیں۔ اخلاق حسنہ کا سب سے پہلا سبق والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے، قرآن کریم میں بھی والدین کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا حکم موجود ہے، مگر آج ہم والد کی فرمانبرداری پر چند احادیث مبارکہ پڑھنے کی سعادت حاصل کریں۔

(1)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اگر تم چاہو تو اس دروازے کو ضائع کر دو اگر چاہو تو حفاظت کرو۔(ترمذی، حدیث:1899)

(2)صحابی ابن صحابی حضرت سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کو کیا سکھایا اور تمہارے بیٹے سے اپنے باپ کی (یعنی تمہاری) فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں سوال ہوگا۔(شعب الایمان، 6/ 400)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں شک نہیں۔ والد کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔(ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، مشكوٰة المصابیح)

(4)حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی چھوٹی عمر میں اپنے والد کو ایک مرتبہ پانی پلایا اللہ عزوجل بروز قیامت اسے آب کو ثر سے 70 مرتبہ پانی پلائے گا۔ (جمع الجوامع، 7/ 1716، حدیث: 2210)

(5)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ تمہیں اختیار ہے خواہ (اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازے کو ضائع کردو یا (اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔(ترمذی)

(6)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اعلیٰ نیکیوں میں سے ایک اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوست کے ساتھ احسان و سلوک کا معاملہ کرے۔(مسلم، حدیث: 1478)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔