عتیق الرحمٰن عطاری (درجۂ
سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان مکہ راولپنڈی، پاکستان)
دینِ اسلام نے ہمارے محسن اور ہماری تربیت کرنے والی وہ
اعلیٰ شخصیت کہ جو ہم سے سب سے بڑھ کر پیار کرتی ہے، ہماری خواہش پر اپنی خواہش
قربان کرتی ہے، جو اذیتیں اور مشکلات برداشت کر کے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے،
جو ہمارے وجود کا ظاہری سبب ہے، جن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور ان کی اطاعت و
فرمانبرداری کرنے کا ہمیں درس دیا گیا ہے وہ شخصیت کوئی اور نہیں ہمارے والد ہیں۔
آیئے! والد کی فرمانبرداری سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:
والد کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا: اللہ پاک کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں
کرسکتا، مگر یہ کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے اور پھر اس کو خرید کر آزاد
کردے۔
شرح حدیث:فیضان ریاض الصالحین میں ہے : پہلے زمانے میں انسانوں کی خرید و فروخت کا
سلسلہ ہوا کرتا تھا اور جنگ میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا
اور پھر اُن سے مختلف کام لیے جاتے تھے یا انہیں فروخت کردیا جاتا تھا اور پھر
خریدار ان غلاموں سے اپنی مرضی کا کام لیتا یا انہیں آزاد کردیتا۔ لیکن اگر کوئی
شخص اپنے باپ یا قریبی رشتہ داروں میں سے کسی کو خریدے گا تو جمہور کے نزدیک وہ
خریدتے ہی آزاد ہو جائیں گے اسے آزاد کرنے کی حاجت نہیں۔ اس حدیث پاک میں باپ کے
عظیم حق کو بیان کرنا مقصود ہے یہ مراد نہیں کہ اگر کوئی اپنے باپ کو خرید کر اسے
آزاد کردے تو اس نے اپنے باپ کا حق ادا کردیا۔ چنانچہ علامہ ملا علی قاری رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بیٹا اپنے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتا۔(فیضان ریاض
الصالحین، حدیث نمبر:313)
والد کے دوستوں سے بھلائی کرنا:حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
بہترین بھلائیوں میں سے کسی شخص کا اپنے باپ کے غائب ہونے کے بعد اس کے محبت والوں
سے حسنِ سلوک کرنا ہے۔
شرح:یعنی جب ماں باپ سفر میں گئے ہوں یا وفات پاچکے ہوں تو
ان کے دوستوں کو اپنا باپ سمجھ کر ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ
ہمارے والدین کے دوست ہیں۔(مرآۃ المناجیح)
والد کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سےروایت ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ کی نافرمانی والد کی
نافرمانی میں ہے۔(معجم اوسط، 1/614، حدیث:2255)
والد کی رضا میں رب کی رضا ہے: اللہ پاک کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا(خوشی) میں
ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔( ترمذی، ص454، حدیث:1859)
والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے:اللہ پاک کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: والد جنت کے سب دروازوں میں
درمیانی دروازہ ہے اب تو چاہے اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا اس کی حفاظت
کر۔
لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ان احادیث پر عمل کرتے ہوئےاپنے
والد کا ادب کریں، ان کی فرمانبرداری کرکے جنت حاصل کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک
سے پیش آئیں، ان کے ساتھ نرم لہجے میں بات کریں، سختی سے کلام نہ کریں، اگر وہ
وفات پاگئے ہوں تو ان کے دوستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں کیونکہ یہ بھی اپنے والد
کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے والد کا
ادب و احترام کرنے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے
پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم