حافظ محمد اسد رضا (درجۂ
خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں والدین کے حق کو اپنی
بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ہے، جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے
کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے، چنانچہ پارہ15،سُورۂ بَنی اِسرائیل کی
آیت نمبر23 میں اللہ پاک اِرْشاد فرماتا ہے:وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا
كَرِیْمًا(23)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب
نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر
تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ
کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23)
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ
ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود
کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ
ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر
اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب
عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک
سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم
بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ:23، 7/321،
323)
اور قرآنِ کریم میں یہ حکم بھی دیا ہے کہ اپنے لئے اور
اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کرے جیساکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت نوح
عَلَیْہِ السَّلَام کے متعلق بتایا کہ وہ یوں دعا مانگتے ہیں: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ
وَ لِوَالِدَیَّ ترجمۂ کنزالایمان: اے میرے رب
مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔(پ29،نوح:28)
پیارے اسلامی بھائیو! والد کے احسانات کا بدلہ دینا اور ان
کے حقوق کو کما حقہ ادا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آیئے! والد کی اطاعت و فرمانبرداری
پر چھ احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ
ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان
کرے۔(مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما، ص1382،
حدیث:2552)
(2)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی
ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360،
حدیث: 1907)
(3)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی
نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/641،
حدیث:2255)
(4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ایک آدمی نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ہجرت پر بیعت کرنے
کے لیے آیا اور کہا: میں آپ کی خدمت میں ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں اور
اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ اآیا ہوں۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: تو واپس چلا جا: اور جیسے ان کو رلایا ہے ویسے ہی ان کو ہنسا۔(مستدرک
للحاکم)
(5)حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن
سلوک کیا اس کو خوشخبری ہو: اللہ تعالیٰ اس کی عمر لمبی فرمائے۔ (مستدرک للحاکم)
(6)سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر اس
صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو کسی کا غلام پائے تو اسے خریدکر آزاد کردے۔( فیضان
ریاض الصالحین)
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے والد کے احسانات یاد رکھنے
اور ان کی بھرپور خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ
النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم