فی زمانہ لوگوں میں ایسی بری عادت پائی جا رہی ہے کہ لوگ اپنے اوصاف چھوڑ کر گناہوں کی طرف راغب ہوتے جا رہے ہیں یہ بری عادت خصوصاً عورتوں میں زیادہ پائی جا رہی ہے اور اپنے اوصاف بھولنے ساتھ ساتھ گناہوں کی طرف بڑھتی جا رہی ہیں لیکن ابھی بھی کچھ ایسی عورتیں ہیں جو اپنے اوصاف کی مکمل طور پر پاسداری کر کے اس پر عمل بھی کرتی ہیں چنانچہ ﷲ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ-

ترجمۂ کنز الایمان: تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔

نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔ (صراط الجنان، سورۃ النساء 4، آیت 34)

اس آیت میں مؤمنہ عورت کا دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے سامان کی کس طرح حفاظت کرتی ہے اور صرف اس کی موجودگی میں نہیں بلکہ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کے مال و متاع کی حفاظت کرتی ہے

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)

ترجمۂ کنز الایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔

اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (صراط الجنان، سورۃ التوبۃ 9،آیت 71)

اس آیت میں مؤمنہ عورت کا تیسرا وصف یہ بیان کیا گیا ہے مؤمنہ عورت مؤمن مرد کے ساتھ رفیق ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا حکم بھی دیتے ہیں اور شریعت کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔

ان تمام آیاتِ قرآنیہ سے مؤمنہ عورت کی صفات واضح ہو رہی ہیں اللہ پاک مؤمنہ عورتوں کو ان اوصاف کے ساتھ متصف فرمائے اور ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)

ترجمہ کنزالایمان: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔ (پ26، الحجرات:13)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ان میں دو انواع مرد اور عورت کو پیدا کیا پھر انہیں قومیں اور قبیلے بنایا۔ اور ان قبیلے اور قوموں میں رہنے کے لیے انسان کو کچھ اصولوں کا پابند بنایا اور ان اصولوں کو قرآن پاک میں بیان فرمایا۔ آج ہم قرآن پاک میں بیان کردہ عورتوں کے احکام وصفات کو ذکر کریں گے۔ بے شک ہمارے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اور بہترین ہدایت حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہدایت ہے جیسے کہ حدیث پاک میں ہے:خیر ھدی ھدی محمد۔ اور قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-

ترجمہ کنزالایمان: نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں (پ21، الاحزاب: 6)

جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم پر ہماری جان سے زیادہ مالک ہیں جب ان کا حکم آجائے تو ہمیں کسی امر کا اختیار نہیں اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج ہماری مائیں ہیں۔ تو جب ہماری ان ماؤں کو اللہ تعالیٰ پردے کا حکم دیتا ہے تو ہمارے لیے بدرجہ اولیٰ اس حکم پر عمل کرنا لازم آئے گا جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)

ترجمہ کنزالایمان: اے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ22، الاحزاب:59)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ میرے حبیب کی ازواج! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور اپنی رہائش گاہوں میں سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلو)۔ یاد رہے کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے ہے لیکن اس کے حکم میں دیگر عورتیں بھی داخل ہیں۔ (روح البیان الاحزاب، تحت الآية 10/733)

وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى

ترجمہ کنزالایمان: اور بے پردہ نہ رہو جسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔یعنی جس طرح پہلی جاہلیت کی عورتیں بے پردہ دہا کرتی تھیں اس طرح تم بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔

یادر ہے کہ پہلی جاہلیت سے مراد اسلام سے قبل کا دور تھا جس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار کرتی تھیں تاکہ غیر مرد ان کی طرف متوجہ ہوں اور پچھلی جاہلیت سے مراد آجری زمانہ ہے کہ تب کی عورتیں بھی اسی طرح کریں گی جس طرح معاذاللہ آجکل عام ہے، پھر اس آیت کو بیان کرنے کے بعد اسی آیت میں مومنہ عورت کے کچھ اور صفات کو اس طرح بیان کیا کہ

وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)

ترجمہ کنزالایمان: اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اللہ اور رسول کا حکم مانو اے نبی کے گھر والو! اللہ، تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکےخوب صاف ستھرا کردے۔(پ22، الاحزاب: 33)

اللہ تعالیٰ نے مؤمنہ عورتوں کے صفات میں نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر فرمایا ہے، نیزنماز ایک ایسا عمل ہے جس کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے۔ یہ نماز ایسا عمل ہے جو انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ اس کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ کیجئے کہ قیامت میں سب سے پہلے اعمال میں نماز کا سوال ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تقریباً 700 سے زائد مرتبہ نماز کا ذکر فرمایا ہے حتی کہ جب جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں دوزخ میں کس عمل نے ڈالا تو وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳)

ترجَمۂ کنزُالایمان: تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔

نماز کے متعلق بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔ ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اپنی نماز کی پابندی کریں اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،

وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں۔(پ18، النور:31)

اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا اور غیر مردوں کو دیکھنے سے منع فرمایا ہے، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم حاضر خدمت ہوئے تو حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں پردہ قائم کرنے کا حکم دیا تو میں نے عرض کی: وہ تو نابینا ہیں ہمیں دیکھ نہیں سکتے تو حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں۔

دوسرا حکم یہ ہواکہ اپنی زینت نہ دکھائیں۔ اس سے مراد جب زینت کا سامان پہن لیں تو اس وقت اپنے آپ کو غیر مردوں سے چھپائیں اور اپنی زینت محض اپنے شوہروں کے لیے رکھیں اور ان کے سامنے سج سنور کر آئیں۔

اس کے علاوہ قرآن نے عورتوں کے بہت سے اوصاف بیان کیے ہیں جن کا احاطہ ہم یہاں نہیں کر سکے۔ ایک مومنہ عورت کے اوصاف کیا ہیں اس کے لئے سورۂ نور کا ترجمۂ کنز الایمان اور تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

مدنی التجا: قرآن پاک کی ہر سورت و پارہ کا ترجمہ و تفسیر پڑھنا بہت مفید ہے اور ترجمہ و تفسیر کے لیے ضروری ہے کہ کسی عاشق رسول کا ترجمہ و تفسیر پڑھا جائے۔ ترجمۂ کنزالایمان اور تفسیر صراط الجنان بہت مفید ہے اور بالکل آسان ترجمہ کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اللہ پاک پارہ 22 سورۃُ الاحزاب آیت نمبر 35میں مومنہ عورتوں کی صفات اس طرح بیان فرمائی ہیں:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمان بردار اور فرمان برداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

یہ وہ صفات تھیں جو رب ذوالجلال نے اپنی لا ریب کتاب میں ذکر فرمائی اور مومنہ عورتوں کی صفات احادیث مبارکہ کے اندر بھی کثیر وارد ہوئیں ہیں ان میں سے چند احادیث یہاں ذکر کی جاتیں ہیں:

حدیث نمبر 1: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت کیا گیا کون سے بندے اللہ کے نزدیک افضل اور قیامت کے دن بلند درجے والے ہیں ارشاد فرمایا اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور بہت ذکر کرنے والی عورتیں عرض کی گئی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کا درجہ اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنے والوں سے بھی زیادہ ہوگا ارشاد فرمایا اگر کوئی شخص مشرکین اور کفار پر اتنی تلوار چلائے کہ ٹوٹ جائے اور خون میں رنگ جائے تب بھی کثرت سے اللہ پاک کا ذکر کرنے والا اس سے درجے میں زیادہ ہوگا (مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ الفصل الثالث 1/427، حدیث 2280)

مومنہ عورتوں کی یہ وہ صفت ہے جو قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ ذکر گئی ہے، اللہ پاک مسلمان مردوں اور عورتوں کو کثرت کے ساتھ اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حدیث نمبر 2:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکہ مکرمہ کے راستے میں چل رہے تھے۔ جب آ پ کا گزر جمدان نامی پہاڑکے پاس ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! چلے چلویہ جمدان ہے اور سن لو کہ جو ممتاز لوگ ہیں وہ قربِ خداوندی پالینے میں دوسروں سے آگے بڑھ گئے ہیں تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ممتاز لوگ کون ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ مرد جو اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے رہتے ہیں اور وہ عورتیں جو خدا عزوجل کا ذکر کثرت سے کرتی رہتی ہیں۔(مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبہ والاستغفار باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ ص 1439 الحدیث:2676)

حدیث نمبر 4: مسلم شریف میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہتر متاع نیک عورت ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو عورتیں اسلام،ایمان اورطاعت میں،قول اور فعل کے سچا ہونے میں،صبر، عاجزی و انکساری اور صدقہ و خیرات کرنے میں،روزہ رکھنے اور اپنی عفت و پارسائی کی حفاظت کرنے میں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں مردوں کے ساتھ ہیں، تو ایسے مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کی جزا کے طور پر بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

اللہ پاک مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو دینی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمان بردار اور فرمان برداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

مؤمن عورتوں کی دس صفات:

الْمُسْلِمٰتِ مسلمان عورتیں۔

الْمُؤْمِنٰتِ ایمان والی عورتیں۔

الْقٰنِتٰتِ فرمانبردار عورتیں۔

الصّٰدِقٰتِ سچی عورتیں

الصّٰبِرٰتِ صبر کرنے والی عورتیں۔

الْخٰشِعٰتِ عاجزی کرنے والی عورتیں۔

الْمُتَصَدِّقٰتِ خیرات کرنے والی عورتیں۔

الصّٰٓىٕمٰتِ روزہ رکھنے والی عورتیں۔

فُرُوْجَهُمْ الْحٰفِظٰتِ پارسائی کی حفاظت کرنے والی عورتیں۔

10 ۔ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-۔

اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی عورتیں۔

شانِ نزول:حضرت اسماء بنت ِعمیس رضی اللہُ عنہا جب اپنے شوہرحضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہُ عنہ کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہن سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے بارے میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا:نہیں، تو حضرت اسماء رضی اللہُ عنہا نے حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! عورتیں توبڑے نقصان میں ہیں۔ارشادفرمایا:کیوں؟عرض کی: ان کا ذکر (قرآن میں)خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ان کے دس مراتب مردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور ان کے ساتھ ان کی مدح فرمائی گئی۔

مردوں کے ساتھ عورتوں کے دس مراتب: اس آیت میں مردوں کے ساتھ عورتوں کے جو دس مراتب بیان ہوئے ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

(1)وہ مرد اور عورتیں جو کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی اور ان احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا۔

(2)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت کی تصدیق کی اور تمام ضروریاتِ دین کو مانا۔

(3)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے عبادات پر مُداوَمَت اختیار کی اور انہیں (ان کی حدود اور شرائط کے ساتھ)قائم کیا۔

(4)وہ مرد اور عورتیں جو اپنی نیت،قول اور فعل میں سچے ہیں۔

(5)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے نفس پر انتہائی دشوار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے طاعتوں کی پابندی کی، ممنوعات سے بچتے رہے اور مَصائب و آلام میں بے قراری اور شکایت کا مظاہرہ نہ کیا۔

(6)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے طاعتوں اور عبادتوں میں اپنے دل اور اعضاء کے ساتھ عاجزی و اِنکساری کی۔

(7)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں فرض اور نفلی صدقات دئیے۔

(8)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے فرض روزے رکھے اور نفلی روزے بھی رکھے۔ منقول ہے کہ جس نے ہر ہفتہ ایک درہم صدقہ کیا وہ خیرات کرنے والوں میں اور جس نے ہر مہینے اَیّامِ بِیض (یعنی قمری مہینے کی 13، 14، 15 تاریخ)کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

(9)وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے اپنی عفت اور پارسائی کو محفوظ رکھا اور جو حلال نہیں ہے اس سے بچے۔

(10)وہ مرد اور عورتیں جو اپنے دل اور زبان کے ساتھ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔کہا گیا ہے کہ بندہ کثرت سے ذکر کرنے والوں میں اس وقت شمار ہوتا ہے جب کہ وہ کھڑے، بیٹھے،لیٹے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو عورتیں اسلام،ایمان اورطاعت میں،قول اور فعل کے سچا ہونے میں،صبر، عاجزی و انکساری اور صدقہ و خیرات کرنے میں،روزہ رکھنے اور اپنی عفت و پارسائی کی حفاظت کرنے میں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں مردوں کے ساتھ ہیں،توایسے مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کی جزا کے طور پر بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔(تفسیر ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: 35، 4/321، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۹۴۱، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳/۵۰۰، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا رَضِیَ اللہ عنہا کو پیدا کیا۔انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری ہوا۔اور مختلف زمانوں میں اللہ پاک نے مَردوں اور عورتوں کے احکام نازل فرمائے، آئیے! عورتوں کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن کریم میں جن اوصاف کا ذکر فرمایا ہے ان کو پڑھتے ہیں:

(1)شوہر کے حقوق ادا کرتی ہیں: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،جس شخص نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور بیوی آنے سے انکار کر دے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس عورت سے ناراض رہتا ہے جب تک ا س کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔(تفسیر صراط الجنان، پ21، الروم:21)

(2)نگاہوں کو جھکاتی ہیں:وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔(پ18، النور:31) آیت کے ا س حصے میں مسلمان عورتوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور غیر مردوں کو نہ دیکھیں۔

یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ عورت کا اجنبی مردکی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے، جو مرد کا مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی طرف نظر کرنے سے شہوت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے۔(تفسیر صراط الجنان، پ18، النور:31)

(3)اپنی زینت کو نہیں دکھاتی: ولَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں۔(پ18، النور:31)دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مكتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 480 صفحات پر مشتمل کتاب بیانات عطاریہ حصہ اوّل کے رسالے قبر کا امتحان صفحہ 30 پر شیخ طریقت، امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (معراج کی رات)میں نے ایک بد بودار گڑھا دیکھا جس میں شور و غوغا بر پا تھا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ تو جبرئیل امین (علیہ السّلام)نے عرض کی: یہ وہ عورتیں ہیں جو نا جائز اشیاء سے زینت حاصل کرتی تھیں۔ (تاریخ بغداد، ج ۱، ص ٤١٥)

(4)گھروں میں ٹھہری رہتی ہے:وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ (پ22،الاحزاب:33)یعنی اے میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازاواج! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور اپنی رہائش گاہوں میں سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلو۔)یاد رہے کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہن کو ہے لیکن اس حکم میں دیگر عورتیں بھی داخل ہیں۔

(5) اَزواجِ مُطَہَّرات اور گھر سے باہر نکلنا:

ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہن نے اس حکم پر کس حد تک عمل کیا،اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ امام محمد بن سیرین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے بتایاگیاکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہُ عنہا سے کہاگیا:آ پ کوکیاہوگیاہے کہ آپ نہ حج کرتی ہیں اورنہ عمرہ کرتی ہیں؟انہوں نے جواب دیا: میں نے حج بھی کیاہے اورعمرہ بھی کیاہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں گھرمیں رہوں۔ اللہ عزوجل کی قسم! میں دوبارہ گھرسے نہیں نکلوں گی۔ راوی کا بیان ہے کہ اللہ عزوجل کی قسم!وہ اپنے دروازے سے باہرنہ آئیں یہاں تک کہ وہاں سے آپ کاجنازہ ہی نکالاگیا۔(تفسیر صراط الجنان، پ22،الاحزاب:33)

(5)زمین پر آہستہ چلتی ہے:وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّترجَمۂ کنزُالایمان: اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں۔ یعنی عورتیں چلنے پھرنے میں پاؤں اس قدر آہستہ رکھیں کہ اُن کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے۔ اسی لئے چاہیے کہ عورتیں بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی دعا نہیں قبول فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں۔ اس سے سمجھ لیناچاہیے کہ جب زیور کی آواز دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بےپردگی کیسی اللہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے۔(تفسیر صراط الجنان،پ18، النور:31)

اللہ کریم ہماری بہنوں کو ان صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بہت سی جگہ مومنہ عورتوں کی صفات بیان فرمائی ہیں، جو مومنہ عورتوں کو دیگر (غیر مومنہ عورتوں سے ممتاز کرتی ہیں، آئیے ان میں سے کچھ پڑھتے ہیں:

نگاہ نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ

ترجمہ کنزالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پاسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں۔ (پ18، النور:31)اس آیت میں عورت کو اپنی نگاہ نیچے رکھنے اور غیر مردوں کو نہ دیکھنے کا حکم دیا گیا، حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمومنہ رضی الله عنہا بارگاہ رسالت میں حاضر تھیں، اسی وقت حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں پردے کا حکم فرمایا تو میں نے عرض کی وہ تو نابینا ہیں، ہمیں دیکھ نہیں سکتے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی نابینا ہوں انہیں نہیں دیکھتیں۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ عورت کا غیر مرد کو دیکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں لہٰذا عورت کو بھی غیر مرد کو دیکھنے سے حتی الامکان بچنا ہی چاہئے۔

شوہر کی فرمانبردار ہیں: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجمہ کنز الایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(پ5،النسآء:34)

آیت کے اس حصے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- میں نیک اور پار سا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی ہیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔

گھروں میں ٹھہرنے والیاں: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔(پ22،الاحزاب:33)اس آیت میں اگر چہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو خطاب ہے۔ لیکن اس حکم میں دیگر عورتیں بھی داخل ہیں کہ وہ گھروں میں ٹھہری رہیں۔ اور بلاضرورت اپنے گھروں سے نہ نکلے۔

اللہ عزوجل ہمارے مسلم معاشرے اور مسلم خاندانوں کی خواتین کو یہ قرآنی صفات اپنانے کی سعادت نصیب فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


اللہ پاک نے اپنی مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے سے مشرف فرمایا،اور اسے خوبصورت و حسین تخلیق و صورت کے ساتھ مزین فرمایا، پھر انسانوں میں بھی مرد و عورت اور مسلم و کافر کی انواع (قسمیں)رکھیں اور انہیں مختلف صفات(اچھی یا بری)سے متصف فرمایا اور ان کی راہنمائی کے لئے رہتی دنیا تک قرآن مجید نازل فرمایا ہے، اللہ پاک نے قرآن کریم میں مسلمان مَردوں کے ساتھ ساتھ مسلمان عورتوں کی مختلف صفات بھی بیان فرمائی ہیں، آئیے! مؤمنہ عورتوں کی چند صفات پڑھئے:

(1)شوہروں کی اطاعت کرنے والی: اللہ پاک نے مومنہ اور نیک عورتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ ترجمہ کنز العرفان:تو نیک عورتیں(شوہروں کی)اطاعت کرنے والی۔(پ5،النسآء:34)اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس (شوہر)کی اطاعت والدین پر بھی مقدم ہے۔(فتاوی رضویہ ج 15 ص 301)جبکہ جائز امور میں ہو۔

(2)شوہر کی مال و عزت کی حفاظت کرنے والی: اللہ پاک نے فرمایا: حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجمہ کنز العرفان: خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(پ5،النسآء:34)تفسیر صراط الجنان میں ہے: اور جب (شوہر)موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، پ5،النسآء، تحت الآیۃ:34)

(3)نگاہیں جھکانا: ایک اعلیٰ کردار کی مسلمان عورت کا اعلیٰ و وسیع وصف یہ ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرے اور حرام و ناجائز چیزوں کو دیکھنے سے بچے، جیساکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ترجمہ کنز الایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔(پ 18، النور:31)

(4)شرمگاہ کی حفاظت کرنا: انسان کا فطری عمل اور بالخصوص عورت کی عفت و پاک دامنی کا ایک بڑا سبب شرمگاہ کی حفاظت کرنا بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اعضائے زینت چہرہ آنکھ کان گردن کلائی وغیرہ کا نامحرم مَردوں کے سامنے ظاہر نہ کرنا البتہ محارم کے سامنے ظاہر کرنے کی اجازت ہے جبکہ فتنے اور شہوت کا خوف نہ ہو، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ ترجمہ کنز الایمان: اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔

(5)گھروں میں رہنا: عورت کا معنی چھپانے کی چیز ہے اور ہر چیز کا اپنے مقام پر ہونا حُسن (یعنی خوبصورتی)ہے، لہٰذا اسلامی بہنوں کا گھروں میں رہنا، اسی میں ان کا حسن ہے نہ کہ گلیوں، بازاروں اور راہ چلنے والے لوگوں کے لیے بدنگاہی کا ذریعہ بننا، اسی وجہ سے اللہ پاک نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم ارشاد فرمایا، جیساکہ قرآن پاک میں ہے: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ (پ22، الاحزاب:33)

(6)نماز قائم کرنا: دین اسلام کا رکن اور بنیادی امر نماز ہے، جس کا قرآن پاک میں بار بار حکم دیا گیاہے، حتی کہ خصوصیت کے ساتھ اس حکم کا ذکر عورتوں کے لیے بھی کیا گیا اور فرمایا: وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ ترجمہ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو۔(پ22،الاحزاب:33)

(7)زکوٰۃ ادا کرنا:اسی طرح زکوٰۃ بھی دین اسلام کا رکن ہے اور ہر صاحب نصاب مسلمان پر اس کی شرائط پائے جانے کی صورت میں زکوٰۃ فرض ہے مگر عورت کو اس کا بھی خاص طور پر حکم دیا گیا اور فرمایا:وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ ترجمہ کنز الایمان: اور زکوٰۃ دو۔(پ22،الاحزاب:33)

(8)اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرنا:کامل مومنہ عورت کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مطیع فرمانبردار ہو،اور اپنی خواہشات کے مقابلے میں ان کے فرمان کو ترجیح دے، فرمایا: وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ- ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔(پ 22، الاحزاب:33)

(نوٹ: 6 تا 8 صفات میں اگرچہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو حکم فرمایا گیا مگر ان کا حکم ہر مسلمہ عورت کو عام ہے)

(9)توبہ کرنا: اللہ پاک نے فرمایا: تٰٓىٕبٰتٍترجَمۂ کنزُالایمان:اور توبہ والیاں۔(پ 28، التحریم:5)اس آیت میں فرمایا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کر لیں تو وہ اپنے فضل سے حضور کو بہتر بیویاں عطا فرمائے گا اور ان کی ایک صفت توبہ کرنا بھی ہوگی۔

(10)روزہ رکھنا:مؤمنہ عورت کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت گزار،شوہر کی فرمانبردار کے علاوہ روزہ رکھنے والی بھی ہو، جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:سٰٓىٕحٰتٍترجمہ کنزالایمان: اور روزہ داریں۔یعنی مومنہ عورتیں روزہ رکھنے والی بھی ہوتی ہیں۔

اللہ پاک تمام اسلامی بہنوں کو ان صفات سے متصف فرمائے اور ہم سب کو کامل مومن بنائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

ایمان انسان کی سب سے بڑی دولت ہے ایمان کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہے اللہ و رسول کی رضا کا سبب بھی ایمان اور جنت میں داخلے کا سبب بھی ایمان ہی ہے۔ ایمان صاحبِ ایمان کے لئے بھلائی اور خیر ہی خیر ہے۔ ایمان کو اختیار کرنے والا دونوں جہاں میں سرخرو اور خاص طور پر آخرت میں سعادتِ ابدیہ حاصل کرنےمیں کامیاب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے مومن مردوں کے ساتھ ساتھ مومن عورتوں کی صفات بھی بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ مومن عورتوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

اللہ ورسول کا حکم ماننے والیاں: اللہ اور رسول کا حکم مانے والیوں کو اللہ عزوجل نے قرآن میں ایمان والیاں کہا ہے جس سے ان کا فضل و کمال ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔(پ22، الاحزاب:36)

صبر کرنے والیاں: الله عزوجل مومنات کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور صبر والے اور صبر والیاں یعنی ایسی عورتیں کہ نفس پر شاق گزرنے کے باوجود بھی اللہ کی اطاعت پر مداومت اختیار کرتیں ہیں اور اس پر پہنچنے والی تکالیف و مصائب پر گلہ و شکوہ نہیں بلکہ اس پر صبر کرتی ہیں۔

خیرات کرنے والیاں: اللہ عزوجل ان کے فضائل و خصائل کو بڑھاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں۔ یعنی اللہ عزوجل نے جو ان کو وسعت مال دی اس میں سے وہ غریبوں، مسکینوں اور یتیموں وغیرہ پر اور اللہ پاک کی راہ میں فرض و نفلی صدقات دیتے ہیں۔

اپنی پارسائی کی حفاظت کرنے والیاں: مومنہ عورتوں کی صفات ایمانیہ میں ایک اور صفت کا اضافہ کرتے ہوئے الله پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں۔ یعنی ایسے مرد و عورت کہ جنہوں نے اپنی عفت و پارسائی کی حفاظت کی اور ہر وہ طریقہ جس سے اللہ پاک نے منع فرمایا اس سے بچیں اور صرف حلال طریقے پر ہی عمل کیا۔

کثرت سے ذکر اللہ کرنے والیاں: کثرت سے ذکر اللہ کرنا بھی مومن مرد و عورت کی صفات میں سے ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں۔ یہ وہ عورتیں ہیں کہ جو دل و زبان سے اللہ کا ذکر کثرت سے کرتیں ہیں اور بندہ جب کثرت سے ذکر کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے جب وہ کھڑے بیٹھے، لیٹے ہر حال میں الله پاک کا ذکر کرتا رہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ مذکورہ تمام صفات کا ہمیں بھی حامل بنائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


ایک مؤمنہ عورت کو کس طرح کی خوبیوں کا مالک ہونا چاہئے! آئیے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید کی روشنی میں جانتے ہیں:

(1)اپنی عزت پارسائی کی حفاظت کرنے والی: ﴿وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ﴾ ترجمۂ کنزُالایمان: اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں۔(پ18،النور: 30)

(2)اللہ و رسول کے حکم کی تعمیل کرنے والی: ﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔(پ22، الاحزاب:36)

(3)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے والی:﴿لَا یُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَیْــٴًـا﴾ ترجمۂ کنزُالایمان: اللہ کا شریک کچھ نہ ٹھہرائیں گی۔ (پ28، الممتحنۃ: 12)

(4، 5، 6، 7)چوری، بدکاری، اولاد کو قتل نہ کرنے اور بہتان لگانے سے بچنے والی: ﴿وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ﴾ ترجمۂ کنزُ الایمان: اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ وہ بہتان لائیں گی۔ (پ28، الممتحنۃ: 12)

ان تمام تر صفات کی جامع عورت ایک عظیم مرتبہ والی ہوتی ہے۔ ان اوصاف سے متصف عورتیں گھریلوں ناچاقیوں، بے پردگی اور معاشرے میں رائج دیگر بُرائیوں سے نہ صرف خود کو محفوظ رکھتی ہیں بلکہ اپنی جاننے والیوں کو بھی محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوتیں ہیں۔ ایک عورت نے نسلِ نو کی پرورش کرنی ہوتی ہے ان اوصاف سے متصف عورت اچھی تربیت سے عالَمِ اسلام کی آبیاری کر سکتی ہے۔ عورت کے لئے ایک بہترین اُسوہ (نمونۂ عمل) سیدۂ کائنات کی مبارک حیات ہے جس سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ عورت کو اپنے شوہر، بھائی اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے۔ اللہ پاک ہماری ماؤں بہنوں کو بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآنِ پاک میں اللہ کریم نے مومنات کے بہت سارے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن میں سے دس اوصاف درج ذیل ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵) (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں صبر کرنے والے اور صبر کرنے والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور بہت یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑاثواب تیار کررکھا ہے۔

اوصافِ مؤمنہ:

1۔ سب سے پہلے یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ عورتیں جو کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئیں اور اللہ پاک کے احکام کی اطاعت کی اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، یہ شان ہے مومنہ عورت کی۔

2۔ اور وہ عورتیں جنہوں نے اللہ پاک کی وحدانیت اور خاتم النبیین ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی اور تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کیا۔

3۔ وہ عورتیں جنہوں نے عبادات پر ہمیشگی اختیار کی اور ان عبادات کو ان کی حدود و شرائط کے مطابق ادا کیا، یہ ہیں ایمان والی عورتیں۔

4۔ وہ عورتیں ایمان والی ہیں جو اپنی نیت، قول اور فعل میں سچی ہوتی ہیں۔

5۔ وہ عورتیں جنہوں نے نفس پر انتہائی دشوار ہونے کے باوجود اللہ پاک کی رضا کے لیے جن کاموں کا حکم دیا گیا ان پر پابندی کی اور جن کاموں سے منع کیاگیا ان سے بچتی رہیں اور مصائب و آلام میں بے قراری اور شکایت کا مظاہرہ نہ کیا۔

6۔ وہ عورتیں جنہوں نے اطاعتوں اور عبادتوں میں اپنے دل اور اعضاء کے ساتھ عاجزی و انکساری کی۔

7۔ وہ عورتیں جنہوں نے اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں فرض و نفلی صدقات دیئے۔

8۔ وہ عورتیں جنہوں نے فرض کے ساتھ نفلی روزے بھی رکھے فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کو بھی بجالائیں۔

9۔ وہ عورتیں جنہوں نے اپنی عفت اور پارسائی کی حفاظت کی اور ہر اس کام سے بچیں جو ان کے لیے جائز نہ تھا حلال نہ تھا۔

10۔ وہ عورتیں جو اپنے دل اور زبان کے ساتھ کثرت سے اللہ پاک کا ذکر کرتی ہیں (کثرت سے ذکر کرنے والوں میں بندہ تب شمار ہوتا ہے جب چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں ذکر اللہ کرے)۔

مذکورہ گفتگو سے پتا چلتا ہے یہ جو ان اوصاف سے متصف بناتِ حوا ہیں ان کے لیے رب تعالیٰ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

ذکر میں تسبیح کرنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، کلمہ طیبہ کا ورد کرنا، اللہ اکبر کہنا، قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا، علمِ دین حاصل کرنا، نماز پڑھنا، میلادشریف منانا، نعت شریف پڑھنا وغیرہ ( 313 بار تسبیح کرنا کثرت میں شمار ہوتا ہے)۔ (صراط الجنان، 8/30تا32)


مؤمنات کے اوصاف درج ذیل ہیں:

1۔ اپنے عیوب کو دیکھنے والی ہو، اپنے عیوب پر غور و حوض کرنے والی ہو اپنے رب کے حضور رجوع کرنے والی ہو۔

2۔ اس کی آواز پست ہو، زیادہ خاموش رہنے والی ہو اور نرم خو ہو پاکیزہ زبان والی ہو۔

3۔ حیا کا اظہار کرنے والی ہو اور بے ہودہ کلامی سے بچنے والی ہو۔

4۔ کشادہ دل رکھنے والی ہو، بہت زیادہ صابرہ ہو، مکر کرنے والی نہ ہو، بہت زیادہ شکر ادا کرنے والی ہو۔

5۔ کسی سے اپنے دل میں کینہ رکھنے والی نہ ہو، عیوب سے پاک ہو، مہربان ہو، رحم دل ہو۔

6۔ اللہ پاک سے راضی رہنے والی ہو، پاکباز اور باوقار ہو۔

7۔ اچھی عادات والی ہو۔

8۔ اچھے اخلاق سے متصف ہو۔

9۔ نرم طبیعت والی ہو، جھوٹ سے پاک ہو اور تکبر سے بری ہو۔

10۔ اپنے نفس کی حفاظت کرنے والی ہو، پردہ کرنے والی ہو، خاوند کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والی ہو، گھر والوں کے لیےمہربان ہو۔

مومنات نہ مائل ہونے والی ہوتی ہیں اور نہ ہی مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا اندازِ گفتگو، ان کی چال ڈھال، ان کا لباس، ان کی نظریں اور ان کے معاملات سب حیا کے دائرے میں ہوتے ہیں، وہ نہ ہی ہر غیر محرم کے دل میں بسنے والی ہوتی ہیں اور نہ ہی ہر ایک کو اپنے دل میں بسانے والی ہوتی ہیں۔


اوصافِ مؤمنات:

1۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا: وَ الْمُسْلِمٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور مسلمان عورتیں۔مسلمان عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کلمہ پرھ کر دائرہ اسلام میں آئیں اللہ کے احکام کی پیروی کی اور وہ مومنہ عورتیں جو دین اسلام کی سر بلندی کے لیے پیش پیش رہیں۔ (صراط الجنان، 8/ 30)

وَ الْمُؤْمِنٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور ایمان والی عورتیں۔مومن سے مراد وہ جن کا دل صاف ہو قرآن پاک میں مومنہ عورت کی صفتِ ایمان کا تذکرہ ہوا۔(صراط الجنان، 8/ 30)

مومنہ کی تعریف: وہ مومنہ عورتیں جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی اور تمام ضروریاتِ دین کو مانا۔

وَ الْقٰنِتٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور فرمانبردار عورتیں۔اس سے مراد وہ مومنہ عورتیں جنہوں نے عبادات پر ہمیشگی اختیار کی ہو انہیں(ان کی حدود و شرائط کے ساتھ) قائم کیا ہو۔(صراط الجنان، 8/ 30)

وَ الصّٰدِقٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور سچی عورتیں۔ مومنہ عورتوں میں یہ صفت شامل ہوتی ہے کہ وہ اپنے قول فعل میں سچی ہوتی ہیں۔ سچ مومنہ عورت کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے۔

وَ الصّٰبِرٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور صبر کرنے والیاں۔ مومنہ عورت میں صبر ایسے شامل ہوتا ہے کہ معاملات نفس پر انتہائی دشوار ہونے کے باوجود اللہ کی رضا کے لیے طاعتوں کی پابندی کرتی اور ممنوعات سے بچتی رہتی ہے نیز مصائب و آلام میں بے قراری اور شکایت کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ حدیث پاک میں صبر کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے اور صبر والوں کو بشارت بھی دی گئی ہے، لہذا مومنہ عورت کی اس صفت کو اپناتے ہوئے ہر حال میں صبر کا اپنے آپ کو عادی بنائیے۔

وَ الْخٰشِعٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور عاجزی کرنے والیاں۔ اس سے مراد وہ مومنہ عورتیں جنہوں نے طاعتوں اور عبادتوں میں اپنے دل اور اعضاء کے ساتھ عاجزی و انکساری کی۔ مومنہ عورت کی صفت کو اپناتے ہوئے ہر حال میں عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور خیرات کرنے والیاں۔ مومنہ عورت کی صفت صدقہ و خیرات کرنے کو بیان کیا گیا، جنہوں نے اللہ کے دیئے ہوئے مال سے اس کی راہ میں خرچ کیا۔

ایک مرتبہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس خیموں سے بھرا تھیلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھیجا، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ عرض کی گئی: درہم۔ اس پر حیران ہو کر فرمایا کہ کھجوروں کی طرح اتنے بڑے تھیلے میں؟ پھر آپ نے یہ سب راہِ خدا میں تقسیم کر دیا۔ (طبقات کبریٰ،8/45 ملخصاً)

وَ الصّٰٓىٕمٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور روزے رکھنے والیاں۔ مومنہ عورت کی صفت روزہ کو بیان کیا گیا وہ عورتیں جنہوں نے نفل و فرض روزے رکھے۔ منقول ہے: جس نے ہر مہینے کے ایام بیض(13،14،15) کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار ہوگا۔ (صراط الجنان، 8/ 31)

وَ الْحٰفِظٰتِ (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور حفاظت کرنے والیاں۔ اس سے مراد وہ مومنہ عورتیں جنہوں نے اپنی عفت و پارسائی کو محفوظ رکھا اور جو حلال نہیں اس سے بچی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کی گواہی رب تعالیٰ نے قرآن پاک میں دی ہے اور یہاں بھی مومنہ عورت کی صفت پارسائی کی حفاظت کو بیان کیا گیا ہے۔

10۔ وَّ الذّٰكِرٰتِۙ- (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: اور بہت یاد کرنے والیاں۔ اس سے مراد وہ مومنہ عورتیں جو اپنے دل و زبان سے کثرت سے اللہ پاک کا ذکر کرتی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بندہ کثرت سے ذکر کرنے والوں میں شمار تب ہوتا ہے جب وہ کھڑے بیٹھے اٹھتے ہر حال میں اللہ پاک کا ذکر کرے۔

قرآن پاک میں مومنہ عورتوں کی یہ دس صفات و مراتب بیان ہوئے۔ اللہ پاک ہمیں مومنین کا صدقہ عطا کرے۔ آمین