عبدالسبحان
خان(درجہ ثالثہ جامعۃالمدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی کراچی، پاکستان)
اللہ
تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام
سے پیدا کیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام کے وجود سے ان کا جوڑا
یعنی حضرت حوا رَضِیَ اللہ عنہا کو پیدا کیا۔انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل
درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری ہوا۔اور مختلف زمانوں میں اللہ پاک نے
مَردوں اور عورتوں کے احکام نازل فرمائے، آئیے! عورتوں کے بارے میں اللہ پاک نے
قرآن کریم میں جن اوصاف کا ذکر فرمایا ہے ان کو پڑھتے ہیں:
(1)شوہر کے حقوق ادا کرتی ہیں: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ
اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ
رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے
کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں
ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،جس شخص نے اپنی
بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور بیوی آنے سے انکار کر دے تو اللہ تعالیٰ اس وقت
تک اس عورت سے ناراض رہتا ہے جب تک ا س کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔(تفسیر صراط
الجنان، پ21، الروم:21)
(2)نگاہوں کو جھکاتی ہیں:وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّترجَمۂ
کنزُالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔(پ18،
النور:31) آیت کے ا س حصے میں مسلمان عورتوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں
کچھ نیچی رکھیں اور غیر مردوں کو نہ دیکھیں۔
یہاں
ایک مسئلہ یاد رہے کہ عورت کا اجنبی مردکی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے، جو مرد کا
مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ
اس کی طرف نظر کرنے سے شہوت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر
نہ کرے۔(تفسیر صراط الجنان، پ18، النور:31)
(3)اپنی زینت کو نہیں دکھاتی: ولَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں۔(پ18، النور:31)دعوت اسلامی کے اشاعتی
ادارے مكتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 480 صفحات پر مشتمل کتاب بیانات عطاریہ حصہ اوّل کے
رسالے قبر کا امتحان صفحہ 30 پر شیخ طریقت، امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد
الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: سرکار مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: (معراج کی رات)میں نے ایک بد بودار گڑھا دیکھا جس میں شور و غوغا بر پا
تھا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ تو جبرئیل امین (علیہ السّلام)نے عرض کی: یہ وہ
عورتیں ہیں جو نا جائز اشیاء سے زینت حاصل کرتی تھیں۔ (تاریخ بغداد، ج ۱، ص ٤١٥)
(4)گھروں میں ٹھہری رہتی ہے:وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ (پ22،الاحزاب:33)یعنی اے میرے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازاواج! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور اپنی
رہائش گاہوں میں سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ
نکلو۔)یاد رہے کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہن کو ہے
لیکن اس حکم میں دیگر عورتیں بھی داخل ہیں۔
(5) اَزواجِ مُطَہَّرات اور گھر سے باہر نکلنا:
ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہن نے اس حکم پر
کس حد تک عمل کیا،اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ امام محمد بن سیرین رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں: مجھے بتایاگیاکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجہ
مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہُ عنہا سے کہاگیا:آ پ کوکیاہوگیاہے کہ آپ نہ حج کرتی
ہیں اورنہ عمرہ کرتی ہیں؟انہوں نے جواب دیا: میں نے حج بھی کیاہے اورعمرہ بھی
کیاہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں گھرمیں رہوں۔ اللہ عزوجل کی قسم!
میں دوبارہ گھرسے نہیں نکلوں گی۔ راوی کا بیان ہے کہ اللہ عزوجل کی قسم!وہ اپنے
دروازے سے باہرنہ آئیں یہاں تک کہ وہاں سے آپ کاجنازہ ہی نکالاگیا۔(تفسیر صراط
الجنان، پ22،الاحزاب:33)
(5)زمین پر آہستہ چلتی ہے:وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّترجَمۂ
کنزُالایمان: اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں۔ یعنی عورتیں چلنے پھرنے میں پاؤں
اس قدر آہستہ رکھیں کہ اُن کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے۔ اسی لئے چاہیے کہ
عورتیں بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی
دعا نہیں قبول فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں۔ اس سے سمجھ لیناچاہیے کہ جب
زیور کی آواز دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بےپردگی
کیسی اللہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی
کا سبب ہے۔(تفسیر صراط الجنان،پ18، النور:31)