محمد
ولید احمد عطّاری(درجۂ رابعہ جامعة المدینہ فیضان کنزالایمان لاہور، پاکستان)
اللہ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا
خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ
لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ
خَبِیْرٌ(۱۳)
ترجمہ کنزالایمان: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد
اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان
رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے
بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔ (پ26، الحجرات:13)
پیارے
اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ان میں دو انواع مرد اور عورت کو
پیدا کیا پھر انہیں قومیں اور قبیلے بنایا۔ اور ان قبیلے اور قوموں میں رہنے کے
لیے انسان کو کچھ اصولوں کا پابند بنایا اور ان اصولوں کو قرآن پاک میں بیان
فرمایا۔ آج ہم قرآن پاک میں بیان کردہ عورتوں کے احکام وصفات کو ذکر کریں گے۔ بے
شک ہمارے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ
ہیں۔ اور بہترین ہدایت حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہدایت ہے جیسے
کہ حدیث پاک میں ہے:خیر ھدی ھدی محمد۔ اور قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى
بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-
ترجمہ
کنزالایمان: نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں اُن کی
مائیں ہیں (پ21، الاحزاب: 6)
جیسا
کہ آپ نے پڑھا کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم پر ہماری جان سے زیادہ
مالک ہیں جب ان کا حکم آجائے تو ہمیں کسی امر کا اختیار نہیں اور نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج ہماری مائیں ہیں۔ تو جب ہماری ان ماؤں کو اللہ
تعالیٰ پردے کا حکم دیتا ہے تو ہمارے لیے بدرجہ اولیٰ اس حکم پر عمل کرنا لازم آئے
گا جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ
لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ
مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ
كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)
ترجمہ
کنزالایمان: اے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے
فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ
ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ22،
الاحزاب:59)
تفسیر
صراط الجنان میں ہے کہ میرے حبیب کی ازواج! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور اپنی
رہائش گاہوں میں سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلو)۔
یاد رہے کہ اس آیت میں خطاب اگرچہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے ہے لیکن اس کے
حکم میں دیگر عورتیں بھی داخل ہیں۔ (روح البیان الاحزاب، تحت الآية 10/733)
وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ
الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى
ترجمہ کنزالایمان: اور بے پردہ نہ رہو جسے اگلی
جاہلیت کی بے پردگی۔یعنی جس طرح پہلی جاہلیت کی عورتیں بے پردہ دہا کرتی تھیں اس
طرح تم بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔
یادر ہے کہ پہلی جاہلیت سے مراد اسلام سے قبل کا
دور تھا جس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار
کرتی تھیں تاکہ غیر مرد ان کی طرف متوجہ ہوں اور پچھلی جاہلیت سے مراد آجری زمانہ
ہے کہ تب کی عورتیں بھی اسی طرح کریں گی جس طرح معاذاللہ آجکل عام ہے، پھر اس آیت
کو بیان کرنے کے بعد اسی آیت میں مومنہ عورت کے کچھ اور صفات کو اس طرح بیان کیا
کہ
وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ
الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ
لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)
ترجمہ
کنزالایمان: اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اللہ اور رسول کا حکم مانو اے
نبی کے گھر والو! اللہ، تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں
پاک کرکےخوب صاف ستھرا کردے۔(پ22، الاحزاب: 33)
اللہ
تعالیٰ نے مؤمنہ عورتوں کے صفات میں نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر فرمایا ہے،
نیزنماز ایک ایسا عمل ہے جس کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے۔ یہ نماز ایسا
عمل ہے جو انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ اس کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ کیجئے کہ
قیامت میں سب سے پہلے اعمال میں نماز کا سوال ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں
تقریباً 700 سے زائد مرتبہ نماز کا ذکر فرمایا ہے حتی کہ جب جنتی دوزخیوں سے
پوچھیں گے کہ تمہیں دوزخ میں کس عمل نے ڈالا تو وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا سَلَكَكُمْ فِیْ
سَقَرَ(۴۲)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳)
ترجَمۂ
کنزُالایمان: تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔
نماز
کے متعلق بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔ ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اپنی نماز
کی پابندی کریں اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ
مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ
اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ
لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ
ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی
پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور
دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں۔(پ18، النور:31)
اللہ
تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا اور غیر مردوں کو دیکھنے
سے منع فرمایا ہے، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا
نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر تھیں کہ حضرت ابن ام
مکتوم حاضر خدمت ہوئے تو حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں پردہ
قائم کرنے کا حکم دیا تو میں نے عرض کی: وہ تو نابینا ہیں ہمیں دیکھ نہیں سکتے تو
حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم دونوں بھی
نابینا ہو کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں۔
دوسرا
حکم یہ ہواکہ اپنی زینت نہ دکھائیں۔ اس سے مراد جب زینت کا سامان پہن لیں تو اس
وقت اپنے آپ کو غیر مردوں سے چھپائیں اور اپنی زینت محض اپنے شوہروں کے لیے رکھیں
اور ان کے سامنے سج سنور کر آئیں۔
اس کے علاوہ قرآن نے عورتوں کے بہت سے اوصاف
بیان کیے ہیں جن کا احاطہ ہم یہاں نہیں کر سکے۔ ایک مومنہ عورت کے اوصاف کیا ہیں
اس کے لئے سورۂ نور کا ترجمۂ کنز الایمان اور تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ بہت
ضروری ہے۔