کسی نے کہا ہے مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّابِا الْحُرْمَۃِ وَمَا
سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّابِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ۔ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب
ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"(راہ
علم، صفحہ29)
بے ادبی خود ایک نحوست ہے، بے ادبی دنیا و آخرت میں ذلّت و رسوائی کا باعث
ہے، بے ادب شخص دنیا و آخرت میں نقصان ہی
اٹھاتا ہے، بے ادبی کی وجہ سے سینکڑوں
ہزاروں برس کے نیک اعمال بھی اَکارت ہو جاتے ہیں، دیکھئے! ابلیس جس نے لاکھوں سال اللہ عزوجل کی
عبادت کی، اپنی عبادت سے زمین و آسمان کو
بھر دیا، مُعَلّمُ الْمَلَکُوت(یعنی
فرشتوں کا استاد) رہا، اللہ عزوجل کی بارگاہ
میں ملائکہ مقربین کے ساتھ حاضر ہوتا، لیکن
نبی کی بے ادبی کرنے کی وجہ سے بارگاہِ الہی سے مردُود قرار دیا گیا، قیامت تک کے لئے راندہ درگاہ ہو گیا، اس کی لاکھوں سال کی عبادتیں بھی کچھ کام نہ آئیں۔
اسی طرح بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کرنے والوں
کے متعلق ربِّ کائنات عزوجل نے اِرشاد فرمایا،
ترجمہ کنزالایمان:" اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی
نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے
ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔"(پ 26،
الحجرات: 2)
صحابہ کرام کی بے ادبی و گستاخی کرنا بھی دنیا و
آخرت میں خسارے کا باعث ہے، جیسا کہ
کراماتِ صحابہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ کے صفحہ نمبر 67، 68 پر ایک شخص کا واقعہ نقل
کیا گیا ہے، جو کوفہ کا رہنے والا تھا، وہ
صدیقِ اکبر و فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہما کی شان میں بد زبانی کر رہا تھا، اللہ عزوجل نے اس کی صورت کو مسخ کرکے بندر بنا
دیا۔والعیاذ باللہ
اولیاء کرام کی بے ادبی کرنے والوں کو بھی ڈر
جانا چاہئے کہ اللہ عزوجل حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے:"جو میرے کسی ولی
سے دشمنی کرے ، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔"(مشکوٰۃ المصا بیح، باب ذکر اللہ، حدیث 2156)
والدین کی بے ادبی اور نافرمانی
کرنے والے بھی اس کے انجام سے ڈریں، جیساکہ منقول ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے
آواز دی، لیکن اس نے جواب نہ دیا، اس پر اُس کی ماں نے اسے بددعا دی تو وہ گونگا
ہوگیا۔
پیر کی بے ادبی کی نحوست سے متعلق حضرت ذوالنّون
مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔"(الرسالۃ
القشیریہ، باب الادب، صفحہ 319، نقل از
آداب مرشد کامل، صفحہ 27)
کتابوں کی بے ادبی کرنے والے بھی ہوشیار ہوجائیں،
شیخ الاسلام اِمام بُرہان الدین رحمۃ اللہ
علیہ بیان کرتے ہیں:" ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے، تو شیخ نے ان سے فرمایا:"تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔"(ہم
اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)(راہ علم، صفحہ34)
محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی
ہو
منقول ہے کہ جس نے جو
پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی کھویا ۔ یعنی ادب انسان کی ایسی بہترین صفت ہے جس کی بدولت وہ
دنیوی اور اخروی نعمتوں سے سرفراز ہوتا ہے اور جس شخص میں وصف معدوم ہو وہ
ان نعمتوں سے بھی محروم رہتا ہے ۔ شاید
اسی لئے یہ محاورہ مشہور ہے کہ’’باادب با
نصیب بے ادب بے نصیب‘‘ ۔ یادرہے جس طرح ریت کے ذروں میں کوئی قیمتی موتی اپنی چمک دمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح باادب شخص بھی
لوگوں میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔دِینِ اسلام ہمیں مقدّس ہستیوں
،متبرک مقامات ا ور عظمت والی چیزوں کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی بے ادبی وبے حرمتی سے روکتا ہے اور اس کے نقصانات بھی بتاتا ہے ۔
انبیائے کرام کی بے ادبی:
پارہ 6 سورۂ مائدہ کی
آیت نمبر 12 میں اَنبیائے کرام کی تعظیم بجالانے کا حکم اور اس کی تعمیل کرنےوالوں کیلئے گناہوں
کی مغفرت اور جنت کی بشارت ہے جبکہ ان
مبارک ہستیوں کی شان میں بے ادبی ہمیشہ
کیلئے ذلت و رُسوائی اور نیک اعمال کی بربادی کا سبب ہے جیساکہ شیطان جب وہ اللہ کے پیارے نبی حضرت
سَیِّدُنا آدم علیہ السلام کی شان میں بے ادبی کا مرتکب ہوا تو مردود اور ملعون ہوکر
جہنم کے دائمی عذاب کا مستحق ٹھہرا ۔قرآن کریم میں کئی مقامات پراس واقعے کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح پارہ 26 سورۂ حجرات کی آیت نمبر 2 میں سید الانبیاء
،احمد مجتبیٰ ،ہمارے پیارے آقا محمد مصطفے ٰ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ی کے آداب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے ایمان والو! اپنی
آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور
ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند
آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے
اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
بزرگان دین کی بے ادبی:
بزرگانِ دین میں نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ،اولیائے کرام اورعلمائے کرام اور شریعت و سنت
پر عمل پیرا ہوکر بارگاہِ خداوندی میں اعلیٰ
مقام پانے والی عظیم ہستیاں شامل ہیں ۔ نبی پاک ﷺ کی صحبتِ با برکت کی وجہ سے صحابہ کرام کی تعظیم ہر مسلمان پر لازم و ضروری
ہے ان کی شان میں بے ادبی اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کاسبب ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے
میرے اصحاب کے متعلق بری بات کہی تووہ
میرے طریقے سے ہٹ گیا، اس کا ٹھکانا آگ ہے اور کیا ہی بری جگہ ہے پلٹنے کی۔
(الریاض النضرۃ،۱/۲۲) اسی طرح اولیائے کرام بھی ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں ،قرآن کریم
نے متعدد مقامات پر ان کی شان وعظمت بیان فرمائی ہے ہمیں بھی اللہ کے ان نیک بندوں سے اپنی عقیدت و محبت قائم رکھنی چاہیے اور ان
کی صحبت و فرامین پر عمل پیرا ہوکر دین و دنیا کی برکتیں سمیٹنی چاہئیں اور ان
کی بے ادبی اور گستاخی سے خود بھی بچنا چاہیے اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہیے جو ان کی شان
میں گستاخی و بے ادبی کرتے ہیں کیونکہ
حدیثِ پاک میں اللہ کے ولیوں سے دُشمنی
رکھنے والوں کیلئے اللہ پاک کی طرف سے
جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ( بخاری، ۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲ )
والدین کی بے ادبی:
اسلام میں والدین کو
بہت بلند مقام حاصل ہے ” جنت کو ماں کے
قدموں تلے رکھا گیا ہے“اور باپ کو”جنت کا درمیانی دروازہ“کہا گیا
ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن
سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر بے شمار اجر و ثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے جبکہ ماں باپ کی
بے ادبی کرنے والا آخرت میں تو خسارہ اٹھائے گا بعض اوقات دنیا میں بھی اس گناہ کی
سزا پاتا ہے اور ممکن ہے ”جیسی کرنی ویسی
بھرنی “کے مصداق اس کی اپنی اولاد بھی اس
کے ساتھ اسی طرح پیش آئے اور یوں وہ دنیا میں والدین کی بے ادبی کی سزا میں مبتلا
ہوجائے ۔
استاد کی بےادبی:
استاد بھی ان عظیم ہستیوں میں سے ہے جو قابلِ تعظیم
ہے ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا ،اب
چاہے تو وہ مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا
ہے تفسیر کبیر میں ہے : اُستاد اپنے شاگرد
کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دُنیا کی آگ اور
مَصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اَساتذہ اسےدوزخ کی آگ اور آخرت کی مصیبتوں سے بچاتے
ہیں۔(تفسیر کبیر ،ج۱،ص ۴۰۱)لہٰذا ہمیں اپنے اساتذہ کے آداب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے علم حاصل کرنا چاہیے کیونکہ استاد کی
بےادبی ہمیشہ کیلئے علم سے محروم کردیتی
ہے۔
بڑے بہن بھائیوں کی بے ادبی:
دین ِ اسلام نےہمیں بڑوں کا احترام سکھا کران کے سروں پر عزت
وعظمت کا تاج سجایا ہے ، ہمارے بڑوں
میں بڑے بھائی بہن کامقام ومرتبہ بھی لائقِ تعظیم ہے ۔بہن بھائی مشکل حالات میں ایک
دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں اور آپس میں اتفاق و اتحاد معاشرے میں تقویت فراہم کرتا ہے ۔لیکن اگر کوئی بڑے بہن
بھائیوں کا احترام نہ کرے اور ان سے قطع تعلق ہوجائے تو وہ لوگوں کی نظروں سے گر
جاتا ہے اور معاشرے میں تنہا رہ جاتا ہے ۔
رزق کی بے ادبی:
اللہ پاک نے اپنی ہر
مخلوق سے رزق کا وعدہ فرمایا ہے اوراس
وعدے کے مطابق ہر ایک کو اس کے حصے کے مطابق عطا بھی کرتا ہے۔ جو رزق کی جتنی قدر کرتا ہے اللہ پاک اس کے رزق میں مزید وسعت و کشادگی فرماتا
ہے ۔ اس کے برعکس جو لوگ رزق کی بے
ادبی و بے حرمتی کرتے ہوئے اسے کچرے یا نالیوں میں بہا کر ضائع کر دیتے ہیں وہ دنیا میں تنگدستی اور محتاجی کا
شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت کے عذاب کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
اللہ پاک ہمیں باادب بنائے اورادب کی برکتوں سے فیضیاب
فرمائے اور بے ادبی سے بچاکر اس کی
نحوستوں سے محفوظ فرمائے ۔
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
اَدَبی ہو
اچھے اخلاق سے انسان کی سعادت
مندی کا پتہ چلتا ہے، جیسے کہ حسنِ اخلاق
کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کہ حسنِ اخلاق بندے کی سعادت مندی میں سے ہے۔"
آج تک جس نے جو کچھ پایا، وہ صرف ادب ہی کی وجہ سے پایا اور جو کچھ کھویا،
وہ بے ادبی کی وجہ سے کھو یا، شاید اس لئے یہ بات بھی مشہور ہے کہ "با
ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"
ایک بار جناب بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کسی نخلستان
میں تشریف رکھے ہوئے تھے، ایک تاجر کا
وہاں سے گزر ہوا، وہ آپ کے پاس آیا اور
سلام کرکے مؤدب سامنے بیٹھ گیا اور
انتہائی ادب سے گزارش کی، حضور!تجارت کی
کونسی جنس خریدوں، جس میں بہت نفع ہو، جناب بہلول دانا نے فرمایا: کالا کپڑا لے لو"،
تاجر نے شکریہ ادا کیا اور اُلٹے قدموں
واپس چلا گیا، جا کر علاقے میں دستیاب
تمام کپڑا خرید لیا، کچھ دنوں بعد شہر کا بڑا آدمی انتقال کر گیا، ماتمی سیاہ کپڑے کی تلاش میں تھے، اس تاجر کے پاس سارا کپڑا مل گیا، اس نے منہ مانگے دام میں بیچا، جب دوبارہ اس کی ملاقات ہوئی اس دانا سے، تو تاجر نے کہا:اب کیا خریدوں؟ بہلول نے کہا کہ
تربوز خرید لو، تاجر نے بہت سارے تربوز لے لئے، ایک ہی ہفتے میں سب تربوز خراب ہو گئے اور وہ
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا، اب کی بار جب
اس کی ملاقات بہلول دانا سے ہوئی، تو تاجر
نے کہا:آپ نے میرے ساتھ کیا کیا؟ جناب بہلول نے فرمایا: کہ میں نے نہیں، تیرے ادب نے یہ سب کچھ کیا، جب تو ادب کے ساتھ پیش آیا تو مالا مال ہوگیا، جب گستا خی کی تو کنگال ہو گیا، ادب بہت عمدہ صفت ہے، مگر
افسوس! فی زمانہ ادب کا علم کے معیار سے ہے، چھوٹے ہوں یا بڑے سب کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش
آنا چاہئے، والدین کی عزت کرنی چاہئے، ادب و احترام سے ہی انسان کا شمار تہذیب یافتہ
اور شائستہ لوگوں میں ہوتا ہے، ادب و
احترام کے بغیر انسان اس درخت جیسا ہے، جو خوبصورت تو ہے لیکن پھلتا پھولتا نہیں۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ-اِنَّ اللّٰهَ
سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔اے ایمان والو!اللہ اور اس کے
رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے
شک اللہ عزوجل سنتا جانتا ہے۔"( پ 26، الحجرات:1)
جہاں ادب کرنے کے ڈھیروں
فائدے ہیں، وہیں بے ادبی کے ہزاروں نقصانات بھی ہیں، "باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب"ہم یہاں بے ادبی کی چند
نحوستیں ذکر کریں گے:
1۔عذابِ
الٰہی:
تفسیر روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب
کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا اللہ تعالیٰ اسے(اس کی بے ادبی کی وجہ
سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔(آداب مرشد کامل، ص26)
2۔ ایمان سے محرومی:
ابلیس نے نو لاکھ سال عبادت کی،
مگر تکبر میں بے ادب ہوا اور ہمیشہ کے لئے مردود ٹھہرا۔"(آداب مرشد کامل، صفحہ26)
اعمال کی بربادی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:اے
ایمان والو!اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، اس
غیب بتانے والے نبی کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ
کہیں تمہارے عمل اکارت( ضائع) نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔"(پ26،
الحجرات:2)
4،گمراہی
و بد دینی:
ایک شخص جسے ذوالخویصرہ کہا جاتا
تھا، اس شخص نے حضور علیہ السّلام کی
بارگاہ میں بے ادبی کی، تو حضور علیہ
السلام نے اس کے بارے میں فرمایا:"اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کے کچھ ساتھی ہوں گے، تم میں سے ہر ایک اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے
مقابلہ میں اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ میں حقیر جانے گا، وہ لوگ قرآن پڑھیں گے، قرآن اُن کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے، جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔"(مراٰۃ
المناجیح، جلد 8، صفحہ 174، حدیث نمبر 5636 ملتقطاً)
مرید کا زوال:
حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں کہ : "جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا تو وہ لوٹ کر وہیں
پہنچ جاتا ہے، جہاں سے چلا تھا۔"(
الرسالۃ القشیریہ باب الادب، صفحہ 319، آداب مرشد کامل، 27)
غرض یہ کہ ادب انسان کی انسانیت میں نکھار پیدا کرتا ہے، با ادب اور بے ادب
میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
ہمارے بزرگانِ دین ادب کا خاص خیال فرماتے، ہر مقدس چیز کا ادب ہے، بعض اوقات بے ادبی کفر تک پہنچا دیتی ہے، اللہ کریم ہمیں خواب میں بھی بے ادبی سے بچائے
اور ہمیں تمام انبیاء کرام، فرشتوں، صحابہ کرام، اولیاءِ کرام، شعائراللہ، آلِ رسول اور ہر مقدس چیز کا
ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
مشہور مقولہ ہے
؛ " با ادب با نصیب
بے ادب بد نصیب " تفسیر روح البیان میں ہے
کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نو جوان کسی
بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تو اللہ
تعالیٰ ( اس کی بے ادبی کی
وجہ سے ) زمین میں دھنسا دیتا تھا ۔
ایک
اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں عرض کی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں
فاقہ کا شکاررہتا ہوں ۔تو آپ نے ارشاد فرما یا ؛ " تو کسی
بوڑھے شخص کے اگے چلا ہو گا " ( روح البیان پارہ 17) اس سے معلوم ہوا کہ بے ادبی دنیا اور اخرت میں مردود کر
دیتی ہے ۔جیسا کی ابلیس کی نو لاکھ سال کی عبادت ایک بے ادبی کی وجہ سے برباد ہوئی
اور وہ مردود ہوا ۔
حضرت ابو علی دقاق فرماتے ہیں ؛ " بندہ اطاعت سے جنت تک اور ادب سے اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے " (التفسیریہ، باب الادب، ص 316 )
ادب کا باب بہت وسیع ہے ۔ اس میں اللہ
پاک کا ادب ، فرشتوں کا ادب ، کلام اللہ کا ادب ، احا دیث مبارکہ کا ادب ،علم کا
ادب ، کتابوں کا ادب ، مکہ پاک اور مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفا و التعظیما کا ادب
، ،مقدس شہروں اور بزرگوں سے مناسبت رکھنے والی اشیاء کا ادب اساتذہ کا ادب ،
والدین کا ادب ،مسلمانوں کی قبروں کا اد ب اور بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا ادب کیا جاتا ہے
ذکر کردہ بعض ادب فرض ہیں کہ ذرا سی بے ادبی کی
نحوست سے کفر میں جا پڑنے اندیشہ ہے ۔ بعض کا ادب واجب ہے اور
عشق ومحبت بعض چیزوں کے ادب کا تقاضہ کرتا
ہے ۔
عرض کہ یہ ایک وسیع علم ہے اور اس کی معلومات حاصل
کرنا بالخصوص ان آداب کی جن کا علم نہ
ہونے کی وجہ سے بے ادبی کریگا اور اس کی نحوست سے اسلام ہی سے خارج ہوجائگا ۔
تو تمام
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کے بارے میں علم
حاصل کریں اور اپنا ایمان بچائیں ۔ اس کے
لیے امیر اھلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب کفر یہ
کلمات کے بارے میں سوال وجواب کا مطالہ کیجئے ۔ عُلماء کی محبت اختیار کیجئے
مدنی مذاکرہ میں شرکت کیجئے اور امیر اھلسنت
کے ادب کا انداز دیکھ /سن کر سیکھئے ، کیوں کہ بہت ساری باتیں کتابوں میں نہیں
لکھی ہوئی وہ تو بزرگوں کے انداز اور افعال سے ملتی ہیں ۔
محفوظ سدا رکھناشہا
بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
تفسیر روح البیان میں ہے: پہلے زمانے میں جب کوئی
نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے(اس کی بے ادبی کی وجہ سے زمین
میں دھنسا دیتا تھا)
آج تک جس نے جو کچھ بھی
پایا، وہ صرف ادب کی وجہ سے پایا اور جس
نے جو کچھ بھی کھویا، وہ بے ادبی کی وجہ
سے ہی کھویا، شاید اسی وجہ سے یہ بات
مشہور ہے کہ"با ادب با نصیب، بے ادب
بے نصیب"۔
محفوظ خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو
بے ادبی کا وبال:
شیطان نے لاکھوں سال اللہ پاک کی
عبادت کی، ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال
عبادت کی اور وہ صرف ایک بےادبی کی وجہ سے چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور
وہ بےادبی کرتا تھا ، حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم نہ کرتا تھا۔
قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے
فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان:"اور ان کے حضور بات چلا کر
نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے
چلاتے ہو کہیں تمہارے عمل اکارت( ضائع) نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔"(پ26،الحجرات،
2)
خاموش بھری محفل میں چلانا اچھا
نہیں
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں
میں
سیّدنا امیر معاویہ
کا اندازِ ادب:
ایک صحابی حضرت عابس بن ربیعہ رضی
اللہ عنہٗ کی صورت کچھ کچھ سرکار صلی اللہ
علیہ وسلم سے ملتی تھی، جب وہ تشریف لاتے،
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تخت سے
تعظیماً سیدھے کھڑے ہو جاتے۔"(ملفوظات اعلی حضرت، صفحہ 337)
ایمان کی حفاظت کا نسخہ:
حضرت علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃ
اللہ علیہ سے منقول ہے، حضرت سیّدنا جنید
بغدادی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:"محفل میلاد میں ادب و تعظیم کے ساتھ حاضری
دینے والے کا ایمان سلامت رہے گا۔"(فیضان سنت، صفحہ 112)
قرآن کریم کا ادب و احترام:
قرآن کریم کا سب سے بڑا ادب جو ہر
مسلمان پر انتہائی واجب ہے، وہ یہ ہے
" طہارت و پاکیزگی کے بغیر اسے ہرگز نہ چھوئے" جیسا کہ نور الایضاح میں
ہے کہ اگر وضو نہ ہو تو قرآن عظیم چھونے کے لئے وضو کرنا فرض ہے۔"(نورالایضاء،
صفحہ59)
دعا:اللہ پاک ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبی اور
بے ادبوں کی صحبت سے ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی محفوظ فرمائے۔آمین
ہمارا پیارا مذہب، دینِ اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ
ہم مقدس ہستیوں، متبرک مقامات اور با برکت چیزوں کا احترام کریں اور بے اَدَبی اور
بے اَدَبوں کی صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ جیسا کہ منقول ہے کہ :
” مَا وَصَلَ
مَنْ وَصَلَ إلِّا بالحُرْمَۃ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ إلَّا بِتَرْکِ الحرمۃ
والتَعْظَیْمِ“ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و
احترام کے سبب سے پایا اور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی
کھویا۔۔ ( تعلیم المتعلم طریق التعلم، ص42)
شاید اسی وجہ سے یہ
بات مشہور ہے کہ " با ادب با نصیب، بے اَدَب بے نصیب "
# چنانچہ حضرت سیدنا ابو علی دقاق رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
بندہ
اطاعت (کرنے) سے جنت تک اور ادب (کرنے) سے خدا عزوجل تک پہنچ
جاتا ہے۔(الرسالۃ القشیریہ باب الادب ص ۳۱۶)
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے.
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
اَدَبی ہو۔
(وسائل بخشش)
اگر بنده ادب و احترام كا لحاظ نہ کرے تو اسے کیسی کیسی وعیدوں
کا سامنا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ درجِ ذیل روایات سے لگائیے
اعلی حضرت ، امام اہلسنت ، مولینا شاہ احمد رضا خان رحمۃاللہ
علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
ولادین
لمن لا ادب لہ
یعنی جو باادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(فتاویٰ رضویہ ، ج ۲۸، ص ۱۵۸)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ
پہلے زمانے میں جب
کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تو اللہ عزوجل اسے ( اس کی بے ادبی کی وجہ
سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔(تفسیر روح البیان ،پارہ ۱۷ بحوالہ ادبِ مرشد کامل ص ۲۶)
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بے ادبی کرنے والا دنیا میں تو
برباد ہوتا ہی ہے، ساتھ آخرت بھی برباد کرلیتا ہے جیسا کہ
شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی
یعنی حضرت
آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی جب کہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں
کا سردار ، یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر مقرب تھا مگر حکم الہی
کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی
ہوگیا ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے ڈر جانا چاہیے اور جن کا اللہ پاک
نے ادب کر نے کا حکم دیا ادب کرنا چاہیے،
اللہ کریم جل شانہ ہمیں ادب کی لازوال نعمت سے نوازے اور بے
ادبی کی نحوست سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم_