حضرت سیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے کسی نے پوچھا: آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے؟ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں کبھی بخل نہیں کیا۔(الدر المختار، المقدمة، ۱/۱۲۷) یقیناً علم حاصل کرنا بڑی سعادت ہے اور اُسے دوسروں تک پہنچانااور بڑی سعادت ہے،دنیائے اسلام میں ایسی عظیم الشان ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے اپنے علم کی خوشبو سے مسلمانان عالم کو خوب مہکایا اور اپنے نفع بخش علم سے پیاسی امت کو بھرپورسیراب کیا ۔ انہی نفوس قدسیہ میں سے ایک عالمی شخصیت بانِیِ دعوتِ اسلامی،شیخ طریقت ، امیراہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ہے ،آپ کی ذات مبارکہ تبلیغ واشاعت دین اور مسلمانوں کی اصلاح احوال کے لیے دنیابھر میں معروف ومقبول ہے۔ آپ نے جس طرح عقائد واعمال کی اصلاح کے لیے دعوتِ اسلامی کی بنیاد رکھی،اسے پروان چڑھایا اوردنیا کے کونے کونے تک پہنچایایوں ہی کثیرکُتُب ورسائل تصنیف فرمائے اور اپنے علم نافع سے لاکھوں لاکھ لوگوں کے ایمان،عقیدے اور اعمال کی اصلاح وحفاظت کابھرپورسامان فرمایا ۔

آپ کے آثارعلمیہ میں 142کتب ورسائل کے علاوہ مفتیان عظام بھی ہیں اور ہزاروں عُلَمائے دین ومُبَلِّغِیْنِ دعوتِ اسلامی بھی نیز آپ کے قائم کردہ علمی وتحقیقی ادارے جامعاتُ المدینہ اور اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّہ (Research Centre Islamic) بھی علم کا نوربانٹ رہے ہیں ۔ آپ کی کئی تصانیف دنیا کی30 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوکر نیکی کی دعوت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ دوسروں کو نفع دینے والے علم کی بے شمار برکات ہیں اور یہ عظیم ثواب جاریہ ہے ،اللہ پاک کی رحمت سے قوی امید ہے کہ جب تک یہ کتب ورسائل شائع ہوتے اور پڑھے جاتے رہیں گے اور لوگ ان پر عمل کرتے رہیں گے اس سب کا اجروثواب سیدی امیراہلسنت مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی کے دفترحسنات (نامَۂ اعمال)میں لکھا جاتا رہے گا۔تصنیف وتالیف بھی جاری رہنے والا نفع بخش علم ہے ۔چنانچہ

حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهٗ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ اِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ اَوْ عِلْمٍ يُّنْتَفَعُ بِهٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَّدْعُوْ لَهُ ترجمہ:جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اُس کاعمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل جاری رہتے ہیں : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو یا نیک اولاد جو اُس کے لیے دعا کرتی ہو۔( مسلم،ص684،حدیث:4223)

حضرت سیِّدُنا امام یحییٰ بن شَرَف نَوَوِی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ حدیث پاک میں مذکور” علم نافع“ کے تحت فرماتے ہیں:اور یوں ہی وہ علم جو آدمی اپنے پیچھے چھوڑ کر جاتا ہے جیسے کسی کوعلم سیکھانا اور کتاب لکھنا۔ (شرح النووی علی مسلم،جزء:11، 6 /85)امام تاجُ الدِّین سبکی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے فرمایا: تصنیف وتالیف زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ طویل عرصے تک باقی رہتی ہے۔(فیض القدیر،1/561،تحت الحدیث:850)

امیراہلسنت ،شیْخِ طریقت مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی کی تصانیف مبارکہ میں بہت ساری ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ان کو دورحاضر کی تصانیف سے ممتاز کرتی ہیں،بعض خوبیوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے ۔

پہلی اور بنیادی خوبی یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے بہت زیادہ احتیاط برتنا کہ کہیں کوئی مسئلہ غلط درج نہ ہوجائے ،اس تعلق سے آپ کی طبیعت انتہائی حساس ہے کیونکہ تقریر ہویا تحریر آپ شریعت کو فوقیت دیتے ہیں ۔اپنی منفرد کتاب”نیکی کی دعوت“ کے پیْشِ لفظ میں خود ارشاد فرماتے ہیں: کتابِ ہٰذا کو اَغلاط سے بچانے کی بَہُت کوشِش کی گئی ہے اور دعوتِ اسلامی کے تحت چلنے والے دارالافتاء اہلسنّت کے مفتی صاحِب سے باقاعِدہ شَرعی تفتیش بھی کروائی گئی ہے۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میری کوشش رہتی ہے کہ اپنی کتب ورسائل اور نعتیہ کلام کو عُلَماءِ کرام کَثَّـرَھُمُ اللہُ السَّلام کی نظر سے گزار کرہی منظرِ عام پر لایا جائے،غلطیوں سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کوئی غَلَط مسئلہ چَھپ جائے، لوگ اُس پر عمل کرتے رہیں اورمَعَاذَاللہ آخِرت میں میری گرِفت ہو جائے۔بَہر حال اپنی کوشش پوری ہے تاہم ممکن ہے کہ غَلَطیاں رَہ گئی ہوں،لہٰذا اِس میں اگر کوئی شَرعی غَلطی پائیں تو برائے مہربانی بہ نیّتِ ثواب مجھے ضَرور بِالضَّرور خبردار فرمائیں اور خود کواجرِ عظیم کا حقدار بنائیں۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہ کو بلا وجہ اَڑتا نہیں شکریہ کے ساتھ رُجوع کرتا پائیں گے۔ (نیکی کی دعوت ،پیش لفظ،ص6)

دوسری خوبی یہ ہے کہ بات کو آسان سے آسان پیرائے میں لکھنا،عام فہم انداز میں سمجھانا اور مشکل تعبیرات و ثقیل عبارات سے حتَّی المقدور بچنا۔اس خوبی کے بارے میں شیْخُ الحدیث مُفتی محمد اسماعیل قادری رَضَوی نُوری مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی تحریر فرماتے ہیں: میں نے امیراہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری رضوی صاحب دَامَ ظِلُّہٗ کی تالیف کردہ کتاب متعلقہ عقائد بنام”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“اَز اول تا آخر پڑھنے کا شرف حاصل کیا،یہ کتاب بہت آسان اردو زبان میں لکھی گئی ہے،معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی باآسانی اسے پڑھ سکتا ہے۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،تقریظ جلیل، صviii) اور شرفِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ ”فیضانِ سنت “ کے متعلق لکھتے ہیں: اس کی زبان عام فہم اور انداز ناصحانہ اور مُبَلِّغانہ ہے۔(فیضان سنت جلداول،تقریظ،صii) اور اہلسنت کے عظیم مُحسن حضرت رئیس التحریر قائداہلسنت علامہ ارشد القادری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہفرماتےہیں:نقیب اہْلِ سنت حضرت مولانا محمد الیاس قادری کی تصنیْفِ لطیف”نمازکا جائزہ“ نظر سے گزری ،مولانا نے اختصار کے ساتھ نماز کے مسائل کو نہایت صحت،عمدگی اور جامِعِیَّت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔یہ کتاب آسان اور عام فَہَم انداز میں لکھ کر مولانا نے وقت کی اہم دینی ضرورت کی تکمیل فرمائی ہے۔مولائے قدیر انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کتاب کو دینی برکتوں سے عامَۂ مسلمین کو نفع بخشے۔(نمازکاجائزہ،تقریظ ،ص6)

تیسری خوبی یہ ہے کہعلمی وفقہی احکام ومسائل بھی خوب بیان فرمانا جس کی بدولت عوام کے علاوہ علمائے دین متین کی بڑی تعدادان کُتُب ورسائل سے فائدہ اٹھاتی ہے ،یوں آپ کی کُتُب عام وخاص کے لیے یکساں مفیدہیں۔آپ کی ایک کتاب کے متعلق شیْخُ الحدیث مُفتی اسماعیل ضیائی صاحب مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی فرماتے ہیں:اس کتاب میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وصدرالشریعہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے فَتاوٰی کا خوب خوب فیضان ہے،نیز یہ کتاب مذکورہ بزرگوں کے علاوہ اسلافِ مُقَدَّسہ مثلاً مُلّاعلی قاری، صاحِب ِرَدُّ المحتار وغیرہ بُحُورُالعلوم کے مستند فتاوٰی کے فُیُوض وبَرکات سے مالامال ہے۔یہ کتاب سوال وجواب پر مشتمل ہے اور بعض تنقیدی سوالوں کا اس میں سہل طریقے سے جواب دیا گیا ہے،نیز یہ قرآن وحدیث،اقوال صحابہ ونصیحت آموز حکایات کا ایمان افروز اور دلچسپ مجموعہ ہے۔میری سوچ کے مطابق اس کتاب کا مطالعہ عوام تو عوام علمائے کرام کے لیے بھی مفید ہے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،تقریظ جلیل،صviii)اور مولانا محمد احسانُ الحق قادری رَضَوی صدرمُدَرِّس جامعہ رضویہ مَظْہَرِاسلام فیصل آباد لکھتے ہیں:”فیضانِ سنت“ کا اگر بِالْاِسْتِعَاب (یعنی اول تا آخر)مطالعہ کیا جائے اور مسائل یاد رکھنے کی کوشش کی جائے تو جہاں دل میں دینی معلومات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا معلوم ہوگاوہاں ہزارہا مرتبہ درود شریف پڑھنے کا ثواب بھی نامَۂ اعمال میں درج ہوجائے گاکیونکہ اس کے ایک ایک صفحہ میں کئی کئی مرتبہ درود شریف لکھنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے۔(فیضان سنت(قدیم)، پیش لفظ،ص37)

چوتھی،پانچویں ، چھٹی اورساتویں خوبی یہ ہے کہ مواد کی بہت زیادہ کثرت ہونا،حوالہ جات کی تخریج کا اہتمام کرنا،دلچسپی کے لیے حکایات وواقعات کو شامل کرنا اور اپنے بزرگوں کاتذکرہ خیر کرنا ۔اس تناظر میں قبلہ شیخ الحدیث اسماعیل ضیائی صاحب اَطَالَ اللہُ عُمْرَہٗ کی تقریْظِ جمیل سے یہ اقتباس مُلاحَظہ فرمائیے:حضرت نے اس کتاب میں وہ بیش قیمت مواد جمع کیا ہے جوسینکڑوں کتابوں کے مطالعے کے بعد ہی حاصل ہوسکتا ہے،یہ کتاب بَیَک وقت مسائل شرعیہ کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تصوف وحکمت کے لیے بھی مفید ہے۔اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ۔درجنوں موضوعات پر پیش کردہ آیاتِ قرآنی ،احادیْثِ نبوی واقوالِ اکابرین کے ساتھ ساتھ دلچسپ حکایات نے اس کتاب کے حسن میں مزید اضافہ کردیا ہے۔احادیث وروایات اور فقہی مسائل کے حوالہ جات کی تخریج نے اس کتاب کو علماء کے لیے بھی مفید تر بنادیا ہے۔اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ حضرت نے متعدد مقامات پر اکابرین اہلسنت رَحِمَہُمُ اللہ کا ذکْرِ خیربھی کیا ہے،جس سے ان کی اپنے علماء اکابرین سے والہانہ محبت ظاہرہوتی ہے۔اس ذکْرِخیرکا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے اسلاف سے متعارف ہوتی رہیں گے۔(فیضان سنت جلداول، تقریظ، صi)

آٹھویں خوبی یہ ہے کہ جابجا رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتیں بیان کرکے دلوں کو یاد مصطفی میں تڑپانا اور امت کو ادب واحترام کا درس دینا۔چنانچہ خواجہ علم وفن حضرت علامہ مولانا خواجہ مظفرحسین صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے یہ اقوال وافعال جنہیں سنت کہتے ہیں،احادیث کریمہ،اقوال ومشائخ اور علماء کرام کی کتابوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ہزاروں ہزار فضل وکرم کی برسات ہو امیْرِاہلسنت بانِی وامیردعوتِ اسلامی عاشِقِ مدینہ حضرت علامہ ومولانا محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ پر کہ انہوں نے اِن لَعل وجَواہر اور گوہر پاروں کو چن چن کر یکجا فرمادیا اور فیضانِ سنت کے حسین نام سے موسوم کرکے یاد نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں دھڑکنے والے دلوں کی خدمت میں پیش فرمایا۔ زبان وبیان کی رَوانی اور طرز تحریر کی شیرینی کےساتھ جب یہ کتاب سامنے آئی تو لوگ اسے برستی آنکھوں اور ترستے دلوں کے ساتھ پڑھنے اور اس پر عمل کرنے لگے۔بندہ ناچیز خود بھی اس کتاب سے اتنا متاثر ہوا کہ جب اس کا پہلا ایڈیشن مجھے ملا تو باوضو بھیگی آنکھوں سے رِحْل پر رکھ کر پڑھتا رہا اور باربار پڑھتا رہا۔اور اب تو یہ جدید ایڈیشن کچھ اور ہی خوبیوں کے ساتھ بن سنور کر سامنے آیا ہے۔حوالہ جات سے مُرَصَّع تخریجات سے آراستہ اور مزیداضافات سے سجا ہوا ہے۔(فیضان سنت جلداول، تقریظ، صiv)

نویں خوبی یہ ہے کہ تحریر میں عوام کی خیرخواہی کرنااور ان کی تربیت کا بھرپور خیال رکھنا ۔آسان انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مشکل الفاظ استعمال کرکے خاص مقصد کے پیْشِ نظر بریکٹس میں اُن کے معانی دے دیئے جاتے ہیں۔اس بارے میں قبلہ سیدی شیخ طریقت مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی فرماتے ہیں:فیضان سنت (جلداول)چار ابواب اور تقریباً1572صفحات پر مشتمل ہے۔دعوتِ اسلامی ایک ایسی سنتوں بھری تحریک ہے جس میں علماء وزعما کے ساتھ ساتھ عوام کا ایک جَمِّ غَفِیر ہے۔عوام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیضان سنت(جلد اول) کو حتَّی الامکان آسان پیرائے میں لکھنے کی سعی( یعنی کوشش) کی ہے اور کئی مقامات پر قصداً دقیق(یعنی مشکل) الفاظ لکھ کر ہلالین میں اس کے معنیٰ بھی لکھ دئیے ہیں تاکہ کم پڑھے لکھے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو دیگر اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے میں مدد حاصل ہو۔ (فیضان سنت جلداول،پیش لفظ ،صiiv)

دسویں خوبی یہ ہے کہ آپ کے اکثرکُتُب ورسائل کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں،بعض کتب ورسائل تو لاکھوں کی تعداد میں طبع ہوچکے ہیں بالخصوص فیضانِ سُنَّت اس معاملے میں سَرِفہرست ہے۔شرفِ مِلَّت حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ عظیم پیمانے پر ترویج سنت کے لیے بانِیِ دعوتِ اسلامی مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی کی کاوشوں کو یوں خراج تحسین پیش فرماتے ہیں: اس کامیابی میں جہاں حضرت امیردعوت اسلامی مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی کی شب وروز کوششوں اور ان کے بیانات کا دخل ہے وہاں فیضان سنت کا بھی بڑا عمل دخل ہے،فیضان سنت فقیر کے اندازے کے مطابق پاکستان میں (قرآن پاک کے بعد) سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتاب ہے۔(فیضان سنت،تقریظ جمیل،صii)

یہاں سیِّدِی امیْرِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصانیف میں پائی جانے والی 10 تحریری خوبیاں لکھی گئی ہیں مگر غوروفکر کرنے والوں پر مزید خوبیاں بھی آشکار ہوں گی۔مختلف علوم اورگوں ناگوں موضوعات پر آپ کے کتب و رسائل کا وجود آپ کے عظیم صاحب علم،وسِیْعُ المعلومات،مُفکِّرِمِلَّت اورنَبّاض قوم مُصَنِّف ومُؤَلِّف ہونے پر شاہد عدل ہے ۔آپ نے علم کلام،علم فقہ ، علم تصوف،علم سیرت ،علم عبادات،علم معاملات،علم طب وحکمت،علم معاشرت اور علم اخلاق وغیرہ علوم میں 142 کتب ورسائل تحریر فرمائے جن میں آپ نے عقائد و متعلقات،معمولات اہلسنت،معجزات وکرامات، عبادات، معاملات، احکام و مسائل، سیرت وتراجم،اخلاق وآداب،منجیات، مہلکات، اسلامی معاشرت، رسم ورواج، امربالمعروف ونہی عن المنکر، فضائل ومناقب، حمدونعت،اورادوظائف ،کرنٹ ایشوزوحالات حاضرہ اور روحانی مسائل وغیرہ درجنوں موضوعات پر بھرپور خامہ فرسائی کی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق امیراہلسنت زِیْدَعِلْمُہٗ وَفَضْلُہٗ کے مطبوعہ کتب ورسائل کے صفحات کی تعداد12ہزار سے زیادہ ہے جبکہ غیرمطبوعہ کتب ورسائل کے تقریبا13سو صفحات اس کے علاوہ ہیں اوراسلامی شاعری کے تعلق سے دیکھا جائے توآپ نے 300سے زیادہ کلام تحریرفرمائے ہیں۔ عشق ومحبت اور خوف وخشیت سے لبریز آپ کا خوب صورت نعتیہ دیوان ”وسائل بخشش“ 284کلاموں پرمشتمل ہے جن میں 28حمدو مناجات، 179نعت واِسْتِغاثے، 32 مناقب، آٹھسلام اور 37متفرق کلام ہیں جبکہ22 مختلف کلاموں پرمحیط آپ کا دوسرا شعری مجموعہ’’وسائل فردوس ‘‘ ہے ۔