عبد الرحیم عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

والد کے اپنی اولاد پر اس قدر احسانات ہیں کہ اگر اولاد کو
ایک تو کیا کئی زندگیاں بھی مل جائیں تب بھی وہ اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں
چکا سکتی۔ والد قدرت کا انمول تحفہ ہے، والد کے حقوق سے آزاد ہونا ناممکن ہے، والد
وہ ہستی ہے جو بغیر کسی غرض، لالچ اور بدلے کے اپنی اولاد پر احسان کرتا ہے، ان کے
لیے صبح سویرے کام کاج کے لئے گھر سے نکل پڑتا اور گرمی ہو یا سردی، سخت دھوپ ہو
یا بارش، صحت ہو یا بیماری ہر حال میں روزانہ سارا سارا دن محنت مزدوری کر کے
اولاد کا پیٹ بھرتا ہے، ان کی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے،
انہیں اچھی تعلیم دلواتا ہے، اچھا لباس پہنانے کی کوشش کرتا ہے، اولاد کی ترقی کے
لئے ہمیشہ کڑھتا رہتا ہے، اولاد پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات ان کا خیال بھی
رکھتا ہے اور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتا ہے، والد اولاد کے مستقبل کو
سنوارنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیتا ہے، والد اولاد کے لئے سایہ
دینے والے درخت کی طرح ہوتا ہے، والد خود گرمی برداشت کر کے اولاد کو آرام و سکون
پہنچاتا ہے، والد اولاد کے سکون کی خاطر خود تکلیفیں برداشت کر لیتا ہے، والد دنیا
میں شاید وہ واحد ہستی ہے جو اولاد کو اپنی ذات سے بھی زیادہ کامیاب بنانا چاہتا
ہے، وقتا فوقتا اپنی اولاد کو مفید مشوروں سے نوازتا ہے، اولاد کو اپنی زندگی کے
تجربات سے آگاہ کرتا ہے، اولاد کو موجودہ اور آئندہ آنے والے خطرات و فتنوں سے
باخبر کرتا ہے، انہیں کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھاتا ہے، اولاد کو اپنے پرائے
کا فرق بتاتا ہے، انہیں خوش دیکھ کر خوش ہوتا اور اولاد کو دُکھ تکلیف میں مبتلا
دیکھ کر بے قرار ہو جاتا ہے، والد اولاد کے چہرے سے ہی ان کی حاجات و پریشانیاں
بھانپ لیتا ہے، مشکلات میں اولاد کی ہمت بندھاتا ہے، معذور اولاد کو بھی بے سہارا
نہیں چھوڑتا، والد نافرمان اولاد کے لئے بھی اپنی محبتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے،
والد نہ ہو تو گھر ویران ہو جاتا ہے۔
والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم قرآنِ کریم میں بھی بیان
ہوا ہے، چنانچہ پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 اور 24 میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:
وَ قَضٰى
رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا
كَرِیْمًا(23) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب
نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر
تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ
کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ اور ان کے لیے عاجزی کا
بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان
دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23، 24)
آئیے! اب احادیث مبارکہ کی روشنی میں والد کی اطاعت و
فرمانبرداری پر 4فرامین مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:
(1)جنت کا دروازہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے، تیری مرضی ہے، اس کی حفاظت
کر یا اسے چھوڑ دے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلة، باب: ماجاء من الفضل في رضا
الوالدین، 3/359، حدیث:1906)
(2)رب کی رضا: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:رب کریم کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کریم کی
ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل في
رضا الوالدين،3/360، حدیث:1907)
(3)اللہ تعالیٰ کا غضب: نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان سے
اچھا سلوک نہ کیا وہ اللہ کریم کی رحمت سے دور ہوا اور خدا پاک کے غضب کا حق دار
ہوا۔(معجم کبیر،12/66، حدیث: 12551)
(4)والد کو گالی نہ دے:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اپنے والد کو ہر گز گالی نہ دے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم!کوئی شخص اپنے والد کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کسی شخص کے
والد کو گالی دے گا تو وہ اس کے والد کو گالی دے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب
الكبائر و اكبرها، ص20، حدیث: 263ملخصاً)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والد محترم کی خوب خوب اطاعت و
فرمانبرداری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
غلام حسین عطاری (درجۂ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان اہل بیت
کراچی، پاکستان)

پیارے اسلامی بھائیو! والد کی عظمت کا اندازہ آپ نبی پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمودات سے لگا سکتے ہیں، آیئے! والد کی اطاعت و
فرمانبرداری کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی
اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں
ہے۔(معجم الاوسط)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی
خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، حضورِ
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے
جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں
چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم)
ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے رسول اﷲ صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ والد جنت کے دروازوں میں سے بیچ کا
دروازہ ہے، اب تیری خوشی ہے کہ اس دروازہ کی حفاظت کرے یا ضائع کردے۔(ترمذی، ابن
ماجہ)
پیارے اسلامی بھائیو! ان احادیث مبارکہ سے آپ ایک والد کی
فضیلت و عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا باپ کا احترام کرو تاکہ
تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے، باپ کی عزت کرو تاکہ اس سے فیض یاب ہوسکو، باپ کا
حکم مانو تاکہ خوشحال ہو سکو، باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہوسکو، باپ ایک
کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں، باپ ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان
کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو والدین کی حقیقی معنی میں ادب کرنے اور
بالخصوص والد کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
محمد فہیم عزیز (درجۂ
سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ملتان، پاکستان)

وَ قَضٰى
رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا
كَرِیْمًا(23) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں
باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ
جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات
کہنا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23)
سورۃ البقرہ آیت نمبر 83 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَبِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًا ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور
ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ
ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اُن کیلئے باعث ِ تکلیف ہو اور
اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے،
ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا
مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی
وفات کے بعد ان کیلئے ایصالِ ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے
تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ
گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و
تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔ (خازن- تفسیر عزیزی مترجم)
احادیثِ مبارکہ میں بھی والد اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب
دی گئی ہے، آیئے! 4احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،
حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا
وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے
یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب
فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما، ص1382، حدیث:2552)
(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،
رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی
باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب
البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/360، حدیث:1907)
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد
کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں
ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/641، حدیث:2255)
(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،
پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رضی
اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کس کی ناک خاک
آلود ہو؟ ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے
کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ
والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص1381، حدیث:2551)
والدین سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیم:
یہاں دو باتیں یاد رکھیں،ایک یہ کہ کوئی شخص ماں باپ کو
اُن کا نام لے کر نہ پکارے، یہ خلافِ ادب ہے اور اس میں اُن کی دل آزاری ہے لیکن
وہ سامنے نہ ہوں تو اُن کا ذکر نام لے کر کرنا جائز ہے۔ دوسری یہ کہ ماں باپ سے اس
طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے۔ ان آیات اور اَحادیث کا مطالعہ
کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان پر واضح ہو جاتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک
کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی جیسی عظیم تعلیم اسلام نے اپنے ماننے والوں
کو دی ہے ویسی پوری دنیا میں پائے جانے والے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ فی
زمانہ غیر مسلم ممالک میں بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتِ حال کا شکار ہیں کہ
ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں سنبھالنے اور ان کی خدمت کر کے ان کا سہارا
بننے کے لئے تیار نہیں ہوتی،اسی وجہ سے وہاں کی حکومتیں ایسی پناہ گاہیں بنانے پر
مجبور ہیں جہاں بوڑھے اور بیمار والدین اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور
ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔
اسجد نوید (درجۂ ثالثہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

الله عز و جل نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فر مائیں اور ہم
پر بے شماراحسانات کئے جن میں سے ایک نعمت والد ہے۔ والد ایک ایسی نعمت ہے جس
کاصلہ ہم زندگی بھر بھی ادا نہیں کر سکتے۔ والد کی رضا اللہ کی رضا ہے اور والد کی
معصیت اللہ عزوجل کی معصیت ہے۔ والد کو جنت کا درمیانہ دروازہ قرار دیا گیا ہے۔
آئیے! والد کی فرمانبرداری پر کچھ احادیث مبارکہ ملاحظہ فرماتے ہیں:
والدکی اطاعت اور معصیت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد کی اطاعت
اللہ عزوجل کی اطاعت ہے اور والد کی معصیت الله عزوجل کی معصیت ہے۔(المعجم
الاوسط،3/134، حدیث: 227)
والد جنت کا درمیانی دروازہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: والد جنت
کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے اب تو چاہے تو اسے ضائع کردے یا اس کی حفاظت
کر۔ (ترمذی)
ر سول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیٹا
اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ بیٹا اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے
خرید کر آزاد کر دے۔(احیاء العلوم)
والد کی دعا رد نہیں ہوتی: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: تین دعائیں ایسی ہیں جن کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: (1) باپ کی دعا
(2) مظلوم کی دعا(3) مسافر کی دعا۔( ترمذی، 3/362، حدیث: 1912)
والد سے احسان کرنے والا: حضرت ابن عمر سے روایت ہے
کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ
ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم،
ص1382، حدیث: 2552)
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں اپنے والد کی فرمانبرداری کرنی
چاہئے اور کبھی بھی والد کی باتوں کا برا نہیں ماننا چاہئے، اللہ پاک ہمیں والد کی
اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد فرحان مصطفیٰ (درجۂ
سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)

باپ زندگی کا اہم جزو (Important part of life) ہوتا ہے، باپ
اہل و عیال کا محافظ اور اولاد کے سر کا سایہ ہوتا ہے جو دن رات کماتا ہے، گرمی
سردی کا احساس ختم کر دیتا ہے۔ اور اس کی کمائی کا مقصد صرف اس کے اہل و عیال ہوتے
ہیں۔ قرآن و حدیث ماں باپ کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آیئے! والد کی اطاعت و فرمانبرداری پر چند احادیث مبارکہ
پڑھتے ہیں:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول
الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے
بیچ کا دروازہ ہے تو اگر تم چاہو تو (اس کی نافرمانی کرکے) اسے ضائع کر دو اور اگر
چاہو تو (اس کی فرمانبرداری کرکے) اس کی حفاظت کرو۔ (ترمذی)
سنن ترمذی میں ہے کہ نبی اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی
ناراضی میں ہے۔ (ترمذی)
ایک حدیث مبارکہ میں تو یوں فرمایا گیا کہ عظیم ترین نیکی
یہ ہے کہ (باپ کے فوت ہو جانے کے بعد) اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کی جائے۔(مسند
احمد)
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص
نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی کہ میرا باپ میرا مال لے لینا
چاھتا ہے تو آپ نے فرمایا: انت و مالك لابيك تو اور تیر امال تیرے
والد کی ملکیت ہے۔(سنن ابن ماجہ)
یقیناً والد کا مقام بہت بلند ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو
والد کی اہمیت جان کر ان کی اطاعت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
الله پاک ہم سب کے والدین کو صحت و سلامتی، ایمان و عافیت
والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی بے حساب
مغفرت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فہد ریاض عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ
قادر پوراں، ملتان)

والد دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کے
لئے زمانے کی کئی سختیاں برداشت کرتا ہے، والد جنت کا دروازہ ہے، والد اولاد کے
لئے سرپرستِ اعلیٰ ہے، والد اللہ پاک کی خوشنودی کا ذریعہ ہے، والد دنیا کی وہ
واحد شخصیت ہے جو اپنی اولاد کی پرورش کے لئے محنت کرتا ہے، والد دنیا میں اولاد
کے لئے بہترین رسائی اور سہارا ہے، والد سورج کی مانند ہے سورج گرم تو ہوتا ہے مگر
روشنی نہ دے تو اندھیرا چھا جاتا ہے فصلیں کچی رہ جاتی ہیں۔ والد کی عظمت و اہمیت
اور مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لئے آئیے! والد کی اِطاعت، رضا اور فرماں برداری پر
مشتمل 5فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:
(1)اللہ پاک کی اِطاعت والد کی اِطاعت کرنے میں ہے اور
اللہ پاک کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط،1/614،حدیث:2255)
(2)اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی
والد کی ناراضی میں ہے۔ (ترمذی،3/360،حدیث:1907)
(3)والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو
چاہے تو اس دروازے کو ضائع کردے یا اس کی یا حفاظت کرے۔(ترمذی،3/359، حدیث:1906)
(4)ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ میرے حُسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد
فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے
پوچھا پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر فرمایا: تمہاری
ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، 4/93،
حدیث:5971)
(5)بے شک سب نکو
کاریوں سے بڑھ کر نکو کاری یہ ہے کہ فرزند اپنے والد کے دوستوں سے اچھا سلوک
کرے۔(مسلم، ص1061، حدیث: 6515)
ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے اور
ان کی اِطاعت کرتے ہوئے ان کا دیا ہوا ہر جائز کام فوراً کرنا چاہئے۔ ہاں اگر وہ
شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت نہ کی جائے۔
اگر کسی کے والد
نے اپنی اولاد کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے تو اس کی اولاد کو یہ اِجازت نہیں کہ وہ
اپنے والد کے ساتھ بدسلوکی کرے۔ یاد رکھئے! حدیث میں ہے: سب گناہوں کی سزا اللہ
پاک چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی
دیتا ہے۔(مستدرک للحاکم،5/216، حدیث: 7345)
ماں چاند ہے تو والد سورج اور یہ بات تو آپ جانتے ہیں کہ
چاند سورج ہی سے روشنی لیتا ہے، ماں اگر جنت ہے تو والد اس جنت کا دروازہ ہے، ماں
جنم دیتی ہے تو والد زندگی دیتا ہے، ماں چلنا سکھاتی ہے تو والد دوڑنا سکھاتا ہے،
ماں بچے کی حفاظت کرتی ہے تو والد دونوں کی حفاظت کرتا ہے، ماں گھر سجاتی ہے تو
والد گھر بناتا ہے، ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو والد ہی اسے جنت دیتا ہے، ماں شفیق
ہوتی ہے تو والد بہت مہربان ہوتا ہے۔
اے عاشقانِ رسول! اپنی عمر بھر کی خوشیوں اور خواہشات کو
بچوں کی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قربان کرکے جینے والا والد جب بڑھاپے
میں اپنے بچوں کی شفقت اور حُسنِ سلوک کا طلبگار ہوتا ہے تو ان سے حسن سلوک سے پیش
آیئے اور خُوش دِلی کے ساتھ ان کی خِدمت کیجئے اور ان کا ادب و احترام کر کے جنّت
کے حقدار بنئے۔
اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین

مدنی مرکز فیضان
مدینہ دیپالپور میں 18 فروری 2024ء کو مدرسۃ المدینہ شارٹ ٹائم کی جانب سے ناظمین و مدرسین کے مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا ۔
نگران
مجلس بابا محمد عرفان عطاری نے” اخلاص سے عمل کریں“ کےموضوع پر بیان کیا۔ دورانِ بیان نگران
مجلس نے دعوت اسلامی صدقہ مہم کے حوالے سے
کوشش کرنے کا ذہن دیاجس پر مدنی عملے کے اسلامی بھائیوں نے بھلے جذبات کااظہار کیا۔( رپورٹ:
نذرعباس عطاری ڈویژن ذمہ دار،،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)

19
فروری 2024ء بروز پیر دعوت اسلامی کے شعبہ فیضان
آن لائن اکیڈمی بوائز ساہیوال ڈویژن کے شفٹ تعلیمی ذمہ داران و
معاونین کی آن لائن میٹنگ ہوئی۔
ساہیوال
ڈویژن کے تعلیمی امور کے ذمہ دار مولانا
شفیق عطاری مدنی و معاون رکن مجلس تعلیمی
امور سید انس عطاری نے تعلیمی امور کے
حوالے سے اسلامی بھائیوں کی رہنمائی کی ۔
علاوہ ازیں مختلف امور پر تربیت کی اور دینی کاموں میں خود اور مدرسین کو شرکت کروانے
کا ذہن دیا جس پر شرکا نے اچھی اچھی نیتوں
کا اظہار کیا۔آخر میں حاضرین کی جانب
سے کئے گئے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔(رپورٹ:
عبد الرؤف عطاری مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی اوکاڑہ،کانٹینٹ:رمضان رضا
عطاری)

شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز کے تحت لاہور کے مفتش و معاونین کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا جس میں رکن مجلس تفتیش ذمہ دارسید انس عطاری نے تفتیشی و تدریسی معاملات کے حوالے سے اسلامی بھائیوں کی تربیت کی نیز شعبے میں ہونے والے دینی کاموں میں مزید بہتری لانے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے۔(
رپورٹ: محمد فیصل ایاز عطاری ڈویژن تعلیمی ذمہ دار،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
سرگودھا
میں حاجی وقار المدینہ عطاری کی خالہ زاد بہن کے انتقال پر نماز جنازہ کا سلسلہ

پچھلے دنوں دعوت
اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی وقار المدینہ عطاری اور ڈویژن نگران سرگودھا محمد عادل عطاری کی
خالہ زاد بہن کا قضائے الہی ٰ سے سرگودھا میں انتقال ہوگیا تھا۔
رکن
شوریٰ نے چک نمبر 47 آفیسرز کالونی سرگودھا میں مرحومہ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں لواحقین سمیت کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی ۔بعدازاں رکن شوریٰ نے مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کروائی۔دوسری جانب دوران تدفین قبر پر فاتحہ خوانی ،دعا ، اذان اور تلقین کا سلسلہ بھی ہوا۔( کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
.jpg)
تحصیل
جھمرہ کھڑیانوالہ میں قائم مدنی مرکز فیضان مدینہ میں ڈسٹرکٹ
فیصل کے آباد ذمہ داران کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس
میں ڈسٹرکٹ و تحصیل ذمہ داران نے شرکت کی۔
ڈسٹرکٹ نگران نعیم عطاری اور شعبہ تحفظ اوراق
مقدسہ کے ڈویژن و صوبائی ذمہ دار ڈاکٹر عدنان عطاری نے سابقہ اہداف کا جائزہ لیا نیز شعبے کی بہتری
کے لئے اہداف طے کئے اور اوراق مقدسہ اسٹور اور کارخانے میں کام کرنے والے اسلامی بھائیوں کی مدد سے جلد از جلد فیصل آباد ڈویژن کے تمام فیضان مدینہ
اور دیگر اداروں میں بڑے با کسز لگانے کا ذہن دیا۔
اس کے علاوہ مدنی مشورے میں ایک رکشہ تحصیل میں تحصیل
نگران کی معاونت سے ملنے کا طے کیا گیا جبکہ شب برأت اجتماع میں صدقہ جمع کرنے اور رمضان ڈونیشن کے لئے کوششِ
تیز کرنے اور بڑھانے پر کلام کیا گیا۔(رپورٹ: حافظ نسیم عطاری سوشل میڈیا آف
ڈیپارٹمنٹ پاکستان،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
اویس منظور عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان عبداللہ
شاہ غازی کراچی، پاکستان)

حضرت ادریس علیہ السلام کا
اصل نام اخنوخ ہے، آپ کے والد کا نام شیث بن آدم علیہما السلام ہے، آپ علیہ السلام
پر تیس صحیفے نازل ہوئے، ان صحیفوں کا بہت زیادہ درس دینے کی وجہ سے آپ کو ادریس
(یعنی بہت درس دینے والا) کہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام سے بہت سارے نئے کام ایجاد
ہوئے، مثلاً قلم سے لکھنا، کپڑے سینا اور سلے ہوئے کپڑے پہننا آپ ہی کی ایجادات
ہیں۔ قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کی صفات کا ذکر بھی ملتا ہے، آئیے! ہم بھی آپ کی
صفات میں چند پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
صدیق (سچ بولنے والے): قرآن پاک میں آپ کی ذکر کردہ صفات
میں سے ایک صدیق بھی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)
اللہ
عزوجل کے احسان مند: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ
النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ہیں جن پراللہ نے
احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔(پ16
مریم: 58)
صبر کرنے والے: الله عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17،
الانبیآء:85)
حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتابِ الٰہی کا
درس دیتے، عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر
کرتے تھے اس لئے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار کیا گیا ہے۔
صالح: اللہ تعالیٰ آپ کی صفت صالح کا بیان کرتے ہوئے
اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ
رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں
ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔
(پ17، الانبیآء:86)
اللہ پاک سے دعا
ہے کہ اللہ کریم ہمیں حضرت ادریس کے صدقے نیکی کی دعوت کی دھو میں مچانے کی توفیق
عطا فرمائے اور بے حساب مغفرت فرما کر جنت میں داخلہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ
خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم