پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس زمانے میں جس طرح ظاہری گناہوں سے بچنا مشکل ہے اسی طرح باطنی گناہوں سے بچنا بھی بہت دشوار ہے باطنی گناہوں سے نا بچنے کی ایک اہم وجہ باطنی گناہوں کا علم نا ہونا ہے۔ مسلمانوں کو باطنی گناہوں کے بارے میں معلومات دینے کے لیے ہر ماہ ماہنامہ فیضان مدینہ میں ایک مضمون باطنی گناہوں کے موضوع پر بھی شایع ہوتا ہے اس ماہنامہ فیضان مدینہ کے اس مضمون میں آپ کو ایک باطنی گناہ  حسد کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے گی ۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے اس سے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے۔ حسد کا حکم: کسی مسلمان سے حسد کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

احادیث مبارکہ میں حسد سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک برا فعل ہے ہر مسلمان کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہیے حسد کی مذمت پر 6 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھیے اور اس مذموم صفت سے بچنے کی کوشش کیجیے ۔

(1) حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (حسد، ص31)

(2) مومن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔ (حسد، ص27)

(3) حسد ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا (کڑوے درخت کا رس) شہد کو بگاڑ دیتا ہے۔ (حسد ص27)

(4) تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کر گئی یہ مونڈ دینے والی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (حسد، ص26)

(5) حسد کرنے والے چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (حسد، ص25)

(6) اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں عرض کی گئی وہ کون ہیں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ (حسد ،ص24)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! بعض امراض ایسے خطرناک ہوتے ہیں جن کے خاتمے کے لئے باقاعدہ اور طویل علاج کی ضرورت ہوتی ہے انہیں میں سے ایک حسد بھی ہے اس کا علاج مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ درج ذیل تدابیر اختیار کر کے حسد سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔(1) توبہ کرلیجئے (2)دعا کیجئے (3)رضائے الٰہی پر راضی رہیے (4)حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھئے (5)اپنی موت کو یاد کیجیے (6)حسد کا سبب بننے والی نعمتوں پر غور کیجئے (7)لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ رکھیے (8)حسد سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھئے (9)اپنی خامیوں کی اصلاح میں لگ جائیے (10)حسد کی عادت کو رشک میں تبدیل کر لیجئے (11)نفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیریں کیجئے (12)دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنا لیجئے (13)روحانی علاج بھی کیجئے (14)مدنی انعامات پر عمل کیجئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: حسد کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب حسد کا مطالعہ کیجئے۔ علم دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔


عزازیل جو جنات میں سے تھا اللہ پاک نے اس کو بہت بڑے مقام و مرتبے سے نوازا ۔یہ بہت بڑا عبادت گزار تھا اس نے دنیا کے ہر کونے پہ اللہ پاک کی عبادت کی پھر اس کو یہ مرتبہ  ملا کہ یہ فرشتوں کا استاد بنا دیا گیا یہ فرشتوں میں وعظ کیا کرتا تھا فرشتے اس کے تابع فرمان تھے جو اتنے بڑے مقام پر فائز ہو غور کریں کہ رب کریم کی بارگاہ میں کتنا مقبول ہوگا۔ عزازیل کا اتنا بڑا مرتبہ ایک دن زائل ہو گیا۔ وہ عزازیل جو رب کی بارگاہ میں مقبول تھا وہ مردود ہو گیا ایسا کیا کیا اس نے۔ آئیے اس بارے میں جانتے ہیں اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں سب فرشتے حکم پاتے ہی فوراً سجدے میں گر گئے اور اس عزازیل نے سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا (انا خیر منہ) میں ان سے بہتر ہوں ۔اپنے آپ کو اللہ کے ایک نبی علیہ السّلام سے بہتر سمجھ کر اس نے حسد کیا اب اس کا انجام کیا ہوا کل تک جو اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول تھا وہ مردود ہو گیا۔ غور کریں حسد کیسا برا فعل ہے جس نے عزازیل جیسے کو بھی بلندی کے اعلی مقام سے پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا ، اسی حسد نے عزازیل کو رب کی نافرمانی پہ ابھارا اور رب کی نافرمانی کر کے وہ مردود ہو گیا ۔اب اس کا نام عزازیل نہ رہا بلکہ ابلیس کردیا گیا عوام و خواص میں اس کا مشہور نام شیطان ہے۔ اتنا ذلیل ہوا کہ آج بچہ بچہ شیطان کو ناپسند کرتا ہے۔ آئیے اب حسد کے بارے میں جانتے ہیں یہ کہتے کسے ہیں ؟کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال یعنی اس کے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے ۔قراٰنِ کریم میں حسد کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا : ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)

(1) اسی طرح آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے کئی فرامین کے ذریعے اس سے بچنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ۔ جیسا کہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا: وَلَا تَحَاسَدُوا ترجمہ (ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ) (مشکاۃ المصابیح حدیث : 5028)

(2) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَعَنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمُ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰكِنْ تَحْلِقُ الدِّيْنَ ترجمہ : حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے ۔( مشکاۃ المصابیح حدیث : 5039)

(3) ایک اور حدیث پاک میں ہے :وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔(ابوداؤد)

ذرا اندازہ لگائیے حسد نیکیوں کو بھی کھا جاتا ہے آج کل اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں یہ بیماری عام نظر آتی ہے دنیاوی معاملات کی طرف نظر کریں تو اگر آج کوئی زیادہ مال دار ہے تو کم مال دار اس کو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ تمنا کرتا نظر آتا ہے کاش اس سے یہ مال چھن جائے کاش میں اس سے زیادہ امیر ہو جاؤں کسی نے اگر اچھا گھر بنا لیا تو اب بجائے اپنے مسلمان بھائی کی خوشی میں خوش ہونے کہ یہ کہتے نظر آتے ہیں اس نے یہ گھر حرام مال کے پیسوں سے بنایا ہوگا ۔ نہ صرف یہ بیماری دنیاوی لوگوں میں ہے بلکہ اب تو بہت سے دین دار اس میں مبتلا نظر آتے ہیں اگر کوئی نعت خواں ہے تو اپنے سے اچھے نعت خواں سے حسد کرنے لگتا ہے اور اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتا نظر آتا ہے اگر کہیں اس کی تعریف کی جائے تو اس کے دل پہ یہ بات انتہائی ناگوار گزرتی ہے وہ سوچتا ہے کاش اس کی تعریف نہ ہوتی میری تعریف ہوتی الغرض جو بھی شعبہ ہو بس حال اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ کسی کی خوشی میں خوش ہونے کا ذہن رہا ہی نہیں ۔

حسد کرنے والا بہت نقصان و خسارے کا سودا کرتا ہے ایک تو وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور کسی کی نعمت پہ ناخوش ہو کر وہ گویا کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اس کو یہ نعمت دے کر صحیح نہیں کی اس کو نہیں ملنی چاہیے تھی یہ شخص اللہ پاک کی تقسیم پہ راضی نہیں ہوتا ۔

اس کا علاج: امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بیان کرتے ہیں کہ جس سے حسد ہے اس کے حق میں دعا کرتا رہے انشاء اللہ یہ مرض دور ہوجائے گا۔ اللہ پاک ہمیں حسد سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ظاہری بیماری بدن کو کھا جاتی ہے جبکہ باطنی بیماریاں ایمان کو ختم کر دیتی ہیں۔ جسم کے ختم ہو جانے سے موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ ایمان کے لٹ جانے سے دنیا و آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔ باطنی گناہوں کے سبب پھیلنے والی بیماریاں ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں کیونکہ ایک باطِنی گناہ بے شمار ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ان باطنی بیماریوں میں سے ایک حسد بھی ہے۔ حسد ایسی خطرناک باطنی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بو دیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ ( الحدیقۃ الندیۃ ،1/ 600)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 44 )

احادیث مبارکہ میں حسد کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ:

(1)حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو۔( ابو داؤد ج4/ ،360 حدیث:4903)

(2)حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ پاک کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (یعنی قطع تعلق کرے)۔(بخاری ،4/ 117 ، حدیث:6066)

(3)فرمانِ آخری نبی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔(طبرانی فی الکبیر، حدیث: 7157)

(4)فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد کرنے والے چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔(مجمع الزوائد،8 /173 ،حدیث:13126)

(5) فرمان آخری نبی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا(یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(کنزالعمال ، 3/ 186 ،حدیث: 7437)

حسد سے بچنے کے طریقے: حسد بلکہ تمام گناہوں سے توبہ کیجئے۔ دعا کیجئے۔ کہ یا اللہ پاک ! میں تیری رضا کے لیے حسد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس باطنی بیماری سے شفا دے، رضائے الٰہی پر راضی رہیے۔ حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیے۔ کہ حسد اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے، دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیے۔ جب بھی دل میں حسد کا خیال آئے تو اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ کر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کر دیجئے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد جیسی خطرناک باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


موجودہ دور میں انسان جہاں مادیت میں ترقی کرتا رہا ہے، وہیں  اخلاقی اعتبار سے پستی کا شکار بھی ہوتا جا رہا ہے۔اس دورِ جدید میں آگے بڑھنے کے ذرائع بہت ہیں، ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ بھی بڑھتی جارہی ہے ۔یوں کسی کو آگے بڑھتا دیکھ کر بغض و عناد اور حسد بھی پیدا ہو رہا ہے۔ کسی کی ترقی و منصب کو دیکھ کر حوصلہ افزائی اور دعائے خیر دینے کی بجائے اس کی نعمتوں کے چھن جانے کی خواہش کرنا اور ان نعمتوں کے چلے جانے پر خوشی کا اظہار کرنا بھی لوگوں کا معمول بنتا جارہا ہے۔ آئیے! حسد کی تعریف جانتے ہیں: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی اس کے چھن جانے)کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،1/ 600)

حسد کے نقصانات: حسد انسانی سوچوں میں نفرت کے بیج بوتا ہے۔ حسد سے ایمان خراب ،اعمال ضائع اور شیطان خوش ہوتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں حاسد سے پناہ کی ترغیب موجود ہے جیسا کہ فرمان باری ہے: ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)حسد کی مذمت کے متعلق پانچ روایات آپ بھی پڑھئے :

(1)ایمان کا خراب ہونا: حسد ایما ن کو اس طرح خراب کردیتا ہے جس طرح ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال ،3/186،حدیث: 7437)

(2)شیطان کی کوشش: ابلیس (اپنے چيلوں سے) کہتا ہے: انسانوں سے ظلم اور حسد کے اعمال کراؤ کیونکہ یہ دونوں عمل اللہ پاک کے نزدیک شرک کے برابر ہیں ۔(جامع الاحادیث، 3/60، حدیث:7269)

(3)بھلائی پر رہنے کا نسخہ: لوگ جب تک آپس میں حسد نہ کريں گے ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے۔( المعجم الکبیر، 8 / 309، حدیث:8157)

(4)ابلیس اور فرعون سے بڑھ کر شریر کون؟:مروی ہے کہ ایک مرتبہ ابلیس نے فرعون کے دروازے پر آکر دستک دی ، فرعون نے پوچھا : کون ہے ؟ ابلیس نے کہا : اگر تُو خدا ہوتا تو مجھ سے بے خبر نہ ہوتا ، جب اندر داخل ہوا تو فرعون نے کہا : کیا تُو زمین میں اسے جانتا ہے جو تجھ سے اور مجھ سے بڑھ کر شریر ہے ؟ کہنے لگا : ہاں !حسد کرنے والا اور میں حسد کی وجہ سے ہی اس مشقت میں ہوں ۔ (تفسیر کبیر، 1/ 226)

(5)حسد نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے کہ حسد سے بچو، کیونکہ حسد بھی نیکیوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو ختم کر دیتی ہے۔( رواہ البخاری)

ہمیں چاہیے کہ جہاں ہم اپنی دنیاوی چیزوں کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اسی طرح ہم حسد جیسے برے عمل سے بچیں تاکہ ہماری نیکیاں ضائع نہ ہو۔ اللہ پاک ! ہمیں حسد جیسی بری بیماری سے محفوظ فر مائے ۔(اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کر جہاں آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے ۔اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا ، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز اور کچھ  باطنی مثلاً اخلاص ، اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں۔ جیسے قتل اور بعض باطنی مثلاً تکبر ! اس پر فتن دور میں اول تو گناہوں سے بچنے کا ذہن بہت ہی کم ہے اور جو خوش نصیب اسلامی بھائی گناہوں کے علاج کی کوششیں کرتے بھی ہیں تو ان کی زیادہ تر توجہ ظاہری گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے ، ایسے میں باطنی گناہوں کا علاج نہیں ہو پا تا حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ایک باطنی گناہ بے شمار ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے مثلاً قتل، ظلم ، غیبت ، عیب داری جیسے گناہوں کے پیچھے کینے اور کینے کے پیچھے غصے کا ہاتھ ہو ناممکن ہے ۔ چنانچہ اگر باطنی گناہوں کا تسلی بخش علاج کر لیا جائے تو بہت سے ظاہری گناہوں سے بچنا ان شاء الله بے حد آسان ہو جائے گا ۔ باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے جس کے بارے میں علم ہونا فرض ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے پس بیشک ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بہت بڑی سلطنت دی۔(پ5، النسآء:54)

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی اس کے چھن) جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام حسد ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص43)حسد کا حکم : اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 44 )

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قراٰنِ مجید میں بھی حسد سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی حسد سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک برا فعل ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہیے ۔ آئیے حسد کی مذمت کے متعلق چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھیے:

(1) نیکیوں کا کھایا جانا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو ۔ (ابو داود،کتاب الادب، باب فی الحسد،حدیث:4903)

(2) حسد نہ کرو: اپنے کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ کسی کی باتیں خفیہ سنو اور نہ بخش کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور اے الله کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:5028)

(3) مونڈ دینے والی: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:6 ،حدیث:5039)

(4) ایمان کا بگڑ جانا: حسد ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے ، جیسے ایلوا ، شہد کو بگاڑ دیتا ہے ۔ ( الجامع الصغیر للسیوطی ، حدیث : 3819 )

(5) حاسد کا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کوئی تعلق نہیں: حسد کر نے والے ، چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ( مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ما جاء في الغيبة والنميمة ، حدیث : 13127 )

(6) حسد اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوتے: مؤمن کے دل میں حسد اور ایمان جمع نہیں ہوتے۔ (شعب الایمان،جلد5،حدیث: 6609)اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: حسد کے بارے میں مزید معلومات کیلئے اور اس کے اسباب اور ان اسباب کے علاج جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ” باطنی بیماریوں کی معلومات" اور "حسد" کا مطالعہ کیجئے ۔ علم دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا ۔ ان شاء الله الکریم


ابو ثوبان عبدالرحمن عطاری (درجہ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور پاکستان)

Mon, 21 Aug , 2023
1 year ago

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کر جہانِ آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے۔ اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت کی آبادی جبکہ گناہ بر بادی کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز، روزہ وغیرہ  اور کچھ باطنی مثلاً اخلاص، اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور بعض باطنی مثلاً تکبر ! اس پر فتن دور میں اول تو گناہوں سے بچنے کا ذہن بہت ہی کم ہے اور جو خوش نصیب اسلامی بھائی گناہوں کے علاج کی کوششیں کرتے بھی ہیں تو ان کی زیادہ تر توجہ ظاہری گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے، ایسے میں باطنی گناہوں کا علاج نہیں ہو پاتا حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں ۔ یاد رکھیے !اگر باطنی گناہوں کا تسلی بخش علاج کر لیا جائے تو بہت سے ظاہری گنا ہوں سے بچنا ان شاء الله بے حد آسان ہو جائے گا ۔ حُجَّةُ الإِسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد ، ریا اور تکثیر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرست ہوتے ہیں ۔ (منہاج العابدین، ملخصاً) چنانچہ ہر اسلامی بھائی پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کے علاج پر بھی بھر پور توجہ دینا لازم ہے تا کہ ہم اپنے دار آخرت کو ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں ۔ باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے جس کے بارے میں علم ہونا فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنت ، مجد درد دین و ملت ،مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں: مُحَرَّمَاتِ باطنیه (یعنی باطنی ممنوعات مثلاً ) تكبر و ريا و عجب و حسد وغیر ہا اور ان کے معالجات (یعنی علاج) کہ ان کا علم (یعنی جانا ) بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ (فتاوی رضویہ مخرجہ ، 23/624)

حسد کسے کہتے ہیں؟ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس سے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام ”حسد“ ہے۔ (الحدیقۃ الندیہ،الخلق الخامس عشر ، 1/600)

حسد کرنے والے کو ” حاسد “ اور جس سے حسد کیا جائے اُسے محسود“ کہتے ہیں۔

حسد کو حسد کیوں کہتے ہیں؟: حسد کا لفظ ” حَسُدَل “ سے بنا ہے جس کا معنی چیچڑی (جوں کے مشابہ قدرے لمبا کیڑا) ہے، جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون چوستا رہتا ہے اس لئے اسے حسد کہتے ہیں ۔ (لسان العرب ، باب الحاء، 1/826)آیت مبارکہ: ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا۔ (پ5، النسآء : 54)

حدیث( 1) ابن ماجہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حسد نیکیوں کو اس طرح کھا تا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے اور صدقہ خطا کو بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب الزھد، باب الحسد،4/473،حدیث: 4210) اسی کی مثل ابو داؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ حدیث (2) دیلمی نے مسند الفردوس میں معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ حسد ایمان کو ایسا بگاڑتا ہے، جس طرح ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جمع ہوا رس) شہد کو بگاڑتا ہے۔ ( الجامع الصغیر ‘‘ للسیوطي، حرف الحائ،ص232،حدیث: 3819)

حدیث (3) امام احمد و ترمذی نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگلی امت کی بیماری تمہاری طرف بھی آئی وہ بیماری حسدو بغض ہے، وہ مونڈنے والا ہے دین کو مونڈتا ہے بالوں کو نہیں مونڈتا، قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے! جنت میں نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہ لاؤ اور مؤمن نہیں ہو گے جب تک آپس میں محبت نہ کرو، میں تمھیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب اسے کرو گے آپس میں محبت کرنے لگو گے، آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند الزبیر بن العوام،1/348،حدیث: 1412)

حدیث (4) طبرانی نے عبداﷲ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ حسد اور چغلی اور کہانت نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں ۔ ( مجمع الزوائد ،کتاب الادب، باب ماجاء في الغیبۃ والنمیمۃ،8/172، حدیث: 13126) یعنی مسلمان کو ان چیزوں سے بالکل تعلق نہ ہونا چاہیے۔ (بہار شریعت حصہ:16 بغض و کینہ کا بیان)

حدیث (5)صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آپس میں نہ حسد کرو، نہ بغض کرو، نہ پیٹھ پیچھے برائی کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب،4/117،حدیث: 6066)

حسد کے چودہ علاج: عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل رسالے ” حسد صفحہ 68 سے حسد کے چودہ 14 علاج پیش خدمت ہیں:(1) توبہ کر لیجئے : حسد بلکہ تمام گناہوں سے تو بہ کیجئے کہ یا الله پاک میں تیرے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے فلاں بھائی سے حسد کرتا تھا تو میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادے۔ اٰمین

(2) دعا کیجئے: کہ یا اللہ! میں تیری رضا کے لیے حسد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اس باطنی بیماری سے شفادے اور مجھے حسد سے بچنے میں استقامت عطا فرما۔ اٰمین

(3) رضائے الٰہی پر راضی رہیے: کہ رب کریم نے میرے اس بھائی کو جو بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ اس کی رضا ہے وہ رب اس بات پر قادر ہے کہ جیسے چاہے جو چاہے جتنا چاہے جس وقت چاہے عطا فرما دے۔

(4) حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیے: کہ حسد الله و رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے، حسد سے نیکیاں ضائع ہوتی ہیں، حسد سے غیبت، بدگمانی، چغلی جیسے گناہ سرزد ہوتے ہیں، حسد سے روحانی سکون برباد کا ہو جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

(5) اپنی موت کو یاد کیجئے: کہ عنقریب مجھے بھی اپنی یہ زندگی چھوڑ کر اندھیری قبر میں اترنا ہے۔ موت کی یاد تمام گناہوں بالخصوص حسد سے چھٹکارے کا بہترین ذریعہ ہے۔

(6) حسد کا سبب بننے والی نعمتوں پر غور کیجیئے: کہ اگر وہ دنیوی نعمتیں ہیں تو عارضی ہیں اور عارضی چیز پر حسد کیسا ؟ اگر دینی شرف و فضیلت ہے تو یہ اللہ پاک کی عطا ہے اور اللہ پاک کی عطا پر حسد کرنا عقلمندی نہیں۔

(7) لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ رکھیے: کہ عموماً اس سے احساس کمتری پیدا ہوتا ہے جو حسد کا باعث ہے، اپنے سے نیچے والوں پر نظر رکھیے اور بارگاہ رب العزت میں شکر ادا کیجئے ۔

(8) حسد سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھیے۔ کہ حسد سے بچنا اللہ پاک اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کا سبب، جنت کے حصول میں معاون ، کل بروزِ قیامت سایہ عرش ملنے کا سبب بننے والے اعمال میں سے ایک ہے۔

(9) اپنی خامیوں کی اصلاح میں لگ جائیے۔ کہ جب دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھیں گے تو اپنی اصلاح سے محروم ہو جائیں گے اور جب اپنی اصلاح میں لگ جائیں گے تو حسد جیسے بڑے کام کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔

(10) حسد کی عادت کو رشک میں تبدیل کر لیجئے ۔ کہ کسی کی نعمت کو دیکھ کے کر یہ تمنا مت کیجئے کہ یہ نعمت اس سے چھن کر مجھے مل جائے بلکہ یہ دعا کیجئے کہ اللہ پاک اس کی اس نعمت میں مزید برکت عطا فرمائے۔

(11) نفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیریں کیجئے: کہ جس سے حسد ہے اس سے سلام میں پہل کرے، اسے تحائف پیش کرے، بیمار ہونے پر عیادت کرے، خوشی کے موقع پر مبارک باد دے، ضرورت پڑے تو مدد کرے، لوگوں کے سامنے اس کی جائز تعریف کرے جس قدر سے فائدہ پہنچا سکتا ہو پہنچائے۔ وغیرہ وغیرہ

(12) دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیے ۔ کیونکہ یہ رب کی مشیت اور نظامِ قدرت ہے کہ اس نے تمام لوگوں کے رہن سہن، ان کی دی جانے والی نعمتوں کو یکساں نہیں رکھا تو یقیناً اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کسی کی نعمت چھن جانے سے وہ آپ کو ضرور مل جائے گی ، لہذا حسد کے بجائے اپنے بھائی کی نعمت پر خوش رہیں۔

(13) روحانی علاج بھی کیجئے: کہ ہر وقت بارگاہِ رب العزت میں حسد سے بچنے کے لیے استغفار کرتے رہے، شیطان کے مکر و فریب سے پناہ مانگئے ، جب بھی دل میں حسد کا خیال آئے تو اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کر دیجئے ۔

(14) نیک اعمال پر عمل کیجئے: کہ آج کے اس پر فتن دور میں شیخ طریقت، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطا کردہ نیک اعمال پر عمل کرنے سے ان شاء الله نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ ملے گا۔ 


حسد ایک خطرناک باطنی بیماری ہے موجودہ زمانے میں خوش نصیب ہے وہ مسلمان جو اس گناہ سے بچا ہوا ہے ورنہ بدقسمتی سے ہماری اکثریت آج اس گناہ کا ارتکاب کر رہی ہے ۔

حسد کے بارے میں علم حاصل کرنے کا شرعی حکم: حسد کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ " محرمات باطنیہ ( یعنی باطنی ممنوعات مثلاً ) تکبر و ریا و عجب و حسد وغیرہا اور ان کے معالجات ( یعنی علاج ) کہ ان کا علم بھی مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔

آئیے حسد کی تعریف ، وعیدات اور حسد کا علاج پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔حسد کی تعریف : کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال یعنی چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں کو یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام حسد ہے۔حسد کی وجہ تسمیہ: حسد بنیادی طور پر حسدل سے بنا ہے جس کا معنی ہے "چیچڑی " ، جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون پیتا رہتا ہے اس لیے اس کو حسد کہتے ہیں۔

(1)حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو یافرمایا : گھاس کو کھا جاتی ہے۔ (ابو داؤد ، کتاب الادب ، باب فی الحسد ، 4 / 361 ، حدیث: 4903 )

(2)حاسد کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسد سے بیزاری کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا: حسد کرنے والے ، چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔( مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ما جاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، حدیث: 13126 )

(3)حسد ایمان کے لیے خطرہ: حسد ایمان کی دولت کے لیے کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ اس روایت سے لگائیے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت، کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)

(4)حسد ایمان کو بگاڑ دیتا ہے :حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: حسد ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو بگاڑ دیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ، ص 242 ، حدیث : 3819)ملا علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: حسد کے ایمان میں فساد پیدا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ حسد سرے سے ایمان کو ہی لے جاتا ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ حسد ایمان کے کمال اور تمام نیکیوں کو برباد کرتا ہے ۔(مرقاة شرح مشکوة ، 8/ 773)

حسد کا شرعی حکم : اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضا سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔(باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 44)

حسد سے کیسے بچا جائے ؟: سب سے پہلے سچی توبہ کریں ، حسد سے بچنے کی دعا کیجیئے ، رضائے الہی پر راضی رہیے ، حسد کی تباہ کاریوں پہ نظر رکھئے ، حسد سے بچنے کے فضائل کو ذہن میں رکھیئے اور اپنی موت کو یاد کرتے رہیے ۔ اللہ نے چاہا تو حسد سے حفاظت ہو گی۔ اللہ پاک ہم سب کو حسد اور اس کے علاوہ بھی تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


محترم قارئین! کرام ہم مسلمانوں کا آپس میں اتحاد و اتفاق تفریق میں بدل گیا ہے ہماری محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں ہیں جس کے کئی وجوہات میں سے ایک بنیادی سبب حسد بھی ہے۔ آئیں حسد کی تعریف اور حسد کی مذمت میں کچھ فرامینِ مصطفی ملاحظہ فرمائیں:۔

حسد کی تعریف و وضاحت: علامہ قرطبی المتوفی 668ھ لکھتے ہیں حسد کی دو قسمیں ہیں مذموم (بری) اور محمود: حسد مذموم یہ ہے کہ تم تمنا کرو کہ تمہارے مسلمان بھائی پر جو اللہ کی نعمت ہے وہ زائل ہوجائے خواں تم اس نعمت کے حصول کی تمنا کرو یا نہ کرو۔ اللہ پاک نے حسد کی اس قسم کی قراٰن مجید میں مذمت فرمائیں ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری ہے: ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔ (پ5، النسآء : 54)ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ- ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ا س چیز کی تمنا نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ۔(پ5، النسآء : 32)یہ حسد اس لیے مذموم ہے کہ اس سے اللہ پاک کی (العیاذ با اللہ ) تجہیل لازم آتی ہے کہ رب کریم نے غیر مستحق کو نعمت عطا کی ہے۔

حسد کی دوسری قسم حسد محمود (بمعنی رشک) کی حقیقت یہ ہے کہ تم یہ تمنا کرو کہ جو خیر اور نعمت تمہارے مسلمان بھائی کو حاصل ہے وہ نعمت اس کے پاس بھی رہے اور تم کو بھی حاصل ہوجائے یہ اس کو حسد محمود کہتے ہیں اور اسے غبطہ و رشک سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

حسد محمود کی مثال حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشک صرف دو شخصوں پر ہو سکتا ہے ایک وہ جسے اللہ نے قراٰن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا رہتا ہے اور اس پر ( سننے والا ) کہے کہ اگر مجھے بھی اس کا ایسا ہی علم ہوتا جیسا کہ اس شخص کو دیا گیا ہے تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا کہ یہ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو ( دیکھنے والا ) کہے کہ اگر مجھے بھی اتنا دیا جاتا جیسا اسے دیا گیا ہے تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا کہ یہ کر رہا ہے۔(صحیح بخاری ، حدیث: 7232)اب حسد مذموم کی مذمت میں احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ حدیث: 4210)

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بدگمانی سے بچتے رہو ، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو ، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو ، بغض نہ رکھو ، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ۔(صحیح البخاری ، حدیث: 6066)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے لہذا یہ (مذکورہ) عیوب چھوڑ دو تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔(مراة المناجیح ، 6 / 410)

(3)نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہارے اندر اگلی امتوں کی ایک بیماری سرایت کر گئی ہے اور یہ حسد اور بغض کی بیماری ہے یہ کاٹنے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سر کے بال کاٹنے والی ہے بلکہ دین کو کاٹنے والی ہے۔(جامع ترمذی ، حدیث: 2510)

)4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کسی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔(سنن نسائی ،حدیث: 3111)

اللہ کریم ہمیں حسد اور ان جیسی بیماریوں سے شفائے دائمی عطا فرمائے اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے نفرتوں کو مٹاکر محبتیں عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہمارا جو موضوع ہے وہ حدیث کی روشنی میں حسد کی مذمت پر ہے اسی ضمن میں پہلے کچھ آیات مبارکہ احادیث مبارکہ پیش کی جائیگی اور اس کا علاج پیش کیا جائے گا۔

حسد کی تعریف: الْحَسَدُ اَنْ تَتَمَنّٰی زَوَالَ نِعْمَةِ الْمَحْسُوْدِ اِلَیْكَ یعنی حسد یہ ہے کہ تُو تمنا کرے کہ محسود کی نعمت اس سے زائل ہو کر تجھے مل جائے۔(لسان العرب، 3/ 166)

اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ۔(پ5، النسآء : 32) اس کی تفسیر میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم اپنے سے نیچے والے کو دیکھو اور جو تم سے اوپر ہو اسے نہ دیکھو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اللہ پاک کی نعمت کو اپنے اوپر حقیر جانو ۔(صراط الجنان، سورۃُ النسآء : 32)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا۔ (پ5، النسآء : 54)

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔(ابو داؤد، حدیث: 4903)

ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بد گمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو،آپس میں حسد نہ کرو، کسی کے پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔(صحیح بخاری، ج 4، حدیث: 6064)

حضرت زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی ہے ”حسد و بغض“ یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈ دیتی ہے لیکن یہ دین مونڈ دیتی ہے۔ (ترمذی، حدیث: 2510)

تمام آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ حسد شیطان کا کامیاب ترین وار ہے وہ اس کے ذریعے جھوٹ، غیبت، چغلی، تہمت، شماتت(یعنی کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے پر خوش ہونا)، عیب دَری، اذا ئے مسلم (کسی مسلمان کو تکلیف دینا)، اور بھی طرح طرح کے گناہ مسلمان سے کرواتا ہے لہٰذا ہمیں شیطان کے اس کامیاب وار کو ناکام بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔(حسد کی تباہ کاریاں اور علاج، ص 11)

حسد کا علاج: توبہ کریں، دعا کریں، رضائے الٰہی پر راضی رہیں، حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیں، حسد کا سبب بننے والی چیزوں پر غور کریں، لوگوں کی نعمتوں پر نظر نہ کریں، اپنی اصلاح کی کوشش میں لگے رہیں، نفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیریں کریں، دوسرے کی خوشی میں خوش رہیں، نیک اعمال پر عمل کیجئے۔

مدنی مشورہ: آج کے اس پُر فتن دور میں شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی جانب سے عطا کردہ رسالہ ”نیک اعمال“ پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ پابندِ سنت بننے، نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ ملے گا۔


اللہ پاک نے انسان کو مکلف بنایا اور اسے اعمال حسنہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور اعمال سیئہ سے اجتناب کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ان میں سے بعض اعمال سیئہ ایسے ہیں کہ ان  کا تعلق ظاہر کے ساتھ ہے اور بعض اعمال سیئہ کا تعلق باطن کے ساتھ ہے۔ انہوں باطنی مذموم کاموں میں ایک حسد بھی ہے۔ جس کی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے: حسد کی تعریف امام غزالی نے یوں بیان فرمائی ہے کہ: تم اس کی نعمت کو ناپسند کرو اور اس کے زوال کی خواہش کرو۔ اس حالت کو حسد کہتے ہیں۔ لہذا حسد کی تعریف یہ ہوئی کہ نعمت کو ناپسند کرنا اور جسے دی گئی ہے اس سے زوالِ نعمت کی خواہش رکھنا۔ ( احیاءالعلوم الدین ،3 / 579)

یہ ایک ایسی مذموم عادت ہے کہ جس کی مذمت میں کثیر احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند ملاحظہ فرمائیں: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يجتمعان في قلب عبد الإيمان والحسد یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کسی بھی بندے کے دل میں حسد اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے۔( سنن النسائی ، كتاب جہاد ، فضل من عمل فی سبیل اللہ علی قدمہ ،12/ 6، حديث: 3109 ) یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص ایمان کا بھی دعوی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں کسی مسلمان کے لیے حسد بھی رکھے۔

ترمذی شریف کی روایت ہے کہ: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: دب إليكم داء الأمم قبلكم: الحسد والبغضاء، هي الحالقة، لا أقول تحلق الشعر ولكن تحلق الدين، والذي نفسي بيده لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أفلا أنبئكم بما يثبت ذلك لكم؟ أفشوا السلام بينكم یعنی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض آیا ہے اور یہ حسد اور بغض کی بیماری ہے، یہ مونڈنے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور تم مؤمن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتادوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو: تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ۔( سنن الترمذی، كتاب صفۃ القیامۃ ، 4/664، باب 56 ، حديث:2510)

مذکورہ حدیثِ پاک میں حسد کو دین ختم کرنے والی بیماری ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں مذموم حسد سے ہمیشہ بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العلمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حسد باطنی بیماریوں کی ماں ہے: جب انسان کو کسی پر غصہ آجائے تو وہ زبان ہاتھ یا آنکھوں وغیرہ کے ذریعے غصے کا اظہار کرتا ہے۔ یا رضائے الہی کے خاطر اس غصے کو پی لیتا ہے اور اگر کسی وجہ سے اپنا غصہ سامنے والے پر ’’اُتار ‘‘ نہ سکے بلکہ اپنے دل میں بِٹھا لے تو وہ غصہ اندر ہی اندر کینے اور حَسَد میں تبدیل ہوجاتا ہے اور حَسَد سے بدگمانی و شماتت جیسی بہت سی ظاہری وباطِنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ، اسی لئے حَسَد کو اُمُّ الامراض (یعنی بیماریوں کی ماں )‘‘کہا گیا ہے۔ (حسد،ص9)

حَسَد کسے کہتے ہیں ؟: کسی کی دینی یا دُنیاوی نعمت کے زَوال (یعنی اس سے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فُلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام ’’حَسَد‘‘ ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الخامس عشر ، 1/600)

موجودہ دور میں حسد جیسی گندی بیماری عام ہوتی جا رہی ہے جیسے کسی شخص کو مال و دولت میں خوشحال دیکھ کر یا کسی کو دینی و دنیاوی کے اعلی منصب و مرتبے پر فائز دیکھ کر اس سے جلنا یا یہ تمنا کرنا کہ اس کے ہاں چوری و ڈکیتی ہو جائے یا اس کے دکان میں آگ لگ جائے اور یہ کَوڑی کَوڑی کا محتاج ہوجائے یا اس کے مقام و مرتبہ چھن جائے یا وہ ذلیل و رسوا ہو جائے اس طرح کی گندی عادتوں کا نام ہی حسد ہے۔

اللہ پاک مجھے اور آپ کو حسد جیسی گندی بیماری سے نجات دے۔ اٰمین

حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : حاسد کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دشمن کو مارنے کے لیے پتھر پھینکے لیکن وہ پتھر دشمن کو لگنے کے بجائے پلٹ کر پھینکنے والے شخص کی سیدھی آنکھ پر لگے اور وہ پُھوٹ جائے اب غصہ اور زیادہ ہو، دوسری بار اور زور سے پتھر پھینکا لیکن اس بار بھی دشمن کو نہ لگا بلکہ پَلَٹ کر اسی کو لگا اور دوسری آنکھ بھی پُھوٹ گئی ، تیسری بار پھر پھینکا اس مرتبہ سر ہی پھٹ گیا اور دشمن سلامت رہا۔ پتھر پھینکنے والے کے دوسرے دشمن اسے اس حال میں دیکھ کر اس پر ہنستے ہیں ، حاسد کا بھی یہی حال ہے شیطان اُس سے اِسی طرح مذاق کرتا ہے۔ (کیمیائے سعادت ، 2/614)

حَسَد شیطانی کام ہے کیونکہ سب سے پہلا آسمانی گناہ حَسَد ہی تھا اور یہ شیطان نے کیا تھا جیسا کہ حضرت علّامہ جلالُ الدین سُیوطی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ نَقْل کرتے ہیں : رب تعالٰی کی پہلی نافرمانی جس گناہ کے ذریعے کی گئی وہ حَسَد ہے ، ابلیس ملعون نے حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کے معاملے میں اُن سے حَسَد کیا، لہٰذا اِسی حَسَد نے اِبلیس کو اللّٰہ رب العٰلمین کی نافرمانی پراُبھارا۔(الدرالمنثورفی التفسیر المأثور،1/125، سورۃ البقرۃ تحت الآیۃ 34)

(1)اللہ پاک کے مَحبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسِد سے اپنی بیزاری کا اِظہار ان اَلفاظ میں فرمایا ہے : لَیْسَ مِنِّیْ ذُوْحَسَدٍ وَلاَ نَمِیْمَۃٍ وَلاَ کَہَانَۃٍ وَلاَ اَنَا مِنْہُ یعنی حَسَد کرنے والے، چُغلی کھانے والے اور کاہِن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلُّق نہیں ۔(مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، 8/172،حدیث : 13126)

(2) اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)

(3) نبیِّ پاک صاحبِ لَولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : اَلْحَسَدُ یُفْسِدُ الْاِیْمَانَ کَمَا یُفْسِدُ الصَّبِرُ الْعَسَلَ یعنی حَسَد ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے ، جیسے ایلوا ، شہد کو بگاڑ دیتا ہے۔(الجامع الصغیر للسیوطی، ص232، حدیث : 3819)

(4)سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : لَایَجْتَمِعُ فِیْ جَوْفِ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ اَ لْاِیْمَانُ وَالْحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں ایمان اور حَسَد جمع نہیں ہوتے۔ (شعب الایمان ، 5/266، حدیث: 6609)

( 5)نبیِّ اکرم ، نورِ مجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ یعنی حَسَد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑ ی کو۔(سنن ابی داؤد، 4/360، حدیث : 4903)

حسد کے نقصانات: حسد‌ کے کئی نقصانات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں آخِرت کی نعمتیں پانے کے لئے نیکیوں کا خزانہ پاس ہونا بے حد ضَروری ہے مگر اوّل تو شیطان ہمیں نیکیاں کمانے نہیں دیتا اور اگر ہم اُسے پچھاڑ کر تھوڑی بَہُت نیکیاں جمع کر ہی لیں تو اس کی پوری کوشِش ہوتی ہے کہ کسی طرح ہماری نیکیاں ضائع ہوجائیں لہٰذا وہ ہمیں ایسے گناہوں میں مُبتلا کرنے کی کوشِش کرتا ہے جو نیکیوں کو نِگل جاتے ہیں ۔ انہی گناہوں میں سے ایک حَسَد بھی ہے ، حَسَد کی نُحوست سے نیکیوں کے خزانے کو گویا گُھن لگ جاتا ہے اور وہ ضائع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا عِلاج اگر وَقت پر نہ کیا جائے تو وہ مزید بیماریوں کا سبب بنتی ہیں اسی طرح کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن میں مبتلا ہو کر انسان گناہوں کی دَلْدَل میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ حَسَد بھی انہی میں سے ایک ہے ۔ حَسَد کی وجہ سے انسان غیبت، تُہمت ، عیب دَری ، چُغلی، جھوٹ، مسلمان کو تکلیف دینا، قَطع رحمی، جادو اور شماتت ( یعنی کسی کی پریشانی پر خوشی محسوس کرنا) جیسی مذموم و بے ہودہ حرکات میں مُلَوَّث ہوجاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو محسود کو قتل تک کر ڈالتا ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ حاسِد ان برائیوں میں کیونکر مبتلا ہوتا ہے۔

تکبر ، رِیاکاری و جھوٹ ، غیبت

سے بھی اور حَسَد سے بچایاالٰہی

مشہور ولیُّ اللہ حضرتِ سیِّدُنا حاتِمِ اَصَم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ : غیبت کرنے والاجہنَّم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا، جھوٹا دوزخ میں کُتّے کی شکل میں بدل جائے گا اور حاسِد جہنَّم میں سُوَر کی شکل میں بدل جائے گا۔ (تنبیہ المغترین ، ص 194)

میں جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نِکالوں

اللہ مَرَض سے تُو گناہوں کے شِفا دے

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! چند بیماریاں ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جاتی ہیں اور چند بیماریاں علاج ہی سے ختم ہوتی ہیں لیکن چند بیماریاں ایسی خطرناک ہیں جس کے خاتمے کے لئے باقاعدہ اور طویل علاج کے ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں جن میں سے حسد بھی ایک بیماری ہے جس کا مشکل تو ہے لیکن نا ممکن نہیں ۔ درج ذیل چند علاج ہیں جن سے ہم حسد سے بچ سکتے ہیں:

حسد کا علاج: حسد سے بچنے کے لئے اس کے کئی علاج موجود ہیں جن میں سے چند پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ ٭توبہ کرلیجیے٭دُعا کیجئے ٭رب کی رضا پر راضی رہیے٭ حَسَد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھئے٭ اپنی موت کو یاد کیجئے گا ٭لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ رکھئے ٭حَسَد سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھئے ٭اپنی خامیوں کی اِصلاح میں لگ جائیں ۔

یا رب العٰلمین ! میں تیری رضا کے لئے حَسَد سے چھٹکارا پانا چاہتا ہوں ، تُو مجھے اس باطِنی بیماری سے شفا دے دے اور مجھے حَسَد سے بچنے میں استقامت عطا فرما۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آج زمانے میں لوگوں کی کثیر تعداد ہے جو دوسروں کو یا اس کی کوئی چیز کو  دیکھ کر اپنے دل میں حسد کی مہلک بیماری کو جگہ دیتے ہیں۔ اور یہ خواہش کرتے ہیں کہ یہ چیز ،یہ نعمت اس سے چھین لی جائے اور کسی طرح مجھے مل جائے ۔

حسد کی تعریف: حسد کی تعریف کرتے ہوئے امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں نعمت کو ناپسند کرنا اور جس کو دی گئی ہے اس سے زوال نعمت کی امید رکھنا۔(احیاء العلوم،3/578)آئیں حسد کی مذمت میں وارد احادیث کو ملاحظہ فرمائیں:

(1) حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔( سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد،4/360، حدیث: 4903 )

(2) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حسد اور اس کے اسباب اور نتائج سے روکتے ہوئے ارشاد فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، قطع تعلقی نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نا کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو کر رہو۔(المسند لابی داود)

(3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ ان میں مال کی کثرت ہو جائے گی تو آپس میں حسد کرنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔(میزان الاعتدال، حرف الثاء،1/371،حدیث: 1552)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حسد کرنے والا خود اپنی ہی آگ میں جل رہا ہوتا ہے، اس کے حسد سے سامنے والے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے، لوگوں سے حسد کرنے والے شخص کو زوال نعمت ہی راضی کر سکتی ہے، چنانچہ صحابئ رسول حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نعمت پر حسد کرنے والے شخص کے سوا میں ہر شخص کو راضی کر سکتا ہوں کیونکہ حسد کرنے والا شخص زوالِ نعمت پر ہی راضی ہوتا ہے۔

حسد کا علاج: بندہ اپنے دل میں یہ خیال جمائے رکھیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے کسی کو نعمت دی ہے تو پھر اس نعمت پر حسد کیسا ؟ اس بات کو بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ نعمتوں پر حسد کرنے والا اللہ پاک کا دشمن ہے اور حسد کی گندگی کو دل سے نکال دے۔

علم اور عمل سے حسد کا علاج: حسد کے مذمت میں وارد احادیث اور بزرگانِ دین کے اقوال کو پڑھے اور ان کے مطابق عمل کرے حسد کر کے گناہوں کے دلدل میں پھنسنے کے بجائے اللہ پاک کی نعمتوں پر شکر ادا کر کے جنت کے باغات حاصل کرنے کا سامان کریں اللہ کی رضا پر راضی رہے اس مہلک بیماری سے نجات کے لئے عمل کرے تعویذات بھی حاصل کرے۔

نیکوں کی صحبت: انسان کے کردار کو سنوارنے یا بگاڑنے میں صحبت، یہ بڑی موثر ہے ہمیشہ ان لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے جو خوف خدا رکھتے والے اور حسد سے بچ کر اللہ پاک کی پیاری پیاری نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے ہو ظاہری و باطنی گناہوں سے دور رہ کر نیکیوں میں زندگی بسر کرنے والے ہو۔