ابو ثوبان عبدالرحمن عطاری (درجہ
سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ
جوہر ٹاؤن لاہور پاکستان)
پیارے
پیارے اسلامی بھائیو! ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی
گزار کر جہانِ آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے۔ اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر
اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ۔
اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت کی آبادی جبکہ گناہ بر بادی کا سبب بنتے
ہیں۔ جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز، روزہ وغیرہ اور کچھ باطنی مثلاً اخلاص، اسی طرح بعض گناہ
بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور بعض باطنی مثلاً تکبر ! اس پر فتن دور میں اول تو
گناہوں سے بچنے کا ذہن بہت ہی کم ہے اور جو خوش نصیب اسلامی بھائی گناہوں کے علاج
کی کوششیں کرتے بھی ہیں تو ان کی زیادہ تر توجہ ظاہری گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے،
ایسے میں باطنی گناہوں کا علاج نہیں ہو
پاتا حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں ۔ یاد رکھیے !اگر
باطنی گناہوں کا تسلی بخش علاج کر لیا جائے تو بہت سے ظاہری گنا ہوں سے بچنا ان
شاء الله بے حد آسان ہو جائے گا ۔ حُجَّةُ الإِسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃُ
اللہ علیہ لکھتے ہیں : ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر
باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد ، ریا اور تکثیر
وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرست ہوتے ہیں ۔ (منہاج العابدین، ملخصاً)
چنانچہ ہر اسلامی بھائی پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کے علاج پر بھی
بھر پور توجہ دینا لازم ہے تا کہ ہم اپنے دار آخرت کو ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ
رکھ سکیں ۔ باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے جس کے بارے میں علم ہونا فرض
ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنت ، مجد درد دین و ملت ،مولانا شاہ امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ
رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں: مُحَرَّمَاتِ باطنیه (یعنی باطنی ممنوعات مثلاً ) تكبر و ريا و عجب و حسد وغیر ہا اور ان کے معالجات (یعنی
علاج) کہ ان کا علم (یعنی جانا ) بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ (فتاوی
رضویہ مخرجہ ، 23/624)
حسد کسے کہتے ہیں؟ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس سے چھن جانے
کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام ”حسد“
ہے۔ (الحدیقۃ الندیہ،الخلق الخامس عشر ، 1/600)
حسد کرنے
والے کو ” حاسد “ اور جس سے حسد کیا جائے اُسے محسود“ کہتے ہیں۔
حسد کو حسد کیوں کہتے ہیں؟: حسد کا لفظ ” حَسُدَل “ سے بنا ہے جس کا معنی چیچڑی (جوں کے
مشابہ قدرے لمبا کیڑا) ہے، جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی
رہتی ہے اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون چوستا رہتا ہے اس
لئے اسے حسد کہتے ہیں ۔ (لسان العرب ، باب الحاء، 1/826)آیت مبارکہ: ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ
النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس
پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا۔ (پ5، النسآء : 54)
حدیث( 1) ابن ماجہ
نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: حسد نیکیوں کو اس طرح کھا تا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی
ہے اور صدقہ خطا کو بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب
الزھد، باب الحسد،4/473،حدیث: 4210) اسی
کی مثل ابو داؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کی۔ حدیث (2) دیلمی نے مسند الفردوس میں معاویہ بن
حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
حسد ایمان کو ایسا بگاڑتا ہے، جس طرح
ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جمع ہوا رس) شہد کو بگاڑتا ہے۔ ( الجامع الصغیر ‘‘ للسیوطي، حرف الحائ،ص232،حدیث: 3819)
حدیث (3) امام احمد و ترمذی نے زبیر بن
عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگلی
امت کی بیماری تمہاری طرف بھی آئی وہ بیماری حسدو بغض ہے، وہ مونڈنے والا ہے دین
کو مونڈتا ہے بالوں کو نہیں مونڈتا، قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے! جنت میں نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہ لاؤ
اور مؤمن نہیں ہو گے جب تک آپس میں محبت نہ کرو، میں تمھیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب اسے کرو
گے آپس میں محبت کرنے لگو گے، آپس
میں سلام کو پھیلاؤ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند الزبیر بن العوام،1/348،حدیث:
1412)
حدیث (4) طبرانی
نے عبداﷲ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا کہ حسد اور چغلی اور کہانت نہ مجھ
سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں ۔ ( مجمع الزوائد ،کتاب الادب، باب
ماجاء في الغیبۃ والنمیمۃ،8/172، حدیث: 13126) یعنی مسلمان کو ان چیزوں سے بالکل تعلق نہ ہونا چاہیے۔ (بہار شریعت
حصہ:16 بغض و کینہ کا بیان)
حدیث (5)صحیح
بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آپس میں نہ حسد کرو، نہ بغض کرو، نہ پیٹھ پیچھے برائی کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب،4/117،حدیث: 6066)
حسد کے چودہ علاج: عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دینی تحریک
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل رسالے ”
حسد صفحہ 68 سے حسد کے چودہ 14 علاج پیش خدمت ہیں:(1)
توبہ کر لیجئے : حسد بلکہ تمام گناہوں سے تو بہ کیجئے کہ یا الله پاک میں
تیرے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے فلاں بھائی سے حسد کرتا تھا تو میرے تمام
گناہوں کو معاف فرمادے۔ اٰمین
(2) دعا کیجئے: کہ یا اللہ! میں تیری رضا کے لیے حسد سے چھٹکارا حاصل کرنا
چاہتا ہوں تو مجھے اس باطنی بیماری سے شفادے اور مجھے حسد سے بچنے میں استقامت عطا
فرما۔ اٰمین
(3) رضائے الٰہی پر راضی رہیے: کہ رب کریم نے میرے اس بھائی کو جو بھی نعمتیں عطا فرمائی
ہیں وہ اس کی رضا ہے وہ رب اس بات پر قادر ہے کہ جیسے چاہے جو چاہے جتنا چاہے جس
وقت چاہے عطا فرما دے۔
(4) حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیے: کہ حسد
الله و رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے، حسد سے نیکیاں ضائع ہوتی ہیں، حسد سے غیبت،
بدگمانی، چغلی جیسے گناہ سرزد ہوتے ہیں، حسد سے روحانی سکون برباد کا ہو جاتا ہے۔
وغیرہ وغیرہ
(5) اپنی موت کو یاد کیجئے: کہ عنقریب مجھے بھی اپنی یہ زندگی چھوڑ کر اندھیری قبر میں
اترنا ہے۔ موت کی یاد تمام گناہوں بالخصوص حسد سے چھٹکارے کا بہترین ذریعہ ہے۔
(6) حسد کا سبب بننے والی نعمتوں پر غور کیجیئے: کہ اگر وہ دنیوی نعمتیں ہیں تو
عارضی ہیں اور عارضی چیز پر حسد کیسا ؟ اگر دینی شرف و فضیلت ہے تو یہ اللہ پاک کی
عطا ہے اور اللہ پاک کی عطا پر حسد کرنا عقلمندی نہیں۔
(7) لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ رکھیے: کہ
عموماً اس سے احساس کمتری پیدا ہوتا ہے جو حسد کا باعث ہے، اپنے سے نیچے والوں پر
نظر رکھیے اور بارگاہ رب العزت میں شکر ادا کیجئے ۔
(8) حسد سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھیے۔ کہ حسد سے بچنا اللہ پاک اور رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کا سبب،
جنت کے حصول میں معاون ، کل بروزِ قیامت سایہ عرش ملنے کا سبب بننے والے اعمال میں
سے ایک ہے۔
(9) اپنی خامیوں کی اصلاح میں لگ جائیے۔ کہ جب دوسروں کی خوبیوں پر نظر
رکھیں گے تو اپنی اصلاح سے محروم ہو جائیں گے اور جب اپنی اصلاح میں لگ جائیں گے
تو حسد جیسے بڑے کام کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔
(10)
حسد کی عادت کو رشک میں تبدیل کر لیجئے ۔ کہ کسی کی نعمت کو
دیکھ کے کر یہ تمنا مت کیجئے کہ یہ نعمت اس سے چھن کر مجھے مل جائے بلکہ یہ دعا
کیجئے کہ اللہ پاک اس کی اس نعمت میں مزید برکت عطا فرمائے۔
(11) نفرت کو محبت میں بدلنے کی
تدبیریں کیجئے: کہ جس سے حسد ہے اس سے سلام میں پہل کرے، اسے
تحائف پیش کرے، بیمار ہونے پر عیادت کرے، خوشی کے موقع پر مبارک باد دے، ضرورت پڑے
تو مدد کرے، لوگوں کے سامنے اس کی جائز تعریف کرے جس قدر سے فائدہ پہنچا سکتا ہو
پہنچائے۔ وغیرہ وغیرہ
(12) دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی
عادت بنائیے ۔ کیونکہ
یہ رب کی مشیت اور نظامِ قدرت ہے کہ اس نے تمام لوگوں کے رہن سہن، ان کی دی جانے
والی نعمتوں کو یکساں نہیں رکھا تو یقیناً اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کسی کی
نعمت چھن جانے سے وہ آپ کو ضرور مل جائے گی ، لہذا حسد کے بجائے اپنے بھائی کی
نعمت پر خوش رہیں۔
(13) روحانی علاج بھی کیجئے: کہ ہر وقت بارگاہِ رب العزت میں حسد سے بچنے کے لیے
استغفار کرتے رہے، شیطان کے مکر و فریب سے پناہ مانگئے ، جب بھی دل میں حسد کا
خیال آئے تو اَعُوذُ
بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کر دیجئے ۔
(14) نیک اعمال پر عمل کیجئے: کہ آج
کے اس پر فتن دور میں شیخ طریقت، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطا کردہ
نیک اعمال پر عمل کرنے سے ان شاء الله نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ ملے
گا۔