اعتصام شہزاد عطاری (درجہ
ثالثہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان
عطار اٹک پاکستان)
ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی
گزار کر جہاں آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے ۔اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر
اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا ، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا
۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب
بنتے ہیں ۔ جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے نماز اور کچھ باطنی مثلاً اخلاص ، اسی طرح بعض گناہ بھی
ظاہری ہوتے ہیں۔ جیسے قتل اور بعض باطنی مثلاً تکبر ! اس پر فتن دور میں اول تو
گناہوں سے بچنے کا ذہن بہت ہی کم ہے اور جو خوش نصیب اسلامی بھائی گناہوں کے علاج کی کوششیں کرتے بھی ہیں تو ان کی
زیادہ تر توجہ ظاہری گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے ، ایسے میں باطنی گناہوں کا علاج
نہیں ہو پا تا حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ایک
باطنی گناہ بے شمار ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے مثلاً قتل، ظلم ، غیبت ، عیب
داری جیسے گناہوں کے پیچھے کینے اور کینے کے پیچھے غصے کا ہاتھ ہو ناممکن ہے ۔
چنانچہ اگر باطنی گناہوں کا تسلی بخش علاج کر لیا جائے تو بہت سے ظاہری
گناہوں سے بچنا ان شاء الله بے حد آسان ہو
جائے گا ۔ باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے جس کے بارے میں علم ہونا فرض
ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ
اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ
وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ یہ لوگوں
سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے پس بیشک ہم
نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بہت بڑی سلطنت دی۔(پ5،
النسآء:54)
حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی اس کے چھن) جانے کی تمنا کرنا یا یہ
خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام حسد ہے۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات،ص43)حسد کا حکم : اگر اپنے اختیار و
ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض
اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔(
باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 44 )
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قراٰنِ مجید میں بھی حسد سے
منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی حسد سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک برا
فعل ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہیے ۔ آئیے حسد کی مذمت کے
متعلق چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھیے:
(1) نیکیوں کا کھایا جانا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس
طرح آگ خشک لکڑی کو ۔ (ابو داود،کتاب
الادب، باب فی الحسد،حدیث:4903)
(2) حسد نہ کرو: اپنے کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ
کسی کی باتیں خفیہ سنو اور نہ بخش کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو نہ ایک
دوسرے کی غیبت کرو اور اے الله کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ ۔(مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:5028)
(3) مونڈ دینے والی: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال
مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:6 ،حدیث:5039)
(4)
ایمان کا بگڑ جانا: حسد ایمان کو اس طرح بگاڑ
دیتا ہے ، جیسے ایلوا ، شہد کو بگاڑ دیتا ہے ۔ ( الجامع الصغیر للسیوطی ، حدیث :
3819 )
(5) حاسد کا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے کوئی تعلق نہیں: حسد کر نے والے ،
چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ (
مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ما جاء في الغيبة والنميمة ، حدیث : 13127 )
(6) حسد اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوتے: مؤمن کے دل میں حسد اور ایمان جمع نہیں ہوتے۔ (شعب
الایمان،جلد5،حدیث: 6609)اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: حسد کے
بارے میں مزید معلومات کیلئے اور اس کے اسباب اور ان اسباب کے علاج جاننے کیلئے
مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ” باطنی بیماریوں کی معلومات" اور
"حسد" کا مطالعہ کیجئے ۔ علم
دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا ۔ ان شاء الله الکریم