عزازیل جو جنات میں سے تھا اللہ پاک نے اس کو بہت بڑے مقام و مرتبے سے نوازا ۔یہ بہت بڑا عبادت گزار تھا اس نے دنیا کے ہر کونے پہ اللہ پاک کی عبادت کی پھر اس کو یہ مرتبہ  ملا کہ یہ فرشتوں کا استاد بنا دیا گیا یہ فرشتوں میں وعظ کیا کرتا تھا فرشتے اس کے تابع فرمان تھے جو اتنے بڑے مقام پر فائز ہو غور کریں کہ رب کریم کی بارگاہ میں کتنا مقبول ہوگا۔ عزازیل کا اتنا بڑا مرتبہ ایک دن زائل ہو گیا۔ وہ عزازیل جو رب کی بارگاہ میں مقبول تھا وہ مردود ہو گیا ایسا کیا کیا اس نے۔ آئیے اس بارے میں جانتے ہیں اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں سب فرشتے حکم پاتے ہی فوراً سجدے میں گر گئے اور اس عزازیل نے سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا (انا خیر منہ) میں ان سے بہتر ہوں ۔اپنے آپ کو اللہ کے ایک نبی علیہ السّلام سے بہتر سمجھ کر اس نے حسد کیا اب اس کا انجام کیا ہوا کل تک جو اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول تھا وہ مردود ہو گیا۔ غور کریں حسد کیسا برا فعل ہے جس نے عزازیل جیسے کو بھی بلندی کے اعلی مقام سے پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا ، اسی حسد نے عزازیل کو رب کی نافرمانی پہ ابھارا اور رب کی نافرمانی کر کے وہ مردود ہو گیا ۔اب اس کا نام عزازیل نہ رہا بلکہ ابلیس کردیا گیا عوام و خواص میں اس کا مشہور نام شیطان ہے۔ اتنا ذلیل ہوا کہ آج بچہ بچہ شیطان کو ناپسند کرتا ہے۔ آئیے اب حسد کے بارے میں جانتے ہیں یہ کہتے کسے ہیں ؟کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال یعنی اس کے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے ۔قراٰنِ کریم میں حسد کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا : ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)

(1) اسی طرح آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے کئی فرامین کے ذریعے اس سے بچنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ۔ جیسا کہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا: وَلَا تَحَاسَدُوا ترجمہ (ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ) (مشکاۃ المصابیح حدیث : 5028)

(2) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَعَنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمُ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰكِنْ تَحْلِقُ الدِّيْنَ ترجمہ : حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے ۔( مشکاۃ المصابیح حدیث : 5039)

(3) ایک اور حدیث پاک میں ہے :وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔(ابوداؤد)

ذرا اندازہ لگائیے حسد نیکیوں کو بھی کھا جاتا ہے آج کل اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں یہ بیماری عام نظر آتی ہے دنیاوی معاملات کی طرف نظر کریں تو اگر آج کوئی زیادہ مال دار ہے تو کم مال دار اس کو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ تمنا کرتا نظر آتا ہے کاش اس سے یہ مال چھن جائے کاش میں اس سے زیادہ امیر ہو جاؤں کسی نے اگر اچھا گھر بنا لیا تو اب بجائے اپنے مسلمان بھائی کی خوشی میں خوش ہونے کہ یہ کہتے نظر آتے ہیں اس نے یہ گھر حرام مال کے پیسوں سے بنایا ہوگا ۔ نہ صرف یہ بیماری دنیاوی لوگوں میں ہے بلکہ اب تو بہت سے دین دار اس میں مبتلا نظر آتے ہیں اگر کوئی نعت خواں ہے تو اپنے سے اچھے نعت خواں سے حسد کرنے لگتا ہے اور اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتا نظر آتا ہے اگر کہیں اس کی تعریف کی جائے تو اس کے دل پہ یہ بات انتہائی ناگوار گزرتی ہے وہ سوچتا ہے کاش اس کی تعریف نہ ہوتی میری تعریف ہوتی الغرض جو بھی شعبہ ہو بس حال اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ کسی کی خوشی میں خوش ہونے کا ذہن رہا ہی نہیں ۔

حسد کرنے والا بہت نقصان و خسارے کا سودا کرتا ہے ایک تو وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور کسی کی نعمت پہ ناخوش ہو کر وہ گویا کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اس کو یہ نعمت دے کر صحیح نہیں کی اس کو نہیں ملنی چاہیے تھی یہ شخص اللہ پاک کی تقسیم پہ راضی نہیں ہوتا ۔

اس کا علاج: امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بیان کرتے ہیں کہ جس سے حسد ہے اس کے حق میں دعا کرتا رہے انشاء اللہ یہ مرض دور ہوجائے گا۔ اللہ پاک ہمیں حسد سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم