محمد غوث (درجہ ثانیہ مدنی جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن جمال
مصطفیٰ قائد آباد کراچی پاکستان)
محترم قارئین! کرام ہم مسلمانوں کا آپس میں اتحاد و اتفاق تفریق میں بدل گیا
ہے ہماری محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں ہیں جس کے کئی وجوہات میں سے ایک بنیادی سبب
حسد بھی ہے۔ آئیں حسد کی تعریف اور حسد کی مذمت میں کچھ فرامینِ مصطفی ملاحظہ
فرمائیں:۔
حسد کی تعریف و وضاحت: علامہ قرطبی
المتوفی 668ھ لکھتے ہیں حسد کی دو قسمیں ہیں مذموم (بری) اور محمود: حسد مذموم یہ
ہے کہ تم تمنا کرو کہ تمہارے مسلمان بھائی پر جو اللہ کی نعمت ہے وہ زائل ہوجائے
خواں تم اس نعمت کے حصول کی تمنا کرو یا نہ کرو۔ اللہ پاک نے حسد کی اس قسم کی قراٰن مجید میں
مذمت فرمائیں ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری ہے: ﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ
النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو
اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔ (پ5، النسآء : 54)ایک اور مقام پر
ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ- ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ا س چیز کی تمنا نہ کرو جس سے
اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ۔(پ5، النسآء : 32)یہ حسد اس لیے مذموم ہے کہ اس سے اللہ پاک کی (العیاذ با اللہ ) تجہیل لازم
آتی ہے کہ رب کریم نے غیر مستحق کو نعمت عطا کی ہے۔
حسد کی دوسری قسم حسد محمود (بمعنی رشک) کی حقیقت یہ ہے کہ تم یہ تمنا کرو کہ
جو خیر اور نعمت تمہارے مسلمان بھائی کو حاصل ہے وہ نعمت اس کے پاس بھی رہے اور تم
کو بھی حاصل ہوجائے یہ اس کو حسد محمود کہتے ہیں اور اسے غبطہ و رشک سے تعبیر کیا
جاتا ہے ۔
حسد محمود کی مثال حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں چنانچہ صحیح بخاری
میں حدیث ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشک صرف دو شخصوں پر ہو سکتا ہے ایک وہ جسے اللہ
نے قراٰن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا رہتا ہے اور اس پر ( سننے والا ) کہے کہ
اگر مجھے بھی اس کا ایسا ہی علم ہوتا جیسا کہ اس شخص کو دیا گیا ہے تو میں بھی اسی
طرح کرتا جیسا کہ یہ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے
اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو ( دیکھنے والا ) کہے کہ اگر مجھے بھی اتنا دیا
جاتا جیسا اسے دیا گیا ہے تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسا کہ یہ کر رہا ہے۔(صحیح
بخاری ، حدیث: 7232)اب حسد مذموم کی مذمت میں احادیث ملاحظہ فرمائیں:
(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حسد نیکیوں کو اس طرح کھا
جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ حدیث: 4210)
(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : بدگمانی سے بچتے رہو ،
بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے
پیچھے نہ پڑو ، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ
اور حسد نہ کرو ، بغض نہ رکھو ، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو اللہ کے بندو آپس
میں بھائی بھائی بن کر رہو ۔(صحیح البخاری ، حدیث: 6066)حکیم الامت مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں بدگمانی، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں
ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے لہذا یہ (مذکورہ)
عیوب چھوڑ دو تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔(مراة المناجیح ، 6 / 410)
(3)نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: تمہارے اندر اگلی امتوں
کی ایک بیماری سرایت کر گئی ہے اور یہ حسد
اور بغض کی بیماری ہے یہ کاٹنے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سر کے بال کاٹنے والی
ہے بلکہ دین کو کاٹنے والی ہے۔(جامع ترمذی ، حدیث: 2510)
)4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: کسی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔(سنن نسائی
،حدیث: 3111)
اللہ کریم ہمیں حسد اور ان جیسی بیماریوں سے شفائے دائمی عطا فرمائے اور
مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے نفرتوں کو مٹاکر محبتیں عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم